۔”برطانوی ٹرمپ“ بورس جانسن کی کامیابی

بریکزٹ کی عوامی تصدیق

برطانیہ کے پارلیمانی انتخابات میں بورس جانسن کی قدامت پسند ٹوری پارٹی نے تاریخی کامیابی حاصل کرلی۔ 12 دسمبر کو ہونے والے انتخابات میں ’’برطانوی ٹرمپ‘‘ کے لقب سے مشہور قدامت پسند و متعصب رہنما نے 650 رکنی دارالعوام (قومی اسمبلی) کی 365 نشستیں جیت کر خود کو آنجہانی مارگریٹ تھیچر کے بعد جدید برطانیہ کا مقبول ترین رہنما ثابت کردیا۔ 1979ء کے انتخابات میں تھیچر صاحبہ نے ٹوریوں کو 339 نشستوں پر کامیابی دلائی تھی۔
برطانیہ گزشتہ ڈھائی سال سے سیاسی اضطراب بلکہ عذاب کا شکار ہے۔ فارسی کہاوت ’’خودکردہ را علاج نیست‘‘ کی طرح یہ مصیبت ان کی اپنی لائی ہوئی ہے۔ مشرقی یورپ کے غریب و نادار اور غیر ملکی تارکینِ وطن سے پیچھا چھڑانے کے لیے برطانیہ کے گوروں نے یورپی یونین (EU) سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا۔ علیحدگی کے حامیوں نے ریفرنڈم کی مہم تحریکِ آزادی کے طور پر چلائی اور ایسا تاثر دیا گیاکہ یورپ نے ’’گریٹ برطانیہ‘‘ کو اپنا غلام بنایا ہوا ہے۔ انگریز عظمتِ رفتہ اور نشاۃ ثانیہ کی تلاش میں ’انگریزوں‘ نے یونین سے علیحدگی یعنی British Exit from EU یا BREXITکے حق میں فیصلہ دے دیا۔ 23 جون 2016ء کو ہونے والے ریفرنڈم میں 52 فیصد لوگوں نے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کی حمایت کی۔
اس ریفرنڈم کا پہلا شکار وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون بنے جو یونین میں رہنے کے حامی تھے۔ ریفرنڈم کے نتائج کو انھوں نے اپنے خلاف عدم اعتماد سمجھتے ہوئے وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا۔ تھریسا مے نے اقتدار سنبھالتے ہی نئے انتخابات کروائے جس میں کوئی بھی پارٹی اکثریت حاصل نہ کرسکی، اور ٹوریوں نے اقلیتی حکومت قائم کرلی۔
انگریزوں نے یورپی یونین سے علیحدگی کا فیصلہ تو بڑے طمطراق سے کیا تھا، لیکن جب علیحدگی کے مضمرات سامنے آئے یعنی برآمدات پر قدغن، یورپ کے دوسرے ملکوں میں قائم برطانوی اداروں کے لیے اضافی ٹیکس، سفر کے لیے ویزا فیس اور دوسرے اخراجات، تو یاروں کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ مذاکرات کے دوران برطانوی برآمدات کے لیے خصوصی مراعات کی درخواست کو یورپی یونین نے ترنت مسترد کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ برطانوی تجارت ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن یا WTOکی شرائط پر ہوگی جس کے تحت جیسے کو تیسا کا اصول نافذ ہے، یعنی تجارت کرنے والے دونوں ملک ایک دوسرے پر یکساں شرح محصول عائد کریں گے۔
ریفرنڈم کے بعد EU نے علیحدگی کی تکمیل کے لیے 29 مارچ 2019ء کا ہدف طے کیا تھا، لیکن جب وزیراعظم نے ’’طلاق کی دستاویز‘‘ پارلیمنٹ میں پیش کی تو اسے بھاری اکثریت سے مسترد کرتے ہوئے وزیراعظم کو ہدایت کی گئی کہ وہ یورپی یونین سے کچھ مراعات حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ دوسری طرف یورپی یونین ’’تم روٹھے ہم چھوٹے‘‘ کے مؤقف پر قائم رہی، تاہم ازراہِ عنایت علیحدگی کی تاریخ میں 31 اکتوبر تک توسیع کردی گئی۔
پُرکشش معاہدے کے حصول میں ناکامی پر تھریسا مے مستعفی ہوگئیں اور جولائی کے آخر میں وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی وزیراعظم بورس جانسن نے اعلان کیا کہ معاہدہ ہو یا نہ ہو، برطانیہ 31 اکتوبر کویورپی یونین سے علیحدہ ہوجائے گا۔ اس کے لیے انھوں نے No deal, Hard exit کی اصطلاح استعمال کی۔ جناب بورس جانسن علیحدگی کی تحریک کے قائدین میں سے تھے اور ریفرنڈم کے دوران انھوں نے قدامت پسند و قوم پرست رہنما نائیجل فراج کے ساتھ مل کر علیحدگی کی زبردست مہم چلائی تھی۔ علیحدگی کے عزم کے باوجود بورس جانسن BREXIT معاہدے کو پارلیمان سے منظور کرانے میں ناکام رہے۔ ان کی پارٹی کے پاس 317 نشستیں تھیں جبکہ قرارداد کی منظوری کے لیے کم ازکم 326 ووٹ درکار تھے۔ اس ناکامی پر بورس جانسن نے یورپی یونین سے علیحدگی کی تکمیل کے لیے 31 جنوری 2020ء تک کی مہلت حاصل کرلی اور ساتھ ہی عوامی اعتماد کی تجدید کے لیے پارلیمان میں قبل ازوقت انتخاب کی تجویز پیش کردی، جسے معمولی بحث و مباحثے کے بعد منظور کرلیا گیا۔ چنانچہ 2015ء کے بعد جمعرات کو تیسرے عام انتخابات منعقد ہوئے۔
انتخابی مہم کے آغاز پر بورس جانسن نے برطانیہ کے لوگوں سے کہا کہ نئے انتخابات تین سال سے جاری سیاسی تعطل اور غیر یقینی صورت ِحال کے خاتمے کا آخری موقع ہے۔ “GET BREXIT DONE” ان کے انتخابی منشور کا بنیادی نعرہ تھا۔ دوسری طرف لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن نے وعدہ کیا کہ اگر ان کی پارٹی برسراقتدار آگئی تو وہ BREXIT پر دوبارہ ریفرنڈم کروائیں گے۔ ان کا خیال تھا کہ علیحدگی کے مضمرات سامنے آنے کے بعد BREXITکے حوالے سے برطانوی عوام کی رائے تبدیل ہوچکی ہے۔
ان انتخابات میں دو درجن سے زیادہ جماعتوں نے حصہ لیا لیکن اصل مقابلہ ٹوری اور لیبر کے درمیان تھا۔ لبرل ڈیموکریٹس (LD) نے محدود نشستوں پر قسمت آزمائی کی۔ اسکاٹ لینڈ نیشنل پارٹی (SNP)کی مہم اسکاٹ لینڈ تک محدود رہی، جبکہ ڈیموکریٹک یونینسٹ پارٹی (DUP)اور Sinn Fein نے صرف شمالی آئرلینڈ میں اپنے امیدوار کھڑے کیے۔
انتخابی مہم کی بنیاد تو BREXIT معاہدہ تھا لیکن اسرائیل نواز ترغیب کار وں (Lobby) نے جریمی کوربن کے خلاف زہریلی مہم چلائی۔ جناب کوربن متوازن خارجہ پالیسی کے حامی ہیں اور اُن کا خیال ہے کہ امریکہ اور یورپ کی اندھی حمایت اور بے جا لاڈو پیار نے اسرائیل کو شتر بے مہار بنادیا ہے۔ جناب کوربن نے اسرائیل میں امریکہ کے سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کرنے اور گولان کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنے کی سخت مخالفت کی۔ انھیں غزہ اور دریائے اردن کے مغربی کنارے پر آباد فلسطینیوں کی حالتِ زار پر سخت تشویش ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ایک آزاد و مختار فلسطینی ریاست کے بغیر علاقے میں پائیدار امن ناممکن ہے۔
انتخابی مہم کے دوران جیریمی کو یہودی دشمن (Anti Semitic) کہا گیا۔ ٹوری پارٹی کے رہنما اور وزیر خزانہ ساجد جاوید اس مہم کے روحِ رواں تھے۔ 50 سالہ ساجد جاوید کا کہنا ہے کہ انھیں اور ان کے چاروں بچوں کو ساری دنیا میں اسرائیل سب سے اچھا ملک لگتا ہے۔ جناب ساجد جاوید کو برطانیہ میں اسرائیل کا سب سے پُرجوش حامی سمجھا جاتا ہے۔ ساجد جاویدنے الزام لگایا کہ جیریمی کوربن نے اپنے دورۂ فلسطین میں جن لوگوں کی قبروں پر پھول چڑھائے ہیں اُن میں دہشت گرد بھی شامل تھے۔ ساجد کے والدین ٹوبہ ٹیک سنگھ سے برطانیہ آئے تھے، لیکن ساجد صاحب کو غیر ملکیوں کا برطانیہ آنا پسند نہیں۔ اپنی وزارتِ داخلہ کے زمانے میں انھوں نے کہا تھاکہ برطانوی بچوں پر مجرمانہ حملے کرنے والے زیادہ تر پاکستانی ہیں، جس پر انھیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ عام انتخابات میں لیبر پارٹی کی خراب کارکردگی کی بنیادی وجہ جریمی کوربن کے خلاف اسرائیلی لابی کی زبردست مہم تھی۔ اسرائیلی اخبارات میں بھی ان کے خلاف مضامین تواتر سے شائع ہوتے رہے۔
نتائج کے مطابق ٹوری پارٹی نے 43.6 فیصد ووٹ لے کر 365 نشستیں اپنے نام کرلیں جو گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں 47 زیادہ ہیں۔ لیبر پارٹی کو 32.2 فیصد ووٹ اور 203 نشستیں حاصل ہوئیں۔ جریمی کوربن اپنی نشست تو اطمینان سے جیت گئے لیکن ان کی پارٹی کو 2017ء کے مقابلے میں 59 نشستیں کم ملیں۔ اسکاٹ لینڈ نیشنل پارٹی نے گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں 13 نشستیں زیادہ لے کر اپنا پارلیمانی حجم 48 کرلیا۔ لبرل ڈیموکریٹس 11 نشستوں پر کامیاب رہے اور اس کی سربراہ محترمہ جو سونسن کو SNPکی امیدوار نے 149 ووٹوں سے شکست دے دی۔ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جو صاحبہ نے پارٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔
برطانیہ میں پاکستانی نژاد آبادی کا تخمینہ 15 لاکھ ہے اور اِس بار 6 خواتین سمیت 15 پاکستانی نژاد امیدوار دارالعوام کے رکن منتخب ہوئے۔ گزشتہ پارلیمان میں یہ تعداد 12 تھی۔ کامیاب ہونے والے10 پاکستانیوں کو لیبر اور 5 کو ٹوری پارٹی نے ٹکٹ جاری کیے تھے۔ مجموعی طور پر 70 پاکستانیوں نے انتخابات میں حصہ لیا۔ 15بھارتی نژاد بھی ایوانِ زیریں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ نئی برطانوی پارلیمان میں غیر برطانوی نژاد ارکان کا تناسب 10 فیصد ہے۔
لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر زہرا سلطانہ، طاہر علی، خالد محمود، شبانہ محمود، ناز شاہ، عمران حسین، محمد یاسین، یاسمین قریشی، ڈاکٹر روزینہ علی خان اور افضل خان منتخب ہوئے، جبکہ ٹوری پارٹی کی جانب سے ثاقب بھٹی، ساجد جاوید، نصرت غنی، رحمٰن چشتی اور عمران احمد خان کو کامیابی نصیب ہوئی۔
اپنی فقیدالمثال کامیابی پر بورس جانسن بہت خوش ہیں۔ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی اُن کی پہلی ترجیح ہے، اور اب انھیں پارلیمان کی جانب سے کسی مزاحمت کا سامنا نہیں۔ اسی بنا پر وہ پُرامید ہیں کہ علیحدگی کے معاہدے کو برطانوی پارلیمان جلد ہی منظور کرلے گی۔ یورپی یونین نے علیحدگی کے لیے 31 جنوری کی مہلت دی ہے، لیکن بورس جانسن اس سے پہلے ہی یہ مرحلہ مکمل کرلینا چاہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے BREXITکے بعد برطانیہ اور امریکہ کے مابین ایک پُرکشش تجارتی معاہدے کا اشارہ دیا ہے۔
BREXIT کے معاملے پر جاری ڈھائی سالہ تعطل کا خاتمہ اب ہفتوں کی بات لگتی ہے، لیکن اس علیحدگی کے بعد اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ میں آزادی کی تحریک زور پکڑ سکتی ہے۔ انتخابی نتائج سے اندازہ ہوتا ہے کہ قومی وحدت کے حوالے سے برطانیہ کی لسانی و ثقافتی اکائیاں یکسو نہیں۔ بورس جانسن کی کامیابی انگلستان میں ان کی زبردست حمایت کی مرہونِ منت ہے جہاں 533 میں سے 345 نشستیں ٹوری پارٹی نے جیت لیں۔ شمالی آئرلینڈ سے انھیں ایک بھی نشست نہ مل سکی اور تمام کی تمام 18 سیٹیں علاقائی جماعتوں نے جیتیں، جن کی اکثریت برطانیہ سے علیحدگی کی حامی ہے۔ یہی حال اسکاٹ لینڈ کا ہے جہاں کی 59 میں سے صرف 6 نشستوں پر ٹوری پارٹی کامیاب ہوئی، اور 48 نشستیں علیحدگی کی حامی اسکاٹ لینڈ نیشنل پارٹی نے جیت لیں۔ یعنی بورس جانسن محض انگلستان اور ویلز کے رہنما بن کر ابھرے ہیں۔
کچھ اسی قسم کے نتائج BREXIT ریفرنڈم کے بھی تھے جب انگلینڈ، مڈلینڈ اور ویلز کے گوروں نے علیحدگی کے حق میں رائے دی، جبکہ اسکاٹ لینڈ کے 62 اور شمالی آئرلینڈ کے 56 فیصد لوگوں نے یورپی یونین میں رہنے پر اصرار کیا۔ اور تو اور لندن شہر میں بھی 60 فیصد لوگ علیحدگی کے خلاف تھے۔ مجموعی طور پر صرف 52 فیصد برطانویوں نے علیحدگی کی حمایت کی۔
برطانیہ چاروں طرف سے پانی میں گھرا ہوا ہے۔ یورپ سے اس کا زمینی راستہ صرف شمالی آئرلینڈ سے ہے جس کی سرحدیں ری پبلک آف آئرلینڈ سے ملتی ہیں۔ یورپی ممالک کے درمیان واقع سرحد پر افراد و اسباب کی آمد و رفت پر کوئی روک ٹوک نہیں، اسی بنا پر اسے نرم سرحد یا Soft Border کہتے ہیں۔ برطانیہ کی خواہش ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد بھی آئرلینڈ سے متصل سرحد کو نرم ہی رہنے دیا جائے، لیکن یورپی یونین برطانیہ کے دونوں ہاتھ میں لڈو دینے کو تیار نہیں۔ BREXIT معاہدے کے تحت شمالی آئرلینڈ برطانیہ کی کسٹم حدود میں رہے گا اور برطانیہ سے شمالی آئرلینڈ کے ذریعے آئرلینڈ اور یورپ جانے والے سامان پر نہ صرف ٹیکس وصول کیا جائے گا بلکہ سرحد پار کرنے والے سیاحوں کو ویزا فیس بھی اداکرنی ہوگی۔ ان پابندیوں سے شمالی آئرلینڈ کی سیاحت اور اقتصادیات پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اسی بنیاد پر آئرش جماعتوں نے بریگزٹ کے وزن پر IREEXIT تحریک شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
انتخابی کامیابی کے بعد اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے بورس جانسن نے بہت فخر سے کہا تھا کہ انتخابی نتائج دراصل BREXIT ریفرنڈم کی تجدید اور یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے برطانوی عوام کے غیر متزلزل عزم کا اظہار ہے، اور اب یورپی یونین چھوڑنے سے انکار ممکن نہیں کہ یہ برطانوی عوام کا دوٹوک فیصلہ ہے۔
تاہم اسکاٹ لینڈ، شمالی آئرلینڈ اور انگلستان میں آباد ’غیر انگریز‘ بورس جانسن کی منطق کو غیر حقیقت پسندانہ سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کا فیصلہ صرف انگریزوں کا ہے جو یورپ سے علیحدہ ہوکر نسلی بنیادوں پر ریاست کی تنظیمِ نو کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ برطانیہ میں آباد مختلف نسلی، لسانی، اور ثقافتی اکائیوں کے درمیان ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے۔
اسکاٹ لینڈ میں ایک عرصے سے علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے اور 2014ء میں یہاں اس سوال پر ریفرنڈم بھی ہوچکا ہے جس میں 55 فیصد ووٹروں نے علیحدگی کی تجویز مسترد کردی تھی۔ SNPکی رہنما اور اسکاٹ لینڈ کی فرسٹ منسٹر (وزیراعلیٰ) محترمہ نکولا اسٹرجن کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم کے وقت برطانیہ یورپی یونین کا حصہ تھا اور اب وفاق نے اسکاٹ لینڈ کی واضح مخالفت کے باوجود یورپ سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے جو اسکاٹ عوام کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ ہم یورپی یونین کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ انتخابی نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے محترمہ نکولا اسٹرجن نے کہا کہ انتخابات میں عوام نے اسکاٹ لینڈ کو یورپی یونین سے نکالنے کا مینڈیٹ نہیں دیا، اور یورپی یونین سے آزادی کے بعد اسکاٹش عوام آزادانہ استصوابِ رائے کے بعد اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔
بورس جانسن نے SNPکے مؤقف کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 2014ء کا ریفرنڈم فیصلہ کن تھا جس کی پاس داری ضروری ہے۔ انھوں نے غیر مبہم انداز میں کہا کہ جب تک وہ برسراقتدار ہیں کوئی ریفرنڈم نہیں ہوگا۔ تاہم نکولا اسٹرجن 2020ء میں ریفرنڈم کرنے کے لیے پُرعزم نظر آرہی ہیں۔
کشمیر، فلسطین اور جبرالٹر کو عوام کی مرضی کے بغیر غاصبوں کے حوالے کرنے والے برطانیہ کو اب خود اپنے ملک کے اندر آزادی کی تحریکو ں کا سامنا ہے اور مطلق العنان انگریز بادشاہوں کی طرح منتخب بورس جانسن بھی اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ کے لوگوں کو حقِ خود ارادی دینے سے انکار کررہے ہیں۔

………٭٭٭………
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com اور ٹویٹر Masood@MasoodAbdali پربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹ www.masoodabdali.com پر تشریف لائیں