عامل صحافیوں کے لیے آٹھو یں ویج بورڈ کا اعلان

اخباری کارکنوں کے لیے آٹھویں ویج بورڈ ایوارڈ کا اعلان کردیا گیا ہے۔ یہ اعلان ایک ایسے ماحول میں ہوا ہے کہ پاکستان میں میڈیا انڈسٹری کے کارکن شدید دبائو کا شکار ہیں اور بے شمار اداروں میں کئی کئی ماہ کی تنخواہ ادا نہیں کی گئی ہے۔ اگرچہ یہ ایک الگ بحث ہے، تاہم ویج بورڈ ایوارڈ کے اعلان سے زیادہ اس پر عمل درآمد کا معاملہ ہے، کیونکہ تاریخ یہی ہے کہ کسی بھی ویج بورڈ ایوارڈ پر اس کی روح کے مطابق آج تک عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ جب بھی ویج بورڈ ایوارڈ کا اعلان ہوا اخباری کارکنوں کے لیے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھ گئے ہیں۔ مالکان کی جانب سے دبائو آتا ہے کہ کارکن ویج بورڈ کے بجائے ان کے ساتھ ایک ایسے معاہدے پر دستخط کریں جس سے وہ ادارے کے ملازم تو رہیں گے لیکن ویج بورڈ کے حق دار نہیں ہوں گے۔ اس وقت میڈیا ہائوسز میں کنٹریکٹ ملازمین کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے، اور یہ تمام ملازمین ویج بورڈ کے حق دار نہیں ہیں۔ وزیراعظم کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے میڈیا کارکنوں کی 8 ویں عبوری ویج بورڈ ایوارڈ کی قیادت کا اعلان کیا۔ خصوصی گریڈ کے لیے 325 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی تھی، لیکن اضافے کا حتمی فیصلہ یہ ہوا کہ زیادہ سے زیادہ تنخواہ145 فی صد کی جائے۔ یہ معاملے کا ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ آٹھویں ویج بورڈ ایوارڈ میں مالکان کی مداخلت اور ان کا اثر رسوخ نمایاں حد تک نظر آرہا ہے۔ اگر اس حوالے سے بورڈ کے چیئرمین جسٹس حسنات مضبوطی کے ساتھ اپنے مؤقف پر قائم نہ رہتے تو جو کچھ اس ایوارڈ میں کارکنان کو ملا ہے وہ بھی نہ مل پاتا۔ اس ایوارڈ میں جو کچھ بھی ملا اُسے اونٹ کے منہ میں زیرہ سے زیادہ کچھ نہیں کہا جاسکتا، کیونکہ افراطِ زر میں اضافے کی نسبت سے یہ ویج بورڈ ایوارڈ بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ بہرحال اس کے باوجود یہ پیش رفت مثبت سمجھی جارہی ہے، کہ کچھ نہ ہونے سے ہونا بہتر ہے۔ لہٰذا اب ساری توجہ اس پر عمل درآمد پر ہے جس میں بے شمار رکاوٹیں ہیں۔ یہ رکاوٹیں اُس وقت بھی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق کے ذہن میں تھیں، جب وہ ویج بورڈ سفارشات کا اعلان کررہی تھیں، اور ابھی تک خدشات ان کے ذہن میں ہیں۔ بہرحال ان کی کچھ مجبوریاں ہیں جو انہیں خاموش رہنے پر مجبور کررہی ہیں۔ یہ ویج بورڈ آج سے پانچ سال قبل تشکیل پایا تھا اور مسلم لیگ(ن) کی حکومت جاتے جاتے اس کا فیصلہ کرکے گئی تھی، لیکن اس کی حتمی تشکیل بعد میں ہوئی، اور ویج بورڈ ایوارڈ کے لیے جسٹس حسنات کی سربراہی میں اس کے اجلاس اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ، فیصل آباد اور ملتان میں ہوئے جہاں کارکنوں اور اخباری مالکان نے بھی اپنا اپنا مؤقف بیان کیا۔ حتمی سفارشارت سے قبل بھی بہت سے اجلاس ہوئے، پھر اپیل کی بھی سماعت ہوئی اور اس کے لیے متعدد اجلاس ہوئے، جن میں اخباری کارکنوں، تنظیموں اور مالکان نے بھی اپنا اپنا مؤقف پیش کیا۔ لیکن آج کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ اخباری کارکن اور عامل صحافی مالکان کے سامنے مجبور ہیں، بلکہ انہیں اپنی عزتِ نفس بچانے کا بھی سوال درپیش ہے۔ ایسے کارکن جنہوں نے اپنی جوانیاں اور زندگیاں اداروں کے سپرد کردیں انہیں آج رسوائی کے سوا کچھ نہیں مل رہا، پی ایف یو جے کے سابق صدر ادریس بختیار کی موت بھی اسی سبب ہوئی ہے۔ یہ کسی مہذب معاشرے کی نشانی نہیں ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ کسی نے اس جانب توجہ بھی نہیں دی، ان کی موت پر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر سمجھا کہ فرض پورا کرلیا گیا ہے۔ ادریس بختیار کی مثال کوئی ایک مثال نہیں ہے، ایسی بے شمار مثالیں دی جاسکتی ہیں، لیکن مسائل کا حل بھی کوئی نظر نہیں آرہا ہے۔ میڈیا انڈسٹری میں ایک المیہ اس سے بھی بڑھ کر یہ سامنے آرہا ہے کہ جان بوجھ کر ایڈیٹر کا ادارہ اور شعبہ ختم کیا جارہا ہے، جس کا نقصان یہ ہورہا ہے کہ اخبارات میں خبر نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی، پورے پورے صفحات، اشتہارات اور تعریفی پریس ریلیزوں سے بھرے ملتے ہیں، اور اس کے باوجود کارکنوں کو تنخواہیں کئی کئی ماہ کی تاخیر سے مل رہی ہیں۔ کوئی ادارہ ایسا نہیں ہے جو مالکان کا گریبان پکڑ سکے۔ جو چند ادارے بروقت تنخواہ دے رہے ہیں انہیں حکومت اچھا سمجھتی ہے اور نہ ان کی تشہیر ہورہی ہے۔ اس پس منظر اور ماحول میں آٹھواں ویج بورڈ اعلان ہوا ہے۔ وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے میڈیا ہاؤسز کی انتظامیہ اور صحافیوں کے نمائندوں اور دیگر میڈیا کارکنوں کے مابین اتفاقِ رائے کے ساتھ آٹھویں ویج بورڈ ایوارڈ کا اعلان کیا۔ انہوں نے لفظ ’’اتفاقِ رائے‘‘ پر زور دیا، لیکن اس کے باوجود اس پر عمل درآمد نہیں ہوگا کہ مالکان تو اس ویج بورڈ کی سفارشات میں سے لفظ ’’ویج‘‘ نکال دینا چاہتے تھے، یہ تو جسٹس حسنات کا کمال ہے کہ انہوں نے یہ بات نہیں مانی۔ بہرحال اعلان ہوچکا ہے، اب اس پر عمل درآمد کی فکر ہونی چاہیے۔ معاون خصوصی نے یہ اعلان 8 ویں ویج بورڈ ایوارڈ کے چیئرمین، ریٹائرڈ جسٹس حسنات احمد خان، اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے نامزد نمائندوں کے ہمراہ نیشنل پریس کلب میں کیا، اور غیر متنازع ایوارڈ کو حتمی شکل دینے کے لیے عہدیداروں اور میڈیا ورکرز کی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ ساتھ میڈیا ہاؤسز کی انتظامیہ کی بھی تعریف کی۔ انہوں نے کہا ’’حکومت کی جانب سے مقرر کردہ معیار کو یقینی بنانا تھا کہ میڈیا کارکنوں اور صحافیوں کی بنیادی تنخواہ کو حکومت کی مقرر کردہ کم سے کم تنخواہ کے مطابق ہونا چاہیے۔ لیکن اسی کے ساتھ ہم توقع کرتے ہیں کہ انتظامیہ اس اجرت بورڈ کو بروقت عمل میں لائے گی‘‘۔ انہوں نے نئے اجرت بورڈ ایوارڈ میں اتفاق رائے میں اضافے پر روشنی ڈالی اور کہا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔ ’’پچھلے اجرت ایوارڈ کو 2001ء میں حتمی شکل دی گئی تھی، لیکن اسے 2011ء میں نافذ کیا گیا، یہ مناسب نہیں ہے‘‘۔ ویج بورڈ کے چیئرمین نے 8 ویں ویج بورڈ ایوارڈ کو حتمی شکل دینے کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے پر تمام اسٹیک ہولڈرز کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا ’’اس کے علاوہ، 1960ء کے پہلے اجرت بورڈ ایوارڈ کو اتفاقِ رائے کے ساتھ حتمی شکل دی گئی،افراط زر جیسے دیگر اثرات کے مقابلے میں کم اضافہ نظر آسکتا ہے لیکن عدالتی مقدمہ لڑنے کے بجائے بروقت عمل درآمد کرنا بہتر ہے‘‘۔ انہوں نے معاون خصوصی کو مشورہ دیا کہ نئے اجرت ایوارڈ کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے حکومت اسے عوامی شعبے کے اشتہارات کے اجراء سے جوڑ دے۔ میڈیا ہاؤسز کی انتظامیہ سے مذاکراتی ٹیم کے ارکان آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) کے صدر حمید ہارون، اے پی این ایس کے سیکریٹری جنرل سرمد علی اور مجیب الرحمفن شامی شامل تھے۔ صحافیوں اور میڈیا کے دیگر کارکنوں کی نمائندگی کرنے والوں میں ناصر چشتی، بخت زادہ یوسف زئی، شعیب الدین اور محمد نواز رضا موجود تھے۔ وفاقی حکومت کے ترجمان نے بتایا کہ حکومت میڈیا کارکنوں کو درپیش تمام مسائل کے حل کے لیے پُرعزم ہے اور ان کے مطالبات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے گا۔ نمائندہ تنظیموں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) اور آل پاکستان نیوز پیپرز ایمپلائز کنفیڈریشن کے مطالبات کو پورا کرنے میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔