بچوں سے مشقت اور اُن کا استحصال

وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے چائلڈ لیبر جیسے ناسور کو جنم دے رکھا ہے

کاشف رضا
ہمارے معاشرے میں دن میں کتنے ہی بچے حالات کی چکی میں پس جاتے ہیں، مگر کوئی ان کی فریاد سننے والا نہیں ہوتا۔ دنیا بھر میں 31 کروڑ 7 لاکھ بچے مشقت کرنے اور روزگار کمانے پر مجبور ہیں۔ تین چوتھائی سخت مشقت والے کام کرتے ہیں جیسے کانوں میں کام کرنا، کیمیکلز کے ساتھ کام کرنا اور کھیتی باڑی کرنا، خطرناک مشینری کے ساتھ کام کرنا۔
بین الاقوامی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں 33فیصد بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں، یہاں ایک کروڑ بیس لاکھ سے زیادہ بچے چائلڈ لیبر کے طور پر کام کررہے ہیں اور اس تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں 2018ء میں کام کرنے والے کم عمر بچوں کی تعداد ایک کروڑ تھی، مگر اب اس تعداد میں 20 فیصد اضافہ ہوچکا ہے، اور ہر آنے والے دن کے ساتھ یہ تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے۔ انسانی حقوق کمیشن کے مطابق چائلڈ لیبر کی سب سے زیادہ شرح صوبہ پنجاب میں ہے، جہاں 19 لاکھ بچے جبری مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ خیبر پختون خوا میں یہ تعداد 10 لاکھ، سندھ میں 2 لاکھ 98 ہزار، جبکہ بلوچستان میں 14 ہزار ریکارڈ کی گئی۔ اس طرح سندھ کے دل ضلع شہید بے نظیر آباد میں انتہائی درجے کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، ضلعی انتظامیہ مکمل طور پر اُن قوانین پر عمل درآمد کرنے میں ناکام نظر آتی ہے جو حکومت نے چائلڈ لیبر کے حوالے سے وضع کررکھے ہیں۔
چائلڈ لیبر کا مطلب ہے وہ کام جن سے بچے اپنے بچپن کی امنگوں، باعزت و پُروقار طرزِِ زندگی سے محروم ہوجائیں، اور جو اُن کی جسمانی، ذہنی اور اخلاقی نشوونما کے لیے نقصان دہ ہوں، اور جن سے ان کی تعلیم میں حرج ہو۔ اس حوالے سے جب ہم نے چائلڈ لیبر پر کام کرنے والی سماجی تنظیم سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ جنوبی ایشیا کے ملک بھارت میں 12.6 ملین بچے چائلڈ لیبر کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہ بچے سڑکوں پر ٹھیلے لگانے کے علاوہ درزی کی دکانوں، باورچی خانوں، ریستورانوں میں صفائی ستھرائی اور وزن اٹھانے کے علاوہ بھٹیوں میں بھی کام کرتے ہیں۔ بالغوں کے مقابلے میں ان بچوں کو اجرت بھی کم دی جاتی ہے، یعنی اگر ایک کام کا معاوضہ ایک بالغ کو ایک روپے دیا جاتا ہے تو اسی کام کے ایک بچے کو صرف 33 پیسے ملتے ہیں۔
چائلڈ لیبر کا آغاز صنعتی معاشرے سے ہوچکا تھا۔ صنعتی انقلاب سے پہلے پڑھے لکھے بچوں کی تعداد کم تھی، اور بچے ماہی گیری، شکار جیسے کاموں میں ماہر تھے۔ 13 سال کی عمر کے بچے بھی کم از کم بالغ لڑکوں کے برابر کام کرتے تھے۔ تب پڑھائی کی اتنی اہمیت نہیں تھی۔ 18 ویں صدی کے صنعتی انقلاب کے بعد برطانیہ میں بچوں کا استحصال کیا جانے لگا تھا۔ وکٹورین دور میں تو بچوں سے بہت زیادہ کام لیا جاتا تھا۔ چھوٹے بچے گھریلو ملازموں کے طور پر کام کرتے تھے، اور بچوں کی مزدوری کی اجرت بھی بالغ مردوں کی اجرت سے 10 سے 20 فیصد کم ہوتی تھی جبکہ کام ان سے بڑوں کے برابر لیا جاتا تھا۔20 ویں صدی کے آغاز میں ہزاروں کی تعداد میں بچوں سے شیشہ بنانے کی فیکٹریوں میں کام لیا جانے لگا۔ ٹیکنالوجی کے بغیر شیشہ بنانے کا کام ہوتا تھا جس سے بچوں کو آنکھوں اور پھیپھڑوں کی بیماری، کٹنے، جلنے کے نشان کے علاوہ بہت تھکاوٹ ہوجاتی تھی۔ بچوں کو بغیر کسی وقفے کے لگاتار کام کرنا پڑتا تھا۔21 ویں صدی میں ٹیکنالوجی کا دور آیا لیکن اس کے باوجود چائلڈ لیبر آج بھی دنیا کے کئی ممالک میں موجود ہے۔ 5 سے 17 سال کا بچہ جو کسی بھی معاشی سرگرمی کے لیے نوکری کررہا ہو وہ چائلڈ لیبر کے زمرے میں آتا ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی چائلڈ لیبر کی شرح انتہائی بلند ہے۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کے مطابق جنوبی ایشیا کی اس ریاست میں تقریباً پانچ ملین بچے ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ انتہائی برے حالات میں تیار کیے جانے والے یہ کپڑے ترقی یافتہ ممالک میں فروخت کیے جاتے ہیں۔ 2000ء کے بعد عالمی سطح پر مشقت کرنے والے بچوں کی تعداد کم ہوئی ہے، تاہم کئی ایشیائی ممالک بالخصوص بنگلہ دیش، افغانستان، نیپال، کمبوڈیا اور میانمر میں ان معصوم بچوں کی صورت حال تاحال خستہ ہی ہے۔
پاکستان کا شمار بھی اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں بچوں سے جبری مشقت لی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 22 کروڑ کی آبادی والے ملک پاکستان میں ایک کروڑ سے زیادہ بچے چائلڈ لیبر ہیں (ان ایک کروڑ بچوں میں وہ بچے شامل نہیں ہیں جو گھریلو ملازم کہلاتے ہیں)۔ چائلڈ لیبر کی ایک کثیر تعداد ملک کے مختلف شہروں کے مختلف مقامات میں ہوٹلوں، کارخانوں، ورکشاپوں، گھروں اور صنعتی مراکز پر کام کرتی ہوئی پائی جاتی ہے۔ براعظم ایشیا میں چائلڈ لیبر کا شکار بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، جہاں 12 کروڑ سے زائد بچے مزدوری کرتے ہیں، جبکہ سب سے زیادہ شرح براعظم افریقہ میں ہے جہاں اندازاً ہر تیسرا بچہ مزدور ہے۔ جبری مشقت کے شکار ان بچوں میں سے 90 لاکھ بچوں کو جرائم پیشہ سرگرمیوں میں استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ 3 لاکھ باقاعدہ عسکری کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ دنیا بھر میں 12 لاکھ بچوں کو خرید کر مزدور بنایا گیا ہے جبکہ 40-50 فیصد بچوں کو زبردستی کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر 70 فیصد بچے زراعت، 22 فیصد سروسز، جبکہ نو 8 فیصد صنعتی شعبے کے ساتھ منسلک ہیں۔ ایشیائی ملکوں میں افرادی قوت کا 10 واں حصہ چائلڈ لیبر پر مشتمل ہے۔ بھارت میں 15 سال سے کم عمر کے تقریباً 4.5 کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔ بنگلادیش اور نائیجیریا میں بھی مزدور بچوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں صرف صوبہ پنجاب میں 2500 سے زائد بھٹوں پر 5 سے 12 سال عمر تک کے ایک لاکھ سے زائد بچے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ شہروں میں گھروں کی صفائی اور چھوٹے موٹے کاموں میں تقریباً 30,000 بچے مصروف ہیں۔ بس اڈوے، سبزی، فروٹ منڈیاں، ہوٹل، ورکشاپس اور دیگر صنعتیں تو چائلڈ لیبر کی خلاف ورزی کا گڑھ سمجھی جاتی ہیں۔ ہم ان بچوں کو اپنے بچوں کی طرح جیتا جاگتا انسان سمجھنا شروع کردیں اور ان کی تکالیف، احساسات اور پریشانیوں کو خاطر میں لائیں، ان کی مدد کریں، انہیں باعزت روزگار مہیا کریں تو یقیناً جنسی زیادتیوں، بہیمانہ تشدد اور خودکشیوں کے رجحان میں کمی آ سکتی ہے، اور ہمارا صرف ایک مثبت قدم ملک سے چائلڈ لیبر کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
بین الاقوامی لیبر تنظیم کے مطابق 2008ء میں 5 سے 14 سال کی عمر کے 153 ملین بچے باہر کا کام کررہے تھے۔پاکستان میں بھی چائلڈ لیبر حد سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں بڑھتے ہوئے تعلیمی اخراجات اور مہنگائی میں دن بدن اضافے کے پیش نظر چائلڈ لیبر میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔1996ء کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 10 سال کی عمر سے کم 11 ملین بچے فیکٹریوں میں کام کررہے تھے۔ ملک کے ایک چوتھائی بچوں کو زبردستی کام پر جانے کے لیے مجبور کیا گیا۔ حیدرآباد میں ہی 4 سے 5 سال کے بچوں کو بریسلٹ اور چوڑیاں بنانے پر لگایا جاتا ہے اور ان کو اجرت بھی محنت کے مطابق نہیں دی جاتی۔ نہ صرف حیدرآباد بلکہ پورے ملک میں چائلڈ لیبر ناسور بن کر ہمارے معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کررہا ہے۔ اعدادو شمار کے مطابق 1.96 ملین بچے انڈسٹری میں کام کرتے پائے گئے اور 48 فیصد لڑکیاں سروس انڈسٹری میں کام کرتی پائی گئیں، جبکہ 22 فیصد لڑکیاں دیہاتی علاقوں میں مختلف کاموں سے منسلک تھیں۔ چائلڈ لیبر ملتان میں وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے۔ پنجاب میں اینٹ کے بھٹوں میں بچے کام کرتے ہیں۔ بھارت میں چائلڈ لیبر کی تعداد 44 ملین سے تجاوز کرچکی ہے۔ پاکستان میں 5 سے 14 سال کی عمرکے 40 ملین، بنگلہ دیش میں 12.8 ملین اور ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح بہت کم ہے۔
چائلڈ لیبر کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ان میں سب سے بڑی وجہ غربت ہے۔ پاکستان میں شرح خواندگی ویسے بھی بہت کم ہے، اور غربت کی وجہ سے والدین کے پاس سہولتیں نہیں ہوتیں کہ وہ بچوں کو پڑھا سکیں۔ ساری دنیا ہی اس لعنت سے نمٹنے کی سعی کررہی ہے، لیکن پاکستان میں معاشی بدحالی، سہولیات اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے چائلڈ لیبر جیسے ناسور کو جنم دے رکھا ہے۔ غربت کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کی تعلیمی ذمہ داریاں نہیں اٹھا سکتے۔ انہیں گھر کے خرچے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے جس کی وجہ سے بچوں کو مجبوراً کام کرنا پڑتا ہے، یا والدین زبردستی بچوں کو کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بچوں کو کام کی جگہ پر تشددکا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 3 کے مطابق ریاست کا بنیادی فرض ہے کہ وہ ہر طرح کے استحصال کا خاتمہ کرے، بنیادی حقوق فراہم کرے اور ہر ایک کو اُس کی صلاحیتوں کے مطابق کام مہیا کرے۔ آئین کے آرٹیکل (3)11 کے مطابق 14 سال سے کم عمر کے بچے کو کسی بھی فیکٹری یا کان کنی کے کام میں، یا کسی بھی طرح کے خطرناک کام میں ملوث نہیں کیا جاسکتا۔ آرٹیکل (A) 25 کے مطابق ریاست کا فرض ہے کہ وہ 5 سے 16 سال کی عمر کے ہر بچے کو فری اور لازمی تعلیم دے۔ آرٹیکل 37(C) کے مطابق ریاست کا فرض ہے کہ وہ کام کی محفوظ جگہ کا تعین کرے گی اور کہیں کوئی جگہ بچوں اور خواتین کے لیے اگر محفوظ نہیں ہے تو اس کے بارے میں مؤثر قدم اٹھائے گی۔
عالمی سطح اور پاکستان میں حکومتی سطح پر بہت سے بل بھی پاس ہوچکے ہیں کہ ملک سے چائلڈ لیبر کا خاتمہ کیا جاسکے۔ لیکن یہ بل پاس ہونے کے باوجود اپنی افادیت کے اعتبار سے معاشرے میں پذیرائی حاصل نہیں کرسکے۔ ضلع بھر کی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ غربت کی لکیر میں دھنسے ہوئے والدین شعور رکھتے بھی ہیں تو اس بات پر اصرار کرتے نظر آتے ہیں کہ مجبوری اور غربت نے ان سے سب کچھ چھین لیا ہے، ان کے مستقبل نسل در نسل ایسے ہی گزر جائیں گے کیونکہ کوئی ایسی منصوبہ بندی نہیں ہے جو ان کو بھوک، افلاس، بے روزگاری کی دلدل سے نکال سکے۔ آپ یقین کریں کہ جب ان بچوں کے والدین سے بات چیت کرتے ہیں تو دل دہل جاتا ہے، جذبات سرد ہونے لگتے ہیں اور روح کانپ سی جاتی ہے کہ یہ بچے اور ان کے والدین پاکستانی معاشرے کا حصہ ہیں! لہٰذا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کی جبری مشقت کا خاتمہ کیا جائے،ضرورت کے ہاتھوں مجبور ہوکر محنت مزدوری کرنے والے بچوں کے لیے نہ صرف حکومت کو اقدامات کرنے ہوں گے بلکہ معاشرے کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔