قائداعظم قانون کی حاکمیت کے نہ صرف قائل تھے بلکہ اس پر سختی سے عمل بھی کرتے تھے۔ صرف اس واقعے کو یاد کیجیے جس کا ذکر ان کے اے ڈی سی کیپٹن عطا ربانی نے اپنی یادداشتوں میں کیا ہے۔ گورنر جنرل پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ملیر سے کراچی آرہے تھے، راستے میں ریلوے پھاٹک بند تھا، اوّل تو سادگی ملاحظہ فرمائیں کہ گورنر جنرل کا قافلہ صرف دو کاروں پر مشتمل تھا۔
نہ ہوٹر، نہ ٹریفک بند، نہ ہٹو بچو، نہ ظل سبحانی… اے ڈی سی نے پھاٹک کھلوا دیا اور ڈرائیور سے چلنے کو کہا۔ قائداعظم نے فوراً منع کردیا اور اے ڈی سی کو حکم دیا کہ واپس جاکر گیٹ بند کرائے۔ تعمیلِ حکم کے بعد کیپٹن عطا ربانی واپس آئے تو قائداعظم نے کہا ’’دیکھو ربانی! اگر میں قانون پر عمل نہیں کروں گا تو دوسروں سے کیسے کہوں گا! پھر کوئی بھی قانون پہ عمل نہیں کرے گا۔‘‘ کیا ایک شہری کی حیثیت سے ہم اپنے اوپر قانون کا اطلاق کرتے ہیں؟ ہرگز نہیں، بلکہ ہم تو قانون توڑنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ گویا ہماری قائداعظم سے عقیدت محض منافقانہ ہے۔ رہے حکمران، لیڈران اور بااثر طبقے… تو وہ خود قانون کو توڑنا اپنا حق سمجھتے ہیں لیکن عوام سے قانون کی اطاعت کی توقع کرتے ہیں۔ مطلب یہ کہ قائداعظم سے نہ لیڈران مخلص، نہ عوام… لیکن سال بھر شامِ غریباں میں رونے دھونے کا سلسلہ جاری رہتا ہے کہ یہ وہ پاکستان نہیں جس کا خواب اقبال و جناح نے دیکھا تھا۔ قائداعظم کو کرپشن سے اس قدر نفرت تھی کہ جب انہیں علم ہوا کہ ان کے عملے کا ایک فوجی افسر گورنر جنرل ہائوس سے سستی چیزیں خرید کر مہنگے داموں مارکیٹ میں فروخت کرتا ہے تو اسے فوراً جی ایچ کیو کو واپس کردیا۔ ان کا ایک قریبی رشتے دار بمبئی سے ملنے آیا اور باتوں باتوں میں کہہ دیا کہ میں امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار شروع کرنا چاہتا ہوں، آپ کی وجہ سے مجھے امپورٹ لائسنس لینے میں سہولت رہے گی۔ قائداعظم نے مروت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کہا: اگر آپ کا یہ ارادہ ہے تو براہِ کرم بمبئی میں ہی رہیں، میں ہرگز کسی کو اپنا نام استعمال کرنے کی اجازت نہیں دوں گا۔ کیا ہم اپنی ذاتی زندگی میں ان اصولوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں؟ ہم نہ صرف خود کرپشن کرتے بلکہ دوسروں سے کام نکلوانے کے لیے شوق سے رشوت دیتے ہیں۔ وقت کی پابندی اس قدر لازم کہ یکم جولائی 1948ء کو قائداعظم اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب کے لیے تشریف لائے، تقریب شروع ہوئی تو قائداعظم نے نوٹ کیا کہ اسٹیج پر وزیراعظم کی کرسی خالی پڑی ہے، چنانچہ ان کی کرسی اٹھوا دی۔ وزیراعظم لیاقت علی خان چند منٹ تاخیر سے پہنچے اور باقی وقت کھڑے رہے۔ کیا ہم یا ہمارے لیڈران وقت کی پابندی کرتے ہیں؟ ہماری نجی تقریبات خاص طور پر شادی بیاہ وقت کا ضیاع ہیں۔ رہے حکمران و لیڈران، تو وہ اپنے آپ کو وقت کی پابندی سے آزاد اور بالاتر سمجھتے ہیں۔ ایم اے اصفہانی ایک بڑی کاروباری شخصیت، نمایاں لیگی کارکن اور قائداعظم کے دوست تھے۔ وہ امریکہ میں پاکستان کے پہلے سفیر مقرر ہوئے اور اپنی جیب سے سفیر کے لیے رہائش گاہ خرید کر حکومتِ پاکستان کو تحفے میں دے دی۔ ایک بار وہ کراچی آئے تو قائداعظم نے اُن کو ڈنر پر بلایا۔ وہ راوی ہیں کہ جب گورنر جنرل مجھے کھانے کے بعد سیڑھیوں تک چھوڑنے آئے تو ساتھ ساتھ غیر ضروری بتیاں بھی بجھاتے جاتے تھے۔ مجھے رخصت کرتے ہوئے کہا: تم سیڑھیوں سے اتر جائو، مجھے یہ لائٹ بھی بجھانی ہے۔
عوامی خزانے کو امانت سمجھ کر نہایت احتیاط سے استعمال کرنا اور فضول خرچی سے اجتناب قائداعظم کی شخصیت کے نمایاں پہلو تھے۔ قرآن مجید فضول خرچ کو شیطان کا بھائی قرار دیتا ہے، لیکن ہم اپنی تقریبات پر پانی کی طرح روپیہ ’’بہاتے‘‘ ہیں۔
(ڈاکٹر صفدر محمود۔ جنگ، 24 دسمبر 2019ء)
سائبر جنگ
مسلح تصادم کی حالت اب ضروری نہیں رہی، کیونکہ ہم ٹیلی کام کے شعبے میں حالیہ سائبراٹیک کے مشاہدات کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ ماہ ترکی میں لاکھوں اکاؤنٹ ہولڈر اپنے اکاؤنٹس تک رسائی حاصل نہیں کرسکے۔ انہیں ایک مخصوص آپریٹر استعمال کرنے والے افراد کی خدمت نہیں مل سکی۔ ترکی کے گرنتی بی بی وی اے کے ڈیجیٹل چینلز پر ڈی ڈی او ایس (تقسیم سے انکار کی خدمت) کے زبردست حملے کی وجہ سے یہ سب ہوا۔ یہ حملہ اتوار کے روز ہوا۔ اگر یہ ہفتے کے کسی اور دن کے دوران ہوتا، تو شاید ایک سنگین معاشی بحران پیدا کرسکتا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ اس کا مقصد صرف اپنی طاقت کو باور کرانا تھا، لیکن بروقت اسے روک دیا گیا، لیکن پیر کی صبح تک یہ حملے جاری تھے۔ یہ ایک انتباہ تھا اور طاقت کا مظاہرہ۔ اس طرح کی کارروائیاں بھارتی ہیکرز پاکستانی آفیشل ویب سائٹس پر بھی کرتے رہتے ہیں۔
کیا اسے ہم جنگ کا نام دے سکتے ہیں؟ کیونکہ اصل ہتھیار استعمال نہیں ہوئے تھے۔ یہ سرحد کے قریب فوج کی پریڈنگ، فوجیوں پر فائرنگ کرنے، ان کی نقل و حرکت کی جانچ کرنے سے مختلف ہے؟ ہیکرز کی جنگ اور فوجیوں کی جنگ میں واضح فرق ہے کہ یہ دو مختلف ممالک کے مابین نہیں لڑی جاتی۔ یہ ریاستوں اور افراد یا ہیکرز کے گروپوں کے مابین لڑی جاتی ہے۔ یہ افراد یا ہیکرز کے گروپ کسی بھی ملک سے ہوسکتے ہیں۔ ترکی کے گرنتی بی بی وی اے پر حملے 30 مختلف ممالک جیسے روس، جرمنی، امریکہ، کینیڈا اور انگلینڈ سے کیے گئے۔ معمول کے طرزِِعمل کا اطلاق واقعی نہیں ہوتا۔ معیاری جنگ کے عمل میں اگر کوئی ملک آپ سے ٹکرا جاتا ہے، تو آپ اسے کم سے کم سختی سے مار دیتے ہیں۔ اب‘ کیا ترکی کو ان 30 ممالک پر حملہ کرنا چاہیے تھا؟ نیزاسے کون سے اہداف کا انتخاب کرنا چاہیے؟ یہ بات اہم ہے۔ دوسرا سوال جو ہر ذی شعور کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان ممالک کی ریاستیں شامل تھیں؟ یا یہ متعلقہ شہریوں کے عالمی نیٹ ورک سے مربوط حملہ تھا؟یا اس سے بھی بہتر سوال: کیا گرنتی بی بی وی اے اور ترک ٹیلی کام پر حملوں کو اپنی خودمختاری پر حملوں یا کارپوریشنوں پر سادہ حملوں کے طور پر لینا چاہیے؟ ایسے کئی سوالات جنم لیتے ہیں: کیا ترکی حالتِ جنگ میں ہے؟ اگر حالتِ جنگ میں ہے، تو وہ جنگ کس کے خلاف لڑے؟کیا الیکٹرک گرڈ کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے؟ یا فیکٹریوں کو؟ یا پھر ڈیمز کو؟
یہ منظر کسی ہالی ووڈ کی فلم کا نہیں، بلکہ حقیقتاً امریکہ اور کئی اور ممالک کو ایسے سائبر اٹیک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ امریکہ نے الزام لگایا تھا کہ الیکٹریکل گرڈ کو چین اور روس نے مل کر نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ امریکہ کی وفاقی حکومت کی جانب سے باقاعدہ بیان جاری ہوا۔ اس کو امریکہ پر سائبر اٹیک قرار دیا گیا، جبکہ دوسری جانب چین اور روس نے اس الزام کو ماننے سے انکار کیا تھا۔ اسی طرح جولائی 2010ء میں ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق امریکہ اور اسرائیل نے مل کر ایران کے ایٹمی پروگرام کے کمپیوٹر نظام میں اسٹکس نیٹ (stuxnet) نامی وائرس ڈالا، جس نے تقریباً 1000 نیوکلیئر سینٹر فیوجز کو تباہ کیاتھا، جس کی وجہ سے ایران کو اپنا نیوکلیئر پروگرام 2 سال کے لیے بند کرنا پڑا، اور اس کی جوابی کارروائی کے طور پر ایران نے 2012ء میں امریکہ کے بینکنگ نظام کو ہیک کرلیا، اور اس کو تاریخ کی پہلی سائبر جنگ کے طور پر لیا جاتا رہا۔
مجھے یقین ہے کہ جدید دور کے سیاسی رہنما اچھے اور پرانے وقت سے محروم ہیں، جب آپ کو معلوم ہوتا تھا کہ آپ جنگ میں ہیں یا نہیں؟ کسی ایسے دشمن سے لڑنا، جس کا علم ہی نہیںہوتا، لیکن اس بات کو بھی فراموش نہیں کیا جانا چاہیے کہ ہم سائبر دور میں اپنے دشمنوں کا تعین نہیں کرسکتے، مگر وہ بہرحال موجود ہیں۔ اگر کوئی بھی بحیثیت ِملک مزید نقصان کا سامنا کرنا نہیں چاہتا، تو اسے سائبر وار کے خلاف چوکس رہنا ہوگا۔
(نذیر ناجی۔ دنیا، 24 دسمبر2019ء)