جب پانچ سالہ چارلی پارکس پیدا نہیں ہوا تھا تو ڈاکٹروں کو اسکین کے ذریعے یہ معلوم ہوگیا تھا کہ اس کے دماغ میں کوئی مسئلہ ہے۔ چارلی نے اپنی زندگی کے دو ابتدائی سال اسپتال میں ہی گزارے۔ اس کے والدین یہ جاننے کے لیے بے چین تھے کہ اس کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ لیکن کبھی انھیں جواب نہیں مل پایا۔ چارلی ہر سال دنیا میں پیدا ہونے والے اُن 6000 بچوں میں شامل ہے جو ایک مخصوص جینیاتی صورت حال لے کر پیدا ہوتے ہیں لیکن ڈاکٹر اس کی تشخیص نہیں کرپاتے، اور اسے سوان (بغیر نام کے سینڈروم) کا نام دیا جاتا ہے۔ چارلی کی والدہ کہتی ہیں کہ ہر کیس دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور بغیر تشخیص کے ہر خاندان اپنے آپ کو تنہا سمجھتا ہے اور علاج کے لیے ایک امتحان کا سامنا کرتا ہے۔ چارلی آٹزم کی بیماری کی جانب بڑھ رہا ہے اور ڈاکٹر اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔ اس بیماری میں بچے کا حد سے زیادہ متحرک ہونا، الرجی، قوتِ مدافعت کی کمی اور ہاضمے کے نظام میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چارلی کی والدہ کا کہنا تھا کہ ’’ایک وقت ایسا تھا کہ ہم 20 مختلف ڈاکٹروں سے اس کا علاج کروا رہے تھے۔ ہم بہت تنہا تھے‘‘۔ وہ کہتی ہیں ’’بیماری کی تشخیص نہ ہونے کا مطلب ہے آپ کے پاس کوئی فہرست نہیں ہے، آپ کو ہر چیز کے لیے، ہر سہولت کے لیے، اضافی مدد اور آلات کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی ہے‘‘۔ چارلی جو کہ برطانیہ کے علاقے شمالی ہیمپشائر میں رہتا ہے، عام بچوں جیسا نہیں، نہ اُن کی طرح باتیں کرتا ہے اور نہ ہی کھیلتا کودتا ہے۔ لیکن مسز پارکس اور ان کے شوہر اسٹیو اسے مصروف رکھتے ہیں۔ ٹریکٹر سے محبت کرنے والا یہ بچہ بظاہر دیگر بچوں جیسا ہی ہے لیکن اُس کی والدہ سمجھتی تھیں کہ اس میں ہماری کوئی کوتاہی ہے، طبی ماہرین کی جانب سے بھی انھیں یہی محسوس کروایا گیا۔ وہ کہتی ہیں ’’ہم نے اپنے دوستوں اور رشتے داروں کو کھو دیا، کیونکہ ہمیں چارلی کے مسائل کا ذمہ دار سمجھا جا رہا تھا۔ ہم نے اس کے مرض کی تشخیص نہیں کی، ہم بس صرف گوگل ہی کرسکتے تھے‘‘۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’مجھے خود بھی اپنی ذہنی صحت کے لیے بہت کوشش کرنی پڑی‘‘۔ چارلی نے اسکول میں بھی داخلہ لیا، اور اس کی والدہ کہتی ہیں انھیں اپنے بیٹے پر فخر ہے۔ اس نے حال ہی میں پینسل پکڑنا سیکھی ہے۔ ’’ہمیں یہ بتایا گیا کہ وہ شاید چل پھر نہ سکے۔ ہم ہمیشہ یہ سیکھ رہے ہوتے تھے کہ اسے پُرسکون کیسے رکھنا ہے، کیا بار بار نہلا کر؟ کیونکہ پانی اُس کے لیے سکون کا ذریعہ تھا، یا پھر اُسے باہر لے جاکر کہ وہ مٹی یا ریت کو کھودے‘‘۔ چارلی ٹریکٹر چلانا اور مٹی کھودنا پسند کرتا ہے، اور یہ کام اُس کی اُس وقت مدد کرتا ہے جب وہ شدید جذباتی کیفیت کا شکار ہوتا ہے۔ چارلی کے خاندان جس میں اس کی سات سالہ بہن چاؤ بھی شامل ہے جو اپنے بھائی کا بہت دھیان رکھتی ہیں۔ ان کو سوان نامی تنظیم کی مدد حاصل ہے۔ اپریل کے آخری ہفتے کو ہر سال ایسے بچوں سے جن کی بیماری کی تشخیص ممکن نہ ہو، موسوم کیا جاتا ہے۔ اگرچہ بہت سے خاندان اس کے بارے میں جانتے ہیں کہ اس مرض کی تشخیص جادوئی طریقے سے نہیں ہوسکتی، لیکن پھر بھی وہ امید میں رہتے ہیں کہ شاید انھیں یہ جواب مل سکے اور ان کے کچھ خدشات ختم ہوسکیں۔ یہ خدشہ کہ ان کے بچے کا مستقبل کیا ہوگا، یہ خوف کہ کہیں آنے والے بچے کو بھی یہ بیماری تو نہیں ہوگی، اور یہ کہ کیا ایسا ان کے کسی اقدام کی وجہ سے ہوا۔ (بشکریہ بی بی سی)۔
وینس میں تیزاب کی بارش
وینس یا زہرہ نظامِ شمسی کا سب سے غیر مہمان نواز مقام ہے۔ وہ ایک طرح سے جہنم کی تصویر پیش کرتا ہے۔ وینس کی فضا بہت گہری ہے اور زیادہ تر کاربن ڈائی آکسائیڈ پر مشتمل ہے۔ وینس کا فضائی دباؤ زمین کے مقابلے میں 90 گنا زیادہ ہے۔ اس صورتِ حال کی وجہ سے سورج کی تابکاری اس کی فضا میں پھنس جاتی ہے اور وینس پر درجہ حرارت 460 سینٹی گریڈ تک جا سکتا ہے۔ لہٰذا اگر آپ وہاں جائیں تو چند سیکنڈ میں ہی جل جائیں گے اور کچلے جائیں گے۔ وینس پر بارش انتہائی زہریلے سلفیورک ایسڈ یا گندھک کے تیزاب کی ہوتی ہے جو کسی بھی مسافر کی جِلد یا خلائی سوٹ کو جلا دے گی۔ سیارے کے انتہائی زیادہ درجۂ حرارت کی وجہ سے یہ بارش سطح تک پہنچنے سے پہلے ہی بخارات میں بدل جاتی ہے۔ لیکن اس سب کے ساتھ ساتھ حیران کن طور پر وینس پر برف بھی ملتی ہے۔ مگر یہ وہ برف نہیں جس کے گولے بناکر آپ ایک دوسرے پر پھینک سکتے ہیں۔ یہ دراصل وینس کی فضا میں بخارات میں تبدیل ہوجانے والی دھاتوں کی باقیات ہیں۔ یہ سیارہ زمین سے سب سے زیادہ دوری پر واقع ہے، اور یہ جمی ہوئی میتھین کے بادلوں اور نظام شمسی میں سب سے خطرناک ہواؤں کا گھر ہے جن کی رفتار آواز کی رفتار سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ سیارے کی سطح کے بہت حد تک ہموار ہونے کی وجہ سے میتھین ہواؤں کی رفتار کو کم کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے، چنانچہ ان کی رفتار 2,400 کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچ سکتی ہے۔ جب کوئی چیز آواز کی حدِ رفتار سے زیادہ تیز ہوجائے تو ایک دھماکہ خیز آواز پیدا ہوتی ہے اور وہ آپ یہاں آسانی سے سن سکتے ہیں۔ ساتھ ساتھ یہاں پہنچنے والے کو ہیروں کی بارش کا بھی تجربہ ہوگا جس کی وجہ فضا میں موجود کاربن کا دبنا ہے۔ لیکن آپ کو برستے ہوئے ہیروں کے سر پر گرنے کا کوئی خطرہ نہیں ہوسکتا، کیونکہ آپ پہلے ہی منفی 200 ڈگری سینٹی گریڈ درجۂ حرارت میں جم چکے ہوں گے۔ ٹام لاؤڈن برطانیہ کی واروِک یونیورسٹی میں محقق ہیں اور اُن کا کام یہ معلوم کرنا ہے کہ دوسرے سیاروں پر ماحول کی صورت حال کیا ہے۔ ان کے مطابق ’وینس کی بالائی فضا زمین سے دور رہنے کے لیے شاید سب سے مناسب مقامات میں سے ایک ہے۔ انھوں نے بتایا کہ سلفیورک ایسڈ کے بادلوں سے اوپر ایک ایسا مقام بھی آتا ہے جہاں فضا کا دباؤ زمین جیسا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’’آپ اس فضا میں سانس تو نہیں لے سکیں گے، لیکن اگر آپ نے آکسیجن ماسک پہنا ہو تو شاید اس مقام پر آپ کا گزارا ہوجائے۔‘ لاؤڈن کہتے ہیں کہ ’اس سیارے پر ہماری زمین کے پتھر مائع یا بخارات میں بدل جائیں گے۔‘‘ اس کے علاوہ یہاں پر پگھلے ہوئے شیشے کی برسات بھی ہوتی ہے، صرف اوپر سے نہیں بلکہ اطراف سے بھی۔ لاؤڈن کا کہنا ہے کہ زمین کے سائز کے سیارے کائنات میں ’ایم ڈوارف‘ یا ’ریڈ ڈوارف‘ کہلانے والے ستاروں کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ ان پر زندگی ممکن ہے یا نہیں، یہ الگ سوال ہے۔