پاکستانی قوم نے پچیس دسمبر کو ایک بار پھر بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا یومِ ولادت جوش و جذبے سے منایا۔ زندہ قوموں کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنے اسلاف کے کردار میں اپنے مستقبل کے لیے لائحہ عمل تلاش کرتی ہیں، اپنے محسنوں کے احسانات کو یاد رکھتی اور ُان کے افکار کو نئی نسل تک منتقل کرنے میں کوتاہی نہیں کرتیں۔ مسلمانانِ برصغیر اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ انہیں قائداعظم محمد علی جناح جیسا واضح سوچ اور فکر رکھنے والا رہنما میسر آیا۔ وہ بلاشبہ اپنے دور کی ممتاز اور قدآور شخصیت تھے جنہوں نے حکیم الامت علامہ اقبال کے توجہ دلانے پر محض اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر ہندوستان کے خستہ حال مسلمانوں کی قیادت سنبھالی، انہیں بطور مسلمان ان کے حقوق اور ذمہ داریوں کا شعور عطا کیا، ان میں آزادی کی تڑپ بیدار کی، باہم دست و گریباں اور منتشر مسلمانوں کے ہجوم کو ایک قوم کی صورت متحد اور منظم کرکے انگریز حکمرانوں اور ہندو اکثریت کے غلبے سے نجات کی راہ سُجھائی۔ انہیں اس جدوجہد میں اپنوں اور پرایوں، دونوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، مگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی مدد، اپنے آہنی عزم اور مضبوط قوتِ ارادی کے ذریعے تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے تاریخ کے دھارے کا رخ تبدیل کرکے رکھ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بے مثال قوتِ ایمانی سے نوازا تھا۔ یہ اس قوتِ ایمانی ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ جدوجہدِ آزادی میں ہر طرح کی مشکلات اور مسائل کی بھٹی سے کندن بن کر نکلے اور بیک وقت انگریز سامراج کے اقتدار کی قوت، ہندو کی بنیا ذہنیت اور وطنی قومیت کے باطل نظریے کی حامل کانگریس کے فریب میں آئے بہت سے مسلمان قائدین سے چومکھی لڑائی میں فقیدالمثال فتح حاصل کی۔ انہوں نے آزادی کی اپنی جدوجہد کو خود بھی ہمیشہ آئین و قانون کی حدود کے اندر رکھا اور تحریکِ پاکستان کے کارکنوں کو بھی ہر مرحلے پر آئین و قانون کی پاسداری کی تاکید کرتے رہے۔ اپنے بے پناہ سیاسی تدبر کو بروئے کار لاتے ہوئے انہوں نے کسی بھی مرحلے پر اپنی تحریکِ آزادی میں تشدد کے عنصر کو داخل نہیں ہونے دیا، خالصتاً جمہوری جدوجہد کے ذریعے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے مسلمانانِ برصغیر کو آزادی کی نعمتِ عظمیٰ سے سرفراز کیا، اور دنیا کے نقشے کو سب سے بڑی مسلمان مملکت ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ سے روشناس کرایا۔
قیامِ پاکستان کے مقاصد سے متعلق بانیِ پاکستان کی سوچ بہت واضح تھی جس کا انہوں نے تحریکِ پاکستان کے دوران بار بار اظہار بھی کیا۔ انہوں نے مسلم قومیت کے جس نظریے کی اساس پر تحریکِ آزادی کو منظم کیا اس کی وضاحت کرتے ہوئے 8 مارچ 1944ء کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں خطاب کے دوران نہایت صاف الفاظ میں بتایا کہ ’’مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمۂ توحید ہے، نہ وطن نہ نسل… ہندوستان کا پہلا فرد جب مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا‘‘۔ پاکستان کی نئی مملکت کے نظام اور طرزِ حکومت سے متعلق بھی ان کی سوچ میں کوئی ابہام نہیں تھا۔ قیام پاکستان سے محض دو ماہ قبل 12 جون 1947ء کو مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے جالندھر میں منعقدہ اجلاس میں انہوں نے اس ضمن میں دوٹوک الفاظ میں بتایا: ’’مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرزِ حکومت کیا ہوگا؟ مگر پاکستان کے طرزِ حکومت کا فیصلہ کرنے والا میں کون ہوتا ہوں؟ مسلمانوں کا طرزِ حکومت آج سے تیرہ سو سال پہلے قرآن مجید نے وضاحت سے بیان کردیا تھا۔ الحمدللہ! قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے! تاقیامت موجود رہے گا۔‘‘
قیام پاکستان کے بعد بھی بانیِ پاکستان نے بارہا واضح کیا کہ پاکستان کی بقاء اور استحکام اسلام کے سنہری اصولوں پر عمل پیرا ہونے سے ہی ممکن ہے۔ سبی دربار بلوچستان میں 14 فروری 1948ء کو اپنے خطاب میں قائداعظم نے ہر طرح کی غلط فہمی کو دور کردیا اور فرمایا: ’’میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ سنہری اصولوں والے اس ضابطۂ حیات پر عمل کرنا ہے جو ہمارے عظیم واضعِ قانون، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے قائم کررکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو۔‘‘
بانیِ پاکستان کی قیامِ پاکستان سے پہلے اور قیامِ پاکستان کے بعد کی تقاریر، انٹرویوز اور خطوط سے ان کی سیاسی سوچ، فکر، نظریے اور اسلام سے متعلق راسخ عقیدے کا اظہار ہوتا ہے، مگر بدقسمتی سے انہیں اپنی اس فکر کو عملی جامہ پہنانے کا موقع نہ مل سکا اور اس مملکتِ خداداد کی باگ ڈور ابتدائی ایام ہی میں ایسے ہاتھوں میں منتقل ہوگئی جنہوں نے اسے اس کے قیام کے مقاصد سے ہم آہنگ کرنے اور یہاں اسلام کے سنہری اصولوں کو روبہ عمل لانے کے بجائے اپنے ذاتی و گروہی اقتدار اور مفادات کے تحفظ کی خاطر سازشوں کے جال پھیلانے پر اپنی تمام تر توانائیاں صرف کردیں۔ یوں قیام پاکستان کے مقدس مقاصد کو فراموش کرنے اور اس ضمن میں افکارِ قائد سے روگردانی کا نتیجہ تھا کہ دنیا کی یہ سب سے بڑی مسلمان مملکت اپنوں اور پرایوں کی سازشوں کے باعث اپنے قیام کے ربع صدی بعد ہی دولخت ہوگئی، اور باقی ماندہ پاکستان بھی بے پناہ وسائل اور دنیا کی واحد مسلمان جوہری قوت ہونے کے باوجود ان گنت مسائل و مشکلات اور عدم استحکام کے خطرات سے دوچار ہے، جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کے جس وعدے پر حاصل کیا تھا، اس وعدے کو عملی جامہ پہنانے کی کوئی ٹھوس عملی خواہش اور کوشش کسی بھی سطح پر دکھائی نہیں دیتی۔ ہمارے یہاں جو بھی لوگ برسراقتدار آتے ہیں وہ عوام کو مختلف وعدوں اور نعروں کے سبز باغ دکھاتے ہیں اور اقتدار میں آکر ان وعدوں کو یکسر بھول جاتے ہیں۔ موجودہ حکمرانوں نے بھی پاکستان کو مدینہ کی اسلامی ریاست کے نمونے پر استوار کرنے کے وعدے پر اقتدار حاصل کیا تھا، مگر اپنے اقتدار کے ڈیڑھ برس میں انہوں نے اس جانب پہلا قدم بھی نہیں اٹھایا، ملک آج بھی اپنے قیام کے مقاصد سے کوسوں دور ہے۔ قائداعظم نے سب سے زیادہ زور ایمان، اتحاد اور تنظیم پر دیا تھا، مگر پاکستان میں ان تینوں کا قحط ہے…بانیِ پاکستان کا یومِ ولادت منانے کا اوّلین تقاضا اور بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم نظام مملکت کو قائداعظم کے اصولوں سے ہم آہنگ کریں اور ایمان، اتحاد اور تنظیم کو اپنی انفرادی اور اجتماعی حیات میں حرزِ جاں بنائیں… ورنہ یہی طرزِعمل جاری رہا تو پھر
تمہاری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں
(حامد ریاض ڈوگر)