انسان سے خالی زمین!۔

قاضی مظہرالدین طارق
کیا مطلب؟
کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ ہمارے سیارے زمین پر سے انسان معدوم ہوجائیں؟
ہاں! دنیا کی آبادی گھٹنا شروع ہوگئی ہے،اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ کئی ممالک کی آبادی کم ہونا شروع ہوچکی ہے۔ حالاں کہ ادارہ اقوامِ متحدہ اب بھی چیخ رہا ہے کہ آبادی میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے ، جبکہ زمین کے وسائل کم ہورہے ہیں، بلکہ ختم ہورہے ہیں۔
توجہ فرمایئے! قبلِِ مسیح کے یونانی فلسفیوں نے کہا تھاکہ پاؤ صدی سے بھی کم عرصے میں زمین کے وسائل کم ہوجائیں گے اور انسانی آبادی اتنی بڑھ جائے گی کہ انسان انسان کو کھانے لگے گا۔ حیرت ہے کہ اکیس سے زائد صدیاں بیت چکیں، ایسا کچھ نہیں ہوا۔
سوچنے کا مقام ہے، اگر ’’دو بچے خوشحال گھرانا‘‘ کا نعرہ کامیاب ہوگیا تو کیا ہوگا؟ دنیا کی آبادی نہ بڑھے گی، نہ گھٹے گی۔ دنیا کے سب براعظموں میں نوجوانوں سے ایک سروے کے ذریعے پوچھا گیا تو جو نتائج آئے وہ حیران کن ہیں، وہ یہ کہ اب نوجوانوں کی عالمی سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ زندگی ایک بار ملتی ہے، ہم کو اس سے لطف اندوز ہونا ہے، ہم اس میں اپنے بچوں کی شراکت اور مداخلت بھی پسند نہیں کریں گے۔ آئندہ کی مائوں کا کہنا تھا کہ شاید ہم تیس پینتیس بہاروں کا مزا لوٹنے کے بعد ہی اس موضوع پر سنجیدگی سے غور کریں گے۔ just do it کا نعرہ (بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست) پچھلی صدی سے اسی چیز کو اُجاگرکرنے کے مقصد سے نوجوانوں کے اذہان میں اُنڈیلا جارہا ہے، اور اگر ان لوگوں نے صرف ایک بچے یا بے اولادی کو پسند کیا تو آبادی کی شرح معکوس ہوجائے گی۔
یہ بات ہوا میں نہیں کہی جا رہی ہے، جیسا کہ ہم نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ بہت سے ممالک پہلے ہی اس سوچ کی لپیٹ میں آچکے ہیں جس کے نتیجے میں اِن ممالک کی آبادی تیزی سے گھٹنا شروع ہوگئی ہے۔ یہ عمل ترقی یافتہ ممالک میں شروع ہوچکا ہے، یہاں بزرگ زیادہ ہیں کام کرنے والے کم۔ یہ مجبور ہیں کہ ترقی پذیر ممالک سے انسانوں کی کمک منگوائیں۔ پھر یہ ممالک پریشان بھی ہیں کہ اس طرح اُن کی اپنی آبادی تو گھٹ رہی ہے مگر باہر سے آنے والوں کی آبادی بڑھ رہی ہے، کچھ نقل مکانی سے اور کچھ اِن کے زیادہ بچوں کی وجہ سے بھی اِن کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے، چند سال میں مقامی آبادی اقلیت بن جائے گی اور مہاجرین کی اکثریت ہوجائے گی۔
ان سب باتوں کی وجہ سے ان ممالک میں مختلف تہذیبوں کا سیلاب آجائے گا۔ ان کو اِن تہذیبوں کو ہضم کرنا مشکل ہورہا ہے، خاص طور پر یہ ممالک مسلم تہذیب کے پھیلنے سے بجا طور پر خوف زدہ ہیں۔ اسی لیے تو بچیوں اور خواتین کے سر پر کپڑے کے ایک ٹکڑا بھی اُن کو ایٹم بم لگ رہا ہے، وہ اس سے بھی پریشان ہیں، اور اس کے سدِباب کے لیے غیر فطری قوانین بنا رہے ہیں۔
ساری دنیا نے مغربی تہذیب پوری آن بان کے ساتھ اپنالی ہے ، وہ اپنے سب کام مغرب کے معیار کے مطابق ڈھال چکے ہیں، ان کا عریاں لباس،کھانا پینا، سور اور شراب، رقص و سرود، مخلوط محافل… سب کچھ دل و جان سے قبول کرچکے ہیں، لیکن مسلمان ہی ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حرام کردہ کوئی چیز بھی اختیار کرنے کو بجا طور پر ہرگز تیار نہیں۔
عالمی تناظر میں واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ دنیا میں صرف دو تہذیبوں مسلم اور غیر مسلم تہذیبوں کا ٹکراؤ ہے، جبکہ اسلام سب مذاہب کی تعظیم کرتا ہے اور ایسے کسی ٹکراؤ سے بچنا چاہتا ہے۔
ایک تہذیب بالکل کھوکھلی ہے، اُن کا آشیانہ شاخِ نازک پر بنا ہوا ہے، اُس میں موسم کی تبدیلیوں اور ہوا کے تھپیڑوں کو برداشت کرنے کی سکت ہی نہیں ہے، وہ اپنے آپ فنا کے گھاٹ اُتر رہی ہے۔
بے شک مسلم ممالک کے حکمران بھی زوال کا شکار ہیں، وہ اسلام کے سیاسی نظام کو فراموش کرچکے ہیں، دین کو صرف عبادات تک محدود کررکھا ہے،لیکن عامۃ الناس میں اسلام نہ صرف مقبول ہے بلکہ وہ نہایت مضبوط بنیاد پر قائم ہے۔ بنیاد کی یہ مضبوطی ہی ہے جو مغرب کے عوام الناس کو اسلام کی طرف کھینچ رہی ہے، وہ دن دور نہیں جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا، یعنی اسلام مغرب سے آئے گا، ان شاء اللہ!
اگرچہ آج قیادت و سیادت مغرب کے ہاتھوں میں ہے، لیکن دنیا کی دولت اور وسائل مسلمانوں کے پاس ہیں۔ یہ دولت کسی کی میراث نہیں ہے۔ مالک الملک صرف رب العالمین ہی ہے، وہ زمین پر اس کو ہی غالب کرتا ہے جو علم و تحقیق میں بازی لے جاتا ہے۔
جب مسلمان علوم و تحقیقات میں چھائے ہوئے تھے تو اُن کی تہذیب بھی دنیا میں غالب تھی، اب بھی اگر مسلمان اپنے ایمان پر قائم رہتے ہوئے علم و تحقیق میں بازی لے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ پورے عالم پر ان کو ہی حکمرانی عطا فرمائے گا، ان کا ہی سکہ چلائے گا، ان شاء اللہ۔
بہت سے خودمذمتی میں غرق لبرل لوگوں اور مسلم حکمرانوں کا خیال ہے کہ ہم مغرب کی نقالی کریں گے، اُن کی تہذیب اپنائیں گے تو ہم دنیا پر غالب آجائیں گے۔ لیکن اگر ہم نے ایسا کیا تو یاد رکھیں ہم اُن کی تہذیب میں ہی گم ہوجائیںگے، پھرخاطر جمع رکھیں

ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں!۔