پانی کے دستیاب وسائل اور مستقبل کا خطرہ

Akhbar Nama اخبار نامہ
Akhbar Nama اخبار نامہ

۔2030ء تک پانی کی عالمی طلب میں 50 فیصد سے زیادہ اضافے کی توقع، اور ایک محدود فراہمی کے ساتھ، قیمتی وسائل تیزی سے نایاب ہونے کا خطرہ ہے۔
پانی کے حوالے سے امسال پاکستان سمیت دنیا بھر میں مہمات چلیں، مگر وقت کے ساتھ ساتھ پیالی میں طوفان تھمنے لگا۔ کئی سوالات جنم لینے لگے: کیا دنیا نے اس مسئلے کا حل تلاش کرلیا؟ کیا ہماری طلب و رسد کی جامع منصوبہ بندی بنا لی گئی؟ یا صرف وقت آنے پر ہی ہم کوئی راہ نکالیں گے؟ جیسا کہ ماضی میں کرتے آئے ہیں۔ پانی تک رسائی بہت ساری کمپنیوں کا ایجنڈا ہے۔ یہ ان کے کارپوریٹ سماجی ذمہ داری کے پروگراموں کا ایک حصہ بھی ہے۔ اگر کہا جائے کہ یہ ایک عملی مسئلہ بن چکا تو غلط نہ ہوگا۔ پانی کے استعمال اور ضوابط کے بڑھتے ہوئے وسائل کے سخت ہونے کی امید کے ساتھ، صنعتوں کو اپنے کاموں کے لیے کم پانی ہونے کا خطرہ ابھی بھی موجود ہے۔ کمپنیوں کے لیے پانی کی وسعت پیدا کرنی والی صنعتوں میں، پانی کی پائیدار حکمت عملی ایک وجودی ضرورت بنتی جارہی ہے۔
پاکستان کو پانی کے بڑھتے ہوئے خطرے سے استثنیٰ حاصل نہیں۔ ہمیں بھی ان مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا جن کا دنیا کرے گی۔ ماضیِ بعید کی بات نہیں، مجھے یاد ہے کہ پانی کی اہمیت کے حوالے سے امسال ایک مہم چلائی گئی، مگر اب یہ نہ جانے کہاں ہے؟ کہا گیا کہ عالمی اداروں کی شائع کردہ رپورٹوں کے مطابق 2025ء تک پاکستان میں پانی نایاب ہوجائے گا اور اگر جلد از جلد مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو اس مسئلے پر قابو پانا شاید ممکن نہ رہے گا۔ واش واچ آرگنائزیشن کی شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق قیام پاکستان کے وقت پاکستان میں فی صد پانی کی قدر 56000کیوبک میٹر تھی، جبکہ اب وہ کم ہو کر فی صد1701 کیوبک میٹر رہ گئی ہے جو کہ پریشان کن حد تک کم سطح ہے۔ لگ بھگ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ لوگوں کے پاس گندہ پانی پینے کے سوا اور کوئی چارا ہی نہیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ جیسے حکومتیں کبوتر کی مانند آنکھیں بند کیے بیٹھی رہی ہیں۔ سبھی اس بات پہ اکتفا کرنا چاہتے تھے کہ سب اچھا ہے، جبکہ عالمی اداروں کی رپورٹیں کچھ اور ہی روداد بیان کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ پانی کی طلب میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ صدی کے آخر تک پانی کے دستیاب وسائل آدھے سے بھی کم ہوجائیں گے۔ مستقبل قریب میں پاکستان کے صنعت کاروں کے لیے، جن میں سے کچھ اپنے بین الاقوامی ساتھیوں کے مقابلے میں 90 فیصد زیادہ پانی استعمال کرتے ہیں، پانی کی دستیابی، معیار اور آپریشنل ریگولیٹری خطرات موجود ہیں۔ اہم معاشی مراکز کی بڑھتی ہوئی آبادی اور انتہائی صنعتی سرگرمیوں کی وجہ سے پانی کے سب سے زیادہ خطرات دیہات کے بجائے شہروں کو درپیش ہوں گے۔
(نذیر ناجی۔ دنیا،31دسمبر 2019)

بھارت میں مسلمان دشمنی اور سیکولر ازم کے غلیظ چہرے

پچیس کروڑ بھارتی مسلمان اپنی ہی سرزمین پر اجنبی ہو گئے تو دو قومی نظریے کی حقیقت یوں روز روشن کی طرح واضح ہوجائے گی کہ پھر اسے غلط ثابت کرنے کے لیے کسی ابوالکلام آزاد کی پیش گوئیوں کا سہارا نہیں لیا جا سکے گا۔ لیکن اب تو ہوگیا اور میرے سیکولر نواز مذہبی اسکالر اور خالص سیکولر لبرل لکھاری بھی منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ ہمارا ایمان اس دو قومی نظریے پر متزلزل کیا جاتا تھا، ہمارے قائدین کی سیاسی بصیرت پر سوال اٹھائے جاتے تھے۔ پاکستان ستّر برس سے اس بدترین اور جھوٹ پر مبنی پراپیگنڈے کی زد پر تھا جس کے سرخیل پہلے کمیونسٹ دانشور، شاعر، ادیب تھے۔ اور آج سیکولر دانشور، شاعر، ادیب، صحافی، اور کچھ مذہبی دانشور اس کے نقیب ہیں۔ لیکن بھارت میں مسلمان دشمنی کا جو آتش فشاں پھٹا ہے اس نے75 سالہ نقاب الٹ کر رکھ دیا ہے اور اندر سے ڈریکولا کی طرح کا خون پینے والا مسلمان دشمن چہرہ برآمد ہوا ہے۔ کیا یہ صرف آر ایس ایس، بھارتیہ جنتا پارٹی یا بجرنگ دل جیسی تنظیموں اور پارٹیوں کا کیا دھرا ہے؟ ان سب کو شدت پسند بتاکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جیسے 1947ء سے لے کر اب تک سیکولر لبرل کانگریس کے ادوار میں بھارت کے مسلمان بہت سُکھ کا سانس لیتے تھے اور یہ اچانک معاشرے میں شدت پسندی بی جے پی کی وجہ سے آگئی ہے۔ کانگریس کا بیج بھی اسی ہندو معاشرت سے اٹھا تھا، فرق صرف یہ ہے کہ چانکیہ کے افکار پر عمل کرتے ہوئے کانگریس رہنماؤں نے اپنے چہرے پر سیکولرازم کی منافقت کا غلاف چڑھا رکھا تھا۔ بالکل ویسے ہی جیسے تمام مغربی معاشرے جو 1095ء سے لے کر 1270ء تک لڑی جانے والی صلیبی جنگوں کی نفرت سینوں میں چھپا کر اسلام اور مسلمان دشمنی کی روایت آج بھی لیے ہوئے ہیں، مگر انہوں نے چہروں پر سیکولرزم لبرلزم اور جمہوریت کی منافقت کا غلاف چڑھایا ہوا ہے۔ زمانہ بدل چکا، بھارت میں نریندر مودی کی جیت نے یہ نقاب الٹا، ویسے ہی امریکہ اور یورپ کے ممالک میں اسلام فوبیا کی پرچارک اور مسلمان دشمن سیاسی پارٹیوں کی فتح نے بھی سیکولر نظریے کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔
(اوریا مقبول۔ 92نیوز، 30دسمبر 2019)

بغداد:امریکی سفارت خانے پر دھاوا

عراق کے شہر بغداد میں منگل کو ہزاروں مظاہرین اور ملیشیا کے جنگجوؤں نے امریکی سفارت خانے کے باہر جمع ہو کر پُرتشدد احتجاج کیا اور اطلاعات کے مطابق مظاہرین سفارت خانے کے احاطے میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ جب مظاہرین نے سفارت خانے کی بیرونی دیوار عبور کی تو اندر تعینات امریکی فوجیوں نے ان پر آنسو گیس کی شیلنگ کی۔ اس کے علاوہ ایک گارڈ ٹاور کو بھی بظاہر نذرِ آتش کردیا گیا ہے۔
روئٹرز نے عراقی وزارتِ خارجہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ بغداد میں امریکی سفیر اور سفارتی عملے کو وہاں سے نکال لیا گیا ہے۔
مظاہرین اتوار کو عراق اور شام کی سرحد کے قریب ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کتائب حزب اللہ کے اڈوں پر امریکی فضائی حملوں کے خلاف مظاہرہ کررہے تھے۔امریکی افواج نے یہ حملہ ایک عراقی فوجی اڈے پر راکٹ حملے میں امریکی کنٹریکٹر کی ہلاکت کے ردِعمل میں کیا تھا۔
اے پی کے مطابق دھاوا بولنے کی کوشش امریکی حملے میں ہلاک ہونے والے ملیشیا جنگجوؤں کے جنازوں کے بعد ہوئی۔ان حملوں کے بعد ایران اور امریکہ کے درمیان عراق میں پراکسی جنگ کا خطرہ مزید واضح ہوگیا ہے۔
ان مظاہرین میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا عصائب اہل الحق کے رہنما قیس الخزالی اور کئی دیگر سینئر ملیشیا رہنما بھی موجود تھے ۔
روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے ملیشیا رہنما قیس الخزالی نے کہا کہ ”امریکیوں کی عراق میں کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ برائیوں کی جڑ ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ یہ نکل جائیں۔“خزالی عراق کے سب سے بااثر اور پسند کیے جانے والے ملیشیا رہنماؤں میں سے ہیں، جبکہ وہ ایران کے سب سے اہم اتحادیوں میں شامل ہیں۔
امریکی سینیٹر مارکو روبیو نے اس دوران اپنی ٹویٹ میں کہا کہ اس پوری ہنگامہ آرائی کا براہِ راست ذمہ دار ایران ہے۔
یاد رہے کہ عراق میں کئی ہفتوں سے حکومت مخالف مظاہرے جاری ہیں جو بسا اوقات پُرتشدد بھی ہوئے ہیں۔اس سے پہلے مظاہرین کربلا میں ایرانی سفارت خانے پر بھی حملہ کرچکے ہیں۔