پاکستان پوری امت کی ترجمانی کے لیے وجود میں آیا تھا، مگر آج کا پاکستان صرف اداروں، گروہوں اور جماعتوں کا ترجمان ہے
ایک وقت تھا کہ زندگی کی تشریح اور تعبیر خدا، محبت اور علم کے ذریعے ہوتی تھی۔ ایک وقت یہ ہے کہ زندگی کے ہر دائرے میں طاقت، سرمائے اور قبائلیت کے شیاطین کا تماشا جاری ہے، اور زندگی کے ہر دائرے کی تشریح و تعبیر کے لیے طاقت، سرمایہ اور قبائلیت پوری طرح کفایت کرتے نظر آتے ہیں۔
عالمی سطح پر طاقت کے شیطان کا ننگا ناچ دیکھنا ہو تو دنیا کے دس طاقت ور ترین ملکوں کے ’’جنگی بجٹ‘‘ کے اعداد و شمار پر ایک نظر ڈال لینا کافی ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے دس طاقت ور ترین ملکوں کا سالانہ جنگی بجٹ کچھ اس طرح ہے:۔
امریکہ 717 ارب ڈالر
چین 117 ارب ڈالر
بھارت 60.9 ارب ڈالر
جرمنی 53 ارب ڈالر
سعودی عرب 51 ارب ڈالر
برطانیہ 49 ارب ڈالر
فرانس 48 ارب ڈالر
جاپان 47 ارب ڈالر
روس 46.4 ارب ڈالر
جنوبی کوریا 42 ارب ڈالر
ان اعداد و شمار کو جمع کیا جائے تو دنیا کے دس طاقت ور ترین ممالک ہر سال 1291.3 ارب ڈالر ’’جنگی بجٹ‘‘ پر صرف کررہے ہیں۔ صرف امریکہ کا جنگی بجٹ 717 ارب ڈالر ہے، جبکہ دیگر 9 طاقت ور ترین ممالک کا مجموعی جنگی بجٹ صرف 574.3 ارب ڈالر ہے۔ ہم نے یہاں ’’دفاعی بجٹ‘‘ کو ’’جنگی بجٹ‘‘ قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ، روس، چین، بھارت، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کو کسی دوسرے ملک سے خطرہ لاحق نہیں، چنانچہ ان کا بجٹ کسی اعتبار سے ’’دفاعی‘‘ نہیں ہے۔ ان ممالک کا بجٹ ہر صورت میں جنگی بجٹ ہے۔ امریکہ کے جنگی بجٹ کو دیکھا جائے تو اُس کا جنگی بجٹ پوری دنیا کے دفاعی اخراجات سے زیادہ ہے۔ چنانچہ امریکہ دنیا میں’’طاقت کی فحاشی‘‘ کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ ’’طاقت کی فحاشی‘‘ کی اصطلاح کوئی طنز نہیں ہے۔ جس طرح فاحشائیں اپنے جسم کی نمائش کرتی پھرتی ہیں اسی طرح امریکہ ساری دنیا میں اپنی عسکری طاقت کی نمائش کرتا پھرتا ہے۔ کہیں وہ ’’میزائلوں کی عریانی‘‘ سے دنیا کو ڈراتا ہے، کہیں اپنے ’’بحری بیڑے کی فحاشی‘‘ سے دنیا کو خوف زدہ کرتا ہے۔ بھارت کا جنگی بجٹ تقریباً 61 ارب ڈالر ہے، جبکہ 2017ئء کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار 305 ارب ڈالر ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ بھارت اپنے جنگی بجٹ میں جس طرح اضافہ کرتا چلا جارہا ہے اُس کے نتیجے میں بھارت کا مجموعی جنگی بجٹ ہماری مجموعی قومی پیداوار کا نصف ہوجائے گا۔ چین کا بجٹ اس وقت 177 ارب ڈالر ہے اور یہ ہماری مجموعی قومی پیداوار کے نصف سے زیادہ ہے۔
مغربی دنیا نے طاقت کے جس شیطان کو سر پر بٹھایا ہوا ہے اُس نے پوری دنیا کا جینا حرام کیا ہوا ہے۔ اس کا ٹھوس ثبوت یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ نے کسی ثبوت کے بغیر افغانستان پر حملہ کردیا۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکہ کی ’’سرکار‘‘ نے جب افغانستان کی آزادی اور خودمختاری کو پامال کیا اور افغانستان کے میدانوں اور پہاڑوں میں جب ’’طاقت کا بھنگڑا‘‘ پیش کیا تو امریکہ کے 87 فیصد عوام نے افغانستان کے خلاف امریکی جارحیت کی حمایت کی۔ اس سے ثابت ہوا کہ ’’طاقت پوجا‘‘ صرف سی آئی اے، پینٹاگون اور امریکی سیاست دانوں میں ہی مقبول نہیں بلکہ امریکی عوام بھی ’’طاقت پوجا‘‘ میں برابر کے شریک ہیں۔ افغانستان کے خلاف جارحیت کے کچھ عرصے بعد امریکہ نے یہ شوشہ چھوڑا کہ صدام حسین کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ امریکہ نے یہ کہا اور عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ اہم بات یہ ہے کہ جب کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر امریکہ نے عراق کو تباہ و برباد کیا اُس وقت امریکہ کے 60 فیصد سے زیادہ عوام نے عراق پر امریکہ کے حملے کی تائید کی۔ عام لوگ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی طاقت صرف اُس کے دشمنوں کے خلاف استعمال ہوتی ہے، مگر جو لوگ یہ سمجھتے ہیں انہیں ’’طاقت کی نفسیات‘‘ کی ’’الف، ب‘‘ بھی معلوم نہیں۔ طاقت ایک مکمل ’’مذہب‘‘ بلکہ ایک ’’مکمل ضابطہ ٔ حیات‘‘ ہے۔ جب کوئی شخص، گروہ، ادارہ یا قوم طاقت کے آگے سر جھکا دیتی ہے تو پھر طاقت دشمنوں ہی کو نہیں، ’’دوستوں‘‘ بلکہ گھر کے لوگوں کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ایڈورڈ اسنوڈن اور جولین اسانج کے ’’انکشافات‘‘ نے دنیا کو بتایا کہ امریکہ بہادر صرف دشمن ممالک کے رہنمائوں اور عوام کے ٹیلی فون ٹیپ نہیں کرتا، بلکہ وہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے اتحادیوں کے رہنمائوں، یہاں تک کہ امریکی عوام کے بھی فون ٹیپ کرتا ہے۔ مغرب نے طاقت پرستی کی نفسیات کو اتنا عام کردیا ہے کہ شوہر اور بیوی کا تعلق بھی طاقت کا مظہر یا Power Phenominon بن کر رہ گیا ہے۔ اس تعلق کے دائرے میں اب شوہر اور بیوی کا تعلق ’’تکمیلی‘‘ یا Complimentary نہیں، بلکہ ’’حریفانہ‘‘ ہے۔ شوہر بیوی کا حریف ہے اور بیوی شوہر کی حریف۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مغرب میں اب آدھے لوگ شادی کے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں، اور جہاں شادی ہوجاتی ہے وہاں نصف سے زیادہ شادیاں ناکامی پر منتج ہوتی ہیں۔ چنانچہ مغرب میں شادی طلاق حاصل کرنے کا بہانہ بن کر رہ گئی ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں مغربی فکر اور تہذیب کے اثرات پھیل رہے ہیں، وہاں وہاں شادی کا ادارہ کمزور ہورہا ہے۔ اور شادی کے ادارے کا انہدام دراصل تہذیب کا انہدام ہے، اس لیے کہ تہذیب کی بنیاد خاندان ہے۔ خاندان نہیں تو تہذیب بھی نہیں۔
مذاہب کی تاریخ بتاتی ہے کہ قارون انسانی تاریخ کا ایک ’’ولن‘‘ تھا، مگر جدید مغربی تہذیب نے انفرادی زندگی سے اجتماعی زندگی تک، اور قومی زندگی سے بین الاقوامی زندگی تک قارون کو انسانی تاریخ کا ’’ہیرو‘‘ بناکر کھڑا کردیا ہے۔ چنانچہ دنیا میں عسکری طاقت کے بعد قوموں کی اہمیت کا تعین اُن کی مجموعی قومی پیداوار یا GDP اور زرمبادلہ کے ذخائر سے ہورہا ہے۔ مجموعی قومی پیداوار کے اعتبار سے دنیا کے دس ’’باعزت ترین ملک‘‘ یہ ہیں:۔
(1) امریکہ 20.49 ٹریلین ڈالر
(2) چین 13.41 ٹریلین ڈالر
(3) جاپان 4.97 ٹریلین ڈالر
(4) جرمنی 4.00 ٹریلین ڈالر
(5) برطانیہ 2.83 ٹریلین ڈالر
(6) فرانس 2.78 ٹریلین ڈالر
(7) بھارت 2.72 ٹریلین ڈالر
(8) اٹلی 2.07 ٹریلین ڈالر
(9) برازیل 1.87 ٹریلین ڈالر
(10) کینیڈا 1.63 ٹریلین ڈالر
زرِمبادلہ کے ذخائر کے اعتبار سے دنیا کے دس ’’معزز ملک‘‘ یہ ہیں:۔
(1) چین 3210 ارب ڈالر
(2) جاپان 1259 ارب ڈالر
(3) سوئٹزر لینڈ 804 ارب ڈالر
(4) سعودی عرب 501 ارب ڈالر
(5) روس 460 ارب ڈالر
(6) تائیوان 459 ارب ڈالر
(7) ہانگ کانگ 424 ارب ڈالر
(8) بھارت 403 ارب ڈالر
(9) جنوبی کوریا 402 ارب ڈالر
(10) برازیل 329 ارب ڈالر
بلاشبہ امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور فرانس دنیا کے طاقت ور ترین ملک ہیں، مگر خود مغرب کی پیدا کردہ دنیا میں زرِمبادلہ کے ذخائر کے اعتبار سے امریکہ، برطانیہ اور فرانس دنیا کے پہلے دس ممالک میں کہیں موجود نہیں۔ مذکورہ بالا اعداد و شمار سے صاف ظاہر ہے کہ معاشی اعتبار سے چین دنیا کی بڑی معاشی طاقت بن کر ابھر چکا ہے۔ چین کی معاشی طاقت اتنی اہم ہے کہ امریکہ چین کا راستہ روکنا چاہتا ہے، یہاں تک کہ امریکہ کے پالیسی ساز چین کو طویل جنگ میں الجھانا چاہتے ہیں تاکہ چین کو مزید ابھرنے سے روکا جاسکے، مگر مغربی دنیا کے رسائل و جرائد میں شائع ہونے والے مواد کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یورپ ہی نہیں امریکہ بھی چین کی معاشی طاقت سے خوف زدہ ہے اور چین کے خلاف اقدام کرتے ہوئے اس کی حالت اس شعر جیسی ہوتی ہے ۔
ارادے باندھتا ہوں، سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے
جرمن ادیب ٹامس مان نے کہا تھا کہ 20 ویں صدی میں انسانی تقدیر سیاسی اصطلاحوں میں لکھی جائے گی۔ ٹامس مان کی یہ بات سو فیصد درست ثابت ہوئی، مگر 21 ویں صدی میں انسانی تقدیر معاشی اصطلاحوں میں لکھی جارہی ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم کی انتہا کردی ہے، اور ہندوستان کے مسلمانوں کے قتل بلکہ قتلِ عام کو ’’کھیل‘‘ بنالیا ہے، مگر امریکہ اور یورپ اپنے معاشی مفادات کی وجہ سے بھارت کے خلاف زبان کھول کر نہیں دے رہے۔ بھارت اقلیتوں کے ساتھ جو ظلم کررہا ہے، پاکستان نے اس کا صرف ایک فیصد ظلم بھی کیا ہوتا تو امریکہ اور یورپ اسے اب تک دہشت گرد ملک قرار دے کر اس کے مکمل سیاسی، معاشی اور تجارتی بائیکاٹ کی راہ ہموار کرچکے ہوتے۔
پاکستان کے لبرل اور سیکولر دانش ور آئے دن اپنی تحریروں میں ’’قومی ریاست‘‘ یا Nation State کے گن گاتے رہتے ہیں۔ وہ Nation Stat کو ’’سیاسی ارتقا‘‘ کی ایک بڑی علامت قرار دیتے ہیں۔ مگر یہ رائے نری جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ اس لیے کہ Nation State اپنی اصل میں قبائلیت کے جدید ایڈیشن کے سوا کچھ نہیں۔ اقبال نے کہا تھا ؎
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تُو سمجھتا ہے کہ آزادی کی ہے نیلم پری
یہی معاملہ Nation State کا ہے۔ درحقیقت قبائلی ریاست Nation State کا لباس پہنے کھڑی ہے۔ جس طرح قبائلی ریاست اپنی عصبیت کی وجہ سے پہچانی جاتی تھی، اسی طرح Nation State بھی اپنی ’’عصبیت‘‘ کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے۔ یہاں اقبال کا بے مثال شعر یاد آیا۔ اقبال نے کہا ہے۔
مکّے نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام
جمعیتِ اقوام کہ جمعیتِ آدم
اسلام کا تصور ’’جمعیتِ آدم‘‘ ہے۔ صرف جمعیتِ آدم کی صورت میں انسان اپنی عصبیتوں اور اپنی نفرتوں سے دست بردار ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے پر ’’جمعیتِ اقوام‘‘ اتحاد کی ’’پیروڈی‘‘ ہے۔ دیکھا جائے تو سلامتی کونسل میں پانچ ممالک کے ’’ویٹو پاور‘‘ میں طاقت، سرمائے اور قبائلیت کے شیاطین کو ایک ساتھ مل کر پارٹی برپا کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اسلام کو جب بھی عالمگیر غلبہ ملے گا وہ جمعیتِ اقوام کے بجائے جمعیتِ آدم کا تجربہ خلق کرلے گا۔ اسلام کا تصورِ امت اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
پاکستان کے دائرے میں دیکھا جائے تو ہماری انفرادی زندگی، گروہی زندگی، اداراتی زندگی اور قومی زندگی مکمل طور پر طاقت، سرمائے اور قبائلیت کے شیطانوں کے نرغے میں ہے۔ عربی ضرب المثل ہے کہ مچھلی ہمیشہ سر کی جانب سے سڑتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ معاشرے کے بالائی طبقات پہلے خراب ہوتے ہیں، پھر اُن کو دیکھ کر عوام میں خرابیاں جڑ پکڑتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام ہر معاملے میں خواص اور خواص الخصواص کی تقلید بلکہ نقل کرتے ہیں۔ پاکستان میں سب سے طاقت ور طبقہ جرنیلوں کا ہے۔ ان کی طاقت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے 1958ء سے 1999ء تک تین بار اقتدار پر قبضہ کیا، اور کوئی انہیں ایسا کرنے سے روک نہیں سکا۔ اہم بات یہ ہے کہ مارشل لا کے نفاذ کی پشت پر کبھی کوئی روحانی، اخلاقی، علمی یا قومی دلیل موجود نہیں رہی۔ جنرل ایوب نے کہا تھا کہ انہوں نے مارشل لا اس لیے لگایا کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام تھا، مگر جنرل ایوب جب 11 سال کے بعد اقتدار سے الگ ہوئے تو اُس وقت پہلے سے زیادہ سیاسی عدم استحکام تھا، یہاں تک کہ 1971ء میں ملک ہی دو ٹکڑے ہوگیا۔ ہمارے جرنیلوں نے جب بھی اقتدار پر قبضہ کیا اُن کا اقتدار ایک دہائی پر محیط ہوگیا۔ اس کے برعکس سیاسی حکومتیں دو ڈھائی سال میں ایوانِ اقتدار سے باہر ہوتی رہی ہیں۔ ہماری اعلیٰ عدالتوں نے ہمیشہ جرنیلوں کی طاقت کے آگے سرِ تسلیم خم کیا اور ان کے اقتدار کو نظریۂ ضرورت کے تحت درست قرار دیا۔ ہماری صحافت طاقت اور سرمائے دونوں کے آگے سجدہ ریز دیکھی گئی ہے، یہاں تک کہ ہماری صحافت میں قبائلیت بھی پوری طرح موجود ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ انگریزی اخبارات پر بائیں بازو کا مکمل غلبہ ہے، اور ان اخبارات میں مذہب یا کسی مذہبی جماعت کی حمایت تقریباً ناممکن ہے۔ ہمارے جرنیلوں کی شخصیت کے قبائلی پہلو کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ جنرل یحییٰ کے عہد میں ملک دو ٹکڑے ہوگیا اور حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ میں جنرل یحییٰ کے کورٹ مارشل کی تجویز پیش کی گئی، مگر نہ کبھی اُن کا کورٹ مارشل ہوا، اور نہ کبھی انہیں پاکستان کے دولخت ہوجانے کے حوالے سے عدالت میں طلب کیا گیا۔
تجزیہ کیا جائے تو جنرل پرویزمشرف کے خلاف خصوصی عدالت کے فیصلے کے بعد سے ملک میں جو کچھ ہورہا ہے اُس کی پشت پر بھی طاقت اور قبائلیت کی نفسیات کو متحرک دیکھا جاسکتا ہے۔ خصوصی عدالت نے آئین کی دفعہ 6 کی پامالی پر جنرل پرویزمشرف کو ’’غدار‘‘ قرار دیا تو آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل نے پریس کانفرنس کرکے اعلان کیا کہ جنرل پرویز ہرگز غدار نہیں ہیں۔ خصوصی عدالت کا تفصیلی فیصلہ سامنے آیا تو اس نے بھی فوج کے ادارے میں ردعمل پیدا کیا۔ بلاشبہ تفصیلی فیصلے میں جنرل پرویز کے حوالے سے بعض ریمارکس ایسے ہیں جن کا دفاع ممکن نہیں، لیکن تفصیلی فیصلے پر فوجی ترجمان کا ردعمل بھی کئی اعتبار سے محلِ نظر ہے۔ مثلاً فوج کے ترجمان نے کہاکہ ان کے لیے پہلے ملک ہے، پھر ادارہ ہے جو ہمارا خاندان ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر صرف فوج جرنیلوں کا خاندان ہے تو کیا باقی قوم جرنیلوں کا پاندان ہے؟ اصولی اعتبار سے دیکھا جائے تو پوری قوم ہی ایک خاندان ہے، مگر جرنیلوں نے صرف فوج کو اپنا خاندان قرار دے کر پوری قوم کو اپنے خاندان سے باہر کردیا۔ اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان نے فرمایا کہ مجھے اور عدلیہ کو بدنام کرنے کے لیے گھنائونی سازش کی جارہی ہے۔ ان حقائق کو دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ ہماری قومی زندگی کا ہر شعبہ طاقت اور قبائلیت کی نفسیات کے زیراثر ہے۔ پاکستان پوری امت کی ترجمانی کے لیے وجود میں آیا تھا، مگر آج کا پاکستان صرف اداروں، گروہوں اور جماعتوں کا ترجمان ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے سیاست دانوں، سیاسی جماعتوں اور سیاسی عمل میں طاقت، سرمائے اور قبائلیت تینوں کے عیوب موجود ہیں۔ ہماری سیاست طاقت، سرمائے اور Electables کی سیاست ہے، چنانچہ اس سیاست میں سرمائے اور Electables کے بغیر بڑی کامیابی کیا، قابلِ ذکر کامیابی بھی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ ہماری سیاست پر لسانی اور صوبائی تعصبات کا غلبہ ہے۔ تمام مہاجروں کو معلوم ہے کہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سیاست دہشت گردی کی سیاست ہے، بھتہ خوری کی سیاست ہے، الطاف حسین کا بھارتی ایجنٹ ہونا عیاں ہے، مگر مہاجروں کی بڑی تعداد ابھی تک الطاف حسین اور ایم کیو ایم دونوں سے چمٹی ہوئی ہے۔ یہ صورتِ حال ایک قسم کی ’’قبائلیت‘‘ ہی کا شاخسانہ ہے۔ تمام پنجابیوں کو معلوم ہے کہ پورا شریف خاندان کرپشن میں گلے گلے تک ڈوبا ہوا ہے۔ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سابق سربراہ جنرل درانی نے اپنی تصنیف ’’اسپائی کرونیکلز‘‘میں لکھا ہے کہ میاں شہبازشریف بھارتی پنجاب اور پاکستانی پنجاب کو ایک کرنے کے لیے بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ راجا امریندر سنگھ کے ساتھ بات چیت کررہے تھے، مگر اس کے باوجود پنجابیوں کی اکثریت ابھی تک شریف خاندان کے گرد طواف کررہی ہے۔ یہ ایک طرح کی ’’قبائلیت‘‘ ہی کا شاخسانہ ہے۔ تمام سندھی جانتے ہیں کہ آصف علی زرداری کرپٹ ہیں اور پیپلزپارٹی نے گزشتہ چالیس سال میں سندھیوں کو کچھ نہیں دیا، مگر اس کے باوجود سندھیوں کی اکثریت ابھی تک بھٹو خاندان اور پیپلزپارٹی کی عاشق ہے۔ یہ قبائلیت ہی کا نتیجہ ہے۔ ہماری مذہبی جماعتوں کی فرقہ پرستی اور مسلک پرستی بھی ایک قسم کی قبائلیت ہی ہے۔ مذہبی جماعتوں میں صرف جماعت اسلامی ایک ایسی جماعت ہے جو “Idea” پر کھڑی ہے۔ چونکہ وہ Idea پر کھڑی ہے اس لیے وہ انتخابی اعتبار سے کامیاب نہیں ہے۔ اگر جماعت اسلامی بھی طاقت، سرمائے اور مذہبی یا غیر مذہبی قبائلیت کی سیاست کررہی ہوتی تو وہ بھی ایک بڑی انتخابی قوت ہوتی۔
ہمارے معاشرے کی طاقت پرستی کا یہ عالم ہے کہ جس طرح جرنیلوں کو کوئی چیلنج نہیںکرسکتا، اسی طرح کوئی یہ تصور نہیں کرسکتا کہ وہ نواز لیگ میں میاں نوازشریف، پیپلزپارٹی میں آصف زرداری یا بلاول، تحریک انصاف میں عمران خان اور جمعیت علمائے اسلام میں مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف آواز اٹھائے۔ اٹھائے گا تو پارٹی میں اس کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔
وکلا کا تعلق علم سے بھی ہے، عدل و انصاف سے بھی اور دلائل سے بھی… مگر چند روز پیشتر سینکڑوں وکلا نے دن دہاڑے امراضِ قلب کے ایک ادارے پر حملہ کرکے تین افراد کو مار ڈالا۔ انہوں نے ادارے میں گھس کر توڑ پھوڑ کی۔ اس منظر کو دیکھ کر اکبر الٰہ آبادی کا یہ شعر یاد آگیا ۔
پیدا ہوئے وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج میں بھی صاحبِ اولاد ہوگیا
مگر وکلا صرف شیطنت کا ایک مظاہرہ کرکے نہیں رہ گئے، بلکہ انہوں نے طاقت پرستی اور قبائلیت کے کئی اور ’’شاہکار‘‘ پیش کیے۔ انہوں نے اسپتال پر حملے کو غلطی تسلیم کرنے سے انکار کیا، انہوں نے اسپتال پر حملے کے حوالے سے کسی شرمندگی کا اظہار نہیں کیا، بلکہ انہوں نے اسپتال پر حملے کے ذمے داروں کی گرفتاری کی مذمت فرمائی اور اس کے خلاف احتجاج کیا۔ حد یہ ہے کہ سینیٹر رضا ربانی دہشت گرد وکلا کی حمایت کرتے نظر آئے۔ یہ طاقت پرستی اور قبائلیت کی انتہا نہیں ہے تو اور کیا ہے؟
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں علم تک طاقت اور سرمائے کی نفسیات کی نذر ہوگیا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے اور ہمارا تعلیمی نظام ’’انسان سازی‘‘ کے کام سے یکسر بے نیاز ہوگیا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ ’’پروفیشنلز‘‘ پیدا کرنے کا کام انجام دے رہا ہے۔ ان پروفیشنلز کی نفسیات زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے گرد گھومتی ہے۔ طاقت اور سرمائے کا باہمی تعلق یہ ہے کہ طاقت سے سرمایہ حاصل کیا جاسکتا ہے، اور سرمائے سے طاقت میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ بلاشبہ ہمارے یہاں اچھے ڈاکٹر، اچھے انجینئر اور اچھے اساتذہ بھی کم ہوتے ہیں… مگر اچھے ڈاکٹر، اچھے انجینئر اور اچھے اساتذہ اچھے مسلمان یا اچھے انسان بھی ہوں یہ خال خال ہی دیکھنے میں آتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں شادی کا ادارہ تک طاقت، سرمائے اور قبائلیت کی گرفت میں آگیا ہے۔ اب شادی کرتے ہوئے لڑکے کے سلسلے میں سب سے اہم بات یہ دیکھی جاتی ہے کہ وہ کماتا کتنا ہے؟ اس کا تعلق بالائی طبقے سے ہے، یا متوسط طبقے سے، یا نچلے طبقے سے؟ ذات، برادری، صوبائی اور لسانی تشخص بھی شادی کے حوالے سے اہم ہے۔ تقویٰ، نیکی، دین داری، اخلاق اور کردار کا سوال شادی بیاہ میں اب شاذ ہی اٹھتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ طلاقوں اور خلع کے واقعات میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ مغرب کی طرح ہمارے یہاں بھی شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے حریف بن کر ابھر رہے ہیں۔ طاقت اور سرمائے کے کلچر میں ’’دینے‘‘ کا خیال کم لوگوں کو آتا ہے۔ اکثریت کے ذہن پر ’’لینے‘‘ کا خیال طاری رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جہاں دینے والے کم اور لینے والے زیادہ ہوں وہاں شادیاں ناکام ہی ہوں گی۔
یہ حقیقت عیاں ہے کہ صرف مذہب، محبت اور علم انسان کو ’’مکالمہ‘‘ سکھاتے ہیں۔ اس لیے کہ صرف مذہب، محبت اور علم کے کلچر ہی میں انسان ’’دوسرے‘‘ کو ’’اپنے برابر‘‘ سمجھ سکتا ہے۔ طاقت، سرمائے اور قبائلیت کے کلچر انسان کے سائے کو بھی اُس کا ’’دوسرا‘‘ بنادیتے ہیں۔ ٹیلی وژن کے ٹاک شوز ’’مکالمے‘‘ کے لیے ہوتے ہیں، مگر ان ٹاک شوز میں اتنا شور ہوتا ہے کہ تمام ٹاک شوز ’’مکالمے‘‘ سے زیادہ ’’خود کلامی‘‘ کی علامت بنے نظر آتے ہیں۔