پروفیسر اطہر صدیقی
ایک بیٹا اپنے ضعیف والد کو رات کے کھانے پر ایک ریستوران میں لے گیا۔ والد چوںکہ بہت ضعیف اور کمزور تھے اس لیے کھانا کھاتے میں کچھ کھانا اُن کی قمیص اور پتلون پر گر گیا۔ ریستوران میں دوسرے بیٹھے ہوئے لوگ یہ سب کچھ کراہت اور بے زاری سے دیکھ رہے تھے، جب کہ ان کا بیٹا نہایت پُرسکون تھا۔
جب وہ کھانا کھاچکے تو بیٹا جو ذرا بھی کسی طرح سے خجل یا شرمندہ نہیں محسوس کررہا تھا، خاموشی سے اپنے والد کو ریسٹ روم لے گیا۔ اس نے اپنے والد کی قمیص اور پتلون سے کھانے کے ذرات اور نشانات صاف کیے، ان کے بال بنائے اور چہرے پر چشمہ درست طرح سے لگایا۔ جب وہ باہر آئے تو ریستوران میں سب لوگ بے حد خاموشی سے انھیں دیکھ رہے تھے، یہ نہ سمجھ پاتے ہوئے کہ کوئی کیسے اپنے آپ کو پبلک کی موجودگی میں اس طرح شرمندہ کرسکتا ہے یا خجالت برداشت کرسکتا ہے۔
بیٹے نے کھانے کا بل ادا کیا اور اپنے ضعیف باپ کے ساتھ باہر جانے لگا۔ اُس وقت ایک بوڑھے آدمی نے جو وہاں موجود لوگوں کے درمیان کھانا کھا رہا تھا، بیٹے کو آواز دے کر پوچھا:
’’نوجوان! کیا تم نہیں جانتے کہ تم اپنے پیچھے یہاں کچھ چھوڑ کر جارہے ہو؟‘‘
بیٹے نے جواب دیا ’’نہیں جناب میں نے تو کچھ نہیں چھوڑا‘‘۔
بوڑھے آدمی نے جواب دیا ’’ہاں تم نے چھوڑا ہے! تم نے ہر بیٹے کے لیے ایک سبق اور ہر ضعیف باپ کے لیے امید چھوڑی ہے‘‘۔
سارے ریستوران میں ایک خاموشی طاری ہوگئی۔
اب اس کہانی کے برعکس ایک اور کہانی خاصی سبق آموز ہے۔
ایک نوجوان اپنے ضعیف باپ کو دارالضعفا (اولڈ پیوپلز ہوم) میں داخل کرانے لے گیا۔ اسی دوران اس کی بیگم کا فون آیا کہ ان کو داخل کرائے بغیر گھر نہ آنا، اور یہ کہ وہ سال بھر وہیں رہیں اور تہواروں کے دوران بھی۔ بیٹے نے اپنے باپ کو ہوم کے پادری سے اس طرح باتیں کرتے دیکھا جیسے وہ ان کو بہت اچھی طرح جانتے ہوں۔ باپ اپنا کمرہ دیکھنے گئے تو بیٹے نے تجسس سے پادری سے پوچھا کہ کیا آپ ان کو پہلے سے جانتے ہیں؟ پادری نے جواب دیا کہ ہاں میں ان کو بہت عرصے سے جانتا ہوں۔ یہ صاحب تیس برس پہلے یہاں آئے تھے اور ایک یتیم لڑکے کو گود لے کر گئے تھے!!!۔
ایک سچی کہانی
انٹرنیٹ پر مجھے ایک تصویر نے، جس میں ایک بے حد خوب صورت، خوش شکل، نوجوان خاتون مغربی لباس میں ملبوس، بال بھی مغربی خواتین کے انداز میں بنے ہوئے اور اونچی ایڑی کا جوتا پہنے ہوئے تھی، اپنی طرف ملتفت کیا۔ اس پر اس خاتون کی کہانی بھی لکھی ہوئی تھی۔ جو ناقابلِ یقین ہے۔
’’آپ مجھے نہیں جانتے ہوں گے لیکن یہ جان کر کہ میں نے کیا حاصل کرلیا ہے ضرور متعجب ہوں گے۔ میں مراکش کے ایک بہت ہی غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں۔ بچپن میں مَیں ایک چرواہی تھی اور اپنی بھیڑوں کو چرانے جنگل لے جاتی تھی، اور جب بڑی ہوئی تو گھر کے لیے کنویں سے پانی بھر کر لاتی تھی۔ اُسی زمانے میں میرے خاندان کو گھر چھوڑنا پڑا اور ہم لوگ فرانس پہنچے، جہاں مجھے بے حد امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔
میری کلاس کے ساتھی مجھ پر اور میں جس طرح کے کپڑے پہنتی تھی ان پر ہنسا کرتے تھے۔ وہ مجھے یہ محسوس کراتے تھے کہ میں غیر ملکی ہوں، اور مجھے پریشان کرتے تھے۔ اپنی زندگی کے اس دور میں مَیں نے اپنے ذہن میں تہیہ کرلیا تھا کہ اس طرح کے امتیازی سلوک کے خلاف احتجاج کروں گی۔ اس لیے میں نے بہت محنت سے پڑھنا شروع کیا اور تعلیم مکمل کرتے ہی میں سیاست میں داخل ہوگئی۔ میں اُس وقت کام کرتی تھی جب اور لوگ راتوں کو لمبی تان کر سوتے رہتے تھے۔ میں برابری کے حقوق کے لیے لڑائی لڑتی رہی تاکہ اور لوگوں کو اس سے نہ گزرنا پڑے جس سے میں گزری تھی۔ لیکن میں جیسے جیسے ترقی کرتی گئی، سیاست دانوں کے نسلی تفریق سے بھرے جملوں کا نشانہ بھی بنتی گئی۔ میری غربت اور اسلامی پس منظر کی وجہ سے مجھ پر ’’ملک کے لیے خطرہ‘‘ کا الزام بھی لگایا گیا، کیوںکہ میں ایک مہاجر تھی۔ لیکن میں نے ہار نہیں مانی اور لڑتی رہی“۔ اس خاتون کا نام ہے نجات وللود بلقاسم۔ وہ پہلی خاتون ہیں جو فرانس کے صدر ہولاندے کی حکومت میں 2012ء سے 2014ء تک فرانس کی خواتین کے معاملات کی وزیر رہیں۔ 2008ء سے وہ لیون شہر کی کائونسلر ہیں۔ فرانس کی حکومت میں وہ اور وزارتیں بھی سنبھال چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں فرانس کی وزیر تعلیم رہ چکی ہوں اور فرانس میں سب سے زیادہ تنخواہ پانے والی سیاست دان ہوں۔
وہ تصویر جس کا ذکر میں نے اوپر کیا، اسی خاتون کی ہے!!۔
۔’’وہ پاگل لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا بدل دیں گے، وہی لوگ ہوتے ہیں جو تبدیلی لاسکتے ہیں‘‘۔