بھارت کا متنازع شہریت بل، خانہ جنگی کی صورتحال، اقوام عالم کی خاموشی

بل کی انتہا پسندانہ تدوین نے سارے ملک میں آگ لگادی ہے

بھارت کے قانونِ شہریت مجریہ 1955میں متنازع ترمیم کی منظوری کے بعد سے سارے ہندوستان میں ہنگامے جاری ہیں۔ ہنگاموں کی شدت کا یہ عالم ہے کہ جاپانی وزیراعظم نے اپنا دورۂ ہندوستان منسوخ کردیا اور بہت سے مغربی ممالک نے اپنے شہریوں کو ہندوستان کے غیر ضروری سفر سے گریز کی ہدایت کی ہے۔ Citizenship Amendment Act یا CAAکے نام سے مشہور اس بل کا مقصد 1955ء کے قانونِ شہریت میں ترمیم کرکے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے مذہب کی بنیاد پر ستائے ہوئے لوگوں کے لیے ہندوستانی شہریت کا راستہ ہموار کرنا ہے۔ نئے قانون کا اطلاق اُن لوگوں پر ہوگا جو 31 دسمبر 2014ء سے قبل ان تین ملکوں سے بھارت آئے ہیں۔ ایسے غیر ملکیوں کو بھارتی شہریت کے لیے اب 11 کے بجائے 5 سال انتطار کرنا ہوگا۔ مودی سرکار نے یہ بل گزشتہ پارلیمان میں بھی پیش کیا تھا جسے ایوانِ زیریں یا لوک سبھا نے منظور کرلیا لیکن راجیہ سبھا (ہندوستانی سینیٹ) میں بی جے پی کے پاس پارلیمانی اکثریت نہ تھی، چنانچہ شکست کے خوف سے اسے ایوانِ بالا میں پیش ہی نہیں کیا گیا اور یہ بل کالعدم ہوگیا۔
بادی النظر میں تو یہ ایک اچھی تجویز ہے کہ مظلوموں کو مکمل شہری حقوق کے ساتھ ہندوستان میں باوقار زندگی گزارنے کا موقع ملے گا، لیکن مسودۂ قانون میں بہت صراحت کے ساتھ لکھ دیا گیا ہے کہ یہ سہولت ہجرت کرکے بھارت آنے والے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی برادری کے افراد تک محدود ہوگی۔ یعنی مسلمان اس سے مستثنیٰ ہیں۔ بھارتی صدر کے دستخط کے بعد یہ ترمیم اب ہندوستانی آئین کا حصہ بن چکی ہے۔ مسلمانوں اور دوسرے طبقات کی جانب سے CAAکے خلاف سپریم کورٹ میں 18 درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔ سپریم کورٹ نے ترمیم کے خلاف حکم امتناعی کی درخواست کو مسترد کردیا ہے جس کی بنا پر اس کے نفاذ کی راہ میں کسی عارضی رکاوٹ کا کوئی امکان نہیں۔ ہندوستانی عدالتِ عظمیٰ ان درخواستوں پر سماعت کا آغاز 22 جنوری 2020ء سے کرے گی۔
بھارتی حزبِ اختلاف نے اس بل کو آئین کے منافی قراردیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد ہندو نسل پرستی کی حوصلہ افزائی اور مسلم اقلیت کو دیوار سے لگانا ہے۔ بائیں بازو کی رہنما اور مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ شریمتی ممتا بنرجی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اس قانون پر عمل درآمد کے لیے مودی کو میری لاش پر سے گزرنا ہوگا۔ اسی طرح پنجاب، کیرالہ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کی صوبائی حکومتوں نے بھی اپنے صوبوں میں اس قانون کے اطلاق سے انکار کردیا ہے۔ ترمیم کے مجوز اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے حزبِ اختلاف کے الزام کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ ترمیم مسلمانوں کے خلاف نہیں۔ اپنے مؤقف کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ اسلام کا بطور مذہب اس ترمیم میں ذکر نہیں، لیکن اگر ان ملکوں سے کوئی احمدی، شیعہ، صوفی یا ہزارہ مسلمان ضابطے کے مطابق درخواست دے تو اس کو بھی شہریت دی جاسکتی ہے۔
اپنی تقریر میں امیت شاہ نے جذباتی انداز میں سرحد پار ہندو و سکھ برادری پر ظلم و تشدد کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں ہندو برادری کے افراد کی تعداد تشویش ناک حد تک کم ہورہی ہے۔ امیت شاہ نے پاکستان میں ہندو اور سکھ برادری کی خواتین کے مبینہ اغوا اور ان کے جبراً تبدیلیِ مذہب کے اعداد و شمار بھی پیش کیے۔ ہندوستانی وزیرداخلہ نے کہا کہ ان مظلوم شرنارتھیوں (پناہ گزینوں) کو دستاویزات کی غیر موجودگی میں بھی بھارت کی شہریت دی جائے گی۔ اس موقع پر امیت شاہ مسلمانوں کے خلاف اپنے دل کا بغض نہ چھپا سکے اور کہا کہ ستائے ہوئے ہندوئوں اور سکھوں کو ان کی دھرتی ماتا اپنے سینے سے لگائے گی اور اسی کے ساتھ غیر قانونی گھس بیٹھیوں کو نکال باہر کردیا جائے گا۔
گھس بیٹھیوں سے امیت شاہ کی مراد آسام کے وہ 40 لاکھ مسلمان ہیں جنھیں ملک سے بے دخل کرنے کی تیاری مکمل ہوچکی ہے۔ ان لوگوں کو دیس نکالا دینے کے لیے وہی مجرب حکمت عملی استعمال کی جارہی ہے جو میانمر(برما) روہنگیا مسلمانوں کو اُن کے گھروں سے نکالنے کے لیے کامیابی سے استعمال کرچکا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ آسام میں آباد مسلمانوں کی اکثریت اُن لوگوں پر مشتمل ہے جو1971ء میں بنگلہ دیش کی تحریکِ آزادی کے دوران ہجرت کرکے آسام آگئے تھے۔ چنانچہ ان کی دستاویزات کی بہت باریک بینی سے جانچ پڑتال کی جارہی ہے۔ برمی حکومت کا بھی روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں یہی مؤقف ہے کہ یہ دراصل بنگالی ہیں جو بنگلہ دیش سے ہجرت کرکے برما آئے ہیں۔
ہمالیہ کے مشرق میں واقع آسام میں مسلمانوں کا تناسب 34 فیصد سے زیادہ ہے اور یہاں اسلام بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ تحریکِ پاکستان کے دوران آسام بے حد سرگرم تھا اور اس کے دو بڑے شہر سلہٹ اور کریم گنج تحریکِ آزادی کا گڑھ تھے۔ ریفرنڈم کے دوران سلہٹ کے 99 فیصد لوگوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ اکثریت تو کریم گنج کی بھی پاکستان کے حق میں تھی لیکن بارڈر کمیشن کے بے ایمان سربراہ ریڈ کلف (Radcliffe) نے اس کا الحاق ہندوستان سے کردیا، اور اس ناانصافی پر پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ سر ظفراللہ خان نے اپنی زبان مصلحتاً بند رکھی۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے حکم پر National Register of Citizens (NRC)کی چھان بین شروع کی گئی اورگزشتہ برس جولائی میں رجسٹرار کی جانب سے جاری ہونے والے اعلان کے مطابق جن 3 کروڑ 29 لاکھ افراد کی شہریت کی تحقیق کی گئی اُن میں سے 2 کروڑ 89 لاکھ کے کاغذات درست پائے گئے، یعنی پاسپورٹ، شناختی کارڈ اور شہری صداقت ناموں کے حامل 40 لاکھ افراد نہ صرف غیر قانونی تارکین وطن ہیں بلکہ ان پر جعل سازی کا مقدمہ بھی قائم کیا جاسکتا ہے۔ خیال ہے کہ ان لوگوں کے خلاف وہی ہتھکنڈے استعمال ہوں گے جو امریکہ میں صدر ٹرمپ کی Immigration Control and Enforcement یا بدنام زمانہ ICE استعمال کرتی ہے، یعنی جعل سازی کے الزام میں گرفتاری اور پھر شہریت اور ویزے کی درخواست پر مزید کارروائی سے دست برداری کی شرط پر رہائی کے بعد ملک سے بے دخلی۔ جن 40 لاکھ افراد کی شہریت ’’مشکوک‘‘ پائی گئی ہے وہ سب کے سب مسلمان ہیں۔ مشتبہ شہریت کے حامل ان افراد میں ہندوستانی فوج کے ایک 50 سالہ ریٹائرڈ فوجی اعظم الحق بھی شامل ہیں۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ نسل پرست آل آسام اسٹوڈنٹس یونین (AASU) کے کارکن اور جنتا پارٹی کے انتہاپسند جانچ پڑتال کے دفاتر میں بیٹھے ہیں۔ یہ لوگ NRC دستاویزات میں درج محمد، احمد، عبدل اور دوسرے مسلمان ناموں کے آگے سوالیہ نشان لگا کر اُن کی دستاویز کو جعلی قرار دے رہے ہیں۔
ابتدا میں حکومت کا کہنا تھا کہ جو لوگ اپنی شہریت ثابت کرنے میں ناکام رہے انھیں اضافی دستاویزات اور شہادتیں فراہم کرنے کا ایک اور موقع دیا جائے گا۔ لیکن ان لوگوں کی نئی دستاویزات بھی غیر مصدقہ قرار دے کر مسترد کردی گئیں۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ان 40 لاکھ لوگوں کو بنگلہ دیش کی طرف دھکیلنے کے انتظامات کیے جارہے ہیں اور ریاست نے وفاق سے فوج طلب کرلی ہے۔ خیال ہے کہ ان لوگوں کو پہلے مرحلے میں گھروں سے نکال کر بنگلہ دیش کی سرحد کے قریب بیگار کیمپوں میں منتقل کیا جائے گا۔ گویا 1948ء میں فلسطین اور 2015ء میں برما کے بعد اس کامیاب حکمت عملی کے آسامی مسلمانوں پر تجربے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ بنگالی مسلمانوں کی بے دخلی سے پہلے CAAکے ذریعے پناہ گزینوں کے لیے ملک کے دروازے کھول دینے کا اعلان کرکے دہلی دنیا کے سامنے اپنا ملائم چہرہ پیش کرنا چاہتا ہے۔
تاہم بل کی انتہا پسندانہ تدوین نے سارے ملک میں آگ لگادی ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ زندگی اور موت کا معاملہ ہے کہ امیت شاہ گھس بیٹھیوں کے نام پر مسلمانوں کو ملک سے نکال دینے کے لیے پُرعزم نظر آتے ہیں۔ آسام کے ساتھ کیرالہ میں بھی NRCکی جانچ پڑتال شروع ہوچکی ہے جہاں ’’شبہ‘‘ ظاہر کیا جارہا ہے کہ خانہ جنگی کے دوران سری لنکا سے بہت بڑی تعداد میں تامل مسلمان یہاں آئے جنھوں نے جعلی دستاویزات بناکر ہندوستانی شہریت حاصل کرلی ہے۔ CAAکے دفاع میں تقریر کرتے ہوئے امیت شاہ نے عندیہ دیا کہ ان کی پارٹی NRCکو مزید مؤثر بنانے کے لیے NRC ترمیمی بل پر کام کررہی ہے جس کے تحت سارے ہندوستان میں شہری دستاویزات کی نئے سرے سے چھان بین کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی سرکار دھرتی کو غیر قانونی گھس بیٹھیوں سے پاک کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔
ہندوستانی انتہاپسندوں نے ایک عرصے سے مسلمانوں کو ہدف بنایا ہوا ہے۔ گزشتہ انتخابی مہم کے دوران امیت شاہ کی سربراہی میں قائم ہونے والے انتخابی سیل نے سنسنی خیز اعدادوشمار جاری کیے، جن کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی۔ رنگین چارٹس اور گراف کی مدد سے بتایا گیا کہ اگلے پندرہ برسوں میں یہاں مسلمانوں کی آبادی بڑھ کر 93 کروڑ ہوجائے گی، جبکہ 2035ء میں ہندوئوں کی متوقع آبادی 92 کروڑ سے کچھ زیادہ ہوگی، اور اگر مسلمان آبادی کی موجودہ شرح افزائش برقرار رہی تو 2050ء میں ہندوستان 1 ارب 89 کروڑ مسلمانوں کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔ اعدادوشمار سے ثابت کیا گیا کہ ضبطِ ولادت سے کراہیت اور کثرتِ ازدواج کی بنا پر مسلمان گھرانوں میں اوسطاً 10 بچے پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہندو خواتین جہیزکی لعنت اور ساس بہو کے جھگڑوں سے خوف زدہ ہوکر شادی سے گریز کررہی ہیں۔ یہ خواتین اعلیٰ تعلیم اورمعاشی استقلال کی تلاش میں شادی کے کھکھیڑ سے دور رہنا چاہتی ہیں، جس کی وجہ سے ہندوآبادی سکڑتی جارہی ہے۔ آر ایس ایس نے ’’چار بچے فی گھرانہ‘‘ کی تحریک شروع کی ہے۔ انتہا پسندوں کو شکوہ ہے کہ ہندو نوجوان اس معاملے میں سنجیدہ نہیں۔
اس متنازع بل کے خلاف مسلمانوں کے ساتھ معتدل مزاج ہندو اور خاص طور سے کم تر ذات کے اچھوت یا دلت بھی سخت برہم ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ امیت شاہ اور نریندر مودی ہندوستان کو برہمن سلطنت میں تبدیل کردینا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ مذہبی اور ثقافتی تنوع ہندوستان کی بقا کے لیے ضروری ہے، کہ دنیا کے کئی بڑے مذاہب نے یہاں جنم لیا ہے اور ان سب مذاہب کے ماننے والوں کو یہاں مل جل کر رہنا ہوگا۔ ہندومت کی بالادستی کا خبط اس خطے کو برباد کردے گا۔
شمالی مشرقی ہندوستان کی معاشرتی اکائیوں کو ڈر ہے کہ CAAکا سہارا لے کر بڑی تعداد میں بنگالی ہندو یہاں آجائیں گے جس کی وجہ سے علاقائی شناخت اور ثقافت کے دھندلا جانے کا خدشہ ہے۔ اسی بنا پر مغربی بنگال، آسام، اننچل پردیش، میگھالیہ، ناگالینڈ، منی پور، میزو رام اور تریپورہ میں بھی مظاہرے ہورہے ہیں۔ ان ریاستوں کا خیال ہے کہ ملک کو ہندو ریاست بنانے کے ہونکے میں مودی سرکار بھارتی سرحدوں کو غیر قانونی تارکین وطن کے لیے چوپٹ کھول دینا چاہتی ہے اور CAA کے نفاذ سے امیگریشن اور سرحد پر افراد واسباب کی آمد و رفت پر عائد تمام پابندیاں کالعدم ہوجائیں گی۔ وفاقی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اس بل کا اطلاق تریپورہ، میزورام، آسام اور میگھالیہ کے قبائلی علاقوں پر نہیں ہوگا۔ لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ تارکین وطن دہلی میں ابتدائی 5 سال گزارنے کے بعد شہریت لے کر ان علاقوں کا رخ نہیں کریں گے!
لوک سبھا میں بحث کے دوران کانگریس کے ارکان نے CAAکو آئینِ ہندوستان کی بنیادی دفعات 14/15/21/25اور 26 کی خلاف ورزی قراردیا جن میں مساوات کی ضمانت دی گئی ہے۔ کانگریس کے سینئر رہنما ششی تھرور نے جذباتی انداز میں کہا کہ یہ ملک تمام مذاہب کے ماننے والوں کا ہے اور مذہبی بنیادوں پر کسی کے لیے بھی بھارت کے دروازے بند نہیں کیے جاسکتے جبکہ یہ بل بہت صراحت کے ساتھ شہریت کو مذہب سے جوڑتا ہے۔
بل کے دفاع میں امیت شاہ نے کہا کہ یہ بل صرف تین ملکوں سے متعلق ہے جہاں مسلمان اقلیت میں نہیں، لہٰذا اس بل کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انھوں نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ میانمر، نیپال اور سری لنکا بھی پڑوسی ملک ہیں، ان کی اقلیتوں کو اس میں شامل نہیں کیا گیا، اور روہنگیا کو بھی شہریت نہیں دی جارہی ہے۔ جس پر آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی نے کہا کہ اسی سے حکومت کی بدنیتی کا اظہار ہوتا ہے۔ اگر مودی سرکار مذہب کی بنیاد پر بدسلوکی کا شکار ہونے والوں کو مکمل شہری حقوق کے ساتھ باقار ٹھکانہ فراہم کرنا چاہتی ہے تو اس فیاضی کے سب سے زیادہ مستحق نسل کُشی کا شکار روہنگیا ہیں۔
پولیس اور نیم فوجی دستوں کی جارحانہ کارروائیوں کے باوجود سارے ہندوستان میں ہنگامے جاری ہیں۔ جلائو گھیرائو کے ساتھ بی جے پی کے رہنمائوں کے گھروں پر حملوں کی اطلاعات بھی آرہی ہیں۔ کشیدگی سے آسام سب سے زیادہ متاثر ہے جہاں 40 لاکھ مسلمانوں کو بے دخلی کا خطرہ ہے۔ دلچسپ بات کہ ان ہنگاموں میں وہ انتہا پسند ہندو پیش پیش ہیں جو بنگالی مسلمانوں کو آسام سے نکالنا چاہتے ہیں۔ اب انھیں ڈر ہے کہ CAAکے نفاذ کے بعد بنگلہ دیش سے پناہ گزینوں کی فوج ظفر موج آسام کا رخ کرے گی۔ مظاہرین نے آسام کے وزیراعلیٰ سربنندا سونووال کے گھر پر بھی حملہ کیا اور اس کی بیرونی دیواروں کو منہدم کردیا۔
CAA کا نشانہ بنیادی طور پر ہندوستانی مسلمان اور پاکستان ہیں۔ دہلی انسانی حقوق کی تنظیموں کو یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ پاکستان کی غیر مسلم اقلیت بدترین امتیازی سلوک کا شکار ہے جن کے تحفظ کے لیے بھارت اپنی سرحدیں کھول رہا ہے۔ ساتھ ہی اسرائیل کے عالیہ (Aliyah) پروگرام کی طرح ملک میں ہندوئوں کا تناسب بڑھانے کے لیے دنیا بھر کے ہندوئوں کو ملک میں بسانے کی جامع حکمت عملی اختیارکی جارہی ہے۔ صہیونی اصولوں کے مطابق یہودیوں کے لیے اسرائیل میں بسنا ان کی معراج ہے، اور معراج کے لیے عبرانی میں عالیہ یا بلندی کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ عالیہ قانون کے تحت ساری دنیا سے کوئی بھی یہودی جب چاہے اسرائیل آکر آباد ہوسکتا ہے اور اسرائیلی حکومت اس کی منتقلی کے اخراجات اداکرنے کی پابند ہے۔
CAAکے تحت شرنارتھی یا پناہ گزین پروگرام کے ساتھ ہی مسلمانوں کی بے دخلی کے لیے NRCکی چھان بین کا سلسلہ تین سال سے جاری ہے۔ فی الحال جانچ پڑتال کا کام آسام کے بنگالی مسلمانوں تک محدود ہے، لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا امیت شاہ NRC میں ترمیم کے ذریعے چھان بین کا دائرہ سارے ملک تک پھیلانے پر غور کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بل سے ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ عیسائی اور کمتر ذات کے ہندوئوں (دلت) میں بھی خوف پیدا ہوگیا ہے۔ دوسری طرف آسام میں بنگالی مسلمانوں کو دیوار سے لگادینے کے خلاف بنگلہ دیشیوں میں شدید ردعمل ہے۔ حسینہ واجد کے جبر کی وجہ سے لوگ کھل کر کچھ کہنے کا حوصلہ نہیں کرپارہے لیکن سوشل میڈیا پر ہندوستان کے خلاف مہم عروج پر ہے۔ شمال مشرقی قبائلی علاقوں پر شرنارتھیوں کی آمد کا خوف طاری ہے جو ناگالینڈ، میزورام اور چھتیس گڑھ میں پہلے سے جاری علیحدگی کی تحریکو ں کے لیے مہمیز کاکام دے سکتا ہے۔

………٭٭٭………
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com اور ٹویٹر Masood@MasoodAbdali پربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹ www.masoodabdali.com پر تشریف لائیں