جمعیت کے نوجوان کی شہادت، انتظامیہ حملے کو دو تنظیموں کا تصادم کیوں قرار دے رہی ہے؟
آج سے انتالیس سال قبل1981ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کا قیام ایک خاص مقصد کے لیے عمل میں آیا تھا کہ معاشرے میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے یہ یونیورسٹی ماہرین تیار کرے گی۔ آئین میں آٹھویں ترمیم کے وقت اسے غیر معمولی آئینی تحفظ دیا گیا، لیکن جہادِ افغانستان ختم ہوتے ہی یہ جامعہ امریکی نشانے پر آگئی اور امریکیوں نے یہ باور کرلیا تھا کہ روس کو دریائے آمو کے پار بھجوانے والی اس درس گاہ کو چلنے دیا گیا تو مستقبل میں یہ سرمایہ داری نظام اور لبرل ازم کے لیے بہت بڑا خطرہ بن جائے گی۔ اس جامعہ پر پہلا وار پیپلزپارٹی کے دوسرے دور میں کیا گیا جب بے نظیر بھٹو نے یہ یونیورسٹی بند کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن اُس وقت کے ریکٹر معراج خالد نے لابنگ کرکے جامعہ پر یہ وار ناکام بنایا۔ اس پر دوسرا وار نائن الیون کے بعد کیا گیا جو کاری ثابت ہوا، اور یونیورسٹی سے پہلے مرحلے میں غیر ملکی طلبہ فارغ کیے گئے، دوسرے مرحلے میں اس کی اصل شناخت اور پہچان ختم کرنے کے لیے یہاں آہستہ آہستہ لبرل ازم لانے کی کوشش کی گئی۔ یہ پُرتشدد واقعہ لال لال کے سرپرست امریکہ کی سرپرستی میں ایک سازش معلوم ہوتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے اس واقعے پر پریس نوٹ جاری کیا کہ
’’اسلام آباد کی یونیورسٹی میں دو طلبہ تنظیموں میں تصادم ہوا جس میں ایک طالب علم جاں بحق ہوگیا، ہم نے یونیورسٹی میں سیکورٹی سنبھال لی ہے، پولیس اور مجسٹریٹ تعینات کردیے ہیں، جبکہ رینجرز کو بھی طلب کرلیا گیا ہے، یونیورسٹی کے کمپاؤنڈ میں تلاشی مکمل کرلی گئی ہے۔‘‘
اگر یہ اقدامات آغاز میں کرلیے جاتے تو یہ واقعہ ہی نہ ہوتا۔ اسلام آباد پولیس نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں طلبہ تصادم کے نتیجے میں ایک طالب علم کے جاں بحق اور متعدد کے زخمی ہونے کا مقدمہ درج کرلیا، جبکہ جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت نے اسلامی یونیورسٹی کے طالب علم کے قتل کے مقدمے میں گرفتار 16طلبہ کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق واقعے کے بعد جامعہ اور ہاسٹل کے سرچ آپریشن کے بعد اب تک16طلبہ کو گرفتار کیا گیا۔ تاہم پولیس کے مطابق تلاشی کے عمل کے دوران کوئی ہتھیار برآمد نہیں ہوا۔ یونیورسٹی میں ایکسپو پر حملے کے بعد ہونے والے جانی نقصان پر صدر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ڈاکٹر احمد یوسف احمد الدریویش نے تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کردی ہے جس میں یونیورسٹی اور بیرونِ یونیورسٹی سے شخصیات شامل کی گئی ہیں جو اپنی سفارشات حکومت کو بھیجیں گی۔ تاہم جمعیت کے طالب علم سید طفیل الرحمٰن ہاشمی کی شہادت کا حالیہ واقعہ دراصل لبرل ازم کو فروغ دینے کی کوششوں کا شاخسانہ ہے۔ اس واقعے کے خلاف امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے سینیٹ میں ایک تحریک التواء جمع کرائی ہے جس میں ایوان میں اس واقعے پر بحث کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
سید طفیل ہاشمی کے قتل اور اسلامی جمعیت طلبہ کے درجنوں کارکنوں کے زخمی ہونے کے واقعے کا پس منظر یہ ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ کے زیراہتمام انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی میں میگا ایجوکیشن ایکسپو ہوئی۔ جمعیت کی ہمیشہ سے یہ سوچ رہی ہے کہ تعلیم انسان کو انسانیت سکھاتی ہے، اور اس مقصد کے لیے تعلیمی اداروں کو ماں کے بعد دوسری گود قرار دیا جاسکتا ہے۔ دنیا میں کوئی ماں ایسی نہیں ہے جو اپنی گود میں ہی اپنے بچوں کو بدامنی کے حوالے کردے، لیکن یہ کام تعلیمی اداروں میں ہورہا ہے اور ایک منصوبہ بندی کے تحت ہورہا ہے۔ منصوبہ کیا ہے؟ اس پر ضرور بات ہونی چاہیے اور قومی سطح پر مباحثہ بھی ہونا چاہیے۔ انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی میں ایک طالب علم سید طفیل ہاشمی تصادم میں نہیں بلکہ یک طرفہ حملے میں اُس وقت شہید ہوا ہے جب وہ غیر مسلح اور خالی ہاتھ تھا۔ اس قتل کا مجرم جو بھی ہے، قانون یہی کہتا ہے کہ یہ واقعہ دہشت گردی ہے، اور دہشت گردی پر نیشنل ایکشن پلان کے قانون کے تحت آئینی عدالت کے ذریعے موت کی سزا دی جاسکتی ہے۔
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے پروگرام پر ایک لسانی تنظیم کے دھاوے میں ایک کارکن شہید ہوگیا۔ یہ واقعہ ایسے وقت ہوا جب کہ پنجاب یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے سابق صدر اور سینڈیکیٹ کے سابق ممبر، قومی سطح کے معروف سیاست دان نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ اس پروگرام میں شریک تھے۔ ایک روز قبل سینیٹر سراج الحق بھی ایجوکیشن ایکسپو میں شریک ہوئے تھے۔ پروگرام پر حملے کے وقت لیاقت بلوچ خطاب کررہے تھے، وہ معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔ حملے کے بعد لیاقت بلوچ کو عقبی دروازے سے بحفاظت نکال لیا گیا۔ ان کے قریب کھڑے ایک طالب علم کے پیٹ میں، جبکہ دوسرے کے پائوں میں گولیاں لگیں۔ اس واقعے کے بعد بڑا المیہ یہ ہوا کہ اس واقعے پر الیکٹرانک میڈیا نے یک طرفہ خبر چلائی۔ المناک واقعے پر یونیورسٹی انتظامیہ بے بس دکھائی دی۔
واقعے کا پس منظر یہ ہے کہ سرائیکی اسٹوڈنٹس کی جانب سے اسی روز دن کے وقت طالبات کے ایک پروگرام میں گھسنے کی کوشش کی گئی، جمعیت نے مزاحمت کی جس پر لسانی تنظیم کے طلبہ اور جمعیت کے کارکنوں میں تلخی ہوئی۔ یونیورسٹی انتظامیہ سے مداخلت کی درخواست کی گئی، لیکن انتظامیہ خاموش رہی تو طالبات کا پروگرام وقت سے پہلے ہی ختم کرنا پڑا، لیکن یہ معاملہ دوسرے فریق کی جانب سے ختم نہیں کیا گیا، شام کو اسلامی جمعیت طلبہ نے احباب کے لیے ڈنر رکھا تھا جس میں لیاقت بلوچ مہمانِ خصوصی تھے، اس پروگرام کو پہلے ہلڑبازی کے ذریعے خراب کرنے کی کوشش کی گئی اور بعد میں فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں ایک طالب علم محمد طفیل زخمی ہوکر چل بسا اور درجنوں طلبہ زخمی ہوگئے۔ یہ واقعہ رات ساڑھے نو بجے پیش آیا۔ بنیادی طور پر یہ پروگرام بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے احباب کا ڈنر تھا جو ہر سال ہوتا ہے اور یہ روایت کئی سال سے جاری ہے۔ جس طرح بلااشتعال دیدہ دلیری سے فائرنگ کی گئی، اس سے کئی اندیشے پیدا ہوگئے ہیں کہ جمعیت کو کسی خاص شکنجے میں لانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے رہنمائوں اسسٹنٹ جنرل سیکرٹری شجاع الحق بیگ، ناظم جمعیت پنجاب شاہ زیب احمد ڈار، مرکزی سیکرٹری اطلاعات رانا عثمان، ناظم اسلامی یونیورسٹی فہد خان بابر، ناظم اسلام آباد سید تصور کاظمی، ناظم راولپنڈی سرمد تنویر نے مشترکہ پریس کانفرنس میں اس واقعے کی تفصیلات بیان کی ہیں اور بہت سوچ سمجھ کر اپنا مؤقف دیا ہے کہ یونیورسٹی میں حالیہ کشیدگی میں انتظامیہ نے کلیدی کردار ادا کیاہے۔ یہ مؤقف جمعیت نے کسی بنیاد پر ہی اختیار کیا ہے۔ واقعے کی ایف آئی آر تھانہ سبزی منڈی میں طالب علم فہد خان کی مدعیت میں درج کروائی گئی ہے۔ ایف آئی آر میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 302(قتل)، 324 (اقدام قتل)، 148 (فسادات)، مہلک ہتھیار رکھنا اور149شامل کی گئی ہے۔ ناظم جامعہ فہد خان کے مطابق یونیورسٹی کے ایکٹویٹی سینٹر میں’’میگا ایجوکیشنل ایکسپو‘‘ جاری تھا کہ کچھ افراد نے حملہ کیا۔ ایف آئی آر میں انہوں نے بتایا کہ تقریب میں تقاریر جاری تھیں کہ رات8 بج کر40منٹ کے قریب مختلف کونسلز کے ذمہ داران نے آتشیں اسلحہ، شیشے کی بوتلوں، سریوں، تیز دھار آلات، ڈنڈوں اور پتھروں سے حملہ کردیا۔ اس دوران ایک شخص سر پر آہنی راڈ لگنے سے زخمی ہوا جبکہ دیگر دو کو گولی لگی اور وہ زخمی ہوگئے۔ ایف آئی آر کے مطابق مشتبہ افراد نے تقریب میں شریک افراد پر حملہ کرنا جاری رکھا جس کے نتیجے میں متعدد طلبہ زخمی ہوئے۔ ایف آئی آر میں بتایا گیا کہ زخمی کو اسپتال منتقل کیا گیا تھا، جہاں سید طفیل زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ اسلامی یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی بارفائرنگ کرکے طالب علم کوشہید کردیا گیا، فائرنگ کے نتیجے میں معصوم طالب علم کی شہادت یونیورسٹی انتظامیہ کے منہ پر طمانچہ ہے۔
سید طفیل الرحمٰن کی نماز جنازہ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے پڑھائی۔ نماز جنازہ میں لیاقت بلوچ، میاں اسلم، نصراللہ رندھاوا، زبیر صفدر سمیت اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں اور طلبہ نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ نمازِ جنازہ یونیورسٹی گیٹ کے سامنے کشمیر ہائی وے پر ادا کی گئی، جس کے بعد میت کو آبائی علاقے روانہ کیا گیا۔ سینیٹرسراج الحق نے جنازے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایجنڈے کے تحت جمعیت کے نوجوانوں کو ٹارگٹ کیا گیا، یونیورسٹی انتظامیہ بتائے کہ اسلحہ کیسے اندر آیا؟ قاتلوں کو گرفتار نہ کیا گیا تو سمجھیں گے حکومت اسلام آباد میں امن و امان نہیں چاہتی۔حکومت قاتلوں کو گرفتار کرے اور عدل و سچائی کا اظہار کرے۔ قاتل گرفتار نہ ہوئے تو عوام کا ہاتھ اور ظالموں کا گریبان ہوگا۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے پُرامن ماحول میں غنڈہ گرد عناصر کا گولیاں چلانا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے، جمعیت کے ایکسپو کی پُرامن تقریب پر حملہ اور طالب علم کی شہادت افسوس ناک ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے لوگ پُرامن تدریسی پروگرام کررہے تھے، غنڈہ عناصر نے فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ہمارا ایک نوجوان جاں بحق ہوگیا۔ انہوںنے انتظامیہ سے فی الفور قاتلوں کو گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ نااہل، لولی لنگڑی اور بے پروا حکومت کے خلاف فیصلہ کن تحریک کا وقت ہے، اسلامی یونیورسٹی میں درندے دندناتے رہے اور پولیس تماشائی بنی رہی، اسلام آباد کے ڈی آئی جی اقدامات کے بجائے سوشل میڈیا پر غلط بیانی کرتے رہے۔ یہ حملہ جمعیت کے تدریسی پروگرام پر ہوا جسے انتظامیہ نے تصادم کا رنگ دیا۔ حملے میں صرف جمعیت کے لوگ قتل اور زخمی ہوئے، پھر اسے تصادم کا رنگ کس کی ایما پر دیا گیا!دو دن قبل میں بھی اس تقریب میں شریک ہوا تھا۔یونیورسٹی انتظامیہ مسئلے کو فوری طور پر حل کرے۔ ایک ایجنڈے کے تحت لسانی تنظیموں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی، لسانی تنظیموں کا وجود آئینِ پاکستان سے انحراف اور ملک میں انارکی پھیلانے کے مترادف ہے۔ انہوں نے واقعے میں ملوث تمام ملزمان کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ ناظم اعلیٰ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان محمد عامرنے کہا کہ جب طلبہ یونینز بحال ہونے کی طرف بڑھ رہی تھیں تو یہ سازش کی گئی، اڑتالیس گھنٹوں میں ریکٹر سمیت دیگر کو معطل کیا جائے، ریکٹر نے لسانی کونسلوں کو پروان چڑھانے میں مدد کی، اسلامی یونیورسٹی میں اسلحہ آتا رہا، کیوں نہ روکا گیا؟ یونیورسٹی میں حالیہ کشیدگی اچانک سامنے نہیں آئی بلکہ دس روز سے یہ حالات سامنے تھے، یونیورسٹی انتظامیہ چاہتی تو معاملہ سلجھ سکتا تھا۔ اس وقت یونیورسٹی میں چیف سیکورٹی آفیسر ہی نہیں ہے، اس عہدے کا خالی ہونا انتظامیہ کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے، یونیورسٹی میں نسلی اور لسانی بنیادوں پر طلبہ کونسل تشکیل پانا بھی کسی مخصوص ایجنڈے سے خالی نہیں ہے، سید طفیل الرحمٰن کے قتل کی ایف آئی آر میں طالب علم ایمل خان کو نامزد کیا گیا ہے، لسانی تنظیم کو اسلامی جمعیت طلبہ پر دھاوا بولنے کے لیے اکسانا، دھاوے اور قتل کو دو طلبہ تنظیموں کے درمیان تصادم قرار دینا، بہت کچھ بتانے کے لیے کافی ہے۔
یونیورسٹی میں ایکسپو پر حملے کے بعد ہونے والے جانی نقصان پر صدر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ڈاکٹر احمد یوسف احمد الدریویش کی طرف سے سید طفیل کے لیے بلندیٔ درجات کی دعا اور اہلِ خانہ سے اظہارِ تعزیت کیا گیا اور وائس چانسلر کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر یوسف دریوش نے تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کردی ہے جس میں یونیورسٹی اور بیرون یونیورسٹی سے شخصیات شامل کی گئی ہیں جو اپنی سفارشات حکومت کو بھیجیں گی۔