صحت مند معاشرے میں بچوں اور کتابوں میں ایک قدرتی ربط ہوتا ہے
مشرف علی فاروقی
۔’’کیا آپ کو وہ دن یاد ہے جب اسکول میں کسی ٹیچر نے کوئی کہانی سنائی ہو؟‘‘ کہانیوں کے فوائد گنواتے ہوئے میں لوگوں سے یہ سوال اکثر پوچھتا ہوں۔ تھوڑی دیر تک میرے مخاطب کے چہرے پر ایک خوشگوار تاثر پھیل جاتا ہے جس دوران اُس کا ذہن اپنے بچپن پر کہیں نقش ایک خوشگوار یاد ڈھونڈ کر اس سے دوبارہ محظوظ ہورہا ہوتا ہے۔ کہانیاں اور اُن کو سننے کا تجربہ ہمیں بیسیوں سال گزر جانے پر بھی نہیں بھولتا۔
کسی بھی صحت مند معاشرے میں بچوں اور کتابوں میں ایک قدرتی ربط ہوتا ہے۔ بچوں کا ادب، جو کسی بھی ادب کا اہم ترین سرمایہ ہوتا ہے، اس ربط کے ذریعے بچوں تک باآسانی اور مسلسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔
اس سلسلے میں نانی، دادی کی سنائی گئی لوک کہانیاں بھی شامل ہیں۔ والدین کی پڑھ کر سنائی گئی اُن کی پسندیدہ کہانیاں بھی، اور وہ پرانے قصے اور نئی کہانیاں بھی جو رسالوں اور بچوں کے لیے لکھی گئی کتابوں میں شائع ہوکر دکانوں اور لائبریریوں کے ذریعے بچوں تک پہنچتی ہیں۔ اِن وسیلوں میں اب آن لائن ذرائع کو بھی شامل کرلیں۔ غرض ایسے معاشرے میں کہانیوں کی دنیا کبھی بھی بچوں کی پہنچ سے دور نہیں ہوتی۔ یہ کہانیوں کی دنیا بچوں کو پڑھنے کا شائق بناتی ہے۔ وہ اس کے ذریعے زبان اور اس کی خوبصورتی سے غیر محسوس طور پر متعارف اور ادبی ذوق سے آشنا ہوتے ہیں۔ زبان کو سمجھنے اور اُس کے استعمال پر مہارت اگر ایک طرف مختلف علوم میں ان کی خود آموزی کی سہولت بڑھاتی ہے تو دوسری طرف ادب سے آشنائی ان کی نظروں سے انسان اور اُس کی مجبوریوں اور کمزوریوں پر پڑا پردہ اٹھانے لگتی ہے۔
جب یہ پردہ ایک دفعہ اُٹھ جاتا ہے تو وہ دوسرے انسانوں کو ہمدردی کی نظر سے دیکھنے اور خود اپنی خامیاں تسلیم کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ یہی ادب کی سب سے بڑی اور اہم ترین تعلیم ہے۔ اب ذرا بتائیے کہ جس معاشرے کا اوپر ذکر کیا گیا ہے وہ ہمارے اپنے معاشرے سے کتنی مماثلت رکھتا ہے؟ خیر، آج کل حالات ہر جگہ دگرگوں ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہمارے بچوں اور کتابوں کے درمیان ربط اور زبان سے اُن کے رشتے کو باآسانی بحال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ ربط اتنے عرصے سے ٹوٹا ہوا ہے کہ اب یہ صرف دلچسپ کہانیاں شائع کرنے سے پوری طرح نہ جُڑ پائے گا، اور نہ ہی یہ مسئلہ اردو کتابوں کی خوبصورت طباعت سے حل ہوگا۔
ان دونوں چیزوں کا تجربہ میں کئی دفعہ کرچکا ہوں۔ آپ بچوں کے سامنے کسی دیدہ زیب ایڈیشن میں چھپی اردو میں لکھی کوئی دلچسپ کہانی رکھ دیں۔ عموماً بچے اس کتاب کو سونگھ سانگھ کر چھوڑ دیں گے۔ کوئی کوئی بچہ اسے ایک آدھ دفعہ پڑھ لے گا، لیکن وہ کہانی ان کی زندگی کا ایک اہم حصہ نہ بن پائے گی۔
اردو پڑھانے کے مروّج غیر دلچسپ طریقوں، اعلیٰ درجے کے اسکولوں میں اردو زبان اور اس کے پڑھانے والے اساتذہ کی ثانوی حیثیت، اور اسکولوں کے لیے اردو نصاب مرتب کرنے والے حضرات کی کوڑھ مغزی اور کور ذوقی نے یہ بات یقینی بنادی ہے کہ اردو کا نام آتے ہی بچے بدک جائیں۔
تو آخر وہ کون سی جادو کی چھڑی ہے جس کو ہلاتے ہی یہ معاملات ٹھیک ہوسکتے ہیں؟ آپ یقین کریں یا نہیں، یہ ربط بچوں کو کہانی سنانے کے آسان عمل سے تمام و کمال جُڑ سکتا ہے۔ اور اگر یہ کہانیاں اس طریقے سے سنائی جائیں کہ بچوں کی اس عمل میں شمولیت بھی ہو تو اس کی افادیت مزید بڑھ جاتی ہے۔
آپ میں سے کچھ لوگ شاید اس بات سے واقف ہوں کہ میں بچوں اور بڑوں دونوں کے لیے انگریزی میں کہانیاں لکھتا اور اردو کلاسیکی ادب کا انگریزی میں ترجمہ کرتا ہوں، اور کچھ سال سے اسٹوری کٹ کے نام سے جاری ایک پروگرام کے ذریعے میں اردو اور پاکستان کی دیگر زبانوں کی لوک کہانیوں کو شائع کرتا اور سناتا بھی ہوں۔
اس کام میں اب ایک پوری ٹیم میرے ساتھ ہے جو مختلف اسکولوں میں بچوں کو اردو میں کہانیاں سناتی ہے اور اس کے بعد انھیں اُن کہانیوں کو کتابی شکل میں متعارف کرواتی ہے۔ اسٹوری کٹ کے ڈبے میں کہانی کے پلاٹ پر مبنی ایک کھیل اور کہانی کی آڈیو ریکارڈنگ بھی شامل ہوتی ہے۔
’ہمارے تجربات امیر اور غریب اسکولوں میں یکساں رہے‘
اس پروگرام کے دوران ہزاروں بچوں کو کہانیاں سنانے کے عمل میں ہم نے کئی اہم چیزوں کا مشاہدہ کیا جو بار بار ہمارے تجربے میں آئیں۔ ہمارے یہ تجربات امیر اور غریب اسکولوں میں یکساں رہے۔
ہم نے دیکھا کہ جب بچے ایک ساتھ بیٹھ کر کہانی سنتے ہیں تو سننے کے دوران کہانی کے وقوعات اور اس کے کرداروں کو تصور کرنے سے کہانی میں اُن کی دلچسپی بڑھتی ہے۔
یہ شرط البتہ ہے کہ کہانیاں اور اُن کے کردار دلچسپ ہوں اور انھیں پڑھنے والے کی تفریح اور مزے کی غرض سے لکھا گیا ہو، لٹھ مار انداز میں بچوں کو کوئی سبق سکھانے کے لیے نہیں۔
جب بچے اپنے ہم مکتبوں کو اُس کہانی سے محظوظ ہوتا دیکھتے ہیں جس میں اُن کو خود مزا آرہا ہوتا ہے تو اُس میں ان کی دلچسپی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
ہم نے اس بات کو بھی ہر جگہ دیکھا کہ کوئی دلچسپ کہانی سننے کے بعد بچوں میں تجسس پیدا ہوتا ہے کہ وہ اس کہانی کو خود پڑھیں۔ کہانی سنانے والے نے جس دنیا سے اُن کو متعارف کروایا ہے اب وہ اس دنیا میں خود بحیثیت قاری داخل ہونا چاہتے ہیں۔
اگر یہ تصویری کہانیاں ہوں تو وہ اپنے تصور میں قائم کرداروں اور وقوعات کو ایک نئی صورت میں دیکھتے اور اس سے محظوظ ہوتے ہیں۔
بچوں کو کہانی سنانے کے دوران ایک اور چیز یہ مشاہدے میں آئی کہ جو بچے زبان پڑھنے میں دقت محسوس کرتے ہیں اُن میں بھی کہانی سننے کے بعد کتاب پڑھنے کا حوصلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ انھیں اطمینان ہوتا ہے کہ اگر کتاب میں کوئی مشکل لفظ آیا بھی تو کہانی کو پہلے سن لینے کے باعث وہ اُس لفظ کا مطلب جان جائیں گے۔ ایک لفظ کو مختلف سیاق و سباق میں پڑھنے سے بچوں پر اُس کے معنی بھی رفتہ رفتہ کھل جاتے ہیں اور اس عمل کے جاری رہنے سے زبان پر ان کی دسترس بڑھتی جاتی ہے۔
ہم نے یہ بھی دیکھا کہ بچوں کو کہانیاں پڑھنے کی عادت بہت جلد پڑ جاتی ہے۔ اگر اسکولوں میں کہانیاں سنانے کے لیے مہینے میں ایک پیریڈ بھی رکھ دیا جائے اور دلچسپ کہانیاں بچوں کو مہیا ہوں تو یہ بہت جلد یہ تجربہ بار آور ہوسکتا ہے۔
’دلچسپ کہانیاں کہاں سے لائیں؟‘
اب سوال اٹھے گا کہ بچوں کے لیے موزوں اور دلچسپ کہانیاں کہاں سے مہیا ہوں؟ اس مسئلے کا حل بہت آسان ہے۔ اردو میں بچوں کے ادب کا ایک بڑا حصہ بچوں کے رسائل میں موجود ہے۔
پاکستان کی اپنی علاقائی زبانوں کا لوک ادب بچوں کے لیے موزوں کہانیوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں بچوں کے عالمی ادب کو اردو اور دیگر ملکی زبانوں میں ترجمہ کرنا چاہیے تاکہ ہمارے بچے اپنی دنیا کے دیگر باسیوں اور اُن کی کہانیوں سے متعارف ہوسکیں۔ متون کے اس مجموعے سے ہم اعلیٰ درجے کا ایک پروگرام مرتب کرسکتے ہیں جو ہمارے بچوں کو کہانیوں کی دنیا میں واپس لاسکے۔
اردو کی ایک اچھی سی کہاوت ہے کہ نیک کام میں دیر کیسی!۔