ماں کی محبت

پروفیسر اطہر صدیقی
(نوٹ: مندرجہ ذیل کہانی حقیقی واقعے پر مبنی ہے۔ بیٹوں کی بیویاں اپنی ضعیف العمر ساسوں سے پریشان اور عاجز آجاتی ہیں اور اپنے شوہروں کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ اپنی ماں کو کسی ایسی جگہ چھوڑ آئیں کہ ان کی دیکھ بھال سے نجات مل جائے۔ عبدالستار ایدھی نے پاکستان کے ہر شہر میں ایسے سینٹر کھول رکھے ہیں جہاں بیٹے اپنی بوڑھی مائوں کو چھوڑ آتے ہیں اور سینٹر والے ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ ویسے بھی اب ہر ملک میں دارالضعفا (Old Peoples Homes) کھل رہے ہیں جہاں ہم اپنے بوڑھے ماں باپ کو رکھ دیتے ہیں تاکہ ہمیں اُن کی دیکھ بھال سے نجات مل جائے۔ اس کہانی میں ماں کی محبت کے ساتھ جو طنز پوشیدہ ہے وہی کہانی کی جان ہے۔ یہ کہانی حال ہی میں فیس بُک پر شائع ہوئی تھی اور قارئین کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے یہاں شامل کرلی گئی ہے۔)۔
باپ کے انتقال کے بعد بیٹے نے ماں کو شہر کے اولڈ ہائوس میں داخل کردیا اور سال میں ایک بار خیریت دریافت کرنے چلا جاتا تھا۔ ایک دن اولڈ ہائوس سے فون آیا کہ اس کی ماں کی طبیعت خراب ہے۔ وہ جیسے ہی وہاں پہنچا تو ماں کی آخری سانسیں چل رہی تھیں۔ اس نے ماں سے پوچھا ’’ماں میں آپ کے لیے کیا کرسکتا ہوں؟‘‘
ماں بولی ’’بیٹا تم اس اولڈ ہائوس میں نئے پنکھے لگوادو، کیوں کہ یہ پنکھے خراب رہتے ہیں؟‘‘
بیٹا حیران ہوکر بولا ’’ماں آپ اتنے سال سے یہاں تھیں اب آخری وقت میں یہ فرمائش کیوں؟‘‘
ماں بولی ’’بیٹا میں نے تو جیسے تیسے یہاں وقت گزار لیا۔ ڈرتی ہوں کہ کل کو جب تمھارے بچے تمھیں یہاں چھوڑیں گے تو گرمی تم سے برداشت نہیں ہوگی۔ تم تو ایئر کنڈیشنر کے عادی ہو ناں‘‘۔
واقعے کی مناسبت سے اکبر الٰہ آبادی کا ایک شعر یاد آرہا ہے؎:

بوڑھوں کے ساتھ لوگ کہاں تک وفا کریں
لیکن نہ موت آئے تو بوڑھے بھی کیا کریں

(بشکریہ تہذیب الاخلاق، علی گڑھ)

ضعیف انسان کی کہانی

اگر میری مندرجہ ذیل کہانی پڑھ کر آپ میں سے ایک شخص بھی غیر معمولی کام ایک ہی دفعہ کربیٹھے تو یہ دنیا بہت خوب صورت جگہ بن جائے گی۔ آج گھر جاتے وقت میں نے ایک بوڑھے یا ضعیف شخص کو اپنی سڑک پر بہت ہی احتیاط سے آہستہ روی سے جاتے ہوئے دیکھا اور اپنا سفر جاری رکھا، لیکن تب میں نے کچھ سوچا اور کا روکی۔ میں اس ضعیف شخص کی طرف گئی اور مخاطب ہوکر دریافت کیا کہ وہ کہاں جارہے ہیں؟ انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ کولس جارہے ہیں جو ڈیڑھ میل دوری پر ہے۔ ان کا نام ”جو“ ہے۔ میں نے جو سے پوچھا کہ کیا میں ان کو وہاں پہنچا دوں؟ ان کے نواسی برس کے چہرے پر ایک بڑی سی مسکراہٹ آگئی اور انھوں نے میری درخواست قبول کرلی۔ راستے میں باتیں کرتے ہوئے مجھے معلوم ہوا کہ جو اسّی فی صد بینائی سے محروم ہیں اور یہ کہ وہ پنٹ روڈ پر پچھلے بیس برس سے، جب اُن کی بیوی کا انتقال ہوگیا تھا، اکیلے رہ رہے ہیں۔
دو برس پہلے ایک کار والے نے انھیں ہٹ کیا اور بھاگ بھی گیا۔ اس حادثے کے نتیجے میں ان کو کولہے میں خاصی تکلیف بھی ہوگئی۔ میں نے ان کا سامان خریدا اور کچھ دکانیں بھی دیکھیں، ان جگہوں پر جہاں وہ پہلے نہ جاسکے تھے۔ گھر واپس جاتے وقت انھوں نے بے حد افسوس ناک اور دل خراش بات بتائی: ’’جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے، آج تک کبھی کوئی اس قدر ہمدردی اور دوستی کے ساتھ پیش نہیں آیا‘‘۔
سوال یہ ہے کہ بوڑھے اور ضعیف لوگوں سے لوگ دوری کیوں پیدا کرلیتے ہیں اور ان کو بوجھ کیوں سمجھتے ہیں؟ وہ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ ایک دن وہ بھی بوڑھے ہوجائیں گے۔ اگلی مرتبہ اگر آپ کسی ضعیف خاتون یا مرد کو دیکھیں تو ان کی مدد سے گریز نہ کریں۔ آپ کو اندازہ نہیں کہ وہ اپنی زندگی کیسے تنہا گزار رہے ہیں یا کیسا محسوس کرتے ہیں۔
اُس دن سے جو اور میں دوست بن گئے ہیں اور ہر ہفتے ان کی خریداری کے لیے ساتھ جاتے ہیں۔