پاکستانی ادویات عالمی معیار کی نہیں

دواسازی منافع خوری کا کاروبار نہیں بلکہ اخلاقی تجارت ہے بھارت کی تیار کردہ دوائوں کے معیار پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا ماہرِ ادویات ڈاکٹر عبید علی سے گفتگو

ڈاکٹر عبید علی فارماسوٹیکل کیمسٹری میں کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں۔ ادویہ پر تحقیق کے حوالے سے آپ کے کام کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ دنیا کی کئی معروف یونیورسٹیوں میں فارماسسٹ کی حیثیت سے طالبانِ علم کو ادویہ پر تحقیقی لیکچرز دے چکے ہیں۔ ملکی وغیر ملکی جرائد میں آپ کے تحقیقی مقالے اور مضامین بھی شائع ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں ادویہ کے معیار کے بارے میں ڈاکٹر صاحب بہت فکرمند رہتے ہیں۔ ان کی طب کے موضوع پر تنقیدی تحریریں اور خطوط ملک میں موضوعِ بحث رہتے ہیں۔ آپ کو شاعری کا بھی شوق ہے، ادبی جریدوں میں آپ کی شاعری اور نظر پاروں کو دلچسپی سے پڑھا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک عام شہری کی حیثیت سے عوامی مفاد پر ہر ذمے دار پاکستانی کو اپنا قلم اٹھانا اور اپنی آواز بلند کرتے رہنا چاہیے، یہ کام کرکے روحانی خوشی ملتی ہے۔ ڈاکٹر عبید ادویہ کے معیار اور ناقابلِ برداشت قیمتوں کے حوالے سے بہت حساس ہیں۔ اسی تعلق سے ہم نے ڈاکٹر صاحب سے گفتگو کی جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔

فرائیڈے اسپیشل : ادویہ سازی کے شعبے میں پاکستان میں آج تک کوئی دوا نہیں بنائی گئی۔ آپ کی نظر میں بہ حیثیت ماہر ادویہ (Pharmacist)اس کی وجہ کیا ہے؟
ڈاکٹر عبید علی: دنیا میں ہزاروں دکھ بیماریاں ہیں جن کے علاج کے لیے پندرہ سو مالیکیولز دریافت کیے جاچکے ہیں، ان میں سے ایک ہزار مالیکیول دوائوں کی تیاری میں استعمال ہورہے ہیں، لیکن بدقسمتی سے 22 کروڑ آبادی والے ملک نے ستّر سال میں کوئی ایک مالیکیول دریافت کیا، نہ کوئی دوا بنائی۔ ہم اسی میں خوش ہیں کہ پڑوسی ملک بھارت سمیت بہت سے ممالک بھی تو یہ کام نہ کرسکے۔ دواؤں کی دریافت میں پہلا نمبر امریکہ کا ہے، دوسرے نمبر پر برطانیہ، اس کے بعد یورپی ممالک اور جاپان کا نمبر آتا ہے۔ ان ممالک نے گزشتہ 30 سال کے دوران دواؤں کے مالیکیول دنیا کو دریافت کرکے دیئے جن سے دوائیں بنائی جارہی ہیں۔ مطلب یہ کہ تیسری دنیا کے ممالک نے دوا کی دریافت یا دوا سازی میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دوا کی تیاری آسان کام نہیں ہے، اس کے لیے متعلقہ شعبوں کے ماہرین سر جوڑ کر کام کرتے ہیں، اس کام میں خاصہ سرمایہ درکار ہوتا ہے، صرف ایک دوا کو بنانے سے لے کر مارکیٹ میں لانے تک تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر درکار ہوتے ہیں، یعنی دوسو ارب روپے سے زائد سرمایہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن بڑے کام کے لیے ہمیں بڑا عزم چاہیے، وہ ہم میں نہیں ہے۔
فرائیڈے اسپیشل : دوا یاما لیکیولز کی دریافت کے لیے کون سے عوامل درکار ہوتے ہیں؟
ڈاکٹر عبید علی : دوا یا مالیکیول کی دریافت یا تیاری کے عمل میں دیکھنا پڑتا ہے کہ استعمال کی جانے والی دوا یا مالیکیول کیا مریض کے لیے محفوظ ہے، اور یہ دوا مریض کے دل، جگر،خون اور دماغ کو خراب تو نہیں کررہی ہے؟ اس مشاہدے کے لیے گہرا مطالعہ درکا ر ہوتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل : جہاں دوا دریافت ہوتی ہے وہاں اس پر بھاری اخراجات آتے ہیں۔ ان ممالک میں دوائیں مہنگی ہوتی ہیں، ہمارے ملک میں دوائیں اتنی سستی کیوں ہیں؟ کیا ہم غیر معیاری دوائیں استعمال کررہے ہیں ؟
ڈاکٹر عبید علی: یہ درست ہے۔پاکستان میں امریکہ کے مقابلے میں دوائیں بہت سستی ہیں، جبکہ یہ دوائیں ہمارے ہاں مہنگی ہونی چاہئیں۔ وجہ یہ ہے کہ امریکہ میں تیار ہونے والی دواؤں کے مقررہ معیارات کو پورا کیا جاتا ہے، جو دوائیں معیار سے کم ہوتی ہیں ان کو واپس لے لیا جاتا ہے، ان کے ممکنہ منفی اثرات سے عوام کو آگا کیا جاتا ہے۔ امریکہ میں انشورنس ان غیر معیاری دواؤں کے بدلے زرِ تلافی بھی دیتی ہیں۔ وہاں دواؤں کے اثرات پر آگاہی کے پروگرام کیے جاتے ہیں۔ اس لیے امریکہ میں دواؤں کی قیمتیں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ ہمارے ملک میں دواؤں کی جانچ پرکھ کے لیے ایسا کچھ نہیں کیا جاتا، اس لیے سستی ہوتی ہیں۔ اگر ہمارے ملک میں تیار ہونے والی کثیر قومی کمپنیوں کی دواؤں کے معیارات پر دنیا کو اعتبار ہوتا تو پاکستان میں بنائی گئی دوائیں دنیا میں قابلِ قبول ہوتیں۔
فرائیڈے اسپیشل : ہمارے ملک میں دوائوں کی قیمتیں چیک کرنے کا مؤثر نظام ہے یا نہیں؟
ڈاکٹر عبید علی: میں دل کی گہرائی سے افسوس کرتا ہوں کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں دوائوں کی قیمتوں کو چیک کرنے کا کوئی ایسا مؤثر نظام نہیں ہے جیسا عموماً دیگر ممالک میں رائج ہے، جس کی وجہ سے ہم اپنے عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے میں بری طرح ناکام ہیں۔ دوائوں کی قیمتیں مریضوں کی سکت سے باہر ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے مریض دوائوں کے استعمال کو ترک کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: پاکستان میں دوائوں کی قیمتوں کو کس طرح کنٹرول کیا جاسکتا ہے ؟
ڈاکٹر عبید علی: میری نظر میں دوائوں کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا نظام اتنا شفاف ہونا چاہیے کہ ایک عام آدمی بھی سمجھ سکے کہ دوا بنانے کی قیمت یا لاگت کیا ہے، اس پر دواساز کمپنیاں کیا کما رہی ہیں، اور اس دوا کو مارکیٹ میں کس قیمت پر فروخت کیا جارہا ہے۔ مطلب یہ کہ ایک آدمی یہ سب کچھ کمپیوٹر پر دیکھ سکے کہ اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے، اس طرح کا مربوط نظام ہم بھی بنا سکتے ہیں۔ امریکہ یا کینیڈا کے حوالے سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ وہاں کے عوام کو دوائیں مفت ملتی ہیں، عوام کو علاج معالجے کے لیے انشورنس کور بھی دیا جاتا ہے، لیکن وہاں بھی نئی دوائوں پر آنے والی بھاری لاگت کے باعث مہنگی قیمتوں سے لوگ پریشان ہیں۔ اب ان ممالک میں بھی نئی دوائوں کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کے حوالے سے قانون سازی کی جارہی ہے۔ دوسرا یہ کہ ہم نے ادویہ کے کاروبار کو دولت کمانے کا دھندا بنالیا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں یہ منافع خوری کا کاروبار نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی تجارت ہے جو لالچ کی بنیاد پر نہیں کی جاتی۔ ہم مریض کے دکھ اور بیماری کی شدت کا تعین کرکے دوائوں کی قیمتوں کا تعین کرتے ہیں۔ اگر کینسر کے مریض کی تکلیف جان لیوا ہے تو اُسے زندگی کی امید دکھا کر 7 ہزار کی دوا 37 ہزار روپے میں بھی بیچی گئی ہے۔ اُس مریض کی قوتِ خرید میں وہ دوا کیسے آسکتی ہے جو پورے مہینے میں 10 ہزار کمائے اور دوائوں کا خرچ 8 ہزار روپے ہو۔ اُس کے لیے علاج ہی ناقابلِ برداشت ہوگا، مجبوراً وہ علاج چھوڑ دے گا۔ اندازہ کریں اس مریض کی کیا حالت ہوگی! ایسا بھی ہوتا ہے کہ پاکستان میں ملٹی نیشنل دوا ساز کمپنیاں ترقی پذیر ملک ہونے کے ناتے ہمیں سستی دوائیں دے دیتی ہیں۔ لیکن کم قیمت پر ملنے والی دوا پیسہ بنانے کے لیے باہر بھیج دی جاتی ہے۔ اس طرح کی صورتِ حال صرف پاکستان تک محدود نہیں، بلکہ دنیا بھر میں جعلی ادویہ کی تیاری اور دوائوں کی منتقلی کا دھندا ہورہا ہے۔ امریکہ ہی کی مثال لے لیں۔ نیویارک میں دوائیں بہت مہنگی ہیں، اس کے پڑوس میں ٹورنٹو ہے، وہاں دوائیں بہت سستی ہیں۔ جو لوگ نیویارک سے صبح ٹورنٹو جاتے ہیں شام کو سستی دوائیں خرید کرلے آتے ہیں۔ نیویارک میں یہ دوائیں مہنگے داموں بک جاتی ہیں۔
پاکستان کا دوائوں کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ غیر یقینی صورت حال ہے۔ آپ دوا کھا رہے ہیں لیکن آپ کو یقین نہیں ہوتا کہ وہ اثر بھی کرے گی۔ آپ کو اس بات کا بھی یقین نہیں ہوتا کہ جو دوا آپ کھا رہے ہیں وہ ضروری بھی ہے یا نہیں ہے۔ آیا یہ دوا مضرصحت تو نہیں ہے؟ جس دوا کی آپ نے جو قیمت ادا کی ہے وہ ٹھیک ہے یا آپ سے زیادتی ہوئی ہے؟ اس ساری بے یقینی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہمارے تاجروں کا اخلاقی معیار اس قابل نہیں کہ ہم ان پر یقین کرسکیں۔ اس شعبے میں دولت کی ہوس بہت بڑھ گئی ہے۔ رشوت ستانی زیادہ ہوگئی ہے۔ ڈاکٹر ہوں، فارماسسٹ ہوں یا کمپنی… جو بھی ہو، سب اخلاقی اقدار و معیار پر لالچ کو ترجیح دیتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: دیکھا گیا ہے میڈیسن کے شعبے میں بڑی لوٹ مار ہے، کیسے؟
ڈاکٹر عبید علی: مہنگی غیر ضروری اور غیر معیاری دوائیں لکھنے کے بدلے ڈاکٹروں اور فارماسسٹس کو کسی نہ کسی بہانے سے غیر ملکی دورے کرائے جاتے ہیں، بھاری شاپنگ کرائی جاتی ہے، مختلف فیسوں کی ادائیگیاں کی جاتی ہیں، بھاری مالیت کے تحفے تحائف دیئے جاتے ہیں۔ کمپنیاں ڈاکٹرز اور فارماسسٹس کو دی جانے والی رشوت کا سارا مالی بوجھ مریضوں پر منتقل کردیتی ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ اس شعبے میں باکردار ڈاکٹر بھی ہیں جو غلط کام نہیں کرتے، اپنے اخراجات کا بوجھ مریضوں پر نہیں ڈالنے دیتے۔ میرا کہنا ہے کہ میڈیسن کے شعبے کا نظام اچھا ہے لیکن نقائص بھی خاصے ہیں۔ میں عام مشاہدے کی بنیاد پر یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مریض کو ضرورت سے زیادہ دوائیں دے کر اس پر غیر ضروری مالی بوجھ ڈالا جاتا ہے، ضرورت سے زیادہ دوائیں دینے سے مرض مزید خراب ہوتا ہے، بے اثر دوائیں لکھ کر مریض کو دینے سے اس پر بلاوجہ مالی بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ ظاہر ہے مرض مزید خراب ہوسکتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: میڈیسن کے شعبے کا کوئی اور اہم مسئلہ جس کی آپ نشان دہی کرنا چاہیں؟
ڈاکٹر عبید علی: ایک سنگین مسئلہ یہ بھی ہے کہ میڈیسن کے شعبے کے ماہرین کو کسی دوسرے شعبے میں بھیج دیا جاتا ہے۔ میں نے امریکہ کے سسٹم کو بہت قریب سے دیکھا ہے کہ وہاں فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن میں جو لوگ کام کرتے ہیں اُن کو کسی دوسرے ڈپارٹمنٹ میں نہیں بھیجا جاتا۔ ہمارے ایڈہاک سسٹم میں یہ سب کچھ ہونا عام بات ہے، لیکن ہمارے ہاں کوئی ان نقائص کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ہم اپنے مریضوں کو تحفظ دینے میں کیوں ناکام ہیں؟
ڈاکٹر عبید علی: بہت اہم مسئلہ ہے جس کی میں نشاندہی کرنا چاہوں گا۔ ہمارے یہاں کا کوئی بھی سرکاری یا نجی شعبے کا افسر جو دنیا بھر میں گھومتا پھرتا ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ معیاری دوائیں کیسی ہونی چاہئیں، لیکن ہم بدقسمتی سے میڈیسن کے شعبے میں وہ معیار اور مقام حاصل نہ کرسکے جو ہمیں کرنا چاہیے تھا۔ اگر ہم دوائوں کے لیے دنیا بھر میں مروج معیار پر پورے اترے ہوتے تو اپنے عوام کو تحفظ دے سکتے۔ لیکن ہم ایسا کچھ نہ کرسکے۔ اس ضمن میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں کم یا زیادہ پاور کی ایک دوا کی قیمت یکساں رکھی جاتی ہے، جبکہ ہمارے ملک میں جتنی زیادہ پاور کی دوا ہوگی اسی تناسب سے اس کی قیمت بھی زیادہ رکھی جائے گی۔ اس اعتبار سے ہمارا ملک انوکھا ہے۔ ایک اور مسئلہ جو ہمیں درپیش ہے وہ ہمارے ملک میں تیار کی جانے والی دوائوں کے معیار کا ہے۔ ان دوائوں کو ہم دیگر ممالک میں فروخت کے لیے پیش کریں تو وہ انھیں خریدنے کے لیے یہ شرط لگاتے ہیں کہ مروجہ عالمی معیار کی دوائیں لائیں تب ہی ان کے لیے قابلِ قبول ہو سکتی ہیں۔ اس کی مثال امریکہ ہے جہاں ہمارے یہاں بنائی گئی ملٹی نیشنل دوا ساز کمپنیوں کی دوائیں قابلِ قبول نہیں ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل : ہم انڈیا کی میڈیسن کے شعبے میں ترقی سے بہت متاثر لگتے ہیں، اس میں کتنی حقیقت ہے ؟
ڈاکٹر عبید علی: انڈیا کے حوالے سے میں بتانا چاہوں گا کہ اس ملک نے دوا سازی میں ترقی ضرور کی ہے، لیکن انڈیا ایک ہی دوا سو سو معیار کی بناتا ہے۔ انڈین دوائیں امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے لیے عالمی معیار کی ہوتی ہیں، اس لحاظ سے ان کی قیمتیں بھی بہت زیادہ رکھی جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انڈیا میں دوائوں پر کنٹرول پاکستان کے مقابلے میں بہت ہی کمزور ہے۔ انڈیا غریب ممالک کے لیے دوا کی قیمت کم رکھنے کے لیے ناقص معیار کی دوائیں ایکسپورٹ کرتا ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ پاکستان کو انڈیا جو دوائیں ایکسپورٹ کرتا ہے اُن کے معیار پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا ۔