جنرل پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کا فیصلہ

بلوچستان کی سیاسی جماعتوں اور جمہوریت پسند حلقوں کا خیر مقدم

خصوصی عدالت کی جانب سے آئین کی دفعہ6 کی خلاف ورزی پر قائم سنگین غداری کیس میں سابق ڈکٹیٹر جنرل ریٹائرڈ پرویزمشرف کو سزائے موت دیے جانے کے فیصلے کا ملک کی سیاسی جماعتوں اور جمہوریت پسند حلقوں نے خیرمقدم کیا ہے، جبکہ اسٹیبلشمنٹ کے خدام، پرویزمشرف یا بادی النظر میں فوج کے مؤقف پر دلالت کررہے ہیں۔ خواہ تحریک انصاف ہو، ایم کیو ایم ہو، شیخ رشید احمد، چودھری شجاعت حسین، پاک سرزمین پارٹی ہو، بلوچستان کے اندر بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) یا دوسرے معتبرین و شخصیات ہوں، سب کی رائے ایک ہی ہے، اور سب ہی نے عدالت کو تنقید کی نوک پر لے رکھا ہے۔ بلوچستان کے اندر پرویزمشرف انتہائی ناپسندیدہ شخص سمجھے جاتے ہیں، اور یہاں کی سیاسی جماعتوں نے عدالت کے اس فیصلے کے حق میں آواز اٹھائی، جبکہ سرکار کے لوگ فیصلے کے برخلاف اظہار کررہے ہیں، جو دراصل پرویزمشرف کے بجائے فوج کی خدمت بجا لارہے ہیں۔ کو ئٹہ، کوہلو، ڈیرہ بگٹی، چمن اور چند دوسرے مقامات پر اس خدمت کے تحت چند لوگ سڑکوں پر بینر اٹھائے پرویزمشرف کی حمایت میں نعرے لگانے کے لیے نکالے گئے۔ کوئٹہ میں22 دسمبر کو زرغون روڈ پر ریلوے ہاکی چوک پر جلسہ کیا گیا۔ صوبے کے وزیراعلیٰ جام کمال خان کہتے ہیں کہ وہ یعنی ان کی پارٹی اور اس منش کے لوگ کبھی بھی افواجِ پاکستان کی تذلیل کی اجازت نہیں دیں گے، افواجِ پاکستان اور سیکورٹی فورسز نے ملک کی خاطر ہزاروں شہداء دیے ہیں۔ انہوں نے سوال رکھا کہ کیا ہم دشمنانِ پاکستان کو خوش کررہے ہیں ؟ (20 دسمبر 2019ء) حالاں کہ کسی نے فوج کی تذلیل نہیں کی بلکہ یہ فیصلہ یا سیاسی لوگوں کا اختلافی بیانیہ ایک فوجی آمر کے خلاف ہے، جس نے 12اکتوبر 1999ء کو منتخب حکومت ہٹاکر اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا، نومبر2007ء میں آئین معطل کیا تھا اور ایمرجنسی نافذ کی تھی۔ پرویزمشرف کی پالیسیوں کی وجہ سے دہشت گردی میں ملک کے 70ہزار شہری شہید ہوچکے ہیں۔ ان میں پاک فوج اور دوسری فورسز کے ہزاروں شہداء شامل ہیں، اور پاکستان کے پڑوس افغانستان میں دشمن بھارت آکر بیٹھ گیا۔ یقیناً ریٹائرمنٹ کے بعد پرویزمشرف فوج کا حصہ نہیں رہے ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس آمر نے فوجی افسران کے کیریئر پر ڈاکا ڈالا تھا۔ بہرحال20 ستمبر کو بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی بیان میں پرویزمشرف کے خلاف فیصلے کی بھرپور حمایت کی گئی۔ بیان میں کہا گیا:
’’پرویزمشرف کی وجہ سے ہی بلوچستان کے حالات بحرانی شکل اختیار کرگئے ہیں۔ پرویزمشرف نواب اکبر خان بگٹی کے قاتل ہیں۔ کراچی کے سانحہ 12مئی میں عوام کے قتل کے ذمہ دار بھی یہی ہیں۔ پرویزمشرف بلوچستان میں آپریشن اور طاقت کا سہارا لے کر بے گناہ نہتے لوگوں کے قتلِ عام میں بھی مصروفِ عمل رہے، انسانی حقوق کی پامالی کرتے رہے۔ پرویزمشرف کیس کے انفرادی فیصلے کو عسکری ادارے سے جوڑنا غیر منطقی ہے۔ اگر کوئی شخص آئین شکنی کا مرتکب پایا جائے تو اُس کے لیے جو سزا رکھی گئی ہے اس سزا کا اطلاق اس پر ہوگا۔ آرٹیکل6کی خلاف ورزی کرنے، آئین توڑنے، غیر قانونی کام کرنے پر ان کے خلاف طویل عرصے سے کیس چل رہا تھا۔ آخرکار عدالت نے جب فیصلہ دیا تو وہ سب کے لیے قابلِ احترام ہونا چاہیے۔‘‘
اسی طرح 18دسمبر 2019ء کو پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کی مرکزی پریس ریلیز میں کہا گیا:
’’عدالت کا فیصلہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل6کے عین مطابق ہے۔ 1973ء میں آئینِ پاکستان توڑنے کی سزا کا تعین ہوچکا ہے۔ اور عدالت نے ملکی آئین کی پاسداری کرتے ہوئے اس کی روح کے مطابق سزا سنائی جو دیر آید درست آید کے مصداق ہے۔ عدالت کے فیصلے کو اداروں کی جنگ کا نام دینا ازخود ملک کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔ جمہوریت پسند عوام اور سیاسی پارٹیاں اپنے تاریخی، سیاسی، جمہوری کردار اور ذمہ داری کے تحت ملک کی ترقی و خوشحالی اور سیاسی استحکام کے لیے ایک مثبت، تعمیری، سیاسی و جمہوری فریضہ نبھاتے ہوئے آمریت نواز قوتوں کے خلاف جمہوریت کے لیے صدا بلند کریں گی۔ امید کرتے ہیں کہ تمام ادارے عدالت کے فیصلے کو آئین پر مکمل عمل درآمد سے تعبیر کریں گے۔ ملکی بقاء اور استحکام ملکی آئین پر مکمل عمل درآمد سے ممکن ہے۔ خصوصی عدالت کا فیصلہ تاریخ کا نئے اور سنہرے باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔‘‘
نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے 20 دسمبر کو گوادر میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے عدالتی فیصلے کا خیرمقدم کیا کہ ’’قانون سے کوئی بالاتر نہیں، پرویزمشرف نے آئین و قانون شکنی کی، انہیں آئینِ پاکستان کے تحت سزا سنائی گئی۔ خصوصی عدالت کے فیصلے کے بعد آئین اور سیاست میں ہر قسم کی مداخلت کا باب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہونا چاہیے۔‘‘
عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی بیان میں بھی پرویزمشرف کے خلاف خصوصی عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کیا گیا اور اسے آئین کی بالادستی اور جمہوریت کی بحالی کے لیے نیک شگون قرار دیا گیا:
’’پرویزمشرف کے سیاہ دور میں بہت بڑے قومی سانحات واقع ہوئے۔ 12مئی سانحہ کراچی،آئین کی پامالی، پارلیمنٹ کی برخاستی جیسے غیر آئینی اقدامات رونما ہوئے جنہیں ملکی تاریخ میں سیاہ ترین دور کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ آمر پرویزمشرف، جنرل ضیاء الحق، ایوب خان کے ادوار ملک کے ماتھے پر بدنما داغ کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔‘‘
18دسمبر کو جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا عبدالحق ہاشمی کے بیان میں کہا گیا کہ ’’پرویزمشرف کو سزائے موت ملک میں قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کی طرف اہم پیش رفت ہوگی، مگر عمل درآمد ہی سے قانون کی حکمرانی و پاسداری اور عوام کا اعتماد بحال ہوگا۔ ملک میں سب کے لیے قانون و انصاف کا یکساں نظام ہی ترقی و خوشحالی، عدل و انصاف کا ضامن ہوگا۔ نیا پاکستان بنانے والوں کا امتحان ہے کہ وہ آمر کو وطن واپس لاکر قانون کے مطابق سزا دیں۔ پرویزمشرف کو عدالتی فیصلے سے بچانے والے قوم کے دشمن تصور ہوں گے، اور یہ ملک وقوم کے ساتھ دشمنی اور عدالت کو بے وقعت بنانے کی سازش ہوگی۔ پرویزمشرف نے امریکی حواری بن کر قوم کا ناقابلِ تلافی نقصان کیا۔ عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد سے آمریت کا راستہ روکنے میں مدد ملے گی۔ آرٹیکل 6 کے تحت خصوصی عدالت کا فیصلہ تاریخ ساز ہے۔‘‘
نواب اکبر خان بگٹی کے صاحبزادے جمیل اکبر بگٹی کا یہ کہنا تھا کہ انہیں خوشی ہوتی اگر پرویزمشرف کو سزائے موت نواب بگٹی قتل کیس میں ہوتی۔ جمیل بگٹی کے مطابق نواز لیگ، پی پی پی اور عمران خان پرویزمشرف کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔
بلوچستان اسمبلی کے20دسمبر کے اجلاس میں بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین نے فیصلے پر تنقید کی جس پر حزبِ اختلاف نے فیصلے کے حق میں بات کی۔ یہ اجلاس شور شرابے اور بدمزگی کی نذر ہوا۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے لوگوں کو تو پرویزمشرف کے حق میں دلائل دینے ہی ہوں گے، کیوں کہ یہ بے چارے صرف حکم کی تعمیل کرنا جانتے ہیں۔