ایس ایم ناصر علی۔ محمود عزیز
کتاب : خلاصۂ قرآن
خلاصہ نگار سید حیات النبی رضوی
صفحات : 239 ہدیہ:500 روپے
ناشر : اشاعتِ حیات: بی۔119،
سیکٹر11-B، نارتھ کراچی
’’اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلوں کو پیدا کیا تاکہ تم تقویٰ شعار ہوجائو، جس نے تمہارے واسطے زمین کو بچھونا، آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتارا، پھر اس نے تمہارے کھانے کے لیے پھل نکالے، اگر تمہیں اس کلام میں شک ہے تو اس جیسی ایک سورت لے آئو، یا اگر تم سچے ہو تو، اللہ کے سوا اپنے کسی دوسرے مددگار کو بلالائو۔ اس آگ سے بچو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے، جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔ اُن لوگوں کو خوش خبری دو جنہوںنے اچھے کام کیے، ان کے واسطے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، وہاں سے جب کھانے کو کوئی پھل ملے گا وہ کہیں گے کہ یہ تو ویسا ہی رزق ہے جیسا پہلے ہمیں ملا تھا، اور ان کے لیے وہاں پاکیزہ جوڑے ہوں گے، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
یہ’’سورۃ البقرہ‘‘ کی آیات 21 تا 25 کا ’’ہدایت‘‘ کے عنوان سے خلاصہ ہے۔ خلاصہ نگار کا کہنا ہے:
’’جی چاہتا تھا کہ ایک ایسی کتاب ہو جو آج کے دور کے مصروف قاری کوکم وقت میں قرآن کریم کے ’’الحمد سے والناس‘‘ تک کے تمام نکات خلاصے کے طور پر سامنے لاسکے۔ ذہن وفکر میں یہ بات موجود تھی کہ اگر تفسیر ہوسکتی ہے تو تلخیص بھی ممکن ہے۔ ایسی کوششیں بھی ہوئی ہیں اور کتابی شکل میں موجود ہیں، بلکہ ہر سال ماہِ رمضان میں ایسے مضامین خلاصہ تراویح کے عنوان سے شائع بھی ہوتے ہیں مگر یہ بھی اس لیے طویل ہوتے ہیں کیونکہ ان میں تفسیری، توضیحی، تجزیاتی، روایتی اور تنقیدی مضامین بھی در آتے ہیں، اور اس طرح انسانی ذہن کی آمیزش ہوجاتی ہے۔ میرے پیش نظر مقصد یہ تھا کہ صرف اور صرف قرآنی نکات کم از کم وقت میں سامنے آجائیں۔‘‘
خلاصہ نگار سید حیات النبی رضوی، پیشے کے لحاظ سے آر کی ٹیکٹ یعنی عمارت کار ہیں اور اس نام (عمارت کار)کا رسالہ بھی نکالتے ہیں، چکی کی مشقت کے ساتھ مشقِ سخن بھی جاری ہے۔ ان کا شعری مجموعہ’’زاویۂ حیات‘‘ شائع ہوچکا ہے۔ دروس العربیہ بدرجہ الاولیٰ الممتازہ ہیں۔ علامہ حسن الاعظمی الازہری المصری کے شاگرد ہیں۔
عرضِ مؤلف میں کہتے ہیں
’’عربی، فارسی سے شغف تو پہلے ہی سے تھا۔ انٹر سائنس ہونے کے ساتھ موصوف ادیب عالم بھی ہیں۔ کہتے ہیں کہ جدہ سعودی عرب میں بسلسلہ ملازمت (عمارت کار) رہائش کی بنا پر عربی زبان سے لگائو میں اضافہ ہوا اور قرآنی مضامین سے دلچسپی ہوئی، پھر عام بول چال میں عربی کے استعمال اور حرمین شریفین کی قربت نے اس ذوق کو مزید بڑھا دیا۔ سید صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی طرف سے کچھ نہیں لکھا بلکہ چار معروف جید علماء کے تراجم منتخب کرکے اپنے سامنے رکھے، جن میں :
مولانا شاہ عبدالقادرؒ دہلوی، مولانا فتح محمدؒ جالندھری، مولانا محمود حسنؒ دیوبندی اور مولانا احمد رضا خاں ؒ بریلوی کے تراجم شامل ہیں۔ ان تراجم کو مختصر کرکے ان کا خلاصہ کردیا ہے، تاہم اختصار کی خاطر کسی قرآنی نکتے کو غیر واضح نہیں رہنے دیا گیا ہے۔ اس ’’خلاصۂ قرآن‘‘ میں ڈھائی پاروں پر محیط ’’سورۃ البقرہ‘‘ کا خلاصہ محض 16 صفحات میں کامیابی سے کیا گیا ہے۔‘‘
مولانا عبدالقیوم حقانی، سرپرست جامعہ ابوہریرہ، صدر القاسم اکیڈمی جامعہ ابوہریرہ، خالق آباد نوشہرہ کے پی کے جو ڈیڑھ سوسے زیادہ کتابوں کے منصف ہیں، کہتے ہیں کہ:
’’تمام سورتوں کے خلاصے اور تراجم ایسے ضیاپاش ہیں کہ کوئی گوشہ بھی روشنی سے محروم نہیں۔ آیات کے حوالوں سے اس کے پیش کردہ مختصر موضوعات میں علم، انسان، خالقِ کائنات کی تابع داری، انبیائے کرام کی اطاعت، قرآن کتابِ ہدایت، قرآن مجید کے فضائل، علوم ومباحث، اعجازی خصوصیات، تعلیمات، نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام، حسنِ سیرت، اخلاقِ حسنہ جیسے موضوعات پر قرآن مجید کے براہِ راست حوالے سے سارے مضامین آگے ہیں۔
جب اللہ تعالیٰ نے دنیا تخلیق کی اور انسان کو وجود بخشا تو اس کو بھٹکنے کے لیے نہیں چھوڑ دیا، بلکہ اس کی رہنمائی کے لیے نبی اور رسول بھیجے، جنہوں نے ان کو اللہ کی طرف بلایا اور صراطِ مستقیم پر چلنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے بتایا کہ من چاہی زندگی کے بجائے رب چاہی زندگی میں ہی بنی نوع انسان کی بھلائی اور عافیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو صحائفِ آسمانی نازل کیے ان میں آخری صحیفہ ’’قرآن شریف‘‘ ہے، جو بغیر کسی ردوبدل کے انسانیت کو راہِ ہدایت دکھا رہا ہے۔ اس سے پہلے کے صحیفے ردوبدل کا شکار ہوچکے ہیں۔ قرآن شریف انسان کے لیے نسخۂ شفا ہے جو بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات کیوں بنائی اور انسان کا مقصدِ تخلیق کیا ہے۔
قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنا ضروری ہے، اس لیے کہا گیا ہے: ’’ہم نے آسان بنادیا ہے قرآن کو ذکر کے لیے۔ تو ہے کوئی یاددہانی سے فائدہ اٹھانے والا‘‘۔ فائدہ اٹھانے والے اور نہ اٹھانے والے کا فرق یہ ہے
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور ’’ہم‘‘ خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
حضرت عثمانؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول کرتے ہیں کہ تم میں بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔ اگر ہم مسلمان رہنا چاہتے ہیں اور اسلام کی تبلیغ واشاعت چاہتے ہیں تو قرآن سے واقفیت اور رہنمائی حاصل کرنا ضروری ہے، جس کا مقصد انسان کی خیر خواہی ہے۔ اس سے آگہی اس لیے ضروری ہے کہ یہ کائنات کے اسرار اور اس میں زندگی بسر کرنے کے رموز ہم کو سکھاتا ہے، کیونکہ
وہ جنہیں نہیں ایمان جسے لے آئیں دکانِ فلسفہ سے
ڈھونڈے سے ملے گی قاری کو یہ قرآن کے سیپاروں میں
قرآنِ کریم بنی نوعِ انسان پر اللہ کا احسانِ عظیم ہے۔ انسانیت جو آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑی تھی، قرآن نے اس کو اس گڑھے سے بچاکر رنگ ونسل کے بتوں کو توڑ کر بلال حبشیؓ، صہیب رومیؓ اور سلمان فارسیؓ کو بھائی بھائی بنادیا۔ تفہیم قرآن کی آج جو ضرورت ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھی، مگر قرآن کے ساتھ ہمارا سلوک آج کل یہ ہے
جیسے کسی طوطے مینا کو کچھ بول سکھائے جاتے ہیں
اس طرح پڑھایا جاتا ہوں اس طرح سکھایا جاتا ہے
قرآن کا مصرف اب یہ رہ گیا ہے
طاقوں میں سجایا جاتا ہوں، آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں
تعویذ بنایا جاتا ہوں، دھو دھو کے پلایا جاتا ہوں
جزداں حریر و ریشم کے اور پھول ستارے چاندی کے
پھر عطر کی بارش ہوتی ہے خوشبو میں بسایا جاتا ہوں
اس مظلومیت پر قرآن تڑپ اٹھتا ہے اور فریاد کرتا ہے:
کس بزم میں ذکر نہیں، کس عرس میں میری دھوم نہیں
پھر بھی اکیلا رہتا ہوں، مجھ سا بھی کوئی مظلوم نہیں
سورۃ الرحمٰن کی 1 تا 13 آیات کا خلاصہ ’’کائنات ‘‘ کے عنوان سے یوں کیا گیا ہے:
۔’’رحمٰن نے قرآن کا علم دیا، انسان کو پیدا کیا اور بات کرنا سکھایا۔ سورج اور چاند ایک حساب سے ہیں، بُوٹیاں اور درخت سجدے میں ہیں۔ ہم نے آسمان کو رفعت بخشی اور میزان مقرر کیا۔ میزان میں زیادتی نہ کرو، انصاف سے سیدھی ترازو تولو اور تول کو مت گھٹائو، اور زمین کو خلق کے واسطے بچھادیا۔ اس میں میوے اور کھجوریں ہیں جن پر غلاف ہیں۔ اس میں اناج ہے اور اس کے ساتھ بھس ہے اور خوشبودار پھول ہیں۔ پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلائو گے۔‘‘
حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی صورت میں بنی نوع انسان کو زندگی بسر کرنے کے ایسے زریں اصول عطا فرمائے ہیں جن پر چل کر وہ ہر طرح کی مشکلات ومصائب سے بچ کر پُرسکون اور کامیاب زندگی گزار سکتا ہے۔ اس کی ہدایات پر عمل قوموں کے عروج اور اس کو نظرانداز کرنا زوال و انحطاط کا باعث ہے۔ قرآن شریف پر عمل ہی مسلمانوں کی پستی کا واحد علاج ہے۔ تعلیماتِ قرآنی کو عام کرنے میں یہ خلاصۂ قرآنی بہت مددگار اور مفید ثابت ہوگا جس کے لیے خلاصہ نگار سید حیات النبی رضوی ہماری مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوںنے قرآن سے رغبت اور دلچسپی پیدا کرنے کے لیے ایک راہ خلاصۂ قرآن کرکے نکالی۔