اللہ رب العزت کی شانِ مغفرت
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ فرماتے ہیں ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ابنِ آدم! تُو جب تک مجھے پکارتا رہے گا اور مجھ سے مغفرت کی امید رکھے گا، میں تجھے معاف کرتا رہوں گا۔ خواہ تیرے گناہ آسمان کے کناروں تک ہی پہنچ جائیں تب بھی اگر تُو مجھ سے مغفرت مانگے گا تو میں تجھے معاف کردوں گا۔ اور مجھے کوئی پروا نہیں۔ اے ابنِ آدم! اگر تُو زمین کے برابر بھی گناہ کرنے کے بعد مجھ سے اس حالت میں ملے گا کہ تُو نے شرک نہیں کیا تو میں تجھے اتنی ہی مغفرت عطا کروں گا۔“
صدق کا مفہوم اور اس کی اہمیت
وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولَٰئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ۖ وَالشُّهَدَاءُ عِندَ رَبِّهِمْ (الحدید:75:19)
”اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں۔“
صدیق سے مراد وہ شخص ہے جو نہایت راست باز ہو، جس کے اندر صداقت پسندی اور حق پرستی کمال درجے پر ہو، جو اپنے معاملات اور برتائو میں ہمیشہ سیدھا اور صاف طریقہ اختیار کرے، جب ساتھ دے تو حق اور انصاف ہی کا ساتھ دے اور سچے دل سے دے، اور جس چیز کو حق کے خلاف پائے اُس کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑا ہوجائے اور ذرا کمزوری نہ دکھائے۔ جس کی سیرت ایسی ستھری اور بے لوث ہو کہ اپنے اور غیر کسی کو بھی اس سے خالص راست روی کے سوا کسی دوسرے طرزعمل کا اندیشہ نہ ہو۔
(تفہیم القرآن، اوّل، ص 370، النسا، حاشیہ:99)
[صدیق] صدق کا مبالغہ ہے۔ صادق سچا، اور صدیق نہایت سچا۔ مگر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ صدق محض سچے اور مطابقِ حقیقت قول کو نہیں کہتے، بلکہ اس کا اطلاق صرف اُس قول پر ہوتا ہے جو بجائے خود بھی سچا ہو اور جس کا قائل بھی سچے دل سے اس حقیقت کو مانتا ہو جسے وہ زبان سے کہہ رہا ہے۔ مثلاً ایک شخص اگر کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، تو یہ بات بجائے خود عین حقیقت کے مطابق ہے، کیونکہ آپؐ واقعی اللہ کے رسول ہیں، لیکن وہ شخص اپنے اس قول میں صادق صرف اُسی وقت کہا جائے گا جبکہ اُس کا اپنا عقیدہ بھی یہی ہو کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں۔ لہٰذا صدق کے لیے ضروری ہے کہ قول کی مطابقت حقیقت کے ساتھ بھی ہو اور قائل کے ضمیر کے ساتھ بھی۔ اسی طرح صدق کے مفہوم میں وفا اور خلوص اور عملی راست بازی بھی شامل ہے۔ صادق الوعد (وعدے کا سچا) اس شخص کو کہیں گے جو عملاً اپنا وعدہ پورا کرتا ہو اور کبھی اس کی خلاف ورزی نہ کرتا ہو۔ صدیق (سچا دوست) اسی کو کہا جائے گا جس نے آزمائش کے مواقع پر دوستی کا حق ادا کیا ہو اور کبھی آدمی کو اس سے بے وفائی کا تجربہ نہ ہوا ہو۔ جنگ میں صادق فی القتال (سچا سپاہی) صرف وہی شخص کہلائے گا جو جان توڑ کر لڑا ہو اور جس نے اپنے عمل سے اپنی بہادری ثابت کردی ہو۔ پس صدق کی حقیقت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ قائل کا عمل اُس کے قول سے مطابقت رکھتا ہو۔ قول کے خلاف عمل کرنے والا صادق قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس بنا پر تو آپ اُس شخص کو جھوٹا واعظ کہتے ہیں جو کہے کچھ اور کرے کچھ۔ اب غور کرنا چاہیے کہ یہ تعریف جب صدق اور صادق کی ہے تو مبالغے کے صیغے میں کسی کو صدیق کہنے کا مطلب کیا ہوگا۔ اس کے معنی لازماً ایسے راست باز آدمی کے ہیں جس میں کوئی کھوٹ نہ ہو، جو کبھی حق اور راستی سے نہ ہٹا ہو، جس سے یہ توقع ہی نہ کی جاسکتی ہو کہ وہ کبھی اپنے ضمیر کے خلاف کوئی بات کہے گا، جس نے کسی بات کو مانا ہو تو پورے خلوص کے ساتھ مانا ہو، اس کی وفاداری کا حق ادا کیا ہو اور اپنے عمل سے ثابت کردیا ہو کہ وہ فی الواقع ویسا ہی ماننے والا ہے جیسا ایک ماننے والے کو ہونا چاہیے۔
(تفہیم القرآن، پنجم، ص: 316، الحدید، حاشیہ: 33)
[اسی طرح صدقہ بھی ہے] صدقہ اردو زبان میں تو بہت ہی برے معنوں میں بولا جاتا ہے، مگر اسلام کی اصطلاح میں یہ اُس عطیے کو کہتے ہیں جو سچے دل اور خالص نیت کے ساتھ محض اللہ کی خوشنودی کے لیے دیا جائے، جس میں کوئی ریاکاری نہ ہو، کسی پر احسان نہ جتایا جائے، دینے والا صرف اس لیے دے کہ وہ اپنے رب کے لیے عبودیت کا سچا جذبہ رکھتا ہے۔ یہ لفظ صدق سے ماخوذ ہے، اس لیے صداقت عین اس کی حقیقت میں شامل ہے۔ کوئی عطیہ اور کوئی صرفِ مال اُس وقت تک صدقہ نہیں ہوسکتا جب تک اس کی تہ میں انفاق فی سبیل اللہ کا خالص اور بے کھوٹ جذبہ موجود نہ ہو۔
(تفہیم القرآن، پنجم، ص: 315، الحدید، حاشیہ:18)