مسلمانوں کی شناخت مٹانے اور ان کے مستقبل کو مخدوش بنانے کے ردعمل میں شروع ہونے والی تحریک اب مودی مخالف مقبول لہر میں بدلنے لگی ہے
بھارت کا مسلمان ایک ٹائم بم تھا، بظاہر حالات سے مایوس، لاتعلق،کھنچا کھنچا سا… ماضی کے بوجھ سے جھکی جھکی سی نظر، مستقبل کے خطرات کے باعث دھیمی سی چال… ملک کے وسیع کینوس میں ایک بڑے کردار کی خواہش سے دست بردار ہوتا ہوا مسلمان اپنے اندر کی طاقت سے یا تو بے خبر ہوچکا تھا یا پھر اس خواہش کو دبائے ہوئے ان برے دنوں کا منتظر تھا جو نوشتۂ دیوار تھے۔ اس خاموشی کے پیچھے ایک طوفان چھپا ہوگا اس کا شاید کسی کو علم تھا نہ اندازہ۔ برصغیر میں پہلے شخص قائداعظم محمد علی جناح تھے جنہوں نے مثبت حوالوں سے متحدہ ہندوستان کے مسلمان کو اپنی طاقت کا احساس دلایا۔ قیام پاکستان کے بعد نریندر مودی وہ دوسرا شخص ہے جس نے اپنی منفی حرکتوں اور ذہنیت سے بھارت کے مسلمانوں کو اپنی طاقت اور صلاحیت کی بازیافت کا موقع دیا۔ 1990ء کی دہائی بھارتی مسلمان کے لیے خاصی اہم ثابت ہوئی، جب بھارت کے شہر ممبئی میں خوفناک بم دھماکوں کے بعد ملک بھر میں وسیع کریک ڈائون ہوا اور اسٹوڈنٹ اسلامک موومنٹ آف انڈیا جیسی متحرک تنظیموں کو معاشرے سے کھرچ کر پھینک دیا گیا۔ یوں یہ مسلمان آبادی کے لیے خود سپردگی کی دہائی تھی۔ ممبئی دھماکے وہ کارروائی تھی جس کا اہم کردار سمجھ کر بھارتی خفیہ ادارے دائود ابراہیم کو اب تک تلاش کررہے ہیں اور بالی ووڈ کے اداکار سنیل دت اور نرگس کے بیٹے سنجے دت زندگی کے بہت سے ماہ وسال جیلوں اور عدالتی پیشیوں میں گزار چکے ہیں۔ 2000ء کی دہائی میں گجرات کے قتل عام اور ریاست، ریاستی اداروں اور وزیراعلیٰ کی حیثیت میں نریندر مودی کی سرپرستی نے مسلمانوں کو آنے والے دور کی ایک دھندلی سی تصویر دکھادی۔ اس کے بعد مسلمانوں کے خوف اور خدشات نے اس خاموشی اور سکوت کی شکل اختیار کرلی جسے خود نریندر مودی کے فیصلے نے ہی چند دن قبل توڑ ڈالا۔ کشمیر کے حالات، وہاں کی مسلمان آبادی کا بدترین لاک ڈائون، قتلِ عام بھارتی مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر میں جھرجھری پیدا نہ کرسکے۔
حقیقت میں کشمیر نریندر مودی کا پہلا پڑائو تھا۔کشمیر ایک ذہنیت کا شکار ہوگیا تھا، اور اس ذہنیت کو یہیں قیام اور قرار نہیںآنا تھا، بلکہ واحد مسلم اکثریتی ریاست پر ہاتھ صاف کرنے کے بعد اب بھارت کے مجموعی کردار اور شناخت کو بدلنا بھارت کا اصل ہدف تھا۔ جب بھارت کشمیر میں اپنے عزائم کو عملی جامہ پہنا رہا تھا تو بھارتی مسلمانوں کی اجتماعی خاموشی پر یہ شعر صادق آرہا تھا
پُژ مردگیٔ گل پہ ہنسی جب کوئی کلی
آواز دی خزاں نے کہ تُو بھی نظر میں ہے
۔5 اگست کو نریندر مودی کا ذہن پوری طرح عیاں ہونے میں جو کمی رہ گئی تھی اسے شہریت کے متنازع قانون نے پورا کردیا۔ NRC اور CAA قوانین کے ذریعے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے جانے والے پانچ مذاہب کے لوگوں کے لیے شہریت، اور باہر سے آنے والے مسلمانوں کے لیے شہریت کے دروازے بند کرنے سے بھارتی مسلمانوں میں خطرے کی گھنٹی بج گئی۔انہیں اندازہ ہوگیا کہ وقت اور حالات نے انہیں ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ کے فیصلہ کن موڑ پر لاکھڑا کیا ہے۔ متعصب ہندو ذہنی سانچہ مسلمانوں کو تنہا اور مایوس کرنے اور دیوار سے لگائے رکھنے کے لیے برسوں سے جاری کوششوں میں اس بار تیزی لایا تھا۔ مسلمانوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے کے لیے طارق فتح کو میڈیا فیورٹ بناکر پیش کیا گیا۔ یہ شخص اپنی باتوں سے بھارتی مسلمانوں کے ذہنوں پر ہتھوڑے برساتا رہا اور متعصب ہندو ذہن مسلمانوں کی اس ذہنی اذیت اور نفسیاتی تشدد کا مزا لیتا رہا۔ انتخابات سے پہلے ایک مسلمان کو بھی ٹکٹ کا مستحق نہ سمجھنا، اور مسلمانوں کے ووٹوں کے حصول میں تکبر اور اغماض کا مظاہرہ اسی ذہنیت کی پیش قدمی تھی۔ گویا کہ طاقت اور بالادستی کے سفر میں بھارتیہ جنتا پارٹی مسلمانوں کی احسان مند رہنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ انتخابات جیتنے کے بعد تو مودی ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوگئے۔ نیشنل سٹیزن رجسٹر کا کالا قانون بارودی سرنگ پر مودی کا پائوں پڑنے کے مترادف ثابت ہوا۔ بھارتی مسلمانوں کے سروں پر تنی خوف کی چادر میں پہلا سوراخ کرنے والے مسلمان سیاست دان، اسکالرز اور علما نہیں، بلکہ جامعہ ملیہ دہلی اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلبہ تھے۔ اس کے بعد تو بھارت کی مسلمان آبادی کا پوٹینشل جس پر دو دہائیوں سے خوف اور احساسِ کمتری کا ڈھکن زبردستی چڑھا دیا گیا تھا، پریشر ککر کی طرح پھٹ کر سامنے آگیا۔ اب بھارت پُرتشدد مظاہروں کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ دہلی، حیدرآباد، میرٹھ، ممبئی، کانپور، فیروز آباد، بجنور، رام پور، مظفر نگر… جگہ جگہ مظاہروں کی لہر چل پڑی ہے۔ اس تحریک نے نریندر مودی کی ذہنیت کو پورے بھارت سمیت دنیا بھر میں بے نقاب کیا ہے۔
آسام میں حراستی کیمپ کا انکشاف ہوا۔ مودی حکومت ایسے مراکز کی موجودگی کی تردید کرتی رہی، مگر جب اخبارات نے ایسے مراکز کی تصاویر جاری کیں تو پارلیمنٹ میں کانگریسی لیڈر ششی تھرور کے ایک سوال کے جواب میں وزیر مملکت برائے داخلہ جی کشن ریڈی نے تسلیم کیا کہ آسام کے حراستی مراکز میں 1133 افراد بند ہیں۔
تحریک ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے کہ درجنوں افراد جاں بحق اور زخمی ہوچکے ہیں۔ صرف یوپی میں اب تک 17 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اس تشدد کا الزام اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی) اور پاپولر فرنٹ پر عائد کیا گیا۔ یوں لگتا ہے کہ ’سیمی‘ اب تک بھارتی انتہاپسند ہندو ذہنیت کے اعصاب پر سوار ہے۔ مسلمانوں کی شناخت مٹانے اور ان کے مستقبل کو مخدوش بنانے کے ردعمل میں شروع ہونے والی تحریک اب مودی مخالف مقبول لہر میں بدلنے لگی ہے۔کانگریس اور حزبِ اختلاف کی دوسری جماعتوں کو اس لہر پر سوار ہونے کا خیال سوجھا اور وہ کھل کر مودی کے کالے قوانین کی مخالفت پر اُتر آئیں۔ اس تحریک کو ہندوئوں سمیت دوسرے طبقات سے بھی حمایت ملنے لگی ہے، کیونکہ ہندوئوں اور دلتوں کو یہ خوف دامن گیر ہوگیا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر تقسیم کا اگلا مرحلہ ذات پات کے نام پر تقسیم ہوگا۔ ہندوئوں کے اندر سے دلت اور دوسری چھوٹی ذاتیں اور کمزور طبقات بھی اس ذہنیت کی زد میں آئیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تحریک میں دوسرے مذاہب کے لوگ بھی زور شور سے شامل ہورہے ہیں۔ یوں بھارت کو عرب اسپرنگ کی طرح ’’انڈین اسپرنگ‘‘کا سامنا ہے۔ اس صورتِ حال سے نکلنے کے لیے نریندر مودی حالات کو کوئی نیا رخ دے سکتے ہیں۔ وہ رخ پاکستان اور آزادکشمیر کے خلاف کسی چھوٹی موٹی جنگ کی صورت میں بھی سامنے آسکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ بھارتی آرمی چیف کے بیانات فالس فلیگ آپریشن کے بارے میں ہمارے خدشات کو بڑھا رہے ہیں۔ بھارت میں بڑھتے ہوئے مظاہروں کے ساتھ پاکستان کے لیے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اُٹھنے کے بعد خونیں فسادات کا خدشہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم دنیا کو متنبہ کررہے ہیں کہ جارحیت کی صورت میں منہ توڑ جواب دیں گے۔
5 اگست سے اب تک حکومتِ پاکستان دنیا کو خطے کی صورتِ حال کی سنگینی کی طرف ہی متوجہ کررہی ہے۔ دوسرے لفطوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجائی جارہی ہیں، مگر تاحال یوں لگتا ہے کہ دنیا اس خطرے کی سنگینی کو پوری طرح یا تو سمجھ نہیں سکی یا سمجھنا ہی نہیں چاہ رہی۔ نریندرمودی نے فی الحال اپنی حماقتوں سے بھارت کے لیے دنیا کی تجارتی اور سیاحتی کشش ختم نہیں، تو کم ضرور کردی ہے۔ اب بھارت باہر والوں کے لیے محفوظ جنت نہیں رہا۔ شہریت کے متنازع قانون نے بھارت میں قائم سکوتِ مرگ کو توڑ دیا ہے اور بھارت کی سب سے وفادار اور امن پسند اقلیت یعنی مسلمانوں کو سر پر کفن باندھ کر میدان میں نکلنے پر مجبور کردیا ہے۔ بھارت کے جو مسلمان 72 برس تک کشمیر کا تماشا دیکھتے رہے وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ ایک روز یہ آگ اُن کی دہلیز تک پہنچ جائے گی۔ مسلمان دشمنی اور ہندو بالادستی کے جنون کی آگ کے شعلے اب کشمیر کی حدود پار کرکے بھارتی مسلمانوں تک پہنچ گئے ہیں اور انہیں پہلی بار غیر مساویانہ قوانین کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو ان کے جذبات آتش فشاں کی مانند پھٹ پڑے ہیں، اور آج بھارت کے طول وعرض میں دریائی جلوس نکل رہے ہیں۔ بھارت کے مصلحت کوش مسلمان لیڈر کہیں پیچھے رہ گئے ہیں اور احتجاج کی قیادت روشن خیال، جرأت مند اور نوجوان طلبہ لیڈروں نے سنبھال لی ہے۔ دیوبند کے جبہ و دستار سے سیاست کے بازار تک سب پرانے اور اجارہ دار چہرے وقت کے دھندلکوں میں گم ہورہے ہیں اور جامعات سے ایک نئی قیادت اُبھر رہی ہے جو مصلحت اور خوف کو پائے حقارت سے ٹھکرا چکی ہے۔ ان حالات میں پاکستان کا فقط گھنٹیاں بجانا کافی نہیں۔ اب بھارت مودی کی حماقتوں کے باعث اندر سے خلفشار اور شکست وریخت کا شکار ہے، اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں، یہ ایک متعصب اور تنگ سوچ کا شاخسانہ ہے جس نے بھارت کی سب سے بڑی اقلیت کو منقار زیرپا بنادیا ہے۔ کشمیر کے لوگ تو ہمیشہ انہیں کہتے تھے کہ بھارت کی جمہوریت اور سیکولرازم ایک فریبِ نظر سے زیادہ کچھ نہیں۔ وقت نے یہ بات سچ ثابت کردی ہے۔ ایک فاشسٹ حکومت نے بھارت کی اقلیتوں کو خوف زدہ کرکے سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ ہندو ذہنیت حالات کا رخ موڑنے کے لیے کوئی نئی مہم جوئی شروع کردے، اور قرین قیاس ہے کہ وہ مہم جوئی کنٹرول لائن پر کی جا سکتی ہے۔ اس خطرے کے مقابلے کے لیے عوام کو تیار کرنا ناگزیر ہے، مگر حکومتوں کی سطح پر ایسی کوئی کوشش نظر نہیں آرہی۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ انکشاف چشم کشا ہے کہ بھارت نے کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر پانچ مقامات پر باڑھ ہٹادی ہے جس سے یہ واضح ہورہا ہے کہ بھارت آزادکشمیر کی حدود میں کوئی مہم جوئی کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری انٹیلی جنس نے کنٹرول لائن پر غیر معمولی نقل و حرکت نوٹ کی ہے اور اس حوالے سے سلامتی کونسل کو ساتواں خط ارسال کیا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کسی نئے مس ایڈونچر کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ دوسری طرف وادی نیلم کے جورا سیکٹر میں دونوں افواج کے درمیان شدید جھڑپ میں دو سویلین شہید اور تین فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ پاک فوج کی جوابی کارروائی میں بھارتی چوکی تباہ ہوئی ہے۔ کشمیر کو تقسیم کرنے والی کنٹرول لائن اس وقت آگ کی لکیر کا منظر پیش کررہی ہے۔ ایسی آتشیں لکیر جس سے تصادم کی چنگاریاں ہمہ وقت نکل کر آبادیوں کو بھسم کررہی ہیں۔ ایک محدود سی جنگ تو مدتوں سے جاری تھی ہی، مگر دونوں طرف سے ایک بھرپور جنگ کی بو بھی ماحول میں محسوس کی جارہی ہے۔ پانچ اگست سے مقبوضہ وادی محاصرے کی حالت میں ہے۔ بھارت وادی کے اندر 71 سالہ تاریخ کے سب سے بڑے آپریشن کی تیاری کیے بیٹھا ہے۔ بھارت کے عزائم اور ارادے وادی تک محدود نہیں بلکہ وہ آزادکشمیر کو بھی للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا ہے اور اس کا برملا اظہار کیا جارہا ہے۔ چند برس پہلے کشمیر کی خصوصی شناخت کو ختم کرنے کی باتوں کو بھی انتخابی اور سیاسی ضرورتوں کے پس منظر میں دیکھا جاتا تھا۔ کسی کو یقین ہی نہیں تھا کہ بھارت کے حکمران اپنے پیش روئوں کے وعدوں اور طور طریقوں کو نظرانداز کرکے ایک دن برہنہ جارحیت کے ذریعے کشمیر کی خصوصی شناخت کو ختم کردیں گے، مگر یہ سب کچھ ہوکر رہا۔ اب وہ آزاد کشمیر پر حملے اور قبضے کی باتیں بھی کررہے ہیں تو یہ محض باتیں نہیں۔ وہ آزاد کشمیر اور بیرونِ ملک بسنے والے آزادکشمیر کے باشندوں میں ’’فالٹ لائنز‘‘ تلاش کرچکے ہیں۔ اس سمت میں وہ بہت تیزی سے کام بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کنٹرول لائن پر پختہ بنکروں کی تعمیر ہوچکی اور بھاری اسلحہ پہنچایا جا چکا ہے۔ کبھی کبھار اسی اسلحہ کے آزمائشی استعمال کے لیے کنٹرول لائن کی قریبی آبادیوں پر گولہ باری کی جاتی ہے تو کبھی پاکستان مزید تعمیرات روکنے کے لیے کارروائی کرتا ہے۔ کنٹرول لائن پر کارروائیوں سے پاکستانی فوج کی اُلجھن یہ ہے کہ ان کی جوابی فائرنگ کی زد میں وہی مسلمان آبادی ہوتی ہے جو پہلے ہی بھارت کے ہاتھوں مصائب اور آلام کا شکار ہے۔ اس لیے پاکستان کو کنٹرول لائن پر کسی بھی کارروائی میں حد درجہ محتاط رہنا پڑتا ہے۔
اب حالات جو رخ اختیار کررہے ہیں اس میں سب احتیاطیں اور اصول پسِ پشت جاتے ہوئے معلوم ہورہے ہیں، کیونکہ بھارت کے عزائم پوری طرح عیاں ہوچکے ہیں۔ بھارت کشمیر پر کسی قابلِ عمل اور قابل قبول سمجھوتے پر آمادہ ہونے کے بجائے توسیع پسندانہ ارادوں کو عمل کا جامہ پہنانے کی راہ پر چل پڑا ہے۔ یہ تصادم اور تباہی کا راستہ ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمودقریشی محض خطوط لکھنے پر اکتفا کرنے کے بجائے اس معاملے میں حکومت کو عملی اقدامات تجویز کریں۔ بھارتی فوج کی طرف سے کنٹرول لائن پار کرنے کا انتظار کرنا لڑائی کو اپنے گھر تک لانے کے مترادف ہے۔ اس سے پہلے ہی دشمن کو اُس کے گھر میں دبوچنا بہترین فوجی حکمت عملی کہلا سکتی ہے۔ حکومتِ پاکستان کو آزادکشمیر میں کسی مس ایڈونچر کی صورت میں ہی جوابی حرکت کرنے کا تصور جھٹک کر کشمیر کی حد تک جارحانہ انداز اپنانا ہوگا۔ اس مدافعانہ پالیسی کے باعث کشمیر کے دونوں حصوں میں معصوم افراد بھارتی فوج کا نشانہ بنتے رہیں گے۔