جنرل پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کا فیصلہ

پاکستان کی عدالتی تاریخ کا اہم فیصلہ

آئین کے آرٹیکل 6 کی روشنی میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنا دیا ہے اور عدالت نے انہیں موت کی سزا سنائی ہے۔ ملک کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا فیصلہ ہے۔ اس فیصلے سے ابہام ضرور پیدا ہوا مگر جنرل پرویزمشرف کے لیے راستہ بند نہیں ہوا۔ خصوصی عدالت کے فیصلے پر حکومت نے بطور وفاق کوئی ردعمل نہیں دیا، تاہم جنرل پرویز مشرف کے رفقاء کا ردعمل آیا ہے کہ انہیں صفائی کا موقع نہیں ملا، اور وہ غدار نہیں ہیں۔ عدالت کے اس فیصلے پر سیاسی حلقوں، تجزیہ کاروں اور سوشل میڈیا پر مختلف قسم کا ردعمل دیا جارہا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کی ترجمان مریم اورنگ زیب نے ردعمل دیا اور عدالت کے فیصلے کی حمایت کی۔ پیپلزپارٹی کی لیڈرشپ کا فیصلے کے حق میں ردعمل آیا ہے۔ مسلح افواج کی جانب سے بھی ردعمل آیا ہے کہ ”خصوصی عدالت کے فیصلے پر افواجِ پاکستان میں شدید غم و غصہ اور اضطراب ہے، اور یہ کہ جنرل (ر) پرویزمشرف نے 40 سال سے زیادہ عرصہ پاکستان کی خدمت کی ہے، انھوں نے ملک کے دفاع کے لیے جنگیں لڑی ہیں اور وہ کسی صورت بھی غدار نہیں ہوسکتے“۔ حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف نے مؤقف اپنایا ہے کہ وہ عدالت کے فیصلے کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ردعمل دے گی۔ یہ ردعمل اپنی جگہ، ملکی تاریخ کا ایک باب یہ بھی ہے کہ 1972ء میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے جنرل یحییٰ خان کی جانب سے 1969ء میں لگائے گئے مارشل لا کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ مگر اس مارشل لا کے ساڑھے چار سال بعد ہی جنرل (ر) ضیاالحق نے ایک اور مارشل لگادیا تھا۔ خصوصی عدالت کا یہ فیصلہ کسی بھی طرح حکومت کے خلاف یا اسے کسی بحران میں مبتلا کرنے والا نہیں ہے۔ اگرعدالت کے فیصلے کو ملکی حالات سے جوڑ کر تجزیہ کیا جائے تو بلاشبہ اس حکومت کو اس کی نااہلی کے باوجود عدلیہ نے دوسری بار ریلیف دیا ہے،پہلی بار ریلیف آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر دیا گیا اور دوسری بار اب پرویزمشرف کیس میں اسے ریلیف ملا ہے۔ آرمی چیف توسیع کیس میں عدالت نے فیصلہ دیا کہ عدلیہ کے روبرو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق ایک درخواست آئی ہے، اس کی سماعت کی ہے اور اس اہم معاملے پر حکومت سے جواب طلب کیا۔ مگر حکومت نوٹیفکیشن پر نوٹیفکیشن جاری کرتی رہی، کابینہ کے خصوصی اجلاس بھی ہوئے اور نتیجہ صفر رہا اور غلطیوں پر غلطیاں کرتی رہی، یہاں تک کہ نوٹیفکیشن میں تصحیح بھی عدالت نے ہی کرائی اور حکومت نے آئندہ چھ ماہ میں قانون سازی کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ چھ ماہ کا وقت دیتے ہیں قانون سازی کرلی جائے۔ عدلیہ نے فیصلہ دے کر گیند پاکستان کی آئینی اعتبار سے مقتدر، پارلیمان کے کورٹ میں ڈال دی۔ اب سابق آرمی چیف اور صدر پرویزمشرف کے کیس کا فیصلہ دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ انہی دلائل کو تسلیم کرکے دیا گیا ہے جو عدالت میں وکیل صفائی اور پراسیکیوٹر نے دیے ہیں۔ پراسیکیوٹر نے یہ دلائل بھی دیے کہ قانون کے مطابق فردِ جرم میں ترمیم فیصلے سے پہلے کسی بھی وقت ہوسکتی ہے۔ وکیل صفائی نے عین آخری مرحلے پر عدالت سے استدعا کی کہ انہیں اس کیس میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز، سابق چیف جسٹس حمید ڈوگر اور سابق وزیر قانون کو شامل کرنے کی اجازت دی جائے۔ اس کا مطلب تھا کہ جنرل پرویزمشرف نے تنہا یہ فیصلہ نہیں کیا۔ اگر یہ درخواستیں تسلیم کرلی جاتیں تو 3 نومبر2007ء کی ایمرجنسی جائز قرار دینے والے سپریم کورٹ کے سابق ججوں، اُس وقت کی پوری کابینہ اور جنرل پرویزمشرف کے ساتھ کام کرنے والے اُن کے تمام رفقائے کار اس کی زد میں آجاتے۔ عدالت نے یہ درخواست مسترد کرکے ایک نئے پینڈورا بکس کا راستہ بند کرنے کی کوشش کی۔ جنرل پرویزمشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی نوازشریف دور میں شروع ہوئی، جس کا واضح ترین مطلب یہ تھا کہ نوازشریف حکومت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ جنرل پرویزمشرف آرٹیکل چھے کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں، اس حکومت نے خصوصی عدالت قائم کی اور پراسیکیوٹر بھی مقرر کردیا۔ یہ کارروائی کبھی تیز اور کبھی ہلکی رفتار سے پانچ سال چلتی رہی۔ تحریک انصاف کی حکومت آئی تو پہلے اس نے پراسیکیوٹر کی تقرری ختم کی، مگر یہ کام ادھورا تھا، تحریک انصاف اگر یہ سمجھتی تھی کہ مقدمہ غلط ہے تو پھر اسے کابینہ کی منظوری کے ساتھ ایک نئی سفارش دینی چاہیے تھی۔ محض پراسیکیوٹر کی تقرری ختم کردینے سے معاملہ ختم نہیں ہوجانا تھا۔ بعد میں پھر اسی حکومت نے پراسیکیوٹر بھی مقرر کردیا، اس کا مطلب یہ تھا کہ حکومت اس مقدمے کو چلانا چاہتی تھی۔ اب یہاں عدالت میں پراسیکیوٹر اور وکیل صفائی کا الگ الگ کردار ہے۔ پراسیکیوٹر وفاق کا نمائندہ ہے، جو اس مقدمے کے حق میں تصور کیا جاتا ہے، اور جنرل پرویزمشرف کی جانب سے وکیل صفائی عدالت میں پیش ہوئے جنھیں وفاق کے مقدمے کو غلط ثابت کرنا تھا۔ جس روز خصوصی عدالت نے فیصلہ دیا اُس روز تو عدالت کی کارروائی ایسی تھی کہ وکیل صفائی اور پراسیکیوٹر کے دلائل ایک جیسے تھے، وکیل صفائی نے درخواست دی کہ انہیں سابق چیف جسٹس، سابق وزیراعظم اور سابق وزیر قانون کو اس مقدمے میں فریق بنانے کی اجازت دی جائے، پراسیکیوٹر نے اس مؤقف کی حمایت کی۔ گویا اپنا مقدمہ وکیل صفائی کے سپرد کردیا۔ پھر عدالت نے پراسیکیوٹر سے دریافت کیا کہ آپ وکیل صفائی کے دلائل کیوں دے رہے ہیں؟ کیا آپ جنرل پرویزمشرف کی رہائی کی حمایت کریں گے؟ تو عدالت کے اس جواب پر پراسیکیوٹر اور وکیل صفائی دونوں نے کہا کہ ہم ایسا نہیں چاہتے۔ ان دلائل کے بعد عدالت کے پاس دو ہی راستے تھے کہ اضافی درخواست دینے کی اجازت دے دیتی، جس کا مقصد یہ ہوتا کہ نیا پینڈورا بکس کھل جائے، کیونکہ آرٹیکل چھے کہتا ہے ’’طاقت کے ذریعے اور طاقت استعمال کرکے آئین سبوتاژ کرنا، منسوخ کرنا، یا اس کی سازش کرنا سنگین جرم ہے، اس کام میں معاونت اور سازش میں شریک ہونا بھی برابر کا جرم ہے‘‘۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ درخواست مسترد کرکے عدالت قانون کے مطابق کارروائی کے لیے آگے بڑھتی۔ لہٰذا عدالت نے وہی کیا جس کی گنجائش قانون میں تھی، عدلیہ نے فیصلہ دے کر حکومت کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ چھوڑا ہے، اسے بند گلی میں نہیں دھکیلا۔ اس فیصلے پر اپیل اس بنیاد پر ہوگی کہ جنرل پرویزمشرف کو صفائی پیش کرنے کا مناسب اور قانون کے مطابق موقع نہیں ملا۔
اس کیس کا پس منظر یہ ہے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے اپنے گزشتہ دورِ حکومت میں جون 2013ء میں وزارت داخلہ کو خط لکھا جس کے بعد سابق سیکرٹری داخلہ شاہد خان نے کیس تیار کیا، پھر اُس وقت کے وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے سابق آرمی چیف پرویزمشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ دائر کرنے کا باضابطہ اعلان کیا۔ نوازشریف اس وقت علاج کے لیے بیرون ملک ہیں جس کے لیے جیل سے ضمانت پر رہا ہوئے ہیں۔ چودھری نثار علی خان پراسرار طور پر خاموش ہیں اور شاہد خان، پرویزمشرف دور میں ہی ڈائریکٹر حج مکہ رہے ہیں اور کرپشن کے الزام پر وزارتِ داخلہ سے فارغ ہوئے ہیں۔
خصوصی عدالت کے فیصلے کے بعد اب پرویزمشرف کے پاس فی الحال اعلیٰ عدلیہ میں فیصلے کے خلاف اپیل کا حق ہے اور اس کے بعد فیصلہ برقرار رہنے کی صورت میں صدر مملکت سے رحم کی اپیل کرسکتے ہیں۔ جنرل پرویزمشرف کے خلاف بطور آرمی چیف 3 نومبر 2007ء کو ملک کا آئین معطل کر کے ایمرجنسی لگانے کے اقدام پر یہ مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس آئینی مقدمہ کی چھے سال تک سماعت ہوئی اور سوسے زائد سماعتیں ہوئیں۔ اس دوران خصوصی عدالت کے سربراہ فیصل عرب سمیت، جسٹس طاہرہ ضیاء سمیت 4 جج تبدیل ہوئے۔ عدالت نے متعدد مرتبہ پرویزمشرف کو حاضر ہونے کا حکم دیا اور مہلت بھی دی، لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ اس کیس کی سماعت تو چھے سال سے جاری ہے تاہم کچھ عرصہ قبل اس میں تیزی آئی اور عدالت نے گزشتہ ماہ فیصلہ جاری کرنے کا بھی عندیہ دیا، تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ میں وفاقی حکومت نے ایک درخواست دائر کی کہ خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روک دیا جائے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت کی استدعا منظور کرلی، لیکن خصوصی عدالت نے یہ حکم تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور سپریم کورٹ کے حکم پر سماعت جاری رکھی۔ عدالت کے حکم پر ہی چند ہفتے قبل حکومت نے پراسیکیوٹر مقرر کیا اور جنرل پرویزمشرف نے اپنا ایک وکیل بھی مقرر کیا۔ جس روز فیصلہ سنایا گیا پراسیکیوٹر اور جنرل پرویزمشرف کے وکیل نے تین الگ الگ درخواستیں عدالت میں پیش کیں کہ سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر، سابق وزیر قانون زاہد حامد اور سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کو بھی اس کیس میں شریک ملزم بنایا جائے۔ خصوصی عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اس حوالے سے تو سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے، مزید لوگوں کو شامل کرنے کے لیے وفاقی حکومت ہی اختیار رکھتی ہے، وفاقی کابینہ سے اس کی منظوری لی گئی ہے؟ وکیل استغاثہ علی باجوہ نے جواب دیا کہ سیکرٹری داخلہ کو 12 دسمبر کو خط لکھا تھا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ بینچ کے روبرو اس سے متعلق کوئی درخواست نہیں ہے لہٰذا کیس کے میرٹ پر دلائل دیے جائیں۔ وکیل استغاثہ نے عدالت سے استدعا کی کہ دو مزید گواہ پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔ عدالت کے سربراہ جسٹس سیٹھ وقار نے ریمارکس دیے کہ استغاثہ وکیل صفائی کے دلائل کیوں دے رہا ہے؟ کیا استغاثہ پرویزمشرف کی بریت کی درخواست کی مخالفت کرے گا؟ جس پر استغاثہ کے وکلا علی باجوہ اور منیر بھٹی نے کہا کہ وہ بریت کی درخواست کی مخالفت کریں گے۔ وکیل استغاثہ نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیئر ٹرائل کا فیصلہ بھی آچکا ہے، عدالت اس پر توجہ دے۔ تو جسٹس سیٹھ وقار نے یہ دلائل تسلیم نہیں کیے۔ پرویز مشرف کے سابق وکیل سلمان صفدر نے بھی عدالت میں دلائل دینا چاہے، لیکن عدالت نے انہیں اجازت نہیں دی۔ پرویزمشرف کے وکیل رضا بشیر نے دلائل دیے اور عدالت سے استدعا کی کہ پرویزمشرف کو 342 کا بیان دینے کا ایک اور موقع ملنا چاہیے۔ جسٹس سیٹھ وقار نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے موقع فراہم کیا تھا، اب وہ وقت گزر چکا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6کے تحت چلائے جانے والے اس مقدمے کا پس منظر یہ ہے کہ 12 اکتوبر1999ء کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے اقدام کو سپریم کورٹ نے آئینی قرار دیا اور بعد میں انتخابات کے بعد قائم ہونے والی اسمبلی نے آئین کی سترہویں ترمیم کے ذریعے اسے آئینی تحفظ فراہم کردیا۔ لیکن جنرل پرویزمشرف نے 3 نومبر2007ء کو ملک میں اُس وقت ایمرجنسی پلس نافذ کردی جب پارلیمنٹ اپنی 5 سال کی مدت پوری کرچکی تھی اور جنرل پرویزمشرف اسی پارلیمنٹ کے ذریعے صدارتی انتخاب میں حصہ لینا چاہتے تھے۔ یوں ملک میں ایک سیاسی بحران کی کیفیت تھی۔ ان حالات میں انہوں نے ملک میں ایمرجنسی پلس نافذ کرکے قومی اسمبلی، سینیٹ اور آئین معطل کردیا تھا۔ یہ حکم انہوں نے آرمی چیف کی حیثیت سے دیا تھا اور ایمرجنسی پلس نافذ کرنے کا اعلان ٹی وی پر قوم کے نام اپنے خطاب میں کیا۔ ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے چیف جسٹس افتخار چودھری کو دوسری بار معطل کردیا گیا اور سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کو گھروں میں نظربند کردیا گیا، اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کردیا گیا تھا، جن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی لارجر بینچ نے ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والی خبر کی بنیاد پر اس کیس کی سماعت کی، اور ملک میں نافذ کی جانے والی ایمرجنسی پلس کو آئینی قرار دے دیا۔ لیکن اُس وقت جنرل پرویزمشرف کے اس فیصلے کے خلاف ملک کی سیاسی جماعتوں اور وکلا نے ردعمل دیا اور فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اسی صورت حال میں ملک میں انتخابی مہم بھی جاری رہی، تاہم بے نظیر بھٹو کے قتل کے واقعے کے بعد ملک میں سیاسی حالات بہت تلخ ہوگئے۔ چیئرمین سینیٹ محمد میاں سومرو کی سربراہی میں قائم نگران حکومت نے ایک ماہ کے لیے انتخابات ملتوی کردیے اور فروری 2008ء میں انتخابات ہوئے تو پیپلزپارٹی کو مرکز میں حکومت بنانے کا موقع ملا، نئے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں ہی نظربند ججوں کی رہائی کا حکم دے دیا، مگر افتخار چودھری کی چیف جسٹس کے عہدے پر بحالی نہیں کی۔ یہ فیصلہ وکلا تحریک کے دبائو میں ایک سال بعد 9 مارچ 2009ء کو چیف جسٹس ڈوگر کی ریٹائرمنٹ کے بعد کیا گیا۔ چیف جسٹس کے عہدے پر بحالی کے بعد جسٹس افتخار چودھری نے جسٹس ڈوگر سمیت 109 پی سی او ججوں کی تقرری کو غیر آئینی قرار دے کر انہیں ملازمت سے برطرف کردیا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے قومی اسمبلی میں میڈیا پر پابندی سے متعلق ایمرجنسی پلس آرڈر کے کچھ حصوں کا جائزہ لیا اور پیمرا رولز میں مناسب ترمیم کے ساتھ اسمبلی سے منظور کرکے اسے آئینی تحفظ دے دیا، تاہم اسمبلی نے 3 نومبر کے ایمرجنسی پلس آرڈر کو آئینی تحفظ نہیں دیا تھا۔ اس کام کی پیپلزپارٹی نے ہمت کی اور نہ مسلم لیگ(ن) نے بطور اپوزیشن اسے یہ کام کرنے دیا۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد تو پیپلزپارٹی ویسے ہی اسے ہاتھ نہیں لگانا چاہتی تھی۔ اُس وقت چیف جسٹس افتخار چودھری بھی خاموش رہے۔ یوں یہ معاملہ پانچ سال تک لٹکا رہا۔ 2013ء میں ملک میں نئے انتخابات ہوئے تو اُس وقت کے چیف جسٹس نے ججز نظربندی کیس کی درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے آئینی سوال دریافت کیا کہ آیا وفاق جنرل پرویزمشرف کے خلاف ایمرجنسی پلس نافذ کرنے پر آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج کرنا چاہتا ہے؟ قومی اسمبلی میں اُس وقت کے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے جواب دیا کہ حکومت یہ مقدمہ درج کرانے اور خصوصی عدالت قائم کرنے کو تیار ہے۔ اُس وقت ملک میں جنرل اشفاق پرویز کیانی آرمی چیف تھے، وہ بھی چاہتے تھے کہ پرویزمشرف دبائو میں رہیں، کیونکہ وہ ملک کے مخصوص حالات کے باعث فوج کا وقار بحال کرنا چاہتے تھے۔ پھر یہ مقدمہ پانچ سال تک یونہی عدالت میں رہا۔ چودھری نثار علی خان نے مشورے اور ہدایت کے بعد ہی قومی اسمبلی میں یہ بیان دیا تھا۔ اس بیان کے بعد حکومت نے جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں پانچ رکنی خصوصی عدالت قائم کی اور اکرم شیخ ایڈووکیٹ کو پراسیکیوٹر جنرل مقرر کردیا۔ مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو احمد رضا خان قصوری جنرل پرویزمشرف کی جانب سے پیش ہوئے جبکہ اکرم شیخ نے وفاق کی نمائندگی کی۔ کچھ عرصہ سماعت جاری رہی اور اکتوبر 2013ء میں جنرل کیانی ریٹائر ہوگئے اور جنرل راحیل شریف فوج کی کمان سنبھال لی۔ جب جنرل راحیل شریف نے فوج کی کمان سنبھالی تو حالات نے جنرل پرویزمشرف کے حق میں پھر پلٹا کھایا۔ پرویز مشرف، جنرل راحیل شریف کے بھائی میجر شبیر شریف شہید کے کورس میٹ تھے۔ بادی النظر میں نوازشریف اور جنرل راحیل شریف کے مابین تلخیاں بھی اسی کیس کے باعث پیدا ہوئی تھیں۔ حالات ایسے رہے کہ نوازشریف حکومت دبائو میں رہی، لیکن پرویزمشرف غداری کیس کا سامنا کرتے کرتے ایک روز علاج کے لیے بیرونِ ملک چلے گئے اور آج تک واپس نہیں آئے۔ 2018ء میں ملک میں نئے انتخابات ہوئے تو تحریک انصاف کی حکومت نے اس کیس میں وفاق کے پراسیکیوٹر اکرم شیخ کی تقرری منسوخ کردی اور معاملہ ایک بار پھر لٹک گیا، لیکن خصوصی عدالت اپنا کام کرتی رہی۔ حکومت نے خصوصی عدالت کے حکم پر اس کیس کے لیے پراسیکیوٹر مقرر کردیا۔ احمد رضا قصوری کے بعد فروغ نسیم پرویزمشرف کے وکیل بنے۔ جب پرویزمشرف بیرون ملک چلے گئے تو مقدمے کی سماعت بھی غیر مؤثر ہوگئی تھی۔ تحریک انصاف اقتدار میں آئی، اس حکومت نے یہ کیس داخلِ دفتر کردیا۔ لیکن یہ کیس ختم نہیں ہوا تھا، اس کیس کی کارروائی آہستہ آہستہ آگے بڑھتی رہی اور مرحلہ یہاں تک آن پہنچا کہ حتمی دلائل کے بعد خصوصی عدالت نے فیصلہ سنانے کے لیے باقاعدہ تاریخ مقرر کردی۔ حکومت نے اس کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کردی اور ہائی کورٹ نے فیصلہ سنانے سے روک دیا، تاہم خصوصی عدالت نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ مداخلت نہیں کرسکتی۔ اسی دوران سپریم کورٹ نے ہدایت دی کہ خصوصی عدالت کارروائی جاری رکھے، جس پر عدالت نے اس کیس کا فیصلہ سنادیا ہے۔
اس کیس کے فیصلے سے قبل عدالت میں پراسیکیوٹر اور جنرل پرویزمشرف کے وکیل پیش ہوئے اور نئی درخواست دی۔ عدالت کے سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ عدالت نے کہا تھا پرویزمشرف کو جب چاہیں پیش کردیں۔ وکیل کا کہنا تھا کہ پرویزمشرف کی صحت اس قابل نہیں کہ وہ پیش ہوسکیں، دفعہ 342 کے بیان کے بغیر پرویزمشرف کا دفاع کیسے کروں؟ عدالت کے سربراہ نے کہا کہ آپ دفاع نہیں کرسکتے اس کا مطلب ہے آپ کے دلائل مکمل ہوگئے۔ وکیل نے کہا کہ عدالت پندرہ سے بیس دن کا وقت دے، پرویزمشرف بیان ریکارڈ کرائیں گے۔ عدالت کے سربراہ نے کہا کہ ملزم کے بیان کے لیے کمیشن بنانے کی درخواست کا جائزہ لیں گے۔ جسٹس نذر اکبر نے سرکاری وکیل سے کہا کہ آپ جو پڑھ رہے ہیں وہ دفاع کی درخواست ہے۔ اس درخواست پر فیصلہ آچکا ہے، کیس میں شہادت ہوچکی ہے، ان سہولت کاروں کے خلاف کیا ثبوت ہیں؟ جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ عدالت صرف سپریم کورٹ کے فیصلوں کی پابند ہے، سلمان صفدر صرف رضا بشیر کی معاونت کرسکتے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے پابند نہیں ہیں۔ جسٹس شاہد کریم نے دریافت کیا: چارج شیٹ میں کیوں ترمیم کرنا چاہتے ہیں؟ نئی شکایت کیوں نہیں دائر کرتے ان لوگوں کے خلاف جن پر مددگار ہونے کا الزام ہے؟ آپ کیس میں تاخیر کرنا چاہتے ہیں۔ جرم میں سہولت کاروں کے معاملے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے، اس معاملے میں تمام چیزوں کو سامنے رکھنا ہوگا، ساڑھے تین سال بعد ایسی درخواست آنے کا مطلب ہے کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں، آج مقدمہ حتمی دلائل کے لیے مقرر تھا تو نئی درخواستیں آگئیں۔ جواب میں سرکاری استغاثہ نے کہا کہ نئی شکایت دائر کرنے سے ٹرائل میں تاخیر ہوسکتی ہے، جب کہ چارج شیٹ میں ترمیم سے ٹرائل میں تاخیر نہیں ہوگی، اگر پہلے مرکزی ملزم کا ٹرائل مکمل ہوجاتا ہے تو جو مددگارتھے ان کا کیا ہوگا؟ سرکاری وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کہہ چکی ہی کہ کسی وقت بھی شکایت میں ترمیم کی جاسکتی ہے۔ جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ آپ کو مزید کسی کو ملزم بنانا ہے تو نیا مقدمہ دائر کردیں۔ تین افراد کو ملزم بنایا تو حکومت سابق کابینہ اور کور کمانڈرز کو بھی ملزم بنانے کی درخواست لے آئے گی۔ جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ عدالت کی اجازت کے بغیر فردِ جرم میں ترمیم نہیں ہوسکتی۔ جسٹس نذر اکبر نے ریمارکس دیے کہ چارج شیٹ میں ترمیم کے لیے کوئی باضابطہ درخواست ہی نہیں ملی۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کی اجازت کے بغیر کوئی نئی درخواست نہیں آسکتی۔ جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ جو درخواست باضابطہ دائر ہی نہیں ہوئی اس پر دلائل نہیں سنیں گے۔ جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ استغاثہ کو یہ بھی علم نہیں کہ عدالت میں درخواست کیسے دائر کی جاتی ہے۔ جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ آپ اگر سپریم کورٹ کے کیس پر نظرثانی درخواست دائر کرنا چاہتے ہیں تو کریں۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ پرویزمشرف کے سہولت کاروں اور ساتھیوں کو بھی ملزم بنانا چاہتے ہیں، تمام ملزمان کا ٹرائل ایک ساتھ ہونا ضروری ہے۔ وکیل استغاثہ علی ضیاء نے دلائل میں کہا کہ ہم نے آج تین درخواستیں جمع کرائی ہیں، ایک درخواست چارج شیٹ کی ترمیم کی ہے۔ جسٹس نذر اکبر نے دریافت کیا کہ جنہیں ملزم بنانا چاہتے ہیں اُن کے خلاف کیا شواہد ہیں؟ تحقیقات اور شواہد کا مرحلہ گزر چکا ہے۔ کیا شریک ملزمان کے خلاف نئی تحقیقات ہوئی ہیں؟ آپ پرویزمشرف کی درخواست کا حوالہ دے رہے ہیں جس پر فیصلہ بھی ہوچکا۔ جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ پرویزمشرف کے شریک ملزمان کی درخواست پر سپریم کورٹ بھی فیصلہ دے چکی۔جسٹس نذر اکبر نے پوچھا کہ سابق پراسیکیوٹرز کے خلاف حکومت نے کیا کارروائی کی؟ جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ حکومت کے پاس درخواستیں دائر کرنے کے لیے 15 دن کا وقت تھا۔جسٹس نذر اکبر نے ریمارکس دیے کہ استغاثہ بھی اب وہ بات کر رہا ہے جو ملزم کے دلائل ہونے چاہئیں۔ جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ آپ کا مقصد صرف آج کا دن گزارنا تھا۔جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں ضد نہ کریں، سپریم کورٹ 342 کے بیان کا حق ختم کر چکی ہے۔ پرویزمشرف 6 مرتبہ 342 کا بیان ریکارڈ کرانے کا موقع ضائع کرچکے۔ پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ شکایت درج ہونے کے بعد ہی تحقیقات ہو سکتی ہیں، ستمبر 2014ء کی درخواست کے مطابق شوکت عزیز نے پرویزمشرف کو ایمرجنسی لگانے کا کہا۔عدالت نے قرار دیا کہ ترمیم شدہ چارج شیٹ دینے کے لیے دو ہفتے کی مہلت دی گئی تھی۔پراسیکیوٹر نے کہا کہ قانون کے مطابق فردِ جرم میں ترمیم فیصلے سے پہلے کسی بھی وقت ہو سکتی ہے۔عدالت نے پوچھا کہ سیکرٹری داخلہ کابینہ کی منظوری کے بغیر کیسے چارج شیٹ ترمیم کر سکتے ہیں؟ وفاقی حکومت اور کابینہ کی منظوری کہاں ہے؟ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق وفاقی حکومت کا مطلب کابینہ ہے۔سرکاری وکیل نے کہا کہ سابق پراسیکیوٹرز نے عدالت سے حقائق کو چھپایا۔وفاقی حکومت سے متعلق سپریم کورٹ مصطفیٰ ایمپیکس کیس میں ہدایات جاری کر چکی۔
سپریم کورٹ کا حکم آنے کے بعد سیکرٹری داخلہ نہیں وفاقی کابینہ فیصلے کر سکتی ہے۔ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے پوچھا کہ آپ مرکزی کیس پر دلائل دینا چاہتے ہیں یا نہیں؟سرکاری وکیل علی ضیا باجوہ نے کہا کہ میں دلائل نہیں دینا چاہتا، تیاری نہیں۔عدالت نے ہدایت کی کہ پھر آپ بیٹھ جائیں وکیل صفائی کو بولنے کا موقع دیں۔وکیل نے کہا کہ میری اور بھی درخواستیں ہیں وہ تو سنیں،اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے سے متعلق بھی درخواست ہے۔عدالت نے قرار دیا کہ ہمارے سامنے صرف سپریم کورٹ کا حکم ہے، اس کے تحت کارروائی چلانی ہے۔پرویزمشرف کے ذاتی وکیل سلمان صفدر روسٹرم پر آئے تو عدالت نے کہا کہ سلمان صفدر آپ کی ضرورت نہیں آپ بیٹھ جائیں۔سلمان صفدر نے استدعا کی کہ عدالت نہ استغاثہ کو سن رہی ہے اورنہ دفاع کو، پھر کیسے کیس کو چلائیں گے؟ جسٹس وقار احمد نے ریمارکس دیے کہ استغاثہ اپنے حتمی دلائل شروع کرے، عدالتی مفرور کے وکیل کو عدالت میں بولنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ پرویزمشرف کے خلاف تحقیقاتی ٹیم کے دو ارکان کے بیان ریکارڈ نہیں ہوئے، عدالت میں ایک درخواست تحقیقاتی ٹیم کے ارکان کی طلبی کی بھی ہے۔پراسکیوٹر نے کہا کہ ایسے ٹرائل پر دلائل کیسے دوں جو آگے چل کر ختم ہوجائے۔ پراسکیوٹر علی ضیاء باجوہ نے استدعا کی کہ عدالت حکومت کو درخواستیں دائر کرنے کا وقت دے، ملزم کا 342 کا بیان بھی ریکارڈ نہیں ہو سکا،پرویزمشرف کا 342 کا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے درخواست دائر کی ہے۔ پرویز مشرف کو فیئر ٹرائل کا حق ملنا ضروری ہے۔ بہر حال خصوصی عدالت نے تمام تر درخواستیں مسترد کرتے ہوئے کیس کا فیصلہ سنا دیا۔