جماعت اسلامی پاکستان اسلام کو مکمل نظام اور ضابطۂ حیات سمجھتے ہوئے ملک کے طول و عرض میں اقامتِ دین کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ سیاسی میدان ہو یا فکری میدان… تعلیم کا دائرہ ہو یا صحت کا… جماعت اسلامی تطہیر افکار، اصلاحِ معاشرہ، تنظیمِ جماعت اور اصلاحِ حکومت سے اپنے انقلابی پروگرام کے ساتھ سرگرم عمل ہے۔ یہ وہ کارِ انبیاء ہے جس کو امتِ رسولؐ کی حیثیت سے ہمیں ادا کرنا ہے۔ یہ کام جہاں ہمارے لیے باعثِ سعادت ہے، وہیں ہم پر ایک بارِ امانت بھی ہے۔ تحریک کو اس وقت جو فکری چیلنج درپیش ہیں اُن سے نمٹنے کے لیے طویل المیعاد منصوبوں کی ضرورت ہے۔ اپنی بنیادوں پر قائم رہتے ہوئے نئی نسل کو بنیاد بناکر فکری خلا کو پُر کرنا ہے۔ اس وقت پورے ملک میں تحریکِ اسلامی کے براہِ راست اور تحریکِ اسلامی کے افراد کے قائم کردہ تعلیمی ادارے موجود ہیں جن میں لاکھوں طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کی ایسی بنیادی ذہن سازی کی جائے کہ وہ اسلام کو ایک مکمل نظام حیات کے طور پر سمجھتے ہوں، تحریک کی فکر سے ہم آہنگ ہوں اور اقامتِ دین کی جدوجہد کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتے ہوں۔
انہی مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ۔ شعبۂ تعلیم جماعت اسلامی سندھ کے زیراہتمام قبا آڈیٹوریم میں تعلیمی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں سندھ کے تمام اضلاع سے مندوبین نے شرکت کی۔ اس موقع پر امیر جماعت اسلامی صوبہ سندھ محمد حسین محنتی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے سے سیکھنا اور سمجھنا ہے۔ اسکولوں سے ایسے بچے فارغ ہوں جو ذہنی اور اخلاقی طور پر بہتر ہوں، ان کی تعلیمی استعداد قابلِ تعریف ہو، اور جو اقامتِ دین کی تحریک کو آگے بڑھا سکیں، اللہ تبارک و تعالیٰ نے بھی کلام پاک میں علم کے حصول پر بہت زور دیا ہے، اسلامی اسکولنگ سسٹم وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس کا بڑھتا ہوا رجحان ایک مثبت علامت ہے، اس سسٹم کے لیے باقاعدہ نصاب، نظام اور اساتذہ کی تیاری ناگزیر ہے، حکومتِ سندھ کے ایجنڈے پر سندھ ٹیکسٹ بورڈ سے اسلامی ہیروز کی تعلیمات کو حذف کرنا تشویش ناک اور قابلِ مذمت ہے۔ ہمارے نظامِ تعلیم کی بنیاد قرآن مجید پر رکھی گئی ہے، اس کے بغیر ہمارا نظامِ حیات کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اسلامک اسکولنگ سسٹم ایک فطری سوچ و فکر کا نام ہے جو انسان کو آگے بڑھنے کا جذبہ دیتا ہے۔ قیام پاکستان کا مقصد بھی ملک میں قرآن و سنت کے نظام کا قیام ہے، ہمیں تعلیمی میدان میں ہر وقت سرگرم عمل رہنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ انسان کی قدر و قیمت علم کی وجہ سے ہے، نصاب کے ساتھ اساتذہ اور والدین کا بھی نسلِ نو کی تربیت میں بڑا کردار ہوتا ہے، اسلام اور نظریۂ پاکستان سے ہم آہنگ نصاب ہی نوجوان نسل کی بہترین تربیت میں بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ اسلامک اسکولنگ سسٹم کے تحت چلنے والے اداروں کے اثرات معاشرے اور اردگرد کے ماحول پر نظر آنے چاہئیں۔
چیئرمین مرکزی تعلیمی کمیٹی جماعت اسلامی پاکستان سید شاہد ہاشمی نے کہا کہ ہمارے ساتھیوں نے جو باتیں کی ہیں وہ بڑی خوش آئند ہیں۔ تعلیم خود ایک تحریک ہے۔ دین کے دو اہداف ہیں: تعمیر انسان اور تعمیر جہاں۔ ہمیں طلبہ کی ذہنی تطہیر اور تعمیر افکار کرنی ہے جو انسان کو دہری شخصیت بننے سے روکتی ہے۔ اس وقت جو اسکول بزنس کے ادارے بن چکے ہیں ہمیں اُن تک بھی اپنی بات پہنچانی ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ شعبۂ تعلیم سندھ اداروں اور لوگوں کو یکسو کررہا ہے، اس کے لیے ایسی کانفرنسوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔
مذاکرہ ’’اسلامی اسکولنگ سسٹم… مقاصد، طریقہ کار اور نتائج‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے ڈائریکٹر اتالیق پاکستان شہزاد قمر نے کہا کہ اسکول معاشرے کی ضرورت ہیںٖ، اسکول ایسے اسپتال ہیں جہاں قوم کی بیماریوں کا علاج ہوتا ہے، اس کا نصاب اس کی دوا ہے۔ نصاب اس نقشے کا نام ہے جس پر چل کر ہماری پروڈکٹ تیار ہوتی ہے۔ ماضی میں اتالیق صرف شہزادے شہزادیوں کے لیے ہوتے تھے، آج ہمارے اسلامک اسکولنگ سسٹم نے تمام طلبہ کو ایسے اتالیق دیے ہیں جو ان کی تعلیمی استعداد کے ساتھ ان کی جسمانی صحت اور ذہنی تربیت کا بھی خیال رکھتے ہیں، اور ان کے والدین کی بھی تربیت کرنے میں کوتاہی نہیں برت رہے ہیں۔ ہمیں اس سسٹم کو مزید آگے بڑھانے کی جدوجہد جاری رکھنی ہوگی۔
ڈائریکٹر EDI محمد عظیم صدیقی نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ہمیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اطاعت گزاراساتذہ تیار کرنے ہوں گے، اسکولوں کے پرنسپل کو لیڈر کا کردار ادا کرنا ہو گا اور اسے تمام شعبوں میں مہارت حاصل کرنا ہوگی، جہاں وہ تعلیم و تربیت کے ساتھ نفسیاتی، سماجی مسائل کو حل کرنا بھی جانتا ہو۔ اس کے لیے ہمیں تعلیمی قائدین کی تیاری کرنا ہوگی، اور سندھ کے ہر ضلع سے پچیس پچیس نوجوان منتخب کرنے ہوں گے، اس طرح ایک سال میں ہم کو اچھے خاصے ٹرینر مل جائیں گے۔ ہمیں جدید ٹیکنالوجی سے بھی مدد لینا ہوگی۔
ریجنل ڈائریکٹر ’آفاق‘ ضیاء الحسن قادری نے کہا کہ اساتذہ کے بھی اپنے مسائل ہیں، ہمیں اُن کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا، ہمیں تعلیم و تربیت کے لیے ایسے افراد تیار کرنے ہوں گے جو اپنی کامیابی اور ناکامی کو تسلیم کرتے ہوں، جو سوچنے اور سمجھنے کی بہتر صلاحیت رکھتے ہوں اور مختلف الخیال لوگوں کے ساتھ خوش اسلوبی سے رہ سکیں، جو صحیح اور غلط میں تمیز کے ساتھ نیکی سے محبت، اور برائی سے نفرت کرتے ہوں۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ٹیکنالوجی میں اضافے کے باوجود معیار کیوں ختم ہورہا ہے۔ آفاق کی کتابیں طلبہ کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ ہم اردو کے علاوہ دیگر علاقائی زبانوں میں بھی کتب کی تیاری کررہے ہیں۔ اس وقت ملک میں تقریباً سوا لاکھ اسکول ہیں جن میں 30 ہزار سے زائد اسکولوں میں ہماری کتب پڑھائی جارہی ہیں، ہم اساتذہ کی تربیت کے لیے بھی کتابچے شائع کرتے رہتے ہیں۔
کانفرنس میں ممتاز ماہرینِ تعلیم، ڈائریکٹر رفاہ یونیورسٹی اسلام آباد ارشد بیگ، عثمان پبلک اسکول کے ڈائریکٹر معین الدین نیر، تنظیم اساتذہ سندھ کے سابق صدر محمد حسین سومرو، مصباح الہدیٰ صدیقی، مفتی مصباح اللہ، ناظم شعبۂ تعلیم سندھ ڈاکٹر محمد اسحاق منصوری و دیگر نے بھی اظہار خیال کیا۔ تقریب کی خوبصورت نظامت اے ڈی سومرو نے کی، جب کہ کانفرنس میں دو قراردادیں بھی پیش کی گئیں۔ قرارداد:1۔ پاکستان کے نظام تعلیم کو سرمایہ داری اور مادیت سے پاک کرکے اسلام کی بنیاد پر نظامِ تعلیم تشکیل دیا جائے، کیونکہ پاکستان کا موجودہ نظام تعلیم اور نصاب سرمایہ دارانہ نظام، الحاد، لادینیت، دنیا پرستی اور اسلام کا ایسا ملغوبہ ہے جو طلبہ و طالبات کی متضاد شخصیت تشکیل دے رہا ہے۔
دوسری قرارداد میں کہا گیا ’’اسلامی نظام تعلیم ہی استحکامِ پاکستان کی بنیاد اور ضمانت ہے‘‘۔ حکومت خواہ وفاقی ہو یا صوبائی اُسے یکسوئی کے ساتھ پاکستان کے نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم میں نئی نسل کی اسلامی بنیادی تعلیمات اور عقائد کے مطابق نظام کو رائج کرنا ہو گا۔ اس سے ہٹ کر کی گئی تبدیلیوں سے پاکستان کی سالمیت اور استحکام کو شدید خطرات لاحق ہوں گے۔