ابوسعدی
شیخ بدر الدین، ابوالبرکات، امام ربانی، مجدد الف ثانی، شیخ احمد سرہندی 971ھ میں شیخ عبدالاحد کے گھر پیدا ہوئے۔ اپنے روحانی مقام و مرتبے کے باعث ”مجدد الف ثانی“ کے لقب سے مشہور ہوئے۔ تعلیم سے فارغ ہوکر تدریس اختیار کی۔ ایک وقت میں آگرہ آئے اور یہاں پر ابوالفضل اور فیضی سے ملاقات ہوئی۔ خواجہ باقی باللہ کے دستِ مبارک پر سلسلہ نقشبندیہ کی بیعت کی اور حج پر روانہ ہوگئے۔ واپسی پر دین و شریعت کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ تصوف میں پیدا ہونے والے گمراہ کن نظریات، بالخصوص مسئلہ وحدت الوجود کے مقابلے میں وحدت الشہود کا تصور پیش کیا۔ اپنے عہد کے اکابرین کی اصلاح و تزکیہ کے لیے انھیں مکاتیب لکھے، جو صوفیانہ لٹریچر میں بہت بلند مقام رکھتے ہیں۔ وحدت الوجود میں اگر ’’ہمہ اوست‘‘ کی گمراہی تھی تو اس کے مقابلے میں ’’وحدت الشہود‘‘ یعنی ’’ہمہ از اوست‘‘ کا نظریہ پیش کیا۔ علامہ اقبال بھی اسی نظریے کے قائل تھے، بلکہ مجدد صاحب سے ایک روحانی تلمذ کا سلسلہ رکھتے ہیں۔ ”اسرار خودی“ کے ضمن میں پیدا ہونے والے قضیے میں اقبال نے مجدد صاحب کے نقطہ نظر کو پیش کیا ہے۔ عہدِ جہانگیر میں انھیں گوالیار کے قلعہ میں قید رکھا گیا، مگر انھوں نے قید میں بھی اصلاح و تبلیغ کا مشن جاری رکھا۔ رہائی کے بعد زیادہ وقت سرہند میں گزارا اور یہیں 1034ھ میں خالقِ حقیقی سے جاملے۔
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)
محنت
٭جو شخص خوامخواہ خود کو محتاج بناتا ہے وہ محتاج ہی رہتا ہے۔ (حضرت علی مرتضیٰؓ)۔
٭تمام کائنات کے مستقل اور مقدس نظام میں ادنیٰ سے ادنیٰ کوشش کا بھی صلہ ملتا ہے اور ذرا سی سعی بھی رائیگاں نہیں جاتی- ۔(ہاسن)۔
٭جو کچھ تم ہو اُس سے بڑا بننے یا ظاہر کرنے کی کوشش مت کرو، بلکہ کاروبار میں پیش قدمی اور جرأت کو اپنے چال چلن کا ضروری جزو قرار دو۔ (آرتھر)۔
٭اپنے اعضا کو محنت و مشقت کا عادی بنا، ہر چند کہ خدمت گار موجود ہوں۔ اتفاق آپڑے کہ وہ نہ ہوں یا نہ رہیں اُس وقت تُو بے دست و پا رہ جائے گا، اور ایسا ہونا آئینِ زمانہ سے کچھ بعید نہیں ہے۔ (حکیم ارسطو)۔
ماں، بچہ اور چوری کی عادت
ایک لڑکا چھوٹی سی عمر میں مکتب سے ایک تختی چرا لایا اور اس کی ماں نے کچھ اس کو سرزنش نہ کی۔ اس طور اس کی عادت پڑ گئی اور بڑا ہوکر بڑا شاطر اور عیار چور ہوگیا۔ کئی مرتبہ قید ہوا، بید کھائے، لیکن باز نہ آیا۔
آخر کو حاکم نے اس کو بادشاہی خزانے کی چوری میں پھانسی کا حکم دیا۔ جب وہ پھانسی پر چڑھایا گیا تو اس نے حاکم سے درخواست کی کہ: ’’میں اپنی ماں کے کان میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔ یہ میری خواہش ہے‘‘۔
حاکم نے اجازت دی تو اس نے اپنی ماں کے کان کے پاس منہ لے جاکر اس کا کان صاف کترلیا۔ ماں چلاّتی اور ہائے ہائے کرتی الگ کو بھاگی۔ لوگوں نے بھی لعنت ملامت کی کہ: ’’کمبخت تُو مرتے دم بھی بدی اور شرارت سے باز نہ آیا‘‘۔
اس نے جواب دیا: ’’صاحبو! میں اسی ماں کی بدولت اس درجے کو پہنچا ہوں۔ اگر یہ شروع سے مجھ کو ادب دیتی تو میں کیوں چوری کی عادت ڈالتا!‘‘
حاصل: لڑکوں کو ادب نہ دینا بے شک ماں باپ کا قصور ہے۔
(نذیر احمد دہلوی، ”منتخب الحکایات“)