اشرف غنی دوسری مدت کے لیے صدر منتخب، عبداللہ عبداللہ کا انتخابی دھاندلی کا الزام
ابتدائی نتائج کے مطابق افغانستان کے صدر اشرف غنی تین ماہ قبل منعقدہ صدارتی انتخاب میں 50.64 فیصد ووٹ حاصل کرکے دوسری مدت کے لیے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ افغانستان کے آزاد الیکشن کمیشن کے جاری کردہ ابتدائی نتائج کے مطابق اشرف غنی بمشکل مطلوبہ ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، جب کہ چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ 39.52 فیصد ووٹوں کے ساتھ رنراپ رہے۔ عبداللہ عبداللہ کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ جیسے ہی نتیجے کا باقاعدہ اعلان ہوگا ہم اس کو چیلنج کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ امیدوار کے قانونی مطالبات کو مدنظر رکھے بغیر دھاندلی کی بنیاد پر جاری نتائج کو ہم کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔ عبداللہ عبداللہ نے الزام عائد کیا ہے کہ الیکشن کمیشن اشرف غنی سے ملاہوا تھا، یہ فراڈ الیکشن ہیں۔ افغانستان میں امریکہ کے سفیر جان آر براس نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ تمام افغانوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ نتائج ابتدائی ہیں، حتمی نتائج تک پہنچنے کے لیے کئی اقدامات رہتے ہیں تاکہ افغان عوام کا ان نتائج پر اعتماد ہو۔ واضح رہے کہ افغان الیکشن کمیشن نے نومبر میں دوبارہ گنتی کا عمل شروع کیا تھا جس کی مخالفت کرتے ہوئے عبداللہ عبداللہ کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا تھا۔ عبداللہ عبداللہ کے کئی حامیوں نے دوبارہ گنتی کے عمل کو مشکوک قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ جعلی بیلٹ پیپرز کی موجودگی میں دوبارہ گنتی اشرف غنی کو فائدہ پہنچانے کی کوشش لگتی ہے۔
آزاد الیکشن کمیشن کے سربراہ حوا عالم نورستانی نے اتوار کے روز کابل میں ایک پریس کانفرنس میں ابتدائی نتائج کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابتدائی نتائج 17 اکتوبر کو جاری ہونے تھے اور حتمی نتیجے کا اعلان 7 نومبر کو طے تھا، لیکن ایسا بعض تکنیکی مسائل کے باعث ممکن نہیں ہوسکا۔ حوا نورستانی کے مطابق اشرف غنی نے ابتدائی نتائج میں 9 لاکھ 23 ہزار 868 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی ہے، جبکہ ان کے مدمقابل عبداللہ عبداللہ نے 7 لاکھ 20 ہزار 990 ووٹ حاصل کیے ہیں۔ یاد رہے کہ افغانستان میں 2014ء کے صدارتی انتخابات کے بعد بھی ایک بڑا تنازع اٹھ کھڑا ہوا تھا جب اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں نے اپنی اپنی کامیابی کا اعلان کیا تھا، لیکن امریکی مداخلت اور ثالثی کے بعد اشرف غنی کو صدر، اور عبداللہ عبداللہ کو چیف ایگزیکٹو کا عہدہ دیا گیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخابات کے ابتدائی نتائج کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب امریکہ امن عمل کو بحال کرنے اور اپنی فوج کو واپس بلانے کے لیے طالبان سے معطل شدہ مذاکرات کا عمل دوبارہ نہ صرف بحال کرچکا ہے، بلکہ امریکہ کی پوری کوشش ہے کہ مذاکرات کا یہ تازہ دور کامیاب ہو، کیونکہ غیرجانب دار ذرائع کا دعویٰ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا آئندہ صدارتی انتخابات سے پہلے پہلے ہر حال میں کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ مسلسل یہ عندیہ دیتے رہے ہیں کہ امریکہ کو بیرونی جنگوں میں اپنی افواج مروانے اور اپنے اقتصادی نقصان کے بجائے پرائی جنگوں پر ضائع کی جانے والی دولت امریکی شہریوں پر انہیں مختلف سہولیات کی فراہمی کی صورت میں خرچ کرنی چاہیے۔ جبکہ دوسری جانب طالبان اشرف غنی کی حکومت کو نہ صرف کٹھ پتلی قرار دیتے رہے ہیں بلکہ وہ افغان حکومت کے ساتھ کسی طرح کے مذاکرات کو کم از کم اب تک خارج از امکان بھی قرار دیتے آئے ہیں، جس کے تناظر میں اشرف غنی کی حالیہ انتخابی کامیابی کے ابتدائی اعلان کے باوجود یہ بات جواب طلب ہے کہ اگر امریکہ طالبان مذاکرات کامیاب ہوجاتے ہیں تو ایسے میں اشرف غنی کے مستقبل کا کیا ہوگا؟ اسی طرح اگر عبداللہ عبداللہ انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرکے اس کے خلاف ایک ملک گیر احتجاجی مہم شروع کردیتے ہیں تو ایسے حالات میں اشرف غنی کا دو محاذوں پر لڑنا یقیناً ایک مشکل امر ہوگا۔
حیران کن امر یہ بھی ہے کہ طالبان کی جانب سے صدارتی انتخابات کے نتائج پر ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے جس کے بارے میں بھی متضاد آراء سامنے آرہی ہیں، اس ضمن میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ طالبان کی صدارتی انتخابات کے نتائج پر خاموشی دراصل دوحہ میں جاری امریکہ طالبان مذاکرات کے ایجنڈے کا حصہ ہے، جب کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ انتخابی نتائج کی صورت حال واضح ہونے کے بعد ہی طالبان کا اصل مؤقف سامنے آنے کا امکان ہے، جب کہ مبصرین کے ایک تیسرے طبقے کا کہنا ہے کہ افغان صدارتی انتخابات اور موجودہ افغان سیٹ اپ کے حوالے سے چونکہ طالبان کا مؤقف سب پر عیاں ہے اس لیے طالبان نے نتائج پر اپنا کوئی تازہ مؤقف دینا ضروری نہیں سمجھا۔
افغانستان کے صدارتی انتخابات کے نتائج کے حوالے سے ایک اور حیران کن پہلو یہ بھی ہے کہ اس سلسلے میں اب تک افغانستان کے پڑوسی ممالک نے بھی خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ بعض تجزیہ کار اس خاموشی کو بھی عبداللہ عبداللہ کی جانب سے نتائج مسترد کیے جانے اور طالبان کا کوئی واضح مؤقف سامنے آنے کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ ان ماہرین کا استدلال ہے کہ جب نتائج کے اعلان کے بعد صورت حال واضح ہوگی تب ہی شاید افغانستان کے پڑوسی ممالک اس حوالے سے اپنا اپنا مؤقف بیان کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔
افغانستان میں امریکی سرپرستی اور نگرانی میں وضع شدہ جمہوری انتخابی نظام چونکہ ابتدائی مراحل سے گزر رہا ہے اس لیے اس ضمن میں موجودہ حکومت حتیٰ کہ خود امریکہ کو جو سب سے بڑ اچیلنج درپیش ہے وہ اس انتخابی نظام پر افغان عوام کے اعتماد کی بحالی ہے۔ خیال رہے کہ گزشتہ ستمبر میں منعقد ہونے والے ملک کے چوتھے صدارتی انتخابات میں 3 کروڑ 50 لاکھ نفوس پر مشتمل افغانستان کے 90 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز میں سے صرف 22 لاکھ افراد نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا تھا، جو 2001ء میں طالبان کی حکومت کا تختہ الٹائے جانے کے بعد سب سے کم شرح ہے۔
ان انتخابی نتائج کے بارے میں افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند کا کہنا ہے کہ اشرف غنی کا دوبارہ انتخاب ملک میں غیر یقینی صورت حال کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اب امریکہ کو اس حوالے سے الجھن نہیں ہوگی کہ آیا اس کو عبداللہ عبداللہ سے بات کرنی ہے یا پھر اشرف غنی سے۔ ان کا خیال ہے کہ امریکہ اب اس حوالے سے مزید غیر یقینی صورت حال کا متحمل نہیں ہوسکتا، اور وہ ضرور اشرف غنی پر بھی دباؤ ڈالے گا کہ وہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے کوئی رکاوٹ پیدا نہ کریں۔ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات پر ممکنہ اثرات کے سوال پر رستم شاہ مہمند کا کہنا تھا کہ یہ ضروری ہے کہ افغانستان میں جلد از جلد معاہدے کے بعد امن قائم ہو، کیونکہ جب تک وہاں پر دراندازی جاری رہے گی تب تک اس کا الزام پاکستان پر ڈالا جاتا رہے گا، اس لیے کسی امن معاہدے پر اتفاقِ رائے کا افغانوں کے بعد سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہوگا۔ افغانستان میں چاہے طالبان کی حکومت ہو یا کسی اور کی، بھارت کے ساتھ قریبی تعلق رکھنا اس حکومت کی مجبوری ہوگی، البتہ ایسے میں پاکستان کا یہ مطالبہ بھی جائز ہوگا کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے، تاہم اگر پاکستان یہ مطالبہ کرے کہ افغانستان کی خارجہ پالیسی بھی پاکستان کے مفادات سے ہم آہنگ ہو تو یہ غلط ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کو ایک آزاد اور خودمختار ملک مان کر ہی ہمیں اُس سے روابط رکھنے چاہئیں جس سے پاکستان کے لیے وسطی ایشیا اور افغانستان کے لیے گوادر کے راستے کھلیں گے جس سے دونوں ممالک یکساں فائدے میں رہیں گے۔
دوسری جانب علاقائی سیکورٹی امور کی ماہر اور امریکی تھنک ٹینک ووڈرو ولسن سینٹر کی فیلو ڈاکٹر سِمبل خان کا افغانستان کے موجودہ حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنا ہے کہ افغانستان میں ایک مستحکم حکومت بین الافغان مذاکرات کے لیے بہت ضروری ہے، کیونکہ طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدے کی صورت میں اگلا منطقی مرحلہ یہی ہونا ہے۔ ڈاکٹر سِمبل کہتی ہیں کہ افغان معاملے میں پاکستان ایک اہم شراکت دار ہے اور پاکستان کو اپنے خلاف اندرونِ افغانستان موجود منفی تاثر کے باوجود معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
افغانستان کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے اکثر تجزیہ کاروں کا یہ کہنا ہے کہ اشرف غنی کا بطور صدر دوسری مرتبہ انتخاب بحیثیتِ مجموعی تو پاکستان کے حق میں ہے لیکن پنجشیر (شمالی اتحاد) سے تعلق رکھنے والے امراللہ صالح کی ان کے ساتھ بطور نائب صدر کامیابی پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں یقیناً مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔ یاد رہے کہ امراللہ صالح افغان انٹیلی جنس این ڈی ایس کے سربراہ رہ چکے ہیں، اور انہیں شمالی اتحاد کے مرحوم راہنما احمد شاہ مسعود کا دستِ راست سمجھا جاتا ہے۔ دراصل اس حقیقت سے ہرکوئی واقف ہے کہ امراللہ صالح پاکستان کے سخت ناقد ہیں اور وہ ماضی میں پاکستان اور اس کے سیکورٹی اداروں کے کردار پر کھلی تنقید کرتے رہے ہیں، اس لیے اُن کا بطور نائب صدر انتخاب پاکستان کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ ایک بہت حساس معاملہ ہے کہ افغانستان کے کسی بھی اندرونی یا سرحدی مسئلے کو دوطرفہ طور پر حل کرنے کے بجائے افغان حکمرانوں اور اُن کے مقتدر اداروں کی جانب سے کسی بھی واقعے کے فوراً بعد اس حوالے سے کسی سرکاری فورم کے بجائے میڈیا پر الزام تراشی شروع کردی جاتی ہے جس میں شمالی اتحاد سے تعلق رکھنے والے امراللہ صالح جیسے پاکستان مخالف راہنما ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔ لہٰذا اب دیکھنا ہوگا کہ اشرف غنی کے ساتھ حکومت میں شامل ہونے کے بعد وہ اپنے رویّے میں کتنی تبدیلی لاتے ہیں۔ دراصل پاکستان کے خلاف افغانستان میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان افغان امن مذاکرات کی حمایت اپنے مفادات کے لیے کررہا ہے جس کا مقصد طالبان کو افغانستان پر مسلط کرنا ہے۔ حالانکہ اس تصور کا حقیقت سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ لہٰذا اس حوالے سے دونوں ممالک کی جانب سے اعتماد کی بحالی نہ صرف ازحد ضروری ہے، بلکہ یہ دونوں برادر پڑوسی ممالک کے وسیع تر مشترکہ مفاد میں بھی ہے۔