وطنِ عزیز میں آئے روز نئی نئی معاشرتی برائیاں جنم لے رہی ہیں۔ ایک سے جان ابھی چھوٹتی نہیں کہ کوئی دوسری اس سے بھی زیادہ خطرناک سماجی برائی سر اٹھا لیتی ہے۔ پتنگ بازی کے شوقِ فضول میں درجنوں جانوں کے ضیاع کے بعد چند برس قبل اس پر پابندی عائد کردی گئی، اور ’’بسنت‘‘ کے نام پر ہر برس جو اربوں روپے ہوا میں اڑا دیے جاتے تھے، اس فضول خرچی سے تو بڑی حد تک جان چھوٹ گئی ہے، تاہم پتنگ بازی پر تمام تر حکومتی اعلانات کے باوجود تاحال پوری طرح قابو نہیں پایا جاسکا، اور ڈور سے گلا کٹنے یا چھت سے گرنے کے سبب ہلاکتوں اور زخمی ہونے کی خبریں ذرائع ابلاغ سے نشر ہوتی رہتی ہیں۔ اسی طرح ’’ون ویلنگ‘‘ کے جنون نے بھی ہماری نئی نسل کو بری طرح اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ اس کے خاتمے کے لیے بھی حکومت کی جانب سے متعدد بار اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے، مگر اس خونیں کھیل میں اپنی اور دوسروں کی جانیں لینے کا سلسلہ بھی تاحال رک نہیں سکا، اور اب تک کے حکومتی اقدامات مؤثر ثابت نہیں ہوسکے۔ جب سے سماجی ذرائع ابلاغ کو ہمارے معاشرے میں فروغ حاصل ہوا ہے، بے راہ روی کا گھن بھی نہایت تیز رفتاری سے نت نئے راستوں سے معاشرے کو کھوکھلا کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ کچھ عرصے سے ’’سیلفی‘‘ کے شوق نے معاشرے میں وہ گل کھلائے ہیں جن کا کچھ عرصہ پہلے تک تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس شوق میں مبتلا بہت سے نوجوان ریل، بسوں، کاروں اور دوسری گاڑیوں سے ٹکرا کر، یا چھتوں وغیرہ سے گر کر جانیں گنوا چکے ہیں مگر کوئی دوسروں سے عبرت پکڑنے پر تیار نہیں، چنانچہ سیلفی کے شوق میں جان ہار جانے کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آرہا۔
سماجی ذرائع ابلاغ کے ذریعے نئی مصیبت ’ٹک ٹاک‘ کی نازل ہوئی ہے، جس میں آئے روز کوئی نہ کوئی بے ہودہ ویڈیو سامنے آجاتی ہے۔ اس لغو شوق میں’حریم شاہ‘ نامی ایک خاتون نے خاصی شہرت حاصل کی ہے، جن کی کئی ویڈیوز کی سماجی اور برقی ذرائع ابلاغ کے ذریعے بڑے پیمانے پر تشہیر ہوچکی ہے۔ پہلے انہوں نے برقی ذرائع ابلاغ کے معروف میزبان مبشر لقمان کے ہیلی کاپٹر میں بلا اجازت گھس کر الٹی سیدھی حرکتوں کی ویڈیو بناکر شہرت حاصل کی، جس پر مبشر لقمان صاحب نے اُن پر ہیلی کاپٹر میں موجود سامان چرانے کا الزام عائد کیا، اس واردات میں پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کے ملوث ہونے کا الزام بھی لگایا گیا… پھر انہی بااثر خاتون نے اپنے اثر رسوخ کو استعمال میں لاتے ہوئے وزارتِ خارجہ کے دفتر میں داخل ہوکر اپنی فضول حرکات کی ویڈیو بناکر سماجی ذرائع ابلاغ سے نشر کی، جسے برقی ذرائع ابلاغ نے بھی ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس ویڈیو کی تشہیر کے بعد حکومت کی جانب سے تحقیقات اور اس واقعے کے ذمے دار افراد کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کا اعلان کیا گیا مگر حسبِ معمول سخت کارروائی کا یہ اعلان بھی تاحال عمل درآمد کا منتظر ہے۔
’ٹک ٹاک‘ کے شوقین تین نوجوانوں کی تازہ کارروائی کے خلاف قصور میں مقدمہ درج کیے جانے کی خبر بھی ذرائع ابلاغ میں شائع ہوئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ان نوجوانوں نے اسپتال جیسے حساس ادارے کو اپنی سرگرمی کا مرکز بنایا ہے۔ قصور کے حسن، عمر سمیر اور نوید نامی تین نوجوان ڈاکٹر، مریض اور تیماردار کا روپ دھار کر ڈسٹرکٹ اسپتال قصور کی ایمرجنسی میں جا گھسے اور ویڈیو بناکر سماجی ذرائع ابلاغ ’ٹک ٹاک‘ پر چلا دی، جہاں سے برقی ذرائع ابلاغ نے بھی اسے اچک لیا، یوں بڑے پیمانے پر اس کی تشہیر ہوئی تو اسپتال انتظامیہ کو ہوش آیا اور میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر لئیق نے اس ڈرامے کے تینوں کرداروں کے خلاف قصور کے تھانہ صدر میں مقدمہ درج کروا دیا، مگر ان نوجوانوں نے اپنے اعترافی بیان میں اس حرکت پر کسی شرمندگی، خفت یا معذرت کا اظہار کرنے کے بجائے بجاطور پر یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ جب حریم شاہ نے وزارتِ خارجہ میں جاکر سرکاری کرسی پر ویڈیو بنائی تو اُس کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ ہماری یہ حرکت اگر غلط اور غیر قانونی ہے تو ہمارے خلاف کسی کارروائی سے قبل حریم شاہ کے خلاف مقدمہ درج کرکے اُسے گرفتار کیا جائے۔
اس ضمن میں انتہائی ہولناک صورتِ حال سیالکوٹ سے سامنے آئی ہے، جہاں تین نوجوانوں کی اس طرح کی حرکت میں عمار حیدر نامی ایک نوجوان جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ سیالکوٹ کے نواحی قصبہ کھروٹہ سیداں میں پولیس نے سالِ اوّل کے طالب علم عمار حیدر کے والدین کی رپورٹ پر اُس کے دو دوستوں زوہیب اور مسلم کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا تو زوہیب نے گرفتاری دینے سے قبل ویڈیو بیان کے ذریعے انکشاف کیا کہ ہم نے عمار کو قتل نہیں کیا بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہم تینوں دوست ’ٹک ٹاک‘کے لیے ویڈیو بنارہے تھے جس کے دوران عمار نے پستول نکال کر پہلے زوہیب پر فائر کیا مگر پستول سے گولی برآمد نہیں ہوئی، جس کے بعد عمار نے اس پستول کو اپنے پیٹ پر رکھ کر ٹریگر دبایا تو اس بار پستول سے نہ صرف گولی نکل آئی بلکہ عمار کے پیٹ کو چیرتی ہوئی پار ہوگئی، جس سے عمار گر پڑا اور ویڈیو بنانے کا یہ کھیل اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ زوہیب نے وقوعہ کی ویڈیو بھی ذرائع ابلاغ پر جاری کردی ہے جو اس کے بیان کی تصدیق کرتی محسوس ہوتی ہے۔ اس ویڈیو کے بعد سارے معاملے نے نیا رخ اختیار کرلیا ہے اور پولیس حکام کو چکرا کر رکھ دیا ہے، جن کا کہنا ہے کہ مقدمہ عمار کے والد کی رپورٹ پر درج کیا گیا ہے جنہوں نے زوہیب اور مسلم کو عمار کے قتل کا ملزم نامزد کیا ہے، تاہم نئی صورتِ حال میں واقعے کے تحقیقات کے بعد انصاف کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کارروائی کی جائے گی۔
سیالکوٹ کے جواں سال طالب علم عمار کی موت بہت سے سوالات کو جنم دے گئی ہے۔ اُس کا خون پکار پکار کر سوال کررہا ہے کہ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ سماجی رابطے کی ویب گاہوں کو کسی قانون اور ضابطے کا پابند کیا جائے؟ آخر کب تک سماجی ذرائع ابلاغ کو بے لگام معاشرے میں بے راہ روی پھیلانے کی کھلی چھوٹ ملی رہے گی؟ حکومت اس ضمن میں مؤثر قانون سازی اور قوانین پر سختی سے عمل درآمد کا اہتمام کرنے میں اب تک ناکام کیوں ہے؟ قانون بنانے اور اسے روبہ عمل لانے کے لیے کتنے مزید نوجوانوں کا خون درکار ہوگا؟
برقی و طباعتی ذرائع ابلاغ کا کردار بھی ان معاشرتی برائیوں کے انسداد میں مثبت کے بجائے بڑی حد تک منفی ہی رہا ہے۔ پتنگ بازی اور بسنت کا معاملہ ہو، ون ویلنگ، سیلفی یا ٹک ٹاک یا اسی طرح کی دوسری تیزی سے پھیلتی ہوئی معاشرتی برائیوں اور رسوم و رواج کا… ہمارے ذرائع ابلاغ نئی نسل کو ان کے نقصانات سے آگاہ کرنے اور مثبت نہج پر نوجوانوں کی تربیت اور کردار سازی کے بجائے مسلسل ان منفی رسوم کی تشہیر اور حوصلہ افزائی کا سبب بن رہے ہیں، جس سے بداخلاقی، بدتہذیبی اور بے راہ روی کو معاشرے میں فروغ حاصل ہورہا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ ذرا ذرا سے سیاسی معاملات میں نوٹس جاری کرنے والی ’’پیمرا‘‘ نامی اتھارٹی کی اس اخلاقی بگاڑ کی روک تھام کے ضمن میں بھی کوئی ذمہ داری ہے یا نہیں…؟