ہمارے معاشرتی زوال کی انتہا پی آئی سی لاہور پر وکلا کا حملہ

لاہور میں شرافت اور انسانیت کو بھی موت کی نیند سلا دیا گیا

ہمارے معاشرتی زوال و انتہائی تنزل کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوگی کہ معمولی انتخابی مفاد کی خاطر اسپتال اور وہ بھی دل جیسے نازک عضوِ بدن کی مثالی علاج گاہ کو نشانۂ انتقام بنایا گیا، اور یہ سفاکی کسی دشمن ملک کی ظالم حملہ آور فوج کی جانب سے روا نہیں رکھی گئی بلکہ انسانیت سے گری ہوئی لاقانونیت پر مبنی یہ کارروائی وکلا کے اُس معزز طبقے کی جانب سے سامنے آئی جس سے قانون کی حفاظت، سربلندی اور بالادستی کے لیے جدوجہد کی توقع رکھی جاتی ہے، کہ یہ طبقہ عدالتوں میں قانون کا شارح اور معاشرے میں قانون کو سمجھنے، سمجھانے کا ذمہ دار اور رکھوالا سمجھا جاتا ہے۔
گزشتہ بدھ 11 دسمبر کو ملک کے سب سے بڑے صوبے کے دارالحکومت، لاہور میں شرافت اور انسانیت کو بھی موت کی نیند سلا دیا گیا، اور کالا کوٹ زیب تن کرنے والے طبقۂ وکلا میں موجود کالی بھیڑوں نے اپنی برادری کے منہ پر ایسی کالک مَل دی جسے صاف کرنا آسان نہیں ہوگا۔ تین سوکے قریب کالا کوٹ پہنے لوگ ایوانِ عدل اور عدالتِ عالیہ کے احاطے سے شدید اشتعال اور غیظ و غضب کے عالم میں نکلے اور اپنے کالے کرتوتوں کے ذریعے وہ سیاہ کارنامہ انجام دیا جس سے ملکی تاریخ میں ایک ایسے سیاہ باب کا اضافہ ہوا جس کی 72 سالہ ماضی میں کوئی مثال تلاش کرنا محال ہے۔یہ سیاہ کوٹ پوش جتھہ نعرے لگاتا، ڈنڈے لہراتا شاہراہِ قائداعظم پر مسجد شہدا، پنجاب اسمبلی، فیصل چوک وغیرہ سے ہوتا ہوا گورنر ہائوس پہنچا اور وہاں سے شاہراہِ ایوانِ تجارت کے راستے جیل روڈ پہنچا، جہاں پنجاب میں امراضِ قلب کا سب سے بڑا اسپتال واقع ہے۔ ان بپھرے ہوئے ڈنڈا بردار قانون دانوں کے عزائم کو بھانپتے ہوئے محافظوں اور دیگر عملے نے اسپتال کے آہنی دروازے بند کرلیے، مگر یہ بند دروازے اور عملہ زیادہ دیر ان وکلا کی یلغار کے سامنے مزاحمت جاری نہ رکھ سکے اور وہ آہنی گیٹ توڑ کر سب کچھ روندتے ہوئے اسپتال میں داخل ہوگئے، جس کے بعد اسپتال میں موجود ہر چیز، حتیٰ کہ مریض اور اُن کی تیمار داری میں مصروف نرسیں اور اہلِ خانہ بھی اس سیاہ کوٹ پوش جتھے کے نرغے میں تھے، جس کا انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور بے جان سامان اور بے بس انسان، جو سامنے آیا، اس کے خلاف اپنی ’’بہادری‘‘ کے جوہر خوب خوب آزمائے… ہوائی فائرنگ کی، طبی عملے اور مریضوں کے ساتھ موجود تیمارداروں پر ڈنڈے برسائے، اسپتال میں موجود درجنوں گاڑیوں کو آگ لگادی، اسپتال کے شیشے، طبی آلات، کمپیوٹر اور دیگر سامان توڑ پھوڑ دیا۔ سفاکی کی تمام حدوں کو عبور کرتے ہوئے علاج کے لیے پنڈی سے آئی ہوئی 6 بھائیوں کی 24 سالہ اکلوتی بہن کے منہ پر لگا آکسیجن ماسک اتار کر پھینک دیا۔ اس طرح کی درندگی کا شکار ہوکر نصف درجن سے زائد مریض جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اسپتال کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ کروڑں میں بتایا جاتا ہے۔ ہنگامہ آرائی کے دوران جیل روڈ سے گزرتی ہوئی فاطمہ جناح میڈیکل کالج کی بس کو بھی روک لیا گیا، اس میں سوار میڈیکل کی طالبات سے بس میں گھس کر بدتمیزی اور گالم گلوچ کی گئی۔ بس کے عملے نے منت سماجت کرکے بڑی مشکل سے بس کو وہاں سے نکالا۔ وقوعہ کی کوریج کرنے والے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بھی بدسلوکی اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان موقع پر پہنچے تو ان کی بھی دھکوں اور گالیوں سے مدارت کی گئی اور بال نوچے گئے۔ وہاں موجود اخبار نویس بمشکل تمام وزیر موصوف کو وکلا کے نرغے سے نکالنے میں کامیاب ہوسکے، جب کہ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد بھی اس دوران اسپتال میں محصور رہیں۔ پولیس کی ایک گاڑی کو بھی نذرِ آتش کردیا گیا، مگر پولیس اس تمام کارروائی کے دوران خاموش تماشائی بنی رہی۔ جب وکلا اپنی کارروائی مکمل کرچکے تو انہیں منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج، آنسو گیس اور آبی توپ کو بروئے کار لایا گیا۔
وکلا کی جانب سے کھلی دہشت گردی کا یہ پہلا واقعہ نہیں، بلکہ 2007ء میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کی تحریک کے بعد رونما ہونے والے قدرے محدود نوعیت کے متعدد واقعات کا ایک تسلسل ہے۔ عام لوگوں، مؤکلوں، خاتون سمیت پولیس اہلکاروں، خاتون مجسٹریٹ اور ججوں تک کی پٹائی اور عدالتوں کی تالا بندی کے کئی واقعات اب تک وکلا کی جانب سے سامنے آچکے ہیں۔ پی آئی سی میں حالیہ دہشت گردی کا آغاز بھی ایک وکیل کو اسپتال میں ادویہ کی فراہمی میں امتیازی سلوک نہ کیے جانے پر ہوا جس نے فون کرکے ساتھی وکلا کو اسپتال بلا لیا۔ تاہم اسپتال کے عملے نے ان کی بدمعاشی تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے جوابی کارروائی کردی، جس پر وکلا اور اسپتال کے ینگ ڈاکٹرز اور دوسرے عملے کی طرف سے اپنے اپنے مؤقف کے حق میں احتجاج شروع کردیا گیا۔ اسپتال کے عملے کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے مگر وکلا مطمئن نہیں ہوئے۔ پولیس اور انتظامیہ کے اعلیٰ حکام نے فریقین کو بٹھاکر صلح کرادی اور دونوں جانب کے قائدین نے باہم گلے مل کر رنجشیں ختم کرنے کا اعلان کیا، جب کہ اسپتال میں وکلا کو امتیازی اور ترجیحی سلوک کا مستحق تسلیم کرتے ہوئے ان کے علاج معالجہ کے لیے الگ کائونٹر قائم کرنے کا فیصلہ بھی کردیا گیا… مگر وکلا کی مختلف ایسوسی ایشنوں کے انتخابات آئندہ چند ہفتوں میں ہونے والے ہیں، اور ان انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مندوں نے پی آئی سی کے ڈاکٹروں سے تنازعے کو ہوا دے کر اپنی قیادت کی دھاک بٹھانے اور ووٹروں کو اپنے حق میں رام کرنے کے موقع کو سنہری سمجھتے ہوئے اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ تنازعے کے دوران ایک ڈاکٹر کی تقریر پر مشتمل وڈیو کو اچھالا گیا جس میں وکلا کی تضحیک کا پہلو نکلتا تھا، حالانکہ اس ڈاکٹر نے صلح کے بعد ایک دوسرے وڈیو پیغام کے ذریعے پہلی وڈیو پر باقاعدہ معافی مانگ لی تھی اور وکلا برادری کے لیے زبردست عزت و احترام اور خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کیا تھا، مگر وکلا قیادت نے اس کو درخورِ اعتناء نہیں سمجھا اور اپنے مخصوص مقاصد کی خاطر احتجاج کے ذریعے ڈاکٹروں کو سبق سکھانا ضروری جانا، تاکہ آئندہ انتخابات میں اپنے ووٹروں کی ہمدردیاں جیتی جا سکیں۔ تحریکِ اسلامی کے بزرگ شاعر محترم و مکرم عنایت علی خاں صاحب کا شعر ہے ؎

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

پی آئی سی سانحے میں بھی انتہائی تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ اس انتہائی شرمناک واقعے پر وکلا برادری نے اجتماعی طور پر شرمسار اور معذرت خواہ ہونے کے بجائے نہایت ڈھٹائی سے اپنا سارا زور اپنی اس غیر انسانی حرکت کو سندِ جواز عطا کرنے پر صرف کردیا ہے، بلکہ واقعے کے بعد سے وکلا مسلسل اپنے مجرم ساتھیوں کی حمایت میں عدالتوں کے بائیکاٹ، ہڑتال اور احتجاج کے راستے پر گامزن ہیں۔ حد یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے مدبر اور باوقار تصور کیے جانے والے سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی، سابق گورنر پنجاب عبداللطیف کھوسہ، اور اپنی انصاف اور اصول پسندی کے لیے معروف تحریک انصاف کے بانی نائب صدر حامد خان، جنہیں ان کے اصولی مؤقف کے اظہار ہی کی بناء پر ان کی پارٹی کی طرف سے اظہارِ وجوہ کا نوٹس بھی حال ہی میں دیا گیا ہے، مگر یہاں وہ بھی ہمت نہ دکھا سکے اور وکلا کی انتخابی سیاست کے ہاتھوں مجبور ہوکر دیگر بہت سے وکلا رہنمائوں کی طرح پی آئی سی پر وکلا کے حملے کے حق میں، اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کے دلائل فراہم کرنے میں مصروف رہے، کہ انہوں نے وکلا انجمنوں کے مختلف سطح کے انتخابات میں اپنے گروپ کے امیدواروں کو میدان میں اتارنا ہوتا ہے، اور انتخابی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اپنے رائے دہندگان کے ہر جائز و ناجائز، غلط یا صحیح اقدام کی تائید و حمایت کی جائے۔ واحد نمایاں آواز جو فوری طور پر اس دہشت گردی کے خلاف بلند ہوئی وہ سابق وفاقی وزیر و سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اعتزاز احسن کی تھی، یا اب کم و بیش ایک ہفتے بعد عدالتِ عظمیٰ کے 55 سینئر وکلا کا پاکستان بار کونسل کے نام مشترکہ کھلا خط ہے جس میں غلطی کا واضح الفاظ میں اعتراف کرتے ہوئے اس کی مذمت کی گئی ہے کہ اس واقعے نے وکالت کے شعبے کو بدنام کیا۔ اس مشترکہ خط میں بار کونسلوں اور ایسوسی ایشنوں کی ہڑتال کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے توجہ دلائی گئی ہے کہ وقت آگیا ہے کہ وکلا فوری طور پر اپنا محاسبہ کریں، واقعے میں ملوث وکلا کے خلاف فوری تادیبی کارروائی کی جائے۔ خط کے مندرجات میں مزید کہا گیا ہے کہ پبلک پراپرٹی اور اسپتال پر حملے کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا، یہ بات ناقابلِ فہم اور باعثِ اذیت ہے کہ جنہیں قانون کی پریکٹس کا لائسنس دیا گیا ہو وہ اسپتال پر حملہ کردیں۔ مشترکہ خط میں بجا طور پر اس بات پر افسوس ظاہر کیا گیا ہے کہ پاکستان بار کونسل اور دیگر ایسوسی ایشنوں نے حملے کی مذمت نہیں کی۔ یہ واحد مؤثر اجتماعی آواز ہے جو گیارہ دسمبر کے اس سانحے کے خلاف بلند کی گئی ہے۔ خدا کرے یہ صدا بہ صحرا ثابت نہ ہو۔