چودھری غلام محمدؒ دینِ اسلام کے مخلص سپاہی اور اسلام کے ایسے عاشقِ صادق تھے کہ ُان کا ایک ایک لمحہ اقامت ِ دین کی جدوجہد میں گزرا۔ مولانا سید ابوالا علیٰ مودودیؒ نے چودھری غلام محمدؒ کے جنازے کے موقع پر اپنے جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کیا:
’’چودھری غلام محمد مرحوم نے جس جوش، محنت اور وقت و مال کی قربانی کے ساتھ دین کی خدمت کی ہے اس کی میں تعریف نہیں کرسکتا۔ میرے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں کہ میں اللہ کے اس مخلص بندے کی تعریف کرسکوں۔ میں گواہی دیتا ہوں اور اس ملک کے لاکھوں باشندے گواہ ہیں کہ چودھری صاحب نے دین کی خدمت میں دانستہ کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اپنی حیات کا خطرہ مول لے کر انہوں نے یہ فریضہ ادا کیا۔ خرابیِِ صحت کے باوجود انہوں نے بیرونی ملکوں کے سفر کیے۔ ان کی کوششوں سے افریقہ میں اسلامی مراکز قائم ہوئے، میں خود تو وہاں نہیں جا سکا مگر وہاں کی رپورٹس حوصلہ افزا ہیں۔ نیز چودھری صاحب فلسطین کے مسئلے پر تمام اسلامی ممالک میں رائے عامہ ہموار کرتے رہے۔
خدا کے یہاں اس کے بندوں کی گواہی مقبول ہوتی ہے اور آپ سب گواہ ہیں کہ چودھری صاحب نے حتی الوسع دین کی خدمت کی۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان کی خدمات کو قبول کرے اور اگر کوئی بتقاضائے بشری کوتاہی ہوئی ہے تو وہ انہیں معاف کرے۔‘‘
ولی اللہ میاں طفیل محمد سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان نے ان کی وفات پر کہا:
’’جن رفقائے جماعت سے میرا حقیقی بھائیوں جیسا تعلق ہے ان میں چودھری غلام محمد مرحوم نمایاں مقام رکھتے تھے۔ میرے خیال میں تو جماعت اسلامی میں مولانا مودودیؒ کے بعد تحریکی قدرو قیمت کے لحاظ سے چودھری غلام محمد مرحوم ہی کی شخصیت تھی۔ انتہائی معاملہ فہم اور جماعت کے رنگ میں سرتاپا رنگے ہوئے۔ بسترِ مرگ پر لیٹے ہوئے بھی اگر انہیں کسی کام کی فکر تھی تو وہ جماعت اسلامی ہی کے کام کی تھی۔ جماعت کے رفقا کے ساتھ ان کا طرزعمل بالکل قریبی عزیزوں جیسا تھا۔ انہیں ہمیشہ اس بات کا خیال رہتا کہ جماعت کا کام کرنے والا کوئی شخص کسی پریشانی یا تکلیف میں مبتلا نہ ہونے پائے۔ اگر کسی کو پریشان حال دیکھتے تو اپنی پریشانی کو پسِ پشت ڈال کر پہلے اس کی تکلیف رفع کرتے۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ اسلام کا ایک مکمل نمونہ تھے۔ سچ پوچھیے تو وہ اپنی ذات میں ایک جماعت تھے، جب بھی وہ کسی کام کو کرنے کا ارادہ کرلیتے تو اس کے لیے جان لڑا ڈالتے۔ نہ ان میں کوئی احساسِ کمتری تھا، نہ احساسِ برتری۔
چودھری غلام محمد صاحب جس صلاحیت کے آدمی تھے، جماعت اسلامی کو اس صلاحیت کا آدمی تو اب شاید مشکل ہی سے میسر آئے، لیکن ان کے تربیت یافتہ رفقا ضرور ان کے کام کو سنبھال لیں گے۔‘‘
مشہور قانون دان اور دانش ور جناب اے کے بروہی فرماتے ہیں:
’’چودھری غلام محمد مرحوم ایک عظیم انسان تھے۔ میرے ساتھ ان کے گہرے اور خصوصی تعلقات تھے۔ انہیں جب بھی کوئی دینی یا سیاسی معاملہ درپیش ہوتا تو مجھے ٹیلی فون کرتے تھے۔ اگر معاملہ سیدھا سادہ ہوتا تو ٹیلی فون کے ذریعے ہی بات چیت ہوجاتی، ورنہ خود میرے ہاں آجاتے اور تفصیل سے گفتگو ہوتی اور تبادلۂ خیال ہوتا۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ جماعت اسلامی کے مخلص ترین انسانوں میں سے ایک ہیں، اور یہ فی سبیل اللہ سیاست میں داخل ہیں۔
انہیں کوئی خاص مقصد یا سیاسی مستقبل کا کوئی پھل سامنے نظر نہیں آتا تھا جس کے لیے وہ کوشاں ہوں۔ بس خدا کی رضا ہی ان کے پیش نظر تھی اور یہی مقصودِ زندگی تھا۔ بیرونی ممالک کے دوروں سے جب بھی واپس آتے تھے تو مجھے وہاں کے حالات سے ضرور مطلع کرتے تھے۔ ان کے جذبہ و جنوں سے نظر آتا تھا کہ وہ بڑی جانفشانی اور محکم یقین کے ساتھ بندوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے اور ان کی تکالیف دور کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں، اور یہ چیز ان کے مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔
مجھے وہ واقعہ پوری طرح یاد ہے جب میں ایوب خان کے دورِ اقتدار میں وکیل کی حیثیت سے ہائی کورٹ میں پیش ہوا تھا۔ کارروائی شروع ہوئی تو میری پریشانی کی کوئی حد نہیں تھی، گویا کہ پوری دنیا کا درد میرے سینے میں سما گیا ہے، لیکن میں نے دیکھا کہ مولانا مودودی اور چودھری صاحب کے چہروں پر تبسم تھا جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ میں نے چودھری صاحب سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے کہ میرا سر تو پوری دنیا کے بوجھ میں دبا ہوا محسوس ہوتا ہے لیکن آپ پر کوئی اثر ہی نہیں ہے۔ اس کے جواب میں چودھری صاحب نے مجھے حٰم السجدہ کی آیت پڑھ کر سنائی۔
(ترجمہ)’’ جن لوگوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے اور اس پر جم گئے، ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں۔‘‘
چودھری صاحب سے میرے تعلقات آخری لمحے تک برابر قائم رہے۔ ایک روز میں نے اچانک سنا کہ انہوں نے سفرِ آخرت اختیار کیا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ کینسر کے مریض تھے۔ حالانکہ ان کی سرگرمیوں اور چہرے مہرے سے کبھی نظر نہیں آیا کہ وہ اس موذی مرض کا شکار ہیں۔ انہوں نے کبھی اس بیماری کا ذکر بھی تو نہیں کیا تھا۔ ان کے انتقال کے وقت میں ان کے گھر گیا، مکان کی سادگی سے محسوس ہوا کہ اس شخص نے تو اپنی دنیوی زندگی کے لیے کچھ نہیں کیا، وہ بڑے درویش انسان تھے۔
میں کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان میں سیاسی اور مذہبی کارکن کی حیثیت سے میں نے اُن جیسا انسان نہیں دیکھا۔ بین الاقوامی حالات پر ان کی ایسی وسیع نظر تھی کہ ہمارے سیاست دانوں میں بہت کم لوگ ہوں گے جو ایسی معلومات رکھتے ہوں۔ ایسے لوگوں کا کردار آئیڈیل نوعیت کا حامل ہے۔ ضرورت ہے کہ اسے سامنے لایا جائے تاکہ اس سے عملی زندگی میں رہنمائی اور جدوجہد کا جذبہ حاصل کیا جا سکے۔ یہ قوم پر احسان ہوگا۔‘‘
مولانا جان محمد بھٹو سے ان کا عمر بھر کا ساتھ تھا، وہ فرماتے ہیں:
’’چودھری غلام محمد مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاسوں میں بہت کم بولتے تھے، لیکن جب کسی مسئلے پر گفتگو کرتے تو پوری شوریٰ ہمہ تن گوش رہتی، اور مجھے یاد نہیں ہے کہ شوریٰ میں مرحوم کی طرف سے کوئی تجویز یا مشورہ پیش ہوا ہو اور وہ مسترد ہوا ہو۔ بعض اوقات مولانا مودودی مرحوم و مغفور ان کی رائے اور ذہانت پر داد دیتے تھے۔ چودھری صاحب سندھی تہذیب سے پوری طرح آشنا تھے۔ وہ لباس بھی زیادہ تر سندھی شلوار اور قمیص پہنتے تھے۔ اندرون سندھ کے دیہات میں ان کے ساتھ میرا بہت سفر رہا ہے، وہ سندھی زبان آسانی سے اور صاف بول لیتے تھے۔ سندھ کے متعدد وڈیروں اور انتظامیہ کے افسروں سے ان کے اچھے روابط تھے، وہ سب چودھری صاحب کا احترام کرتے تھے۔ چودھری صاحب بہت سارے وڈیروں سے جماعت کے لیے ماہانہ چندہ لیا کرتے تھے۔ حاجی محمد صالح وسان صاحب نے میرپورخاص میں مدرسہ قائم کرنے کے لیے تین سو ایکڑ زمین وقف کی اور دو لاکھ روپے چندہ دیا تو یہ سب چودھری صاحب کی وجہ سے ہی تھا۔ ان کی شخصیت میں ایسی دلکشی تھی کہ بڑے بڑے لوگ ان پر اعتماد کرلیتے تھے۔ اندرون سندھ کا کوئی تحریکی ساتھی اگر کراچی چلا جاتا تو چودھری صاحب سے مل کر وہ کوئی اجنبیت محسوس نہیں کرتا تھا۔‘‘
چودھری غلام محمدؒ حساس دل اور روشن دماغ کے مالک تھے۔ ان کی تحریریں کم ہیں، لیکن جو بھی ہیں ان میں ان کی شخصیت کی روشن فکر جھلکتی ہے، انھی میں ایک زیر نظر کتاب میں طبع کردی گئی ہے۔
حافظ محمد ادریس تحریر فرماتے ہیں:
’’چودھری غلام محمد بہت ذہین دانش ور اور دوررس نگاہ کے مالک تھے۔ انہوں نے ماہنامہ ’’چراغِ راہ‘‘ جیسے پرچے کو چار چاند لگا دیے۔ وہ عموماً کم لکھا کرتے تھے اور زیادہ تر شخصیات کے تیار کرنے میں اپنا قیمتی وقت صرف کرتے تھے۔ تاہم انہوں نے جماعت کی تاریخ اور اہم واقعات کے بارے میں اتنا کچھ لکھا ہے کہ جماعت کی تاریخ پر ایک پوری کتاب ان کے قلم سے تیار ہوگئی۔ ادارہ معارف اسلامی کی طرف سے شائع کی گئی علمی کتاب ’’تذکرہ سید مودودی‘‘ کی تین جلدیں انتہائی معلومات افزا اور ایمان افروز تحریروں سے مزین ہیں۔ تذکرہ سید مودودیؒ کی جلد دوم میں چودھری صاحب کا طویل مضمون صفحہ نمبر 449 سے 631 تک مستند معلومات کا ایک عظیم مرقع ہے۔ اس مضمون کو جب بھی پڑھا بہت لطف آیا۔
چودھری غلام محمد مرحوم نے اپنی اس تحریر میں جماعت اسلامی کی تاریخ بھی بیان کی ہے اور تاسیسی پس منظر پر بھی خوب روشنی ڈالی ہے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے مسلمانوں کی حالت کا پورا تجزیہ کیا ہے، پھر کانگریس، مسلم لیگ، تحریک خاکسار کے تذکرے کے ساتھ قادیانیت اور فتنہ انکارِ حدیث پر بھی قلم اٹھایا ہے۔ اشتراکیت اور دیگر ازمز (isms) کا بھی خوب پوسٹ مارٹم کیا ہے۔ اس کے بعد سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کاوش کے مختلف ادوار کا حال قلم بند کیا ہے۔ دارالاسلام پٹھانکوٹ، ترجمان القرآن، علامہ اقبال کی مولانا مودودی کو پنجاب آنے کی دعوت، چودھری نیاز علی خاں اور ان کے ایثار کے ساتھ ساتھ ہندوئوں کی مختلف اسلام دشمن سرگرمیوں بالخصوص شدھی تحریک کا بھی تجزیہ کیا ہے۔
قیامِ پاکستان سے قبل جماعت اسلامی کی تشکیل و تاسیس، اور پھر قیامِ پاکستان کے بعد جماعت پر آنے والے مختلف بحران سبھی اس کتاب کا حصہ ہیں۔ دستورِ جماعت کی تشکیل سے لے کر قیامِ پاکستان کے بعد مہاجرین کی خدمت اور دیگر موضوعات کو قلم بند کیا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر جامع تحریر اس کتاب میں شامل ہے۔ دستورِ پاکستان اور قراردادِ مقاصد جیسے اہم موضوعات کو بھی بڑی خوب صورتی کے ساتھ لکھنے کے بعد جماعت پر آنے والے ابتلا و آزمائش کا حال بھی لکھا ہے۔ غرض یہ تحریر ایک ایسی دستاویز ہے جس کی ہر بات مستند اور دل میں اتر جانے والی ہے۔
ادارہ معارفِ اسلامی کے رفقا کے ساتھ مشاورت کے بعد یہ طے پایا کہ اس مضمون کو الگ کتاب کی صورت میں شائع کیا جائے تاکہ جماعت کی تاریخ کے اہم گوشے شائقین تک پہنچ سکیں۔ یہ کتاب چودھری صاحب کے نام سے بہت پہلے چھپ جانی چاہیے تھی، تاہم دیر آید درست آید کے مصداق اب یہ انمول تحریر اُن لوگوں تک پہنچا کر ہمیں مسرت ہوگی جو چودھری صاحب کی شخصیت کو بھی جانتے ہیں اور اُن کی اس تحریر سے بھی ان شاء اللہ مستفید ہوں گے۔‘‘
کتاب کے محتویات درج ذیل ہیں:
٭تاریخ جماعت اسلامی: تاسیسی پس منظر
مسلمانوں کا سیاسی انتشار، ذہنی اور فکری انتشار، ہندوستان میں اسلام کی عام حالت، مغرب کی مادہ پرستانہ ملحدانہ تہذیب، لادینیت، قوم پرستی، حاکمیتِ جمہور، تین اہم ردِعمل، مرزا غلام احمد قادیانی، منکرینِ حدیث، اشتراکیت، قادیانیت، علمائے کرام کے درمیان اختلاف، شدھی تحریک، وقت کی ضرورت، آغازِ کار اور ادارہ دارالاسلام، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن، علامہ اقبال کی دعوت
٭شدھی کی نئی تحریک
دام ہم رنگِ زمین، تحریک اسلامی، خاکسار تحریک، مسلم لیگ، مسلم قوم پرستی، اعتراضات، مشکلات اور ان کا جواب
٭جماعت اسلامی
تشکیلِ جماعت، دستورِ جماعت، شرائطِ رکنیت، امارت، ابتدائی لائحہ عمل، شعبہ علمی و تعلیمی تحقیق، شعبہ نشرو اشاعت، شعبہ تنظیم، شعبہ مالیات، شعبہ دعوت و تبلیغ، تنظیم، ردعمل، دوبارہ دارالاسلام، ملک کے حالات اور جماعت کا کام، اجتماعات، پہلا کُل ہند اجتماع، ملک کے حالات میں بحران، حلقہ وار اجتماعات 1947ء، فکری اور علمی کام، تحریک ِاسلامی کے اثرات
٭حصہ دوم
لاہور کی صفائی اور مہاجرین کی خدمت، جماعت کا نظم، پاکستان میں جماعت کا لائحہ عمل، مسئلہ کشمیر، مسئلہ کیا تھا، نیا نظم، یہ گرفتاریاں کیوں ہوئیں، مارچ 1949ء سے جنوری 1951ء، قراردادِ مقاصد اور جماعت اسلامی، مسئلہ کشمیر، مہاجرین کے مسائل، معاشی ناہمواریوں کا ازالہ، پبلک سیفٹی ایکٹ کی تنسیخ کا مطالبہ، صوبہ سرحد کے کارکنانِ جماعت پر جبر و استبداد کی مذمت، اسلامی دستور کی تدوین کا مطالبہ، قرار دادِ مقاصد اور خارجہ پالیسی، نظامِ اسلامی کے لیے تعمیرماحول کی ضرورت، سول لبرٹیز یونینوں کا قیام، پریس کا ردعمل، مغربی پنجاب کے انتخابات اور جماعت اسلامی
یہ ایک بہت اہم کتاب ہے، اس کو جماعت کے تمام ذمہ داروں کو بغور پڑھنا چاہیے۔ اسی طرح جماعت کے کارکن اس کا مطالعہ کریں گے تو وہ جماعت کی دعوت اور تشکیلِ جماعت کے پس منظر سے آگاہی حاصل کریں گے۔
کتاب سفید کاغذ پر عمدہ طبع کی گئی ہے۔