اِضافتِ مقلوب اور ہماری نافہمی

پروفیسر غازی علم الدین
زبان، انسانی شخصیت میں ایک اہم مظہر کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ اﷲ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے(۱)۔ قوتِ تکلم، انسانی شرف کا ہمیشہ ایک امتیازی وصف رہا ہے۔ اسلام ہمہ گیر راہ نمائی کا مدّعی ہے، اس لیے قوتِ اظہار کے اس شرف پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ الفاظ ہماری زندگیوں میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اسلام میں پہلی وحی کے نزول کی ابتدا ہی’اقرا‘ سے ہوتی ہے، یعنی’پڑھیں‘(۲)۔ اس وحی میں جو پڑھنے کی ہدایت ہے، وہ یقیناً الفاظ سے متعلق ہے۔ زندہ قوموں کی روایت ہے کہ وہ اپنے زبان و بیان پر فخر کرتی ہیں۔ ہر متحرک قوم اپنے لسانی سرمائے کو زندہ رکھنے میں مصروف رہتی ہے۔ تلفظ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں متکلم کی، کسی زبان میں استعداد اور مہارت کا عکس نظر آتا ہے۔ صحتِ تلفظ، اصلاحِ زبان کا اہم پہلو ہے مگر بدقسمتی سے لسانی انتشار اور بگاڑ ختم ہونے کے بجائے آئے دن فزوں تر ہورہا ہے۔ ذمہ دار اور پڑھے لکھے لوگوں کی طرف سے لکھنے، بولنے، پڑھنے اور پڑھانے میں قومی زبان کی تخریب اس سے محبت کرنے والوں پر شاق گزرتی ہے۔ تخریبِ زبان کا یہ عمل جب سرکاری اور نیم سرکاری نشریاتی ادارے تواتر سے دہراتے ہیں تو اصلاحِ احوال کی ساری امیدیں دم توڑتی دکھائی دیتی ہیں۔ آئے روز دہرائی جانے والی غلطیوں میں ’اضافت‘ کے استعمال کے ضمن میں کی جانے والی غلطیاں بھی ہیں۔ سوشل میڈیا نے اضافت کی غلطیوں کی تکرار کا اس قدر غدر مچا رکھا ہے کہ الامان والحفیظ۔ لکھنے میں کسرۂ اضافت کی جگہ ’’ے‘‘ کا اضافہ رواج پکڑ چکا ہے۔ شیرے پہاڑ، فخرے بنگال، والیے لاہور، شاہے مدینہ، کاشانہ اے نبوت، نبی اے رحمت، دورے حاضر اور اس طرح کے دیگر انتشارات میرے جیسے کمزور طالبِ علم پر انقباض طاری کرتے رہتے ہیں۔
اضافت کا معنی و مفہوم
اضافت کا لغوی معنی تو تعلق، لگاؤ اور نسبت ہے لیکن قواعدِ نحو کی رو سے اضافت، دو یا دو سے زائد افراد یا چیزوں کی باہمی نسبت اور تعلق کو کہا جاتا ہے۔ دو اسم جب آپس میں حرفِ اضافت کی مدد سے ملتے ہیں تو اُن میں ایک تعلق پیدا ہوجاتا ہے، اس تعلق کو اضافت کہتے ہیں۔ جس اسم کا تعلق ظاہر کیا جائے اُسے مضاف اور جس سے تعلق اور نسبت قائم ہو، اُسے مضاف الیہ کہتے ہیں۔ دونوں کا مجموعہ مرکب اضافی کہلاتا ہے۔ اُردو میں مضاف الیہ پہلے اور مضاف بعد میں ہوتا ہے، مثلاً زید کا قلم۔ اس ترکیب میں زید مضاف الیہ ہے، ’کا‘ حرفِ اضافت اور ’ قلم ‘مضاف۔ بعض صورتوں میں ترکیب اس طرح بھی ہوجاتی ہے؛ ’قلم زید کا‘، ’بیٹا زید کا‘ وغیرہ(۳) یعنی پہلے مضاف پھر مضاف الیہ، اس کے بعد حرفِ اضافت۔ حرفِ اضافت، ہر دو صورت میں مضاف الیہ کے بعد ہی آئے گا۔
اُردو میں مستعمل فارسی قاعدے کے مطابق، مضاف مقدم ہوتا ہے اور کسرۂ اضافت اسے مضاف الیہ سے ملاتا ہے جیسے ’دردِ دل‘ یعنی دل کا درد، ’خانۂ خدا‘ یعنی خدا کا گھر، ’شدتِ غم‘ یعنی غم کی شدت وغیرہ۔ جن لفظوں کے آخر میں یاے ساکن ہوتی ہے، اضافت کی صورت میں اس ’’ی‘‘ کے نیچے زیر آئے گی نہ کہ ہمزہ مثلاً: مرضیٔ خدا، رعنائیٔ خیال اور آزادیٔ وطن کی تراکیب ہمزہ کے اضافے کے ساتھ غلط تصور کی جائیں گی۔ مرضیِ خدا، رعنائیِ خیال اور آزادیِ وطن (کسرۂ اضافت کے ساتھ) ہی درست ہوں گی(۴)۔ اس قاعدے کے مطابق مضاف اور مضاف الیہ کا عربی اور فارسی ہونا ضروری ہے۔ اس سے ہٹ کر، خواہ اس میں صوتی حُسن بھی پایا جاتا ہو، قواعد کی رُو سے صحیح نہیں مانا جائے گا جیسے ٹکڑۂ زمین، سپوتِ پاکستان، روگِ عشق، زاویۂ سوچ، پسِ اسکرین، پسینۂ جبیں، پھولِ چمن، بلندیِ پہاڑ، درپنِ دل، فخرِ دھرتی، رنگِ پھول، رقبۂ پلاٹ، غمِ سماج، سطحِ پانی وغیرہ (۵)۔ عربی کے کچھ مرکباتِ اضافی بھی اُردو میں مستعمل ہیں اور اس قدر جذب ہوگئے ہیں کہ مِن و عَن اُردو ہی کے سمجھے جاتے ہیں جیسے رسول اﷲ، کتاب اﷲ، ملک الموت، رب العالمین، رحمۃ للعالمین، حق الیقین، عیدالفطر، عیدالاضحی، قاضی القضاۃ، مطلق العنان، قرۃ العین، مدینۃ النبی، تحت الثریٰ، عندالضرورت اور عندالطلب وغیرہ۔ اگرچہ مضاف پہلے اور مضاف الیہ بعد میں ہے، تاہم مذکورہ مثالوں میں کسرۂ اضافت کسی طور پر نہیں آسکتا۔
ہمارے نصابِ تعلیم سے عربی اور فارسی کو آہستہ آہستہ ختم کیا جارہا ہے جس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ ہم اُن خوب صورت الفاظ و تراکیب سے بے بہرہ اور ناآشنا ہو رہے ہیں جو اردو زبان و ادب کا حسنِ یگانہ ہیں۔ آج کل طلبہ، اساتذہ اور پڑھے لکھے لوگ ہی نہیں، ادیب اور شاعر بھی ان تراکیب کو استعمال کرنے میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ جہاں اِضافت ہونی چاہیے وہاں فارسی سے نابلد یہ لوگ اضافت کھا جاتے ہیں اور جہاں اضافت نہیں ہے ’زیرِ اضافت‘ کا غلط استعمال کرتے ہوئے وہاں بھی اضافت لگاتے چلے جاتے ہیں۔ اضافت کی متعدد قسمیں ہیں جیسے اضافتِ مطلق، اضافتِ مِلک، اضافتِ نسبی، اضافتِ ظرفی، اضافتِ توضیحی، اضافتِ مادی، اضافتِ علّت و سبب، اضافتِ شبہی، اضافتِ استعارہ، اضافتِ وصفی، اضافتِ ابنی، اضافتِ بیانی، اضافتِ تخصیصی، اضافتِ مقلوب وغیرہ مگر یہاں اضافتِ مقلوب کے سوا کسی اور اضافت کی تصریح و توضیح مقصود نہیں ہے۔
اِضافتِ مقلوب کا معنی و مفہوم
مقلوب کا لفظی معنی ہے پلٹا گیا، پلٹا ہوا، یا اُلٹایا گیا، اُلٹایا ہوا۔ اُردو کے قواعد کی رُو سے اضافتِ مقلوب اُس ترکیب کو کہتے ہیں جس میں مضاف الیہ پہلے اور مضاف بعد میں آتا ہے نیز اس میں کسرۂ اضافت کا استعمال نہیں ہوتا۔ مضاف اور مضاف الیہ کے اُلٹنے اور ایک دوسرے کی جگہ پر آنے کو عملِ تقلیب کہا جاتا ہے۔ اس عمل میں جہاں مضاف اور مضاف الیہ اُلٹتے ہیں وہاں ترکیب کے معنی بھی اُلٹ جاتے ہیں۔مولانا محمد حسین آزاد اضافتِ مقلوب کی بابت لکھتے ہیں کہ
’’مضاف ہمیشہ پہلے ہوتا ہے مگر اکثر جگہ ترکیب الٹ دیتے ہیں اور اسے اضافتِ مقلوب کہتے ہیں مثلاً جہان شاہ، شاہان شاہ وغیرہ‘‘۔(۶)
یہ ترکیب اصل میں ’’شاہِ جہان‘‘(جہان کا بادشاہ) اور ’’شاہِ شاہان‘‘ (بادشاہوں کا بادشاہ)تھی لیکن عملِ تقلیب کی وجہ سے جہان شاہ اور شاہان شاہ ہو گئی۔ مضاف الیہ (جہان اور شاہان) پہلے آگیا اور مضاف (شاہ) بعد میں۔ مولانا محمد حسین آزاد نے ’’جہاں شاہ‘‘ کی مثال تو دے دی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا چلن اب ختم ہو چکا ہے البتہ شاہان شاہ(جس کی مخفف صورت شاہنشاہ اور شہنشاہ ہے) کا استعمال بدستور مروّج ہے۔ پروفیسر عبدالستار صدیقی نے اضافتِ مقلوب کی بابت لکھا ہے کہ
’’ایک دوسری صورت اضافت کی ہے کہ پہلے مضاف الیہ پھر مضاف ]یعنی فارسی کے مرکب اضافی کے عام رواج کے برعکس جس میں مضاف پہلے آتا ہے[ اور دونوں کے بیچ میں کوئی تیسری چیز نہیں۔ اسے فارسی کے نحویوں نے ’’اضافتِ مقلوب‘‘ کا نام دیا۔ پہلے دور کی ]فارسی[ زبان میں اضافت کی یہی ایک صورت ہے جیسے ’’شاہان شاہ‘‘(جس سے شاہنشاہ پھر شہنشاہ ہو گیا)‘‘۔(۷)
اضافت کے غَلَط استعمال کی عمومی مثالیں
کسرۂ اضافت کے غلط استعمال سے اُردو زبان کے حالات خراب تر صورت کی طرف جارہے ہیں۔ ایک تو اُردو میں اعراب لگانے کا رواج نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے مرکب اضافی میں کسرۂ اضافت بھی اکثر نہیں لکھا جاتا، دوسرا ستم یہ ڈھایا جاتا ہے کہ جو تراکیب کسرۂ اضافت کے بغیر مستعمل ہیں وہاں ہمارے اردو مصنفین و مؤلفین لکھتے وقت بے دھڑک کسرۂ اضافت لکھ دیتے ہیں جس سے اکثر تراکیب کے معانی غتر بود ہو جاتے ہیں۔ کچھ مثالیں قارئین کے ملاحظہ کے لیے پیش کی جاتی ہیں جن کی ترتیب اُن کی اہمیت کو پیشِ نظر رکھ کر قائم کی گئی ہے:
پیشِ لفظ نہیں، پیش لفظ ہے
یہ ترکیب اصل میں ’لفظِ پیش‘ ہے جسے عملِ تقلیب کے بعد ’پیش لفظ‘ بنا لیا گیا۔ یہاں پیش کی ش پر کسرۂ اضافت ہر گز نہیں ہے ورنہ معنی بدل جائے گا۔’ پیش لفظ‘ کا معنی ہے وہ تعارفی تحریر جو متنِ کتاب سے پہلے ہو۔ یہ تحریر عام طور پر مصنفِ کتاب کے سوا کسی اور ادیب کی ہوتی ہے۔ اُردو میں اسے’ مقدمہ‘ اور’ دیباچہ‘ بھی کہتے ہیں، انگریزی میں preface کہا جاتا ہے۔’ پیش‘ کا لغوی معنی ہے پہلے، سامنے اور آگے۔ یہ’ پس‘(پیچھے) کی ضد ہے۔ ترکیب میں اگر کسرۂ اضافت لگا دیا جائے تو’ پیشِ لفظ‘ کا معنی بن جائے گا لفظ کے سامنے یا لفظ سے پہلے اور یہ ترکیب اُردو میں کہیں بھی مستعمل نہیں ہے۔
پسِ منظر نہیں، پس منظر ہے
پس منظر(کسرۂ اضافت کے بغیر)اصل میں ’منظرِپس‘ہے یعنی’پیچھے کا منظر‘ جسے انگریزی میں بیک گراؤنڈ (background) کہتے ہیں۔ تقلیب کے عمل نے اپنا کام کیا اور اسے ’پس منظر‘ بنا دیا۔ پس منظر کا مطلب ہے کسی واقعہ کے اسباب و محرکات جو اس کے وجود میں آنے کا باعث ہوئے ہوں، کسی تصویر یا منظر کا وہ حِصّہ جو دیکھنے والے سے دور تر ہو، ماحول جس میں کوئی واقعہ ظہور پذیر ہوا ہو، اصل حقیقت جو بدیہی طور پر نظر نہ آئے۔ (۸)
اس ترکیب کو اگر ’پسِ منظر‘(سین کے نیچے کسرۂ اضافت کے ساتھ) پڑھا جائے تو اس کا مطلب ہو گا’ منظر کے پیچھے‘ (behind the scene)اس طرح یہ معنیٰ بالکل مختلف ہو جائیں گے اور یہ اضافتِ مقلوب نہیں رہے گی۔ اس قسم کی دیگر مثالیں ’پسِ دیوار‘(دیوار کے پیچھے)،’ پسِ آئینہ‘(آئینے کے پیچھے)،’ پسِ پردہ‘(پردے کے پیچھے) اور’ پسِ پشت‘ (پیچھے کی طرف) وغیرہ ہیں۔
خط و کتابت نہیں، خط کتابت ہے:
خط کتابت اصل میں ’کتابتِ خط‘ کی مقلوب صورت ہے جس کا معنی ہے خط لکھنا۔ یہ ترکیب، عملِ تقلیب کے بعد خط کتابت(کسرۂ اضافت کے بغیر)ہو گئی جس کا مطلب ہے خط لکھنا، مراسلت کرنا۔ خط و کتابت کی ترکیب کسی طور پر درست نہیں ہے کیونکہ اس میں واوِ عاطفہ غیر ضروری ہی نہیں، بالکل غلط ہے۔ کتابت عربی مصدر ہے جس کا معنی ہے لکھنا۔ اس لحاظ سے ’ خط و کتابت‘ کا معنی اور مفہوم ہو جائے گا ’خط اور لکھنا‘ جو بے معنی سی بات ہے۔
ذیل میں دو سندیں پیش کی جاتی ہیں جن سے ثابت ہو گا کہ نثر نگاروں اور ادیبوں کے ساتھ ساتھ شعرائے کرام نے بھی اپنی شاعری میں خط و کتابت نہیں، خط کتابت (واوِ عاطفہ کے بغیر) ہی استعمال کیا ہے۔ اسمٰعیل میرٹھی کا شعر ہے

راہ و رسمِ خط کتابت ہی سہی
گل نہیں تو گل کی نکہت ہی سہی(۹)

’خط کتابت‘ کی سند میرؔ کے ہاں بھی ملتی ہے

خط کتابت سے یہ کہتے تھے نہ بھولیں گے تجھے
آویں گے گھر بار کی، تیری، خبر کو بار بار
جب گیا میں یاد سے، تب کس کا گھر، کاہے کا پاس
آفر یں، صد آفریں اے مردمانِ روزگار(۱۰)

پیشِ منظر نہیں، پیش منظر ہے
پیش منظر(کسرۂ اضافت کے بغیر) ’ منظرِ پیش‘ کی مقلوب صورت ہے جس کا معنی ہے سامنے کا منظر(Scenario)،منظر نامہ، اس بات کا بیان کہ حال اور مستقبل میں واقعات و معاملات کے کس انداز میںوقوع پذیر ہونے کا امکان ہے۔ پیشِ منظر(کسرۂ اِضافت کے ساتھ) ایک دوسری ترکیب بنانے کی کوشش ہو سکتی ہے جس کا معنی ہو گا ’منظر کے سامنے‘ لیکن اردو میں یہ ترکیب مستعمل نہیں ہے۔ ہاں! ایک ترکیب ’پیشِ نظر‘ ہے جو بالکل درست ہے اور اس کا معنی ہے ’نظر کے سامنے‘ لیکن بات منظر کی ہو رہی ہے نظر کی نہیں۔
سَرِوَرَق نہیں، سَرْ وَرَق ہے
یہ ترکیب کسرۂ اِضافت کے بغیر ہو گی کیونکہ یہ مقلوب صورت ہے۔ یہ اصل میں ’ورقِ سر‘ ہے جسے عملِ تقلیب کے بعد سَرْوَرَق بنا لیا گیا۔ اس کا معنی ہے کتاب کا پہلا ورق یعنی ٹائیٹل پیج (title page)۔اس ترکیب میں سرکے معانی ابتدا، چوٹی اور عنوان کے ہیں۔ سرِ َورَق (کسرۂِ اضافت کے ساتھ) کہنے کی صورت میں اس کا معنی ہو جائے گا ’ورق کا سر‘ جو ایک بے معنی سی ترکیب ٹھہرے گی۔
پسِ نوشت نہیں، پس نوشت ہے
پس نوشت(کسرۂ اضافت کے بغیر) اصل میں ’نوشتۂ پس‘ کی مقلوب صورت ہے۔ اس کا مطلب ہے صفحے کی پُشت پر چند سطری تحریر، کوئی وضاحتی یا تاکیدی بات جو خط لکھنے کے بعد یاد آئے۔ مکتوب نگاری میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خط میں لکھے سے رہ جانے والی بات یا وضاحت اختتامِ متن کے نیچے یا صفحے کے دوسری طرف نہایت اختصار سے لکھ دی جاتی ہے۔ اس کے مقابل پسِ نوشت(کسرۂ اضافت کے ساتھ) ایک مہمل ترکیب ہے۔
تفصیل اور وضاحت کے بغیر، اضافتِ مقلوب کی کچھ ایسی مثالیں پیش کی جارہی ہیں جنھیں بولنے اور لکھنے میں اکثر غلطی کر دی جاتی ہے
غلط استعمال صحیح استعمال
ایرانِ زمین ایران زمین(کسرۂ اضافت کے بغیر)عمل تقلیب سے پہلے اس کی صورت ’زمینِ ایران‘ تھی۔
ایرانِ شہر ایران شہر (کسرۂ اضافت کے بغیر)عمل تقلیب سے پہلے اس کی صورت’ شہرِ ایران‘ تھی۔
پسِ افگندہ پس افگندہ(کسرۂ اضافت کے بغیر) پیچھے پھینکا ہوا، گوبر، پاخانہ یا بیٹ۔
پسِ انداز پس انداز (کسرۂ اضافت کے بغیر) بچا ہوا، جمع کیا ہوا، باقی، بچت، کفایت شعاری۔
پسِ پا پس پا (کسرۂ اضافت کے بغیر) واپس، اُلٹے پاؤں، شکست خوردہ۔
پسِ خوردہ پس خوردہ (کسرۂ اضافت کے بغیر) بچا ہوا کھانا، جُھوٹا، اُلُش۔
پسِ خیمہ پس خیمہ (کسرۂ اضافت کے بغیر) فوج یا قافلے کا پچھلا خیمہ، فوج کے پیچھے چلنے والا ساز و سامان، فوج یا قافلے کے پیچھے چلنے والا حِصّہ۔
پسِ رَو پس رَو (کسرۂ اضافت کے بغیر) پیچھے چلنے والا، نوکر، ملازم، پیروی کرنے والا۔
پسِ ماندہ پس ماندہ (کسرۂ اضافت کے بغیر) پیچھے رہا ہوا، بچا ہوا، مرنے والے کا وارِث۔
پیشِ افتادہ پیش افتادہ (کسرۂ اضافت کے بغیر) سامنے پڑا ہوا، فرسودہ، پامال، معمولی۔
پیشِ امام پیش امام (کسرۂ اضافت کے بغیر) نماز پڑھانے والا، امامت کرنے والا۔
پیشِ ازیں پیش ازیں (کسرۂ اضافت کے بغیر) اس سے پہلے، اس سے آگے۔
پیشِ اندیش پیش اندیش(کسرۂ اضافت کے بغیر) عاقبت اندیش۔
پیشِ بُریدہ پیش بُریدہ (کسرۂ اضافت کے بغیر) زنخا، ہیجڑا، مُخنث۔
پیشِ بندی پیش بندی (کسرۂ اضافت کے بغیر) کسی بات کا پہلے سے انتظام یا تدارک، روک تھام۔
پیشِ بیں پیش بیں (کسرۂ اضافت کے بغیر) عاقبت اندیش، دور اندیش۔
پیشِ پا افتادہ پیش پا افتادہ(کسرۂ اضافت کے بغیر) سامنے کی بات، بہت معمولی بات۔
پیشِ تاز پیش تاز (کسرۂ اضافت کے بغیر) آگے بڑھ جانے والا۔
پیشِ خیمہ پیش خیمہ (کسرۂ اضافت کے بغیر) وہ خیمہ جو اگلی منزل پر بھیج دیا جاتا ہے تاکہ پہنچنے پر انتظار نہ کرنا پڑے، ہراول دستہ، کسی کام کے ظہور کا سامان۔
پیشِ دست پیش دست(کسرۂ اضافت کے بغیر) پہل کرنے والا، سبقت کرنے والا۔
پیشِ رس پیش رس (کسرۂ اضافت کے بغیر) پہلا، پہلے ہونے والا، موسم کا تازہ بہ تازہ پھل، وہ لڑکا جو اپنی عمر سے زیادہ ذہین اور عقل مند ہو۔
پیشِ رفت پیش رفت(کسرۂ اضافت کے بغیر) کسی کام کا آگے بڑھنا۔
پیشِ قدمی پیش قدمی (کسرۂ اضافت کے بغیر) سبقت، آگے بڑھنا، چڑھائی کرنا۔
پیشِ کار پیش کار (کسرۂ اضافت کے بغیر) ذاتی مددگار، سیکرٹری۔
پیشِ کش پیش کش (کسرۂ اضافت کے بغیر) نذرانہ، تحفہ، presentation۔
پیشِ نہاد پیش نہاد (کسرۂ اضافت کے بغیر) تجویز، مدنظر، منظورِ خاطر، ارادہ۔
پیشِ قبض پیش قبض (کسرۂ اضافت کے بغیر) خنجر، چھُرا۔
پیشِ گاہ پیش گاہ (کسرۂ اضافت کے بغیر) عمارت کا اگلہ حصّہ ، دالان، برآمدہ۔
پیشِ وا پیش وا (کسرۂ اضافت کے بغیر) امام، سربراہ۔
اسی طرح سربراہ، سربرہنہ، سربُریدہ، سربزانو، سربستہ، سر بسر، سربہ صحرا، سربفلک، سربکف، سربگریباں، سربلند، سربمہر، سربند، سرپرست، سرتابی، سرتاج، ، سرچشمہ، سرخوش، سردار، سررشتہ، سرزد، سرسبز، سرشار، سرغنہ، سرکردہ، سرکش، سرگزشت، سرگرداں، سرگرمی، سرگوشی، سرمست، سرنام، سرنگوں وغیرہ میں سر کے ’’ر‘‘ پر کسرۂ اضافت نہیں آئے گا۔
اُردو اشعار میں، بعض اوقات قدیم فارسی انداز پر مستعمل، اضافتِ مقلوب بھی آجاتی ہے مثلاً مردِ خوب سے ’’ے‘‘ کے اضافے کے ساتھ خوب مردے۔ اضافتِ مقلوب لانا غالبؔ کا خاص انداز ہے۔ (۱۱)
فارسی کے بعض مرکبات میں کسرۂ اضافت کا وجود ہوتا ہے لیکن اسے پڑھا اور لکھا نہیں جاتا۔اگر کوئی اسے استعمال کرنا جائز سمجھے تو قاعدے سے انحراف نہیں ہو گا مگر ترجیح چلن کو حاصل ہو گی۔ پروفیسر عبدالستار صدیقی لکھتے ہیں
’’جب مضاف اور مضاف الیہ میں گہرا میل ہو جاتا ہے اور کوئی مرکب بہت زیادہ استعمال ہونے لگتا ہے تو اس میں سے اضافت کا کسرہ جاتا رہتا ہے، جیسے صاحبِ دل سے صاحب دل، شاہِ جہاں سے شاہ جہاں، نورِ جہاں سے نور جہاں اور مالکِ مکان سے مالک مکان‘‘(۱۲)
مختلف تراکیب کی تین ایسی مثالیں پیش کی جارہی ہیں جو اضافتِ مقلوب کی ذیل اور بحث میں نہیں آتیں لیکن اکثر لوگ بلکہ پڑھے لکھے اصحاب، انھیں غلط بولتے اور لکھتے ہیں اور کسرۂ اضافت کا بے جا استعمال کرتے ہیں۔
دستِ نگر نہیں، دست نِگرہے
دستِ نگر(دست کی ت پر کسرۂ اضافت اور نگر کے نُون پر زبر)کا معنی ہے’ شہر کا ہاتھ‘۔یہ سراسر مہمل اور لغو ترکیب ہے۔ یہ اصل میں ’دست نِگر‘ (’’ت‘‘ کسرۂ اضافت کے بغیر اور نون کے نیچے زیر) ہے۔نِگر،نِگریستن مصدر سے ہے جس کا معنی ہے دیکھنا۔ اسی سے نگران ہے یعنی دیکھنے والا ، نگرانی بھی اسی سے ہے۔ دست نِگر کا مطلب ہے مانگنے کی غرض سے کسی کے ہاتھ کی طرف دیکھنے والا یعنی سائل، محتاج، حاجت مند اور فقیر وغیرہ۔
جانِ آفریں نہیں، جاں آفریں ہے
جانِ آفریں(نون کے نیچے زیر) کا مطلب ہے’ پیدا کرنے والے کی جان‘۔ اس معنی کا تصور ہی بہت خوفناک ہے۔آفریں، آفریدن مصدر سے ہے اور ’جاں آفریں‘ کا معنی ہے جان پیدا کرنے والا یعنی اﷲ تعالیٰ۔ عام طور پر سننے میں آتا ہے کہ،’اس نے اپنی جان، جانِ آفریں کے سپرد کر دی‘ جو کہ سراسر غلط ہے۔ اس جملے کو اس طرح ہونا چاہیے:’اُس نے اپنی جان ، جاں آفریں کے سپرد کر دی‘۔
چشمِ زدن نہیں، چشم زدن ہے
’چشم زدن‘ میں چشم کی میم پر کسرۂ اضافت نہیں ہے۔ چشمِ زدن (کسرۂ اضافت کے ساتھ) کا معنی انتہائی مہمل اور لغو بنتا ہے یعنی ’زدن(مارنا) کی آنکھ‘۔ چشم زدن کا لغوی معنی ہے آنکھ مارنا، آنکھ جھپکنا جب کہ اس کا مفہوم اور مطلب ہے لمحہ بھر۔ ’چشم زدن میں‘ کا مطلب ہو گا لمحہ بھر میں، فوراً ، بہت جلداوربہت تیزی سے۔
اُردو کی حفاظت اور صحتِ زبان پر توجہ دینا بہت ضروری ہے۔بزرگوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نئی نسل کو درست اور خالص زبان منتقل کریں۔ درست اور غلطیوں سے پاک زبان سامع اور قاری پر خوش گوار اثر ڈالتی ہے۔ اضافت کے قواعد کو سمجھنا اور محلِّ استعمال کو جاننا اردو کی حفاظت کا ایک طریقہ ہے۔ اس ضمن میں ہیچ مداں کی یہ ایک ادنیٰ سی کوشش ہے۔
………………………………
حوالے اور حواشی

۱۔وَمِنْ آیَاتِہِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِکُمْ وَأَلْوَانِکُمْ إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِّلْعَالِمِیْنَ Oسورہ الروم: ۲۲۔
۲۔العلق:۹۶۔
۳۔ڈاکٹر غلام مصطفی خان، جامع القواعد حصّہ نحو (لاہور: اردو سائنس بورڈ، ۲۹۹۔اپر مال،۲۰۰۳ء)، ص۵۱۔
۴۔ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، صحتِ اِملا کے اصول (کراچی۔ادارۂ یادگارِ غالب، ۲۰۱۶ء) ص ۱۴۔
۵۔خواجہ محمد عارف، اردو ہے جس کا نام،]غیر مطبوعہ مضمون، مخزونہ راقم الحروف[مضمون نگار شاعر، ادیب اور لسان شناس ہے۔ انگلستان میں مقیم ہے۔
۶۔محمد حسین آزاد، جامع القواعد(لاہور: راے صاحب ایم گلاب سنگھ اینڈ سنز، ۱۹۰۷ء) ص۱۱۰] تیرھواں ایڈیشن[، ]اشاعتِ اوّل ۱۸۸۹ء[
بحوالہ رؤف پاریکھ، ذکر اضافت کھانے اور اضافت کے اضافے کا، مشمولہ قومی زبان، شمارہ جنوری ۲۱۰۹ء،
(کراچی:انجمن ترقیِ اردو پاکستان)، ص۷۵۔
۷۔عبدالستار صدیقی، مقالاتِ صدیقی، پہلا حِصّہ، (لکھنؤ:اتر پردیش اکیڈمی، ۱۹۸۳ء) ، ص ۱۴۵۔
بحوالہ رؤف پاریکھ، ذکر اضافت کھانے اور اضافت کے اضافے کا، مشمولہ قومی زبان، شمارہ جنوری ۲۱۰۹ء،
(کراچی:انجمن ترقیِ اردو پاکستان)، ص۷۶۔
۸۔شان الحق حقی، فرہنگِ تلفظ(اسلام آباد: مقتدرہ قومی زبان، ۱۹۹۵ء)، ص ۲۳۸۔
۹۔اسمٰعیل میرٹھی، کلیاتِ اسمٰعیل(میرٹھ:اورینٹل پبلشنگ کمپنی، ۱۹۱۰ء)، ص ۲۷۹۔
بحوالہ رؤف پاریکھ، ذکر اضافت کھانے اور اضافت کے اضافے کا، مشمولہ قومی زبان، شمارہ جنوری ۲۱۰۹ء،
(کراچی:انجمن ترقیِ اردو پاکستان)، ص۷۷۔
۱۰۔ رؤف پاریکھ، اردو کے چند نادر الفاظ و تراکیب، مشمولہ مباحث، مدیر ڈاکٹر تحسین فراقی، شمارہ جولائی تا دسمبر ۲۰۱۲ء،
(لاہور:اردو منزل ۳۲۵۔ای جوہر ٹاؤن )، ص۲۳۵۔
۱۱۔ڈاکٹر غلام مصطفی خان، جامع القواعد حصّہ نحو (لاہور: اردو سائنس بورڈ، ۲۹۹۔اپر مال،۲۰۰۳ء)، ص۵۴۔
۱۲۔عبدالستار صدیقی، مقالات صدیقی، پہلا حصہ، (لکھنؤ: اتر پردیش اکیڈمی، ۱۹۸۳ء)،ص۱۴۵۔
بحوالہ رؤف پاریکھ، ذکر اضافت کھانے اور اضافت کے اضافے کا، مشمولہ قومی زبان، شمارہ جنوری ۲۱۰۹ء،
(کراچی:انجمن ترقیِ اردو پاکستان)، ص۷۶۔