جماعت اسلامی پاکستان نے اسلام آباد میں ایک بے مثال کشمیر مارچ اور جناح ایونیو پر پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے اسلام آباد کی تاریخ کا ایک بڑا جلسہ کیا جس میں اسلام آباد، راولپنڈی سمیت پنجاب کے دوسرے شہروں، کے پی کے اور آزاد کشمیر سے جماعت اسلامی کے کارکنوں، اور خواتین کے علاوہ ہزاروں عام شہریوں نے شرکت کی۔ جماعت اسلامی نے کشمیر کی آزادی کے لیے حکومت کو ایک روڈ میپ بھی دیا اور وزیراعظم سے مطالبہ کیا کہ اپنے سیاسی مفادات کے محاصرے سے باہر نکلیں، اپنا قول سچ ثابت کریں اور حقیقی معنوں میں ٹیپو سلطان بنیں۔ حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ بھارت کے لیے فضائی راستہ بند کردیا جائے، تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے لیے ایک فنڈ قائم کیا جائے، او آئی سی کا اجلاس پاکستان میں بلایا جائے، کشمیری عوام کے لیے ایک بین الاقوامی ڈیسک قائم کیا جائے، ایک بین الاقوامی فنڈ قائم کیا جائے جس سے کشمیریوں اور فلسطینیوں کی مدد کی جاسکے۔ یہ مطالبہ اور روڈمیپ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے اسلام آباد میں ایک بہت بڑی کشمیر ریلی کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔ کشمیر ریلی کے شرکاء سے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل امیر العظیم، نائب امیر لیاقت بلوچ، میاں اسلم، جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے امیر خالد محمود، آزاد کشمیر اسمبلی کے رکن رشید ترابی، حریت کانفرنس کے رہنمائوں حمید لون، نسیمہ وانی، نصراللہ رندھاوا اور آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود خان اور دیگر رہنمائوں نے بھی خطاب کیا۔ دنیا بھر میں کشمیر کے سفیر عبدالرشید ترابی نے قرارداد پیش کی جسے شرکاء نے منظور کیا۔ امیرالعظیم اور لیاقت بلوچ کے خطاب نے شرکاء کو خوب گرمایا۔ امیرالعظیم نے اپنے خطاب میں ’’تم نے ڈھاکا لیا، ہم نے کابل لیا، اب لے کر رہنا ہے کشمیر، ٹوٹے شملہ کی زنجیر‘‘ کا ذکر کرکے سماں باندھ دیا اور اپنے دورِ طالب علمی کی یاد تازہ کردی۔ میاں اسلم اور نصراللہ رندھاوا نے شرکاء کو اسلام آباد میں خوش آمدید کہا۔ ریلی کے شرکاء کے جلسے کے لیے ایک کلومیٹر طویل پنڈال جناح ایونیو پر بنایا گیا تھا جہاں شرکاء نے منظم انداز میں مقررین کا خطاب سنا۔ اس ریلی کے لیے پنجاب، کے پی کے، کشمیر، حتیٰ کہ پنجاب کے دور دراز سرحدی شہر ڈیرہ غازی خان سے بڑی تعداد میں شہریوں اور جماعت اسلامی کے کارکنوں نے شریک ہو کر جلسے کو حقیقی معنوں میں رونق بخشی۔ شرکاء کی بڑی تعداد کے باعث بلیو ایریا کا تین کلومیٹر تک کا حصہ جلسہ گاہ کا منظر پیش کررہا تھا۔
سینیٹر سراج الحق نے اپنے خطاب میں کہا کہ سید علی گیلانی، شبیر شاہ، یاسین ملک، آسیہ اندرابی، اشرف صحرائی کو پیغام دیتا ہوں کہ پاکستان، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے کروڑوں عوام ان کی پشت پر ہیں۔ میں پیغام دیتا ہوں کہ کشمیریو! تم ہمارے ہو، پاکستان تمہارا ہے۔ پانچ اگست سے کشمیر میں قیامت برپا ہے لیکن ان کے لبوں پر ایک ہی نعرہ ہوتا ہے ’’پاکستان ہمارا ہے‘‘۔ کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے، ہم کشمیرہار گئے تو چناب، ستلج اور راوی میں پانی نہیں ہوگا۔ آج لاکھوں کی تعداد میں ہم کشمیریوں کی حمایت میں اسلام آباد میں کھڑے ہیں۔ پاکستانی عوام نے مایوسیوں اور ناامیدی کے اس دور میں مارچ میں شرکت کرکے امید کی شمع روش کی ہے۔ مودی اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھ رہا ہے۔ کشمیر پر کوئی سازش قبول نہیں۔ اگر حکمرانوں نے سازش کی تو میرا ہاتھ اور حکمرانوں کا گریبان ہوگا، آخری فوجی اور آخری گولی تک لڑیں گے۔ 5 ماہ سے آخری گولی کیا ایک قدم بھی نہیں اٹھایا گیا۔ ہندوستان دریائوں کا رخ موڑ کر پاکستان کو بنجر صحرا میں تبدیل کرنا چاہتا ہے، ہر گلی کوچہ ویران ہوگیا،کشمیر کی حیثیت ختم ہوگئی، دنیا کے نقشے میں مقبوضہ کشمیر کے نام سے ریاست موجود نہیں ہے، اردو زبان ختم کردی گئی، ہندی زبان رائج کردی گئی، سری نگر اسٹیڈیم اور ریڈیو کا نام تبدیل کردیا گیا۔ ایوانوں میں بیٹھے حکمران گونگے بہرے ہیں، انہیں اپنے مفادات عزیز ہیں۔ مودی گجرات کے مسلمانوں اور بابری مسجد کا قاتل ہے، اس نے پوری ریاست جموں و کشمیر کو جیل میں تبدیل کردیا ہے، دنیا کا سب سے طویل محاصرہ کشمیر میں جاری ہے۔ سوا کروڑ کشمیری آزادی کی جدوجہد کررہے ہیں۔ کشمیر تقسیمِ برصغیر کا نامکمل ایجنڈا ہے، اس کے بغیر پاکستان نامکمل ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے کہا تھا کہ ’’میں ٹیپوسلطان ہوں‘‘۔ لیکن اس ٹیپوسلطان نے اعلان کیا کہ جو ایل او سی کی طرف جائے گا وہ پاکستان کا غدار ہوگا۔ اس سے مایوسی کا پیغام گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پانچ اگست سے آج تک کشمیر کا ہر گلی، کوچہ کربلا بن چکا ہے۔ اس وقت ہزاروں کشمیری نوجوان بھارت کی جیلوں میں قید ہیں۔ ہزاروں ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت دری کی گئی۔ پانچ اگست کا واقعہ اچانک نہیں ہوا، یہ مودی کے منشور کا حصہ تھا۔ مودی کے تین وعدے تھے: بابری مسجد کی جگہ مندر بنانا، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے بھارت کا حصہ بنانا۔ اب وہ کہتا ہے کہ اکھنڈ بھارت بھی بناکے دکھاؤں گا۔
سراج الحق نے کہا کہ اقوام متحدہ کی تقریر کے علاوہ وزیراعظم نے کوئی عمل نہیں کیا۔ میں وزیراعظم سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اگر قوم کو لیڈ نہیں کرسکتے تو کرسی چھوڑ دیں۔ کشمیرکے نہتے عوام کی حمایت میں ہم آج اسلام آباد میں موجود ہیں۔ جماعت اسلامی نے سینیٹ اور قومی اسمبلی سمیت ہر فورم پر کشمیری عوام کا مسئلہ اٹھایا مگر قابلِ ذکر حمایت نہیں ملی، جب کہ مودی کہتا ہے اب وہ گلگت بلتستان اور مظفر آباد کو بھارت کا حصہ بنائے گا۔ ہمارے وزیراعظم نے امریکی صدر ٹرمپ کو ثالث بنانے کی کوشش کی، اُس نے مودی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر اعلان کیا کہ ہم کو ریڈیکل اسلام کے خلاف لڑنا ہے۔
سراج الحق نے کہا کہ ان کا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں ہے، ان کا ایجنڈا پاکستان اور اسلام ہے۔ اس ملک میں ایسے لوگ موجود ہیں جوقوم، ملک اور کشمیری عوام کا تحفظ کرسکتے ہیں۔ لیکن آج ایک ایسا ٹولہ مسلط کیا گیا ہے جن میں کوئی صلاحیت نہیں۔ اس وقت امریکہ، بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ ہے تاکہ گریٹر ہندوستان کا منصوبہ مکمل ہوسکے۔ امریکی صدر نے مودی کے ساتھ مل کر کہا کہ ان کا مقابلہ اسلام کے ساتھ ہوگا۔ مودی کے منشور کا حصہ تھا کہ مسلمانوں اور کشمیریوں کے خلاف تحریک چلائے گا۔ ہماری حکومت نے سنجیدہ موضوعات کو بھی مذاق بنایا ہوا ہے، قومی اداروں کو برباد کیا جارہا ہے اور کرپشن کی نئی تاریخ رقم ہورہی ہے۔ حکومت کہتی ہے ’’حکومت ملی ہے اختیارات نہیں‘‘۔ سراج الحق نے کہا کہ او آئی سی کا اجلاس پاکستان میں بلانا چاہیے، بھارت کے لیے فضائی راستہ بند ہونا چاہیے، کشمیری عوام کی مشکلات ختم کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی ڈیسک قائم کیا جائے۔ ملائشیا، ترکی، ایران نے جس طرح کشمیر کے مسئلے پر ساتھ دیا ہے میں ان کا شکریہ اداکرتا ہوں۔
نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے کہا کہ عمران خان عملاً کشمیر کو نظرانداز کررہے ہیں۔ لاکھوں کا اجتماع آج کشمیریوں کی حمایت میں اسلام آباد میں کھڑا ہے۔ پاکستانی عوام نے کشمیر مارچ میں شرکت کرکے مودی کو پیغام دیا ہے کہ بھارتی جبر کے باوجود حریت قیادت کی زبان پر پیغام ہوتا ہے ہم پاکستانی ہیں، پاکستان کو بچانے اور اپنی نئی نسل کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے کشمیر کی آزادی ناگزیر ہے۔ مسئلہ کشمیر’’ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘‘ کے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ اسلام آباد کا یہ کشمیر مارچ غلامی کی زنجیروں کو توڑنے اور آزادی کشمیر کی منزل کو قریب کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ اور ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ 139 دن سے کشمیر میں بدترین کرفیو ہے اور 80 لاکھ کشمیری محصور ہیں۔
صدرِآزاد کشمیر سردار مسعود خان نے کہا کہ کشمیرکا سودا ہوا ہے اورنہ ہی کبھی ہوسکے گا، ہم صرف شہدا کی گنتی ہی کرتے رہے ہیں، ہم کبھی کشمیر میں بھارتی دہشت گردی کا بھی پوچھیں گے یا نہیں؟ دس ہزار سے زائد خواتین بے آبرو ہوئیں، اُن کے بارے میں بھی کوئی سوال ہوگا یا نہیں؟ جماعت اسلامی نے دنیا بھرمیں کشمیرکی تحریک کو بلند رکھا، سراج الحق کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ پاکستان کے 22 کروڑ عوام کی موجودگی میں کیا کشمیر پرکوئی سودا ہوسکتا ہے؟ یورپ اور برطانیہ میں تحریکِ کشمیر فعال اور متحرک ہے۔ جماعت اسلامی کے ساتھ بنگلہ دیش میں کیا کیا جارہا ہے؟ مقبوضہ کشمیر میں جماعت اسلامی پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ جموں وکشمیر کے عوام کی طرف سے جماعت اسلامی کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ 5اگست کے بعد پوری قوم نے جذبے کا اظہار کیا، لیکن جس بے باکی، اعتماد اور ولولے کے ساتھ جماعت اسلامی نے کشمیریوں کا ساتھ دیا، کشمیریوں کی نسلیں اس کو یاد رکھیں گی۔ مسعود خان نے کہاکہ کُل جماعتی کانفرنس بلائی جائے، جماعت اسلامی کی طرح دیگر دینی جماعتیں بھی کشمیر کے لیے باہر نکلیں، کشمیریوں کو ہندوستان کی جیلوں میں لے جاکر مظالم ڈھائے جارہے ہیں، کشمیری پوچھتے ہیں کہ کشمیری محصور ہیں تو بیس کیمپ کے عوام اور پاکستان کے عوام تو محصور نہیں ہیں۔ 31 اکتوبر کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے حصے بخرے کردیے، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو اپنے نقشے میں شامل کرلیا، اب بھی نہیں تو کب جواب دو گے؟ انہوں نے کہاکہ بھارتی آرمی چیف نے دھمکی دی ہے کہ وہ آزادکشمیر پر قبضہ کرنا چاہتا ہے، بھارت نے پاکستان کے اندر درپردہ جنگ شروع کررکھی ہے، ہندوتوا کے نظریے کے تحت بھارت اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھ رہا ہے۔ عالمی میڈیا نے کشمیریوں کے لیے دروازے کھول دیے۔ دنیا کی پارلیمنٹس آپ کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں، طاقت ور حکمران آپ کے ساتھ نہیں لیکن دنیا آپ کی آواز سن رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر پر قبضہ پاکستان پر حملہ ہے، ہم حالتِ جنگ میں ہیں، اس جنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی صفوں میں اتحاد کی ضرورت ہے، یہ پاکستان کی بقاء کی جنگ ہے۔ دہشت گرد بھارت پاکستان پر الزامات لگا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مایوس کن کردار ہے۔ کشمیریوں کو اگر آزاد کرانا ہے تو تحریک ِآزادیِ کشمیر کی پشتی بانی کا حق ادا کرنا ہوگا۔ کشمیریوں نے جانیں دی ہیں، شہادتیں پیش کی ہیں۔ ہماری صفوں میں ایسے غدار موجود ہیں جو تحریک آزادیِ کشمیر کو ترک کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ سیاسی اور سفارتی محاذ اہم ہے۔ قوم عسکری تیار ی کرے۔ یہ جنگ افواج پاکستان کے ساتھ پوری قوم لڑے گی۔
جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیر کے امیر ڈاکٹر خالد محمود خان نے کہاکہ کشمیری گزشتہ دو سو سال سے میدانِ جہاد میں ہیں۔ 1947ء میں ہمارے اسلاف نے جہاد کے ذریعے ریاست کے دونوں خطے آزاد کروائے ہیں۔ اُس وقت مجاہدین جموں، راجوری اور سری نگر تک پہنچ کر کسی نادیدہ قوت کے انتظار میں بیٹھے رہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں براجمان حکمران کماحقہٗ کردار ادا کرتے تو آج کشمیری آزاد فضائوں میں سانس لے رہے ہوتے۔ آج لاکھوں افراد اسلام آباد میں جمع ہوکر مقبوضہ کشمیر کے بھائیوں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ آزادی کی اس جدوجہد میں اہلِ کشمیر اور اہلِ پاکستان آپ کے شانہ بشانہ ہیں، حکمرانوں کی مجبوریاں ہوسکتی ہیں، عوام کی کوئی مجبوری نہیں۔ انہوں نے کہاکہ حکومت کشمیر کی آزادی کے لیے جہاد کا اعلان کرے۔ کشمیری تقسیمِ کشمیر کے کسی فارمولے کو قبول نہیں کریں گے۔ سید علی گیلانی چٹان کی طرح کھڑے ہیں۔ کشمیریوں کو ریاست پاکستان سے محبت ہے۔ کشمیریوں کو جدوجہدِ آزادی کا حق اقوام متحدہ کا چارٹر فراہم کرتا ہے۔
چارٹر آف ڈیمانڈ کشمیرمارچ
پاکستان کے 22کروڑ غیور عوام اور جماعت اسلامی پاکستان اقوام متحدہ، عالم اسلام اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کشمیریوں کو حقِ خودارادیت سے محروم کرنے، مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی قانونی حیثیت تبدیل کرنے، اور 140روز سے سوا کروڑ کشمیریوں کے لاک ڈائون اور ریاست جموں و کشمیر کی معیشت کو تباہ کرنے کے بھارتی اقدامات کی شدید مذمت کریں، اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرتے ہوئے کشمیریوں کو حق خودارادیت دلوانے میں اپنا فعال کردار ادا کریں، اور انسانی حقوق کی پامالی کے مرتکب بھارت پر عالمی پابندیاں عائد کریں۔ بھارتی تسلط اور ظلم وستم کی وجہ سے مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر کے عوام عرصۂ دراز سے بدترین انسانی المیے کا شکار ہیں، لہٰذا کشمیری عوام کی بھرپور مالی معاونت کے لیے اقوام متحدہ کے زیرانتظام Humanitarian Assistance Fund قائم کیا جائے۔ ہم ترکی، ملائشیا، ایران اور چین کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی حمایت کا خیرمقدم کرتے ہیں، تاہم اس امر پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کی بے حسی اور بے عملی نے ظالم بھارت کو بے لگام کردیا ہے، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے زبانی دعووں اور بے عملی نے بھی عالمی برادری اور خصوصاً مقبوضہ کشمیر کے عوام کو مایوس کیا ہے۔ آج کا یہ نمائندہ کشمیر بچائو عوامی مارچ حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر کی آزادی کے لیے نیشنل ایکشن پلان مرتب کرے اور اس پرعمل درآمد کے لیے نقشہ کار (Road Map) دے، قومی سیاسی قیادت کی کانفرنس طلب کرکے ایک متفقہ قومی کشمیر پالیسی کا اعلان کرے، مؤثر سفارت کاری کے ذریعے قومی کشمیر پالیسی پر عالمی رائے عامہ کو ہموار کرے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کا باقاعدہ اجلاس طلب کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ اسلامی ممالک ترکی، ایران اور ملائشیا کے ساتھ مل کر اسلامی کانفرنس تنظیم اوآئی سی کا اجلاس طلب کرکے کشمیریوں کے حقِ خودارادیت، انسانی اور سیاسی حقوق کے لیے بھارت کے خلاف واضح مؤقف اختیار کرے۔ حکومتِ پاکستان حقِ خودارادیت کے اصولی مؤقف پر قائم رہے اور تقسیم کشمیر کے فارمولوں کو مسترد کرے۔ وحدتِ کشمیر اور حقِ خودارادیت پر کسی قسم کی سودے بازی ہرگز قبول نہیں کی جائے گی۔ بھارتی آئین کی دفعہ 370 اور 35Aکی منسوخی کے بعد معاہدۂ تاشقند، شملہ سمجھوتا اور اعلانِ لاہور کی کوئی حیثیت نہیں رہی، اس لیے پاکستان کے عوام حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان معاہدوں سے علیحدگی اختیار کرکے لائن آف کنٹرول کو سیزفائر لائن قرار دے اور بھارت سے سفارتی و تجارتی تعلقات ختم کردے، پاکستان کی فضائی حدود بھارتی طیاروں کے لیے اُس وقت تک بند رکھی جائیں جب تک بھارت اقوام متحدہ کی مسلمہ قراردادوں کے تحت مقبوضہ جموں وکشمیر کی متنازع حیثیت کو بحال نہیں کرتا اور گرفتار ہزاروں بے گناہ کشمیریوں کو بھارتی جیلوں اور عقوبت خانوں سے رہا نہیں کردیاجاتا۔ امریکی ثالثی دھوکا اور گھاٹے کا سودا ہے، اس لیے حکومتِ پاکستان عالمی عدالتِ انصاف میں کشمیر کا مقدمہ پیش کرے اور اس سلسلے میں کی جانے والی کوششوں سے عوام کو آگاہ کرے، مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو درجہ اوّل کا پاکستانی شہری قرار دیا جائے تاکہ وہ بغیر پاسپورٹ اور ویزا پاکستان کا سفر کرسکیں۔ وزارتِ خارجہ اور دوسرے کلیدی عہدوں سے قادیانیوں کو برطرف کیا جائے جو مسئلہ کشمیر کے حل میں رکاوٹ ہیں، آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر کو نمائندہ اور بااختیار بنایا جائے اور کشمیریوں کو اپنا مقدمہ خود پیش کرنے دیا جائے۔ آزاد خطے کو نظریاتی اور معاشی اعتبار سے ماڈل بنایا جائے۔ سفارتی و دیگر ذرائع سے کی جانے والی کوششوں پر پیش رفت نہ ہونے کی صورت میں آزادیٔ کشمیر کے لیے جہاد فی سبیل اللہ ہی واحد آپشن ہے، اس لیے حکومت پوری قوم کو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے ذہناً اور عملاً تیار کرے۔