قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت عمران بن حصینؓ نے کہاکہ ایک شخص نے عرض کیا: ”یا رسولؐ اللہ!۔
کیا جنت والے اور اہلِ جہنم پہچانے جاچکے ہیں؟“ آپؐ نے فرمایا: ’’بے شک‘‘۔ اس نے عرض کیا: ’’تو پھر عمل کرنے والے کیوں عمل کرتے ہیں؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’ہر شخص اسی کے لیے عمل کرتا ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے یا اسی کے موافق اسے عمل کرنے کی توفیق دی جاتی ہے۔‘‘(فتح الباری)۔
فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ(محمد47: 22)۔
”اب کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر تم الٹے منہ پھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کروگے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹوگے۔“
پس منظر: اس ارشاد کا ایک مطلب یہ ہے کہ اگر اِس وقت تم اسلام کی مدافعت سے جی چراتے ہو اور اس عظیم الشان اصلاحی انقلاب کے لیے جان و مال کی بازی لگانے سے منہ موڑتے ہو جس کی کوشش محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اہلِ ایمان کررہے ہیں تو اس کا نتیجہ آخر اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ تم پھر اسی جاہلیت کے نظام کی طرف پلٹ جائو جس میں تم لوگ صدیوں سے ایک دوسرے کے گلے کاٹتے رہے ہو، اپنی اولاد تک کو زندہ دفن کرتے رہے ہو اور خدا کی زمین کو ظلم و فساد سے بھرتے رہے ہو۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب تمہاری سیرت و کردار کا حال یہ ہے کہ جس دین پر ایمان لانے کا تم نے اقرار کیا تھا اُس کے لیے تمہارے اندر کوئی اخلاص اور کوئی وفاداری نہیں ہے اور اُس کی خاطر کوئی قربانی دینے کے لیے تم تیار نہیں ہو، تو اس اخلاقی حالت کے ساتھ اگر اللہ تعالیٰ تمہیں اقتدار عطا کردے اور دنیا کے معاملات کی باگیں تمہارے ہاتھ میں آجائیں تو تم سے ظلم و فساد اور برادر کُشی کے سوا اور کس چیز کی توقع کی جاسکتی ہے۔
یہ آیت اس امر کی صراحت کرتی ہے کہ اسلام میں قطع رحمی حرام ہے۔ دوسری طرف مثبت طریقے سے بھی قرآن مجید میں متعدد مقامات پر رشتے داروں کے ساتھ حُسنِ سلوک کو بڑی نیکیوں میں شمار کیا گیا ہے اور صلہ رحمی کا حکم دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو: البقرہ: 83، 177، النسا: 8، 36، النحل:90، بنی اسرائیل: 26، النور:22۔
رحم کا لفظ عربی زبان میں قرابت اور رشتے داری کے لیے استعارے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ ایک شخص کے تمام رشتے دار، خواہ وہ دور کے ہوں یا قریب کے، اس کے ذوی الارحام ہیں۔ جس سے جتنا زیادہ قریب کا رشتہ ہو اُس کا حق آدمی پر اتنا ہی زیادہ ہے، اور اس سے قطع رحمی کرنا اتنا ہی بڑا گناہ ہے۔ صلہ رحمی یہ ہے کہ اپنے رشتے دار کے ساتھ جو نیکی کرنا بھی آدمی کی استطاعت میں ہو اس سے دریغ نہ کرے۔ اور قطع رحمی یہ ہے کہ آدمی اس کے ساتھ برا سلوک کرے، یا جو بھلائی کرنا اُس کے لیے ممکن ہو اُس سے قصداً پہلوتہی کرے۔ حضرت عمرؓ نے اسی آیت سے استدلال کرکے اُمِ ولد کی بیع کو حرام قرار دیا تھا اور صحابہ کرامؓ نے اس سے اتفاق فرمایا تھا۔ حاکم نے مستدرک میں حضرت بریدہؓ سے روایت نقل کی ہے کہ ایک روز میں حضرت عمرؓ کی مجلس میں بیٹھا تھا کہ یکایک محلے میں شور مچ گیا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک لونڈی فروخت کی جارہی ہے اور اُس کی لڑکی رو رہی ہے۔ حضرت عمرؓ نے اُس وقت انصار و مہاجرین کو جمع کیا اور اُن سے پوچھا کہ جو دین محمدؐ لائے ہیں کیا اس میں آپ حضرات کو قطع رحمی کا بھی کوئی جواز ملتا ہے؟ سب نے کہا: نہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: پھر یہ کیا بات ہے کہ آپ کے ہاں ماں کو بیٹی سے جدا کیا جارہا ہے؟ اس سے بڑی قطع رحمی اور کیا ہوسکتی ہے؟ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ لوگوں نے کہا: آپ کی رائے میں اس کو روکنے کے لیے جو صورت مناسب ہو وہی اختیار فرمائیں۔ اس پر حضرت عمرؓ نے تمام بلادِ اسلامیہ کے لیے یہ فرمانِ عام جاری کردیا کہ کسی ایسی لونڈی کو فروخت نہ کیا جائے جس سے اُس کے مالک کے ہاں اولاد پیدا ہوچکی ہو، کیونکہ یہ قطع رحمی ہے اور یہ حلال نہیں ہے۔ (تفہیم القرآن، پنجم، ص26۔28، محمد، حاشیہ:34)
(تفہیم احکام القرآن، جلد سوئم)