زندگی اور موت کا چولی دامن کا ساتھ ہے، اس لیے اس تلخ حقیقت کو دنیا کی کوئی طاقت جھٹلانے کی حماقت نہیں کرسکتی کہ ہر ذی روح کو ایک نہ ایک دن موت کا مزا چکھنا ہے۔ لیکن اس یقین اور ایمان کے باوجود دنیا میں شاید ہی کوئی انسان ایسا ہوگا جو موت کی اس تلخ حقیقت کو بخوشی قبول کرنے کے لیے تیارہو۔ ویسے بھی حضرتِ انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ دنیا کی رنگینیوں میں کھوکر جہاں موت کی تلخی کو بھلا بیٹھتا ہے، وہیں دنیا میں مگن ہوکر اسے چھوڑنے کے لیے ذہناً اور فطرتاً تیار نہیں ہوتا، اس لیے جب اُس کا کوئی قریبی فرد اِس عارضی اور فانی دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اُسے اپنے ان پیاروں کے بچھڑنے کا درد جہاں فوری طور پر زیادہ شدت کے ساتھ محسوس ہوتا ہے وہیں جدائی کے اس زخم کو بھرنے میں بھی ایک عرصہ لگ جاتا ہے، اور بسا اوقات چاہنے کے باوجود نہ تو یہ زخم بھرتا ہے اور نہ ہی انسان بچھڑنے والے کا یہ غم باآسانی بھلا پاتا ہے۔ پچھلے دنوں ہم سے ہمارے ایسے ہی دوانتہائی پیارے دوست یوں اچانک رخصت ہوئے کہ کئی دن گزرنے کے باوجود ہمیں یقین نہیں ہوپارہا ہے کہ ہمارے یہ دونوں محبوب اور عزیز دوست ہم سے بچھڑ چکے ہیں۔
ہری پور کے ایک دورافتادہ گائوں بدھوڑا سے تعلق رکھنے والے غلام نبی ایڈووکیٹ سے ہماری پہلی یک طرفہ ملاقات آج سے اکتیس سال قبل 1988ء میں کالام میں اپنی پوری آب و تاب اور رعب ودبدبے سے دھاڑتے چنگھاڑتے دریائے سوات کے کنارے واقع ایک زیر تعمیر ہوٹل کی چھت پر ٹینٹوں اور قناتوں سے بسائی گئی ایک عارضی بستی(اجتماع گاہ) میں بطور سامع ہوئی تھی۔ یہ اجتماع اصل میں طلبہ کی سب سے بڑی اور منظم ترین تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کی پانچ روزہ تربیت گاہ کے سلسلے میں منعقد کیاگیا تھا، جس میں سارے صوبے سے مختلف کالجوں اور جامعات کے مختلف درجوں کے ڈھائی تین سو منتخب طلبہ شریک تھے۔ واضح رہے کہ اس طرح کے تربیتی اجتماعات اور فکری و نظریاتی نشستیں جمعیت کی ہمہ گیر تربیتی سرگرمیوں کا مستقل اور مسلسل حصہ ہیں، لہٰذا اس پروگرام میں ملک بھر سے چیدہ چیدہ علمائے کرام، دانشوروں، سیاسی قائدین اور جمعیت کے سابق فکری اور نظریاتی راہنمائوں کو بحیثیت مربی ومقررمدعو کیاگیا تھا، جن میں اُس وقت کے امیر جماعت محترم قاضی حسین احمد مرحوم سے لے کر، اُس وقت کے صوبائی امیر مولانا گوہر رحمان مرحوم، معراج الدین خان مرحوم اور ڈاکٹر فخر الاسلام صاحب تک تحریکِ اسلامی کے سب نامی گرامی راہنما شامل تھے۔ البتہ تین دہائیاں گزرنے کے باوجود جن دو مربین کو شعور کی منزل پانے کے بعد ہم نے اپنے گمنام ہیرو بنا لیا تھا اُن میں ایک افغان جہادی راہنما استاد یاسر شہید تھے، جب کہ دوسری شخصیت عظمتِ رفتہ کے اسلامی مشاہیر کی طرح گمنامی اور عجز وانکسار کی زندگی گزارنے والے مرحوم غلام نبی ایڈووکیٹ تھے۔ مجھے اکتیس برس قبل کے وہ لمحات آج بھی اس طرح یاد ہیں گویا یہ کل کی بات ہے جب استاد یاسر نے ’’جہاد فی سبیل اللہ، اقامتِ دین اور شہادتِ الی اللہ‘‘، اور غلام نبی ایڈووکیٹ نے ’’کیا ہے تُو نے متاعِ غرور کا سودا‘‘ کے انقلابی موضوعات پر تقاریر کرتے ہوئے تمام شرکاء کو دھاڑیں مارمار کر رونے پر مجبور کردیا تھا۔ غلام نبی ایڈووکیٹ کی یہ تقریر، جو شاید اُن کے دل کی آواز تھی، اور ایسی کوئی آواز چونکہ جب دل سے نکلتی ہے تو اثر رکھتی ہے، اس لیے میں اپنی ساری زندگی اس تقریر کے زیراثر غلام نبی ایڈووکیٹ کی درویش اور فقیر صفت انقلابی شخصیت کے سحر سے نہیں نکل سکا۔ شاید بعد میں غلام نبی ایڈووکیٹ کو خود بھی اپنی یہ تقریر یاد نہیں رہی ہوگی، لیکن میں چونکہ اُن کا گرویدہ ہوچکا تھا اس لیے عمر بھر جب بھی اُن سے ملاقات ہوتی تو میں اُن سے بڑی عقیدت اور احترام سے بالکل اس طرح ملتا جس طرح کوئی شاگرد اپنے کسی انتہائی معزز اور مشفق استاد، یا پھر کوئی مرید اپنے پیر ومرشد سے ملتا ہے۔ ان چنیدہ ملاقاتوں کے دوران نہ تو کبھی غلام نبی ایڈووکیٹ نے میری اس عقیدت کی وجہ پوچھی، اور نہ ہی میں نے کبھی کسی موقع پر اُن کو کوئی ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جس سے انہیں اس عقیدت کی وجہ پوچھنے کی ضرورت محسوس ہوتی۔ وہ چونکہ نام ونمود، جاہ و منصب اور خودستائشی کے امراض سے کوسوں دور تھے اس لیے میرا خیال ہے کہ میری اُن سے غائبانہ عقیدت اور محبت کی وجہ سے شاید زندگی کے اختتام تک وہ میرے نام اور تعارف سے ناواقف رہے۔
غلام نبی ایڈووکیٹ حقیقی معنوں میں اُس دور کے ایک ایسے صوفی بزرگ تھے جو اپنی ذات سے زیادہ دکھی انسانیت کی بے لوث خدمت پر یقین رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ نہ صرف عمر بھر خاموشی کے ساتھ یتیم و بے سہارا بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کرتے رہے بلکہ بطور وکیل اُن کے سائلین کی اکثریت بھی معاشرے کے پسے ہوئے غریب اور کمزور طبقات پر مشتمل ہوتی تھی، جن سے مقدمات کی فیس لینا تو درکنار وہ الٹا ان مفلوک الحال سائلین کی بڑی رازداری اورخاموشی کے ساتھ اپنی جیب سے مالی مدد بھی کرتے تھے۔ غلام نبی ایڈووکیٹ کی غریب پروری اور مزدور دوستی کا اندازہ اُن کا اعلیٰ پائے کا وکیل ہونے کے باوجود بار اور عوامی سیاست کے بجائے مزدوروں کے حقوق کی خاطر ملک گیر مزدور تحریک نیشنل لیبر فیڈریشن اور پاکستان ریلوے کی سب سے بڑی مزدور تنظیم پریم یونین کے پلیٹ فارم سے مزدور سیاست میں سرگرم حصہ لینے سے لگایا جاسکتا ہے۔انہوں نے اپنی ساری پیشہ ورانہ زندگی میں کبھی کسی مزدور سے کسی مقدمے کی فیس وصول نہیں کی، جو ان کی اصول پسندی اور ان کے ظاہر وباطن اور ان کے قول وفعل کی یکسانیت کا عملی ثبوت تھا۔
غلام نبی ایڈووکیٹ چونکہ آئین، قانون اور جمہوریت کی بالادستی پر غیر متزلزل یقین رکھتے تھے، اس لیے وہ ان محاذوں پر بھی ہمیشہ صفِ اوّل میں نظر آتے تھے۔ وہ پشاور کے پہلے وکیل راہنما تھے جنہوں نے جنرل پرویزمشرف کی فوجی بغاوت اور آئین کی معطلی، اور معزز ججوں کی گرفتاری کے خلاف وکلا کی تحریک میں پشاور کی سڑکوں پر نکل کر نہ صرف بھرپور احتجاج ریکارڈ کرایا تھا، بلکہ قید وبند، جبری اغوا اور تشدد کی صورت میں اس حق گوئی اور بے باکی کی بھاری قیمت بھی چکائی۔ یہ غلام نبی ایڈووکیٹ کی مخلص اور اصول پسند شخصیت کا کمال تھا کہ وہ وکلا برادری میں تمام تر نظریاتی اختلافات کے باوجود نہ صرف یکساں مقبول تھے بلکہ جونیئراور سینئر تمام وکلا نظریاتی اور سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر ان کا دل وجان سے احترام بھی کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس سیٹھ وقار جنہوں نے جنرل پرویزمشرف کے خلاف غداری کے حالیہ مقدمے میں اپنے تاریخ ساز فیصلے کے ذریعے عدلیہ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کروا لیے ہیں، کی غلام نبی مرحوم کے ساتھ ان کی انقلابی طبیعت اورغریب پروری کی وجہ سے ایک خاص قسم کی محبت اور انسیت تھی۔ ان کے دوستوں کا کہنا ہے کہ بیماری کے آخری ایام میں جب غلام نبی صاحب انتہائی علیل ہوکر اپنے علاج سے بے اعتنائی برت رہے تھے، جب اس کا پتا جسٹس سیٹھ وقار کو چلا تو انہوں نے غلام نبی صاحب کو بلواکر اس بات کا پابند بنایا کہ وہ نہ صرف اپنا علاج باقاعدگی سے کراتے ہوئے انہیں اپنے علاج سے مسلسل باخبر رکھیں گے بلکہ انہیں ازراہِ تفنن کہا کہ آپ کو تو معلوم ہے کہ عدم تعمیل کی صورت میں آپ پر کون سا قانون لاگو ہوگا، جس کے بعد کہیں جاکر وہ اپنا باقاعدہ علاج کرانے پر رضامند ہوئے۔
غلام نبی ایڈووکیٹ پچھلے دنوں چند روزہ علالت کے بعد خالقِ حقیقی سے جاملے، جن کے جنازے میں ہر مکتبِ فکر کے ہزاروں افراد کے علاوہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سیٹھ وقار، کئی دیگر معزز جج صاحبان، وکلا، ان کے چاہنے والوں اور علاقے کے عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ جب کہ بعد ازاں انہیں ان کے آبائی قبرستان واقع بدھوڑا ہری پور میں ہزاروں اشک بار آنکھوںکی موجودگی میں سپردِ خاک کردیا گیا۔
غلام نبی ایڈووکیٹ کی اچانک رحلت کے بعد چند دنوں کے فرق سے ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑنے والے ہمارے دوسرے دیرینہ دوست اور رفیقِ کار ضلع دیر پائین کے علاقے تور ورسک سے تعلق رکھنے والے خیبر پختون خوا کے نامور صحافی،کالم نگار اور مصنف برادرم رشید احمد صدیقی تھے۔ رشید بھائی سے بھی ہماری پہلی ملاقات لگ بھگ تیس سال قبل اسلامی جمعیت طلبہ کے توسط سے ہوئی تھی۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب وہ اسلامیہ کالج اور ہم ایف جی ڈگری کالج کے طالب علم تھے۔ ان تیس برسوں میں ہماری بیسیوں ملاقاتیں ہوئی ہوں گی، لیکن ان ملاقاتوں کے دوران مرحوم رشید احمد صدیقی سے محبت اور اخوت کے تعلق میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا اور اس تعلق میں آخری دم تک ذرہ برابر بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ شاید ہمارے اس تعلق کی نظریاتی اساس مشترک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اور خاص وجہ ہم دونوں کا ایک پیشے (صحافت) سے منسلک ہونا بھی تھا۔ رشید بھائی کی ہمہ گیر شخصیت اور ان کی سوچ اور فہم وفراست کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ان کے لیے بے چین روح کے الفاظ استعمال کیے جائیں تو شاید بے جا نہیں ہوں گے۔ عہدِ شباب میں اسلامی انقلاب کے لیے ان کی بے قراری و بے صبری تحریک سے وابستہ ہر فرد کے لیے ایک عملی نمونہ اور قابلِ تقلید مثال ہے۔ رشید بھائی اپنی مختصر مگر پُرآشوب زندگی میں کئی مشکل حالات سے گزرے، لیکن ان تمام تر نامساعد حالات اور زندگی کی تلخیوں کے دوران نہ تو کبھی اپنی قسمت کا رونا رویا، اور نہ ہی کبھی اپنی عزتِ نفس اور قلندرانہ شان اور وقار پرکوئی آنچ آنے دی۔ رشید بھائی بچپن میں اسکول سے گھر جاتے ہوئے ایک حادثے میں اپنے ایک پائوں سے معذور ہوگئے تھے، لیکن انھوں نے اپنی اس معذوری کوکبھی بھی اپنی زندگی کا روگ نہیں بنایا، بلکہ اپنی اس ایک معذور ٹانگ کے ساتھ انہوں نے اللہ کے راستے میں جتنی مسافت طے کی اتنی شاید اچھے بھلوں کے حصے میں بھی نہیں آئی ہوگی۔ یہ طرزِعمل دراصل اُن کے اپنے عقیدے اور نصب العین سے حقیقی عشق کا نتیجہ تھا، ورنہ خوئے بد را بہانہ بسیار کے مصداق وہ اپنی اس معذوری کو جواز بناکر اپنا دامن اس کٹھن کام سے بچاکر پچھلی گلی سے نکل سکتے تھے۔ ان کی معذوری کو دیکھ کر شاید اس پر کسی کو اعتراض بھی نہ ہوتا۔ لیکن وہ عزم وہمت اور استقامت کا راستہ اپنا کر یقیناً فائدے کا مستقل سودا کرنے میں کامیاب رہے۔ رشید بھائی نے ایف ایس سی کے بعد پشاور کی زرعی یونیورسٹی میں داخلہ تو لے لیا تھا لیکن اُن کا دل اس ماحول میں ایک دن کے لیے بھی نہیں لگا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تھوڑے ہی عرصے کے بعد انہوں نے اس شعبے کو خیرباد کہتے ہوئے شعبہ صحافت میں داخلہ لے لیا تھا، جہاں سے ماسٹر کرنے کے بعد جہاں خیبرپختون خوا سے اسلامی جمعیت طلبہ کے زیر انتظام شائع ہونے والے بچوں کے پہلے اور واحد ماہنامہ رسالے ’’مجاہد‘‘ اور بعد ازاں ’’شاہین ڈائجسٹ‘‘ کی ادارت کی ذمہ داریاں سنبھالیں، وہیں انہیں پشاور کے تقریباً تمام نامی گرامی اخبارات روزنامہ مشرق،آج، ایکسپریس،پاکستان،نئی بات،الاخبار، جسارت ، میدان میں بطور سب ایڈیٹر اپنی قابلیت اور پیشہ ورانہ مہارت منوانے کا موقع بھی ملا۔رشید بھائی کو سرخیاں نکالنے پر ملکہ حاصل تھا،صحافتی برادری میںان کی شہ سرخیوں کاہمیشہ چرچاہوتا تھا۔ادارتی امور کے ساتھ ساتھ وہ بہترین کالم نگار بھی تھے، ’’آجکل‘‘ کے عنوان سے ان کے کالم بہت عرصے تک پشاور کے کئی نامی گرامی اخبارات میں باقاعدگی سے چھپتے رہے، جن میں طنز ومزاح کے ہلکے پھلکے انداز میں وہ روزمرہ کے حالات پر انتہائی دلچسپ انداز میں خامہ فرسائی فرماتے تھے۔ جب روزنامہ جسارت نے اپنا اسلام آباد ایڈیشن شروع کیا توکئی نامی گرامی صحافیوں کی موجودگی اور خواہش وکوششوں کے باوجود پشاور سے بیورو چیف کا قرعہ فال برادرم رشید احمد صدیقی کے نام نکلا، جو اُن کی پیشہ ورانہ قابلیت اور اپنے نظریے سے کمٹمنٹ کا عملی ثبوت تھا۔ انہوں نے دن رات ایک کرکے جسارت کی کامیاب لانچنگ میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا، لیکن بعد میں اس سچے اور حقیقی عاشقِ رسولؐ کو توہینِ رسالت کے ایک جھوٹے اور من گھڑت مقدمے میں پھنساکر جہاں جسارت کو ایک سازش کے تحت لانچنگ کے چند ماہ بعد ہی بندکردیا گیا وہیں رشید بھائی کو اس نام نہاد مقدمے میں کئی کٹھن مراحل سے بھی گزرنا پڑا۔ رشید بھائی چونکہ ایک سچے عاشقِ رسولؐ اور بہترین صاحبِ قلم شخصیت تھے اس لیے انہوں نے ’’بچوں کے رسولؐ‘‘،’’آٹھ جنتی‘‘ اور ’’پانچ ستارے‘‘ کے موضوعات پر دینی کتب تصنیف کرکے انتہائی کم عمری اور بے پناہ نامساعد حالات میں اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ گردوں اور ہیپاٹائٹس کی لاعلاج بیماریوں میں مبتلا ہونے کے باوجود رشید احمد صدیقی نے جہدِ مسلسل کی ایسی زندگی بسر کی جس میں بڑے بڑوں کی ہمت و استقامت جواب دے جاتی ہے، لیکن یہ رجلِ رشیدآخر دم تک چٹان کی مانند ڈٹا اور کھڑا رہا۔ وہ آخری چند برسوں میں شدتِ بیماری کے باوجود بھی اسلام اور تحریکِ اسلامی کے لیے سوچنے، لکھنے اور نشرواشاعت کے لیے بے چین رہے۔ آج سے چند سال پہلے جب رشید بھائی کی گردوں اور ہیپا ٹائٹس کی بیماریاں تشخیص ہوئیں تو چند احباب نے مل کر ان کی علاج و دیگر حوالوں سے معاونت کی کوشش کی، لیکن رشید بھائی کی بیماری لاعلاج حد تک پیچیدہ ہوچکی تھی۔ اکثر دوست احباب نے ان کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی، لیکن شاید اللہ تعالیٰ کو ان کی مزید زندگی منظور نہیں تھی، اس لیے کل نفس ذائقہ الموت کے مصداق وہ ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ کر اپنے خالقِ حقیقی کے پاس واپس چلے گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
غلام نبی ایڈووکیٹ اور برادرم رشید احمد صدیقی کی اچانک اور غیر متوقع اموات سے تحریک کی صفوں میں پیدا ہونے والا خلا شاید عمر بھر پُر نہیں ہوسکے گا، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ایسے میں جب عام لوگوں کی رحلت پر بھی آج کل تعزیتی تقاریب کا انعقاد ایک عام روایت ہے، لیکن ہماری بے حسی کی انتہا دیکھیے کہ کئی دن گزرنے کے باوجود اب تک وکلا اور صحافتی برادریوں (ہائی کورٹ بار اور پریس کلب)کی سطح پر تو کجا، تحریک ِاسلامی میں بھی کسی سطح پر اب تک ان دونوں نابغۂ روزگار شخصیات کی یاد میں کوئی تعزیتی تقریب منعقد نہیںکی گئی ہے۔ البتہ یہ بات لائقِ ستائش ہے کہ اس سلسلے میں یہ اعزاز ایک ایسے ادارے اور شخصیت کے حصے میں آیا ہے جو نہ تو وکلا اور صحافت کے ادارے سے ہیں،اور نہ ہی تحریکِ اسلامی کے کسی بڑے عہدے پرفائز ہیں۔یہ اعزاز اور کریڈٹ محترم پروفیسرڈاکٹر فخر الاسلام اور ان کے ادارے پاکستان اسٹڈی سینٹر یونیورسٹی آف پشاور کے حصے میں آیا ہے، جہاں ان دونوں متذکرہ مرحومین کی یاد میں گزشتہ دنوں ایک مختصر مگر پُروقار تعزیتی ریفرنس منعقد کیا گیا جس سے پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام کے علاوہ سابق سیکریٹری ہیلتھ خیبر پختون خوا ڈاکٹر احسان الحق،جناب بابر علی ،ڈاکٹر عامر جمال، ڈاکٹر رئیس مغل،جناب خالد ریاض اورراقم الحروف نے اظہار خیال کیا، جس پرپروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام اور پاکستان اسٹڈی سینٹر مبارک باد کے مستحق ہیں۔
آخر میںاللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ غلام نبی ایڈووکیٹ اوربرادرم رشید احمد صدیقی کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور ان کے لواحقین اور چاہنے والوں کو اس عظیم سانحے پر صبرِ جمیل سے نوازے۔آمین