آنے والے دنوں میں عدلیہ اور چیف جسٹس کا امتحان

بیرونی دباؤ پر کوالالمپور سربراہی اجلاس میں عدم شرکت

جسٹس گلزار احمد نے ملک کے نئے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھالیا ہے۔ صدرِ مملکت عارف علوی نے ایوانِ صدر میں اُن سے عہدے کا حلف لیا۔ جسٹس گلزار احمد دو سال ایک ماہ اور دس دن تک چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہیں گے۔ حلف برداری کی تقریب میں وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت اہم شخصیات نے شرکت کی۔ وزیراعظم عمران خان نے چیف جسٹس گلزاراحمد کو عہدے کا حلف اٹھانے پر مبارک باد دی اور ان کے لیے پھول بھی بھجوائے۔
جسٹس گلزار احمد ایک ایسے وقت میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنے ہیں جب ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے روبرو نہایت اہم مقدمات ہیں۔ یہ مقدمات کسی امتحان سے کم نہیں ہیں۔ نئے چیف جسٹس کے سامنے تین بڑے کیس کون سے ہیں؟ جسٹس گلزار احمد کو بطور چیف جسٹس پاکستان آرمی چیف توسیع کیس پر عمل درآمد، پرویزمشرف کی سزائے موت کے فیصلے کے خلاف اپیل اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے معاملات کو دیکھنا ہے۔ سابق وزیراعظم نوازشریف کی سزاؤں اور آصف علی زرداری سمیت دیگر سیاست دانوں کے نیب مقدمات کے فیصلوں یا ضمانت کے لیے اپیلیں بھی چیف جسٹس گلزار احمد کے دور میں ہی سپریم کورٹ میں آئیں گی۔ جسٹس گلزار احمد کی شہرت ہے کہ وہ کرپشن کے بہت خلاف ہیں اور ایسے مقدمات میں وہ قانون پر مکمل عمل درآمد چاہتے ہیں۔ آئندہ دوسال انہیں سپریم کورٹ کے روبرو پیش کیے جانے والے ایسے بے شمار مقدمات کی سماعت کرنا ہوگی۔ سبک دوش چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جعلی گواہوں اور پولیس کی ناقص تفتیش کے خلاف مؤثر کام کیا۔ اب چیف جسٹس گلزار احمد کو ملک میں قبضہ مافیا اور خصوصاً ترقیاتی اداروں اور ایکسائز کے سرکاری محکموں کے بدعنوان ملازمین کی جانب سے جعلی کاغذات بناکر شہریوں کے پلاٹوں پر قبضے کے خلاف نوٹس لینا ہوگا۔ یہ قبضہ مافیا سندھ اور پنجاب میں بہت سرگرم ہے۔
سپریم کورٹ میں ایک مقدمہ ایسا بھی سماعت ہوا جس نے حکومت کو ایک بہت بڑے امتحان میں ڈال رکھا ہے۔ یہ مقدمہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کے حوالے سے قانون سازی کرنے سے متعلق ہے۔ دوسرا بڑا مقدمہ جنرل پرویزمشرف کا ہے۔ ان دونوں مقدمات کے فیصلے آچکے ہیں اور حتمی فیصلے کے منتظر لوگوں کی نظریں سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ پر جمی ہوئی ہیں۔ پاکستان میں آئین کو عضوِ معطل بنانے والے فوجی ڈکٹیٹروں کے ٹرائل کی روایت نہیں تھی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان اقتدار سے سبک دوش ہونے کے بعد باعزت زندگی گزارتے رہے۔ جنرل یحییٰ خان کے دورِ اقتدار میں ملک ٹوٹ گیا، اور ملک توڑنے والوں کا ٹرائل نہیں ہوا تو آئین توڑنے والوں کو سزا کیسے دی جاتی! جنرل یحییٰ خان کو قومی پرچم میں لپیٹ کر سرکاری اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کیا گیاجبکہ وہ ملک کے اکثریتی بازو کی علیحدگی کے مجرم بھی تھے، اسی طرح جنرل ضیاء الحق طیارہ تباہ ہوجانے پر لقمہ اجل بنے تو انہیں چاق و چوبند دستے نے سلامی دے کر لحد میں اتارا۔ جنرل پرویزمشرف کو بھی ایوانِ صدر سے گارڈ آف آنر دے کر رخصت کیا گیا۔سمجھا تو یہی جارہا تھاکہ ان کے ٹرائل کا خواب کبھی پورا نہیں ہوسکے گا. 17دسمبر 2013ء کو آئین کے آرٹیکل 6کے تحت کارروائی شروع کرنے کے لیے سیکریٹری قانون کی طرف سے درخواست دی گئی تو سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت تشکیل دی۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ 3نومبر2007ء کے اقدامات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے یہ فیصلہ دے چکی تھی کہ جنرل پرویزمشرف نے آئین کو معطل کرکے آرٹیکل 6کی خلاف ورزی کی، اس لیے خصوصی عدالت کے لیے فیصلہ کرنا بہت آسان تھا۔ مگر قانونی مراحل طے کرتے ہوئے 6سال کا عرصہ بیت گیا، اس دوران کئی جج صاحبان ریٹائر ہوگئے، سپریم کورٹ نے اس کیس میں پرویزمشرف کو تین آپشن دیے تھے کہ وہ عدالت کے سامنے پیش ہوکر بیان ریکارڈ کروائیں، آن لائن بیان دے دیں، یا پھر اپنے کسی وکیل کو پاور آف اٹارنی دے دیں۔ پرویزمشرف نے عدالت کے سامنے حاضر ہونے کا آپشن قبول کرلیا مگر وہ نہ آئے۔ سپریم کورٹ نے آخری موقع دیتے وقت واضح کردیا تھا کہ وہ اِس بار پیش نہ ہوئے تو اپنا حقِ دفاع کھو دیں گے۔ یہ مئی کی بات ہے۔ اس کے بعد بھی کم و بیش پانچ ماہ عدالت نے توقف کیا اور انہیں حاضر ہونے کا موقع دیا گیا، مگر وہ نہیں آئے تو ان کی غیر موجودگی میں فیصلہ سنادیا گیا۔ پرویزمشرف کو سزائے موت ایک علامتی فیصلہ ہے جس پر عمل درآمد کا امکان کتنا ہے یہ سوال بھی تاریخ میں کہیں گم ہوجائے گا۔ امکان یہی ہے کہ پرویزمشرف پاکستان نہیں آئیں گے بلکہ اُن کی صحت کی حالت بھی اُن کے لیے کسی بڑے امتحان سے کم نہیں ہے۔ صدرِ مملکت اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس سزا میں تخفیف کرسکتے ہیں یا معافی بھی دی جا سکتی ہے۔ لیکن اس فیصلے پر تنقید ناقابلِ فہم ہے۔ ہمیشہ یہ کہا گیا ہے کہ سیاست میں مداخلت چند افراد کا انفرادی فعل ہے، اس پر پورے ادارے کو موردِ الزام نہ ٹھیرایا جائے۔ لیکن اب تو یہ کہا گیا ہے کہ ادارہ نہیں بلکہ ہم ایک خاندان ہیں۔ یہ کیس نوازشریف نے شروع کیا تھا اور اس کی قیمت بھی چکائی۔ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے زمانے میں نیوز لیکس کا کیس بنا، اس کیس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نفسیاتی دبائو میں آئی، اس پر لاک ڈائون جیسی یلغار کی گئی جس کے باعث وہ پرویزمشرف کیس کا بوجھ کاندھوں پر نہ اٹھا سکی، اور نہ انہیں باہر جانے سے روک سکی۔ اب مسلم لیگ(ن) بالکل خاموش ہے اور محتاط رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ اس وقت اسے احتیاط ہی کرنی چاہیے۔ مسلم لیگ(ن) اس وقت ایک ایسی پیکنگ میں بند ہے جس پر لکھا جاتا ہے کہ ’’احتیاط سے استعمال کیجیے“۔
وزیراعظم کے دورئہ ملائشیا کے ملتوی ہونے کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے دورئہ سعودی عرب کے بعد ملائشیا کانفرنس میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ بیرونی دبائو میں کیا ہے۔
وزیراعظم خود بھی شریک نہیں ہوئے اور وزیر خارجہ کو بھی شریک ہونے سے روک دیا۔ شنید ہے کہ بات تقریباً کھل چکی ہے کہ یہ فیصلہ دو بڑے ملکوں کے دبائو کا نتیجہ ہے۔ اسلام آباد کے باخبر حلقے دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کانفرنس کے بارے میں واشنگٹن نے دبائو ڈالا اور سعودی ولی عہد کو اپنی رائے سے آگاہ کیا کہ قطر، ایران، ترکی، ملائشیا کا بلاک بن رہا ہے۔ پاکستان کے لیے اس کانفرنس میں شرکت اس لیے ممکن نہ ہوسکی کہ سعودی عرب مالی لحاظ سے ہماری مدد کررہا ہے، لہٰذا جو تحفظات سامنے آئے اس وجہ سے وزیراعظم ملائشیا کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔ چونکہ سعودی عرب نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں بھاری رقم جمع کرائی ہوئی ہے اس وجہ سے اُس کی خواہش کی اطاعت کی گئی۔ سعودی عرب سمجھتا ہے کہ کوالالمپور سمٹ دنیا کے ایک ارب 75کروڑ مسلمانوں کو درپیش مسائل پر تبادلہ خیال کے لیے ایک مناسب فورم نہیں ہے، تمام مسائل کے حل کے لیے اسلامی تعاون تنظیم کے فورم ہی پر بات چیت کی جانی چاہیے۔ سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ملائشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد سے براہِ راست خود بھی ٹیلی فونک گفتگو کی تھی کہ مسلم دنیا کے ایشوز پر صرف او آئی سی کے پلیٹ فارم ہی سے بات چیت کی جانی چاہیے۔ سعودی عرب کے پاکستان میں سفارت خانے نے اس بات کی تردید کی کہ پاکستان کو کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ سعودی سفارت خانے نے کہا کہ یہ گہرے تزویراتی تعلقات ہیں جو اعتماد، افہام وتفہیم اور باہمی احترام پر قائم ہیں۔ سعودی عرب کے سفارت خانے کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان بیشتر علاقائی، عالمی اور بطور خاص امتِ مسلمہ کے معاملات میں اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے۔ سعودی عرب ہمیشہ دوستانہ تعلقات کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ سعودی سفارت خانے نے کہا کہ ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے تاکہ پاکستان ایک کامیاب اور مستحکم ملک کے طور پر اپنا کردار ادا کرسکے۔

سبک دوش چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ازخود نوٹس کا استعمال کم کرنے اور پیش رو کے شروع کیے گئے کاموں کو جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا تھا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 17 جنوری 2019ء کو سبک دوش ہونے والے اپنے پیش رو چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کے اعزاز میں منعقدہ فل کورٹ ریفرنس کے موقع پر ”ازخود نوٹس“ کا استعمال کم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ بھی کیا تھا کہ وہ اپنے پیش رو کی جانب سے شروع کیے گئے کاموں کو جاری رکھیں گے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی جانب سے ازخود نوٹس لینے کے اختیار کو کم سے کم استعمال کرنے کے اعلان پر جہاں ایک جانب وکلا اور سینئر قانون دان حیران تھے، وہیں ان کے اس اعلان کو کچھ وکلا کی جانب سے سراہا بھی گیا، جو عدالتِ عظمیٰ کے اس اختیار کے ”غیر ضروری“ استعمال کے خلاف تھے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ، چیف جسٹس پاکستان کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنی مدت ملازمت کے آخری روز تک اپنے اعلان پر قائم رہے اور ایک بھی ازخود نوٹس کا اختیار استعمال نہیں کیا۔ خیال رہے کہ سابق چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار ملکی تاریخ کے دوسرے چیف جسٹس ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ ازخود نوٹس لیے۔ اُن سے پہلے یہ اعزاز سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو حاصل تھا۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ رواں سال نومبر کے اواخر میں سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق درخواست کو ازخود نوٹس میں تبدیل کرنے کی خبریں سامنے آئی تھیں، لیکن چیف جسٹس نے ان قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ انہوں نے اس درخواست کو ازخود نوٹس میں تبدیل نہیں کیا بلکہ درخواست پر آئین کے آرٹیکل 184 (سی) کے تحت عوامی مفاد کے تحت سماعت کی گئی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے رواں سال اپنے پیش رو جسٹس میاں ثاقب نثار کی ملازمت کی مدت مکمل ہونے کے بعد 18 جنوری 2019ء کو چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا تھا۔ وہ اس عہدے پر 347 دن تک فائز رہنے کے بعد 20 دسمبر 2019ء کو ریٹائر ہوگئے۔ ان کے بعد اس عہدے پر جسٹس گلزار احمد فائز ہوگئے ہیں جو یکم فروری 2022ء تک چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہیں گے۔ چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے سے قبل جسٹس آصف سعید کھوسہ کو سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف توہینِ عدالت کے مقدمے سے شہرت ملی تھی، جبکہ سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف پاناما کیس کا فیصلہ سنایا تو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں نوازشریف کو نااہل قرار دینے کی سفارش کی تھی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے چیف جسٹس بننے سے قبل 18 سال سے زائد عرصے میں جج کی حیثیت سے 50 ہزار کے قریب مقدمات کے فیصلے سنائے تھے. 2 جنوری 2019ء کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کو چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان بنانے کی منظوری دی تھی اور وزارتِ قانون نے اُن کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار 17 جنوری 2019ء کو ریٹائر ہوئے تھے، جن کے بعد جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 18 جنوری 2019ء کو 26ویں چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کا عہدہ سنبھالا تھا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ 21 دسمبر 1954ء کو صوبہ پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے، وہ اپنی تعلیمی قابلیت اور سب سے زیادہ فیصلے تحریر کرنے کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔