کرپشن کے خاتمے کے لیے پولیس کی آگہی مہم
کاشف رضا
نواب شاہ (بے نظیرآباد) کی مقامی عدالت نے سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی سردار اسماعیل ڈاہری کو 34 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائی، اس کی بازگشت ابھی ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ نواب شاہ ضلع میں جرائم کے تدارک کے لیے اجلاس پر اجلاس شروع ہوگئے۔ کرپشن، جرائم اور سزاؤں میں کمی کے واقعات کا سلسلہ ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ علاج جرائم کے تدارک کے لیے پے در پے اجلاس ہورہے ہیں، حالانکہ معاملات کی نزاکت کا تقاضا کچھ اور ہے۔ایس ایس پی شہید بے نظیر آباد تنویر حسین تنیو کی ہدایت پر ضلع شہید بے نظیرآباد پولیس کا جرائم پیشہ افراد اور منشیات فروشوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا تو مختلف کارروائیوں میں 101 بوری گٹکہ سپاری سمیت 290 پیکٹ زیڈ 21 گٹکہ برآمد کیا گیا اور 3 ملزمان کو گرفتار کرکے اُن کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔ معلوم ہوا کہ انچارج اے وی سی سی مبین احمد پرھیاڑ نے اپنی ٹیم کے ہمراہ خفیہ اطلاع پر نواب شاہ میں آئل ٹینکر پر چھاپہ مارکر 101 بوری گٹکہ برآمد کرکے منشیات ڈیلر دو ملزمان یار محمد ولد انار گل بروہی اور عبدالحمید ولد عبدالغفار بروہی کو گرفتار کرلیا ہے جو بلوچستان سے نواب شاہ میں منشیات فروشی کررہے تھے۔ دوسری جانب ایس ایچ او قاضی احمد نے خفیہ اطلاع ملنے پر منشیات فروش رانجھن رند کے اڈے پر چھاپہ مارکر 290 پیکٹ Z-21 گٹکا برآمد کیا اور تین ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔ ابھی اس خبر کی سیاہی خشک بھی نہ ہوئی تھی کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس شہید بے نظیرآباد رینج مظہر نواز شیخ کا یہ پیغام صادر ہوا کہ جھوٹے مقدمات داخل کرانے والوں کے خلاف کارروائی تیز کی جائے تاکہ ان کی حوصلہ شکنی ہوسکے اور حقیقی مقدمات پر توجہ دے کر جرائم کو روکا جاسکے۔ اعلیٰ سطح کے اس اجلاس میں جو اُن کے اپنے دفتر میں ہوا تینوں اضلاع کے مختلف ایس ڈی پی اوز، ڈی ایس پیز اور ایس ایچ اوز موجود تھے۔ ان کے علاوہ اجلاس میں ایس ڈی پی او دوڑ، دولت پور،کنڈیارو، بھریا، کھپرو اور سنجھورو کے علاوہ متعلقہ حدود کے ایس ایچ اوز نے بھی شرکت کی۔ ڈی آئی جی مظہرنواز شیخ کا اس امر پر زور تھا کہ ڈویژن میں امن وامان کی صورت حال کو برقرار رکھنے کے لیے متعلقہ افسران اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔ مفرور ملزمان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان کو اشتہاری قرار دیا جائے۔ انہوں نے پولیس افسران کو ہدایات دیتے ہوئے مزید کہا کہ ایف آئی آر کے اندراج کو بھی یقینی بناکر درست دفعات لگائی جائیں، کسی بھی بے قصور سے زیادتی برداشت نہیں کی جائے گی، تھانوں میں آنے والی فریادوں کا بروقت تدارک کیا جائے، جبکہ انویسٹی گیشن کے طریقہ کار کو بھی شفاف بنایا جائے اور امن وامان میں خلل ڈالنے والوں پر کڑی نظر رکھ کر ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ جرائم پر کنٹرول کرنے میں پولیس افسران واہلکاروں کی غفلت اور کوتاہی کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اجلاس پر اجلاس چل رہے تھے کہ ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ شہید بے نظیرآباد میر نادر علی ابڑو کرپشن کے خاتمے کے لیے میدان میں آگئے، انھوں نے ایک نیا ایجنڈا متعارف کروایا کہ عوام محکمہ اینٹی کرپشن کا ساتھ دیں تاکہ کرپشن کے ناسور کا خاتمہ کرکے ملک وقوم کو خوشحال بنایا جاسکے۔ اس ایجنڈے کی خاطر انھوں نے نواب شاہ میں کرپشن کے خاتمے کے لیے آگاہی ریلی بھی نکالی اور شہریوں میں کرپشن کے نقصانات کے متعلق پمفلٹ بھی تقسیم کروا ئے۔ میر نادر علی ابڑو نے شہر کی مختلف مارکیٹوں، پریس کلب روڈ، شیراز چوک، کچہری روڈ، گول چکرا، اسپتال روڈ اور سونارا مارکیٹ کے دکانداروں اور عام شہریوں میں پمفلٹ تقسیم کیے اور کرپشن کے ناسور کے متعلق آگاہی دی۔ انھوں نے شہریوں سے اپیل کی کہ سندھ کے سرکاری محکموں کے دفاتر میں جائز کاموں کے لیے رشوت طلب کی جائے تو وہ محکمہ اینٹی کرپشن کے دفتر میں اپنی شکایت درج کرائیں یا روبرو آکر مجھ سے ملیں تاکہ سرکاری محکموں میں موجود رشوت خور عناصر کے خلاف کارروائی کی جاسکے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سب کچھ کرنے کے باوجود کرپشن کیوں نہیں رک پا رہی؟ جرائم کیوں بڑھ رہے ہیں؟ شہری کیوں خوف و ہراس میں مبتلا ہیں؟ جو پولیس کے ہتھے چڑھ جاتا ہے، بے قصور ہونے کا رونا روتا ہے۔ کیا واقعی پولیس اصل چہروں کو چھوڑ کر بے گناہ لوگوں کو مجرم ثابت کررہی ہے جس کی وجہ سے جرائم بڑھ رہے ہیں! ظاہر ہے جب آپ اصل کو چھوڑ کر بے قصور پر ہاتھ ڈالیں گے تو نتیجہ جرائم کی شرح میں اضافہ ہوگا۔
ماڈل کریمنل کورٹ شہید بے نظیرآباد کے جج آصف مجید قریشی نے قتل کا جرم ثابت ہونے پر وزیر ذوالفقارعلی، میر صاحب، عاشق علی اور محمد خان بھنگوار کو سزائے موت سنادی۔ واضح رہے کہ ملزمان کے خلاف 12 اگست 2009ء کو گپچانی تھانے پر ایف آئی آر داخل کرواتے ہوئے الزام تھا کہ انہوں نے امام بخش گدارو اور رضا حسین گدارو کو فائرنگ کرکے قتل کیا تھا، جبکہ اس کیس میں دو ملزمان خاوند بخش اور شامیر بنگوار روپوش ہیں۔ اسی عدالت نے دوسرے کیس میں قتل کا جرم ثابت ہونے پر دو ملزمان عاشق علی زرداری اور واحد بخش زرداری کو عمر قید اور 2۔2 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی۔ ملزمان کے خلاف مسمات مومل زرداری نے جمال شاہ تھانے میں 25 نومبر 2017ء کو ایف آئی آر داخل کروائی تھی کہ انہوں نے مسمات صبطان خاتون ولد گلزار زرداری کو پستول کے فائر کرکے قتل کیا تھا، جبکہ اسی عدالت نے ایک اور کیس میں چار ملزمان کریم بخش، قائم، دلبر اور غلام قادر سولنگی کو قتل کا جرم ثابت نہ ہونے پر آزاد کردیا۔ ان پر فریادی حسن سولنگی نے جام داتار تھانے میں 2014ء میں ایف آئی آر داخل کرواتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ انھوں نے اس کے بھائی علی حیدر سولنگی کو فائر کرکے قتل کیا تھا۔ ان عدالتی فیصلوں کے بعد ایک اور بڑا اور تاریخی فیصلہ نواب شاہ کی عدالت نے سنایا، اور یہ فیصلہ سابق معاونِ خصوصی سندھ اور سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی سردار اسماعیل ڈاہری کو 34 سال قید کی سزا کا تھا۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج رسول بخش سومرو کی عدالت نے اسماعیل ڈاہری کو تین مختلف مقدمات میں سزا سنائی۔ انھیں غیرقانونی اسلحہ، بارودی مواد اور دستی بم رکھنے کے مقدمات میں سزا سنائی گئی۔ عدالت نے بارودی مواد اورغیر قانونی اسلحہ رکھنے کے جرم میں 10، 10سال، جبکہ دستی بم رکھنے کے جرم میں 14 سال قید کی سزا سنائی۔ رینجرز کی جانب سے سال 2018ء میں دولت پور تھانے کی حدود میں کارروائی کی گئی تھی جس کے دوران اسماعیل ڈاہری کی رہائش گاہ سے پانچ کلاشنکوف، تین دستی بم سمیت بھاری تعداد میں اسلحہ برآمد کیا گیا تھا۔ بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ میری جان کو انتظامیہ اور پولیس سے خطرہ ہے اور مجھے قتل کردیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ آصف زرداری پر میری جان بھی قربان ہے، آصف زرداری زندہ باد۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میں کسی سے نہیں ڈرتا، صرف اللہ سے ڈرتا ہوں اور اس کے سپرد اپنا فیصلہ چھوڑتا ہوں۔
اب آپ نے اندازہ لگا لیا ہوگا کہ سندھ میں امن و امان کے لیے کتنی زبردست پیش رفت ہورہی ہے کہ اسکرین پر پردہ گرتا ہے، تالیاں بجتی ہیں اور سب گھر چلے جاتے ہیں۔