بھارت میں مسلم مخالف قانون کے خلاف شدید احتجاج

بھارت میں شہریت کے مسلم مخالف متنازع قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں کا دائرہ وسیع ہوچکا ہے۔ احتجاج کو ہندوتوا کی حکومتی پالیسی کے خلاف عوامی مزاحمت قرار دیا جارہا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ نے شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا تھا، جس کے بعد پولیس نے مظاہرہ کرنے والے طلبہ پر آنسو گیس کے شیل فائر کرنے کے علاوہ زبردست لاٹھی چارج کیا اور مظالم کی نئی تاریخ رقم کردی۔ عینی شاہدین کے مطابق پولیس مسجد میں گھس کر لوگوں کو نکال نکال کر مار رہی تھی، اور سوشل میڈیا پر پولیس گاڑیوں کو جلاتے ہوئے بھی نظر آرہی تھی۔ اب تک ریاستی تشدد سے 6 افراد ہلاک اور 300 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ یہ احتجاج پورے ہندوستان میں پھیل رہا ہے۔ کانپور، احمد آباد، لکھنؤ، سورت، مالاپورم، آراریہ، حیدرآباد میں عوام سراپا احتجاج ہیں۔ بھارتی علاقوں گایا، اورنگ آباد، اعظم گڑھ، کالی کٹ، یوات مل، گوا، مظفر نگر میں مظاہرے پُرتشدد شکل اختیار کر گئے ہیں، دیگر ریاستوں میں مظاہروں کے بعد انٹرنیٹ رابطے معطل کردیے گئے ہیں۔ کئی ریاستوں نے اس قانون کو نافذ نہ کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ ریاست مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی، کیرالا کے وزیراعلیٰ پینرائی ویجئن، پنجاب کے امریندر سنگھ، مدھیہ پردیش کے کمل ناتھ، چھتیس گڑھ کے بھوپیش بگھیل، اور دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجری وال پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ وہ اپنی ریاستوں میں مرکزی حکومت کے منظور کردہ اس قانون پر عمل نہیں کریں گے۔
اس احتجاج کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں اساتذہ اپنے طالب علموں کے شانہ بشانہ رہے، جس کے نتیجے میں وہ بھی دہلی پولیس کے تشدد کا شکار ہوئے۔ احتجاج میں ہندو، سکھ طلبہ و طالبات اور قریبی علاقے کے عوام بھی شریک رہے۔ وائس چانسلر اور رجسٹرار جامعہ ملیہ نے اپنے طلبہ کے ساتھ کھڑے ہوکر دہلی پولیس کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے کا اعلان کیا۔
بھارت کی مختلف ریاستوں میں متنازع شہریت قانون کے خلاف تحریک نے بھارتی سیکولرازم کا چہرہ مسخ کردیا۔ اس قانون سے 20 کروڑ کے لگ بھگ مسلمان ہی نہیں بلکہ دوسری اقلیتیں بھی متاثر ہوں گی۔ بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ ہو، گجرات میں مسلمانوں کا قتلِ عام ہو، انتہا پسند ہندوئوں کے ہاتھوں سمجھوتا ایکسپریس کا جلایا جانا ہو، یا مسلمانوں کو گائے کا گوشت رکھنے یا گائے ذبح کرنے کا ذمہ دار قرار دے کر سرِراہ قتل کرنا… یہ سب واقعات ہندوستان کے بھیانک ریاستی چہرے کی نشاندہی کررہے ہیں۔ امریکی مندوب سیم براؤن بیک نے کہا ہے کہ امریکہ کو شہریت کے بل پر تشویش ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے بھارت سے اپنے آئینی وعدوں کی پاسداری کرنے پر زور دیا ہے۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے شہریت کے بل پر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر اور وزیر داخلہ امیت شاہ کے خلاف پابندیوں پر غور کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔کمیشن نے اس متنازع بل کو غلط سمت میں خطرناک موڑ قرار دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے اوپر بھی دبائو ہے کیونکہ امریکی سیاست دانوں نے بھارت میں اقلیتوں کے خلاف نسلی امتیاز برتنے پر بھارت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔کشمیر کی صورت حال پر ڈیموکریٹ نمائندے پرمیلا جیاپال کی جانب سے تجویز کردہ ایک قرارداد میں نئی دہلی پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اگست میں کشمیر کی خودمختار حیثیت ختم کرنے کے بعد سے وادی پر عائد پابندیاں ختم کرے، مواصلات کو مکمل طور پر بحال کرے اور انسانی حقوق کے مبصرین اور غیر ملکی صحافیوں کو متنازع خطے میں داخلے کی اجازت دے۔ اے ایف پی کی خبر کے مطابق بھارت کی حزبِ اختلاف کی شخصیات کا کہنا ہے کہ مودی نے ملک کے 20 کروڑ مسلمانوں میں عدم اعتماد پیدا کردیا ہے۔ مودی حکومت نے اس تنقید کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قانون پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے تعلق رکھنے والی مذہبی اقلیتوں کے لیے تیزی سے شہریت حاصل کرنے میں مدد دے گا، اور ان میں بھارتی مسلمان شامل نہیں ہیں کیونکہ انہیں ملک میں ایسے تحفظ کی ضرورت نہیں ہے۔ بھارت کی وزارتِ خارجہ نے امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی کی جانب سے تنقید کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی بھی شخص عقیدے اور مذہب سے بالاتر ہوکر بھارت کی شہریت کے لیے درخواست دے سکتا ہے۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے ایک بیان میں کہا: ’’یہ افسوسناک ہے کہ کمیشن نے صرف ایسے معاملے پر اپنے تعصبات کا اظہار کرنے کا انتخاب کیا ہے جس پر اسے واضح طور پر بہت کم معلومات ہیں‘‘۔ بھارت میں صورت حال اتنی گمبھیر ہے کہ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور اسرائیل سمیت کئی ممالک نے اپنے شہریوں کو سفری ہدایت جاری کرتے ہوئے شمال مشرقی بھارت کے سفر سے گریز کا مشورہ دیا ہے۔
امریکی مذمت کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ مودی حکومت امریکی آشیرباد کے ساتھ ہی تسلسل سے کشمیر سے لے کر ہندوستان کی گلیوں میں بالخصوص مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا خون بہا رہی ہے، کیونکہ بھارت نہ صرف ایک منڈی کے طور امریکہ کی ضرورت ہے بلکہ مغربی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے سمندر میں ایک جزیرہ ہے۔ پاکستان اور مسلمانوں کے بارے میں امریکہ کیا سوچتا اور کرتا ہے وہ ہمارے سامنے عملی طور پر اُس کی دہشت گردی کی صورت میں موجود ہے۔ ہماری قومی اسمبلی نے اس ایکٹ کے خلاف قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی ہے۔ قرارداد میں بھارتی اقدام کی مذمت کرتے ہوئے متنازع قانون واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ یہ ایوان آسام کے بیس لاکھ مسلمانوں کی شہریت کے خاتمے کی مذمت اور کشمیر میں جاری کرفیو اٹھانے کا بھی مطالبہ کرتا ہے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ مسئلہ کشمیر کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل تک پاکستان کشمیریوں کی ہر ممکن مدد جاری رکھے گا۔ عالمی برادری اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں بھارت کو امتیازی ایکٹ واپس لینے اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر مجبور کریں۔ لیکن اس پس منظر میں سابق آرمی چیف جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ کا یہ کہنا ٹھیک ہے کہ مودی اُن لوگوں میں سے ہے جو لاتوں کے بھوت ہوتے ہیں، ایسے لوگ باتوں سے نہیں مانتے، بھارت کو احتجاج سے آگے نکل کر چوٹ پہنچانا ہوگی تب ہی بھارت اپنے گھٹنوں پر آئے گا، پچھلے کچھ برسوں میں بھارت مضبوط ہوا ہے لیکن اب علیحدگی پسند تحریکوں سے بھارت کو نقصان ہوگا، سید علی گیلانی نے بھی کہہ دیا ہے کہ کشمیر کا حل اب صرف جنگ سے ممکن ہے، اور آخر میں کشمیر کا یہی حل ہوگا۔ مودی ابھی طاقت کے نشے میں ہے اور اس کو روکنے والا کوئی نہیں۔ مودی کے مسلم دشمن اقدامات کا مقابلہ کرنے کے لیے عزم اور حوصلے کی ضرورت ہے۔ ابھی ہم صرف احتجاج کررہے ہیں، جب ہم احتجاج سے آگے کی طرف جائیں گے تو مودی فوراً یوٹرن لے گا اور ہمارے پیچھے آئے گا۔ جب دنیا کو معلوم ہوجائے گا کہ ہم اب کوئی قدم اٹھانے جارہے ہیں تو دنیا خود آگے آکر مسئلہ کشمیر کو حل کرے گی۔ ابھی یہ تحریکیں بھارت کی برداشت کی لائن سے نیچے ہیں، جب یہ تحریکیں برداشت کی اس لائن کو پار کریں گی تو پھر بھارت کو نقصان ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنا فوکس کشمیر کی تحریک پر رکھنا ہوگا۔ اگر کشمیر کی تحریک کامیاب ہوجاتی ہے تو بھارت میں اندرونی طور پر آزادی کی تحریکیں تیز ہوں گی۔ جب تک ہم یہ نہیں کریں گے بھارت باز نہیں آئے گا اور کشمیریوں پر ظلم ایسے ہی ہوتا رہے گا۔
(اے۔ اے۔ سید)