رئیل اسٹیٹ میں کام کرنے والا ایک طاقت ور تعمیراتی مافیا بھی اسلام آباد، لاہور اور کراچی سمیت ملک کے اہم بڑے شہروں میں قیمتی اراضی حاصل کرنے کے لیے سرگرم ہوگیا ہے
وطن عزیز کیسا عجیب ملک ہے، یہاں نظام جمہوری ہو یا غیر جمہوری، سیاسی اضطراب ختم ہی نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ، قومی معیشت بھی غیر مستحکم رہتی ہے ، وجہ یہ ہے کہ یہاں سیاسی عدل، معاشی انصاف میسر نہیں، پورا ملک بیوروکریسی، اسٹیبلشمنٹ کی مٹھی میں بند ہے، پسند اور ناپسند کی بنیاد پر حکمران منتخب کیے جاتے ہیں، انتخابات کا ہونا تو محض تکلف ہے، الیکشن کمیشن کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ بن جائے فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں، جہاں فیصلے ہوتے ہیں وہاں جاتے ہوئے پر جلتے ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے دھرنے، احتجاج اور مظاہرے اس ملک کے معاشرے کی قسمت میں لکھ دیے گئے ہیں، ابھی حال ہی میں جے یو آئی کا دھرنا ہوا، اور اچانک ختم بھی ہوگیا، لیکن اپنے پائوں کے نشان چھوڑ گیا ہے جن سے اس بات کی مکمل نشاندہی ہوچکی ہے کہ جے یو آئی کے گلے میں دھرنے کی گھنٹی کس نے باندھی تھی، جے یو آئی نے سنہرے خواب دیکھے تھے مگر اب اس کی آنکھ کھل چکی ہے اور سمجھ بھی گئی ہے کہ اسے دھکا کس نے دیا تھا تاہم اس کا نام کبھی نہیں لے گی کہ اسے سیاست میں بڑا حصہ ملنے کی امید دلائی گئی ہے کچھ ایسا نقشہ بن رہا ہے کہ مستقبل میں تحریک انصاف اور جے یو آئی ایک دوسرے کی اپوزیشن ہوں گی مولانا فضل الرحمن بھی اپنے لیے نئے سیاسی کردار پر راضی ہوچکے ہیں ملک کا سیاسی منظر نامہ اگلے چھے ماہ میں واضح ہوجائے گا اور اس وقت تک حکومت بھی اپنے دوسال مکمل کرچکی ہوگی کیونکہ ابھی فیصلہ یہی ہے کہ حکومت کو کم از کم چھ ماہ مزید دیے جائیں تاکہ اس کی اہلیت اور نااہلیت کے تمام ابہام دور ہوجائیں ان چھے مہینوں میں اسے ایک بڑا امتحان درپیش ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے پارلیمنٹ سے کیسے قانون سازی کرتی ہے حکومت کی کمزوری اور کسی حد تک لاپرواہی پوری طرح عیاں ہوچکی ہے اس کی قانونی ٹیم وزیر اعظم پر غالب رہی اور سپریم کورٹ میںمغلوب ہو گئی حکومت فی الحال دھرنے کے بڑے خطرے سے تو بچ گئی ہے جن خرابیوں کی پسلیوں سے سے دھرنا باہر نکلا حکومت پر ان خرابیوں کی گرفت مضبوط ہوتی جارہی ہے چیف الیکشن کمیشنر کی تقرری حکومت کے لیے دوسرا بڑا امتحان ہے حکومت سمجھ رہی ہے اور اسے مشورہ بھی یہی دیا جارہا ہے کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن بلیک میلنگ کر رہی ہے لہذا آرڈینیس سے کام چلایا جائے جب کہ یہ عارضی انتظام ہے ہر آرڈینس کی ایک خاص مدت ہے اس کے بعد اسے جاری رکھنے کے لیے ہر قیمت پر پارلیمنٹ میں پیش کرنا ضروری ہے لیکن حکومت صرف ڈنگ ٹپائو کام چاہتی ہے لہذا وہ آرڈینس جاری کرکے اپنا کام چلا رہی ہے یوں ایک پارلیمانی نظام میں عدلیہ، انتظامیہ اور پارلیمنٹ کا کردار کہیں نظر نہیں آرہا، مگر جہاں پارلیمنٹ سوال کرتی ہے اور عدلیہ نوٹس لیتی ہے تو پھر کہا جاتا ہے کہ سازشی عناصر اداروں میں ٹکرائو چاہتے ہیں وزیراعظم عمران خان کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ اپنی آئینی ماہرین کی ٹیم سے کنارہ کشی کریں اور پارلیمنٹ میں قانون سازی ہونے دیں کیونکہ وزیراعظم عمران خان کے آئینی ماہرین آرڈیننس کے ذریعے کام چلانے کے سوا کچھ اور نہیں جانتے آرمی ایکٹ میں ترمیم آئین کے آرٹیکل 243 سے جڑا ہوا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت احتساب کا نعرہ بہت لگاتی ہے، اور اس کی ساری سیاست کا محور بھی یہ نعرہ ہے لیکن خود حکومت کو طاقت ور لابیوں نے گھیر رکھا ہے ترقیاتی منصوبوں کے نام پر بڑے بڑے پراجیکٹس پر ہاتھ ڈالا جارہا ہے سب سے بڑا منصوبہ ہائوسنگ سے متعلق ہے جس میں ملک میں کام کرنے والا رئیل اسٹیٹ بزنس مافیا حکومت کے فیصلوں کی شہہ رگ پر بیٹھا ہوا ہے اور ہر بڑے منصوبے میں اپنا حصہ مانگ رہا ہے ابھی حال ہی میںوزیر اعظم عمران خان نے ترقیاتی منصوبوں میں نجی شعبہ کی شمولیت کے لیے رولز تبدیل کرکے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں پی ایس ڈی پی پلس متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے اس فیصلے کے بعد حکومت کے منصوبوں میں نجی شعبے کی شمولیت کا راستہ کھل گیا ہے حکومت کے مطابق ترقیاتی عمل میں نجی شعبے کی شراکت پر مبنی ’پی ایس ڈی پی پلس، منصوبے کا مقصد سماجی و معاشی ترقی کا عمل تیز کرنا ہے ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی حکومت کا مؤآف ہے کہ ان ترقیاتی منصوبوں میں اضافے سے نوجوانوں کے لیے نوکریوں کے مواقع پیداہوں گے،یہ منصوبے بحری امور،ہوابازی،لاجسٹک، انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق ہیں، منصوبوں کاکل تخمینہ تقریباً 5.5کھرب روپے لگایاگیاہے پی ایس ڈی پی پلس کے تحت مختلف شعبوں میں53 بڑے منصوبوں کی نشاندہی کی گئی ہے، منصوبے انفرااسٹرکچر، سوشل سیکٹر،انرجی،رئیل اسٹیٹ اورسیاحت بھی شامل ہے حکومت کا خیال ہے کہ 2738 ارب روپے کے ترقیاتی اخراجات کے نتیجے میں جی ڈی پی کو6 فیصد تک بڑھایا جا سکتا ہے حکومت کے اس فیصلے کے بعد سیاحت اور رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں کام کرنے والے متحرک ہوگئے ہیں اور سیاحت کی کمپنیاں رجسٹرڈ کرائی جارہی ہیں اسی طرح رئیل اسٹیٹ میں کام کرنے والا ایک طاقت ور تعمیراتی مافیا بھی اسلام آباد، لاہور، اور کراچی سمیت ملک کے اہم بڑے شہروں میں قیمتی اراضی حاصل کرنے کے لیے سرگرم ہوگیا ہے، وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر ایل ڈی اے لاہور میںکثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیرکے لیے قوانین منظورکر لیے ہیں،نجی رہائشی سکیموں کے قوانین میں بہتری اور جوائنٹ وینچر کی بنیاد پر منصوبوں کی تکمیل کے لیے قوانین بھی تیار کر لیے ہیں یہ جگہ کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر کے لیے اب لاہور کی بجائے بیرون لاہور کی کاروباری فرموں کے حوالے کی جائے گی تعمیراتی مافیا اسلام آباد کے ایک اہم علاقے کی انتہائی قیمتی اراضی کے لیے رئیل اسٹیٹ کاروباری لابی اس وقت سرگرم ہے اسی لابی کے دبائو پرقیمتی اراضی نیا پاکستان ہائوسنگ اتھارٹی کو دینے کی تجویز پر اسلام آباد کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے پالیسی ساز افسر دو حصوں میں تقسیم ہوگئے ہیں اور حکومت کے متعدد فیصلوں اور ترجیحات کے باعث پالیسی ساز افسروں کے تحفظات بڑھ رہے ہیں تجویز یہ ہے کہ اسلام آباد کے علاقے سیکٹر جی نائن اور ایف نائن کے درمیان فاطمہ جناح پارک کے سامنے فلیٹس تعمیر کرنے کے لیے یہ ساری پٹی نیا پاکستان ہائوسنگ اتھارٹی کو دے دی جائے اس پٹی کی کل لمبائی دو کلو میٹر ہے جس پر وہ کمپنیاں رہائشی فلیٹس تعمیر کریں جنہیں حکومت کی جانب سے باقاعدہ ایک معاہدے کے بعد اجازت دی جائے لیکن اس اراضی کی قیمت کا تعین ایک بڑا مسئلہ ہے اور یہی بات سب سے بڑی رکاوٹ ہے سی ڈی اے کے انتظامی بورڈ نے اس تجویز کی مخالفت کی ہے لیکن حکومت پر ایک سو سے زائد چھوٹے چھوٹے بلڈرز کی با اثر اور ذاتی کاروباری مفادات کی حامل ایک تعمیراتی تنظیم وزیر اعظم کے قریب تحریک انصاف کے سندھ کے اہم رہنمائوں کے ذریعے یہ اراضی حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے اگر یہ اراضی نفع نقصان کا اصل تخمینہ لگائے بغیر کسی خاص گروپ کے حوالے کر دی گئی تو یہ ملکی تاریخ کا ایک بڑا مالیاتی اسکینڈل ہوگا یہ بات قابل ذکر ہے کہ سی ڈی اے اسلام آباد میں قائم کچی بستیوں اور تجاوزات کے پھیلتے ہوئے جال کو روکنے کے لیے متحرک ہے لیکن ایک لابی کی سیاسی مداخلت کی وجہ سے یہ کام رکا ہوا ہے اس بارے میں ذرائع بتاتے ہیں کہ ایک تعمیراتی گروپ جسے حکومت کی ایک بڑی لابی کی حمایت میسر ہے یہ چاہتا ہے کہ اسلام آباد میں قائم اڑتیس کچی بستیوں میں پہلے مرحلے میں اسلام آباد کے اہم سیکٹرزکی تمام کچی بستیاں ختم کی جائیں اور ان کی جگہ کسی خاص منظور نظر ایک تعمیراتی گروپ کو یہاں رہائشی مسائل حل کرنے کے نام پر رہائشی فلیٹس تعمیر کرنے کا منصوبہ دیا جائے ابتدائی طور پر ایک سیکٹر کی کچی بستی سیکٹر آئی نائن میں منتقل کرنے کا فیصلہ ہوچکا ہے یوں یہ حکومت مافیا کے مٹھی میں آئی ہوئی معلوم ہورہی ہے تحریک انصاف کا داخلی بحران بھی حکومت کے سامنے ایک اور گہری کھائی ہے وزیراعظم کے قریبی حلقے نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تحریک انصاف کے بانی رہنما حامد خان کو شو کاز نوٹس بھجواکر ان کے لیے نئی مشکلات اور پریشانیوں کے دروازے کھول دیے ہیں حامد خان نے پارٹی کے سیکریٹری جنرل عامر محمود کیانی کی جانب سے جاری کردہ اظہارِ وجوہ کے نوٹس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کوئی موقع پرست اور شوگر مافیا انہیں پارٹی سے نہیں نکال سکتا قوی امکان ہے کہ اسمبلی کے ارکان کا ایک گروپ ایک قدم آگے بڑھ کر کچھ اضطراب پیدا کرنے والے ہیںحامد خان ایڈووکیٹ کی پشت پر ملک کے وکلا کی بھاری تعداد کھڑی ہے۔ملک میں وکلا کے دو بڑے گروپ ہیں، عاصمہ جہانگیر گروپ اور حامد خان گروپ اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن میں ان دونوں گروپوں کے درمیان ہر سال مقابلہ ہوتا ہے حامد خان کو شوکاز نوٹس جاری کرکے عمران خان کو وکلا میں متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے ہوسکتا ہے کہ حامد خان کو پارٹی سے خارج کروا کر تحریک انصاف کو تقسیم کرنے کی بنیاد رکھی جارہی ہو گزشتہ سوا سال سے جس طرح حکومت چلائی جا رہی تھی اس کا کچھ نہ کچھ نتیجہ تو نکلنا ہی تھا یہ بزدار کے شاندار طرزِ حکمرانی کا حیرت انگیز واقعہ نہیں سمجھا جانا چاہیے کسی ملک کا نظم و نسق خراب ہو جائے یا امن و امان جواب دے جائے تو انارکی پھیل جاتی ہے، چھینا جھپٹی ہوتی ہے، طبقات ایک دوسرے سے متصادم ہوتے ہیں اسلام آباد میں یہ بات اب محسوس کی جانے لگی ہے کہ لاہور میں ہونے والا واقعہ اندرونی انارکی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہر طرف منفی سوچ کا راج ہے ،افسر شاہی آئے روز کے تبادلوں سے تنگ ہے، کئی ماہ سے حکومتِ پنجاب کے اہم ترین پروجیکٹس نوکر شاہی کے اعتراضات کی وجہ سے لٹکے ہوئے ہیں، بیورو کریٹس نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ وہ کسی بھی ترقیاتی منصوبے پر دستخط کر کے نیب کا نشانہ نہیں بنیں گے ان حالات کے باوجود وزیر اعظم عمران خان کی مدد کی جارہی ہے اور دست شفقت نہیں اٹھایا گیا متعدد بار انہیں مشورے دے گئے کہ وفاق اور پنجاب میں طرزِ حکمرانی کی بہتر صورت پیدا کی جائے مگر وزیر اعظم کا اپنا اختیار کردہ میرٹ اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے بہتر حکمران اقتدار میں ہوتا تو حالات کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کرتا مگر حکومت سارے ہنگامے کی ذمہ داری مسلم لیگ (ن) پر ڈال کر اسی طرح امن، چین کی بانسری بجا رہی ہے۔
آرمی چیف کی توسیع…عدالت عظمیٰ کا تفصیلی فیصلہ
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی ریٹائرمنٹ سے چار روز قبل سپریم کورٹ نے ملک کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے سلسلے میں تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔ فیصلے میں واضح کردیا گیا ہے کہ قانون سازی نہ ہوئی تو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں عبوری چھے ماہ کی توسیع میں اضافہ نہیں ہوسکے گا اور انہیں ملازمت سے ریٹائر ہونا پڑے گا۔ حکومت نے چھے ماہ میں قانون سازی نہ کی تو نیا آرمی چیف لگایا جائے، اور جنرل باجوہ تین سال کی مدت مکمل کرنے پر ریٹائر تصور ہوں گے۔ تفصیلی فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے، جب کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلے میں اپنا اضافی نوٹ تحریر کیا ہے جس میں لکھا ہے کہ ’’آپ جتنے بھی طاقت ور ہوجائیں قانون سے بالاتر نہیں ہوسکتے۔ اب تک آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع بغیر قانون کے ہوتی رہی، امید ہے کہ پارلیمنٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت پر قانون سازی کی جائے گی۔ مخصوص تاریخ کے تناظر میں آرمی چیف کا عہدہ کسی بھی عہدے سے زیادہ طاقتور ہے، آرمی چیف کا عہدہ لامحدود اختیار اور حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ تعجب ہوا کہ آرمی چیف کے عہدے میں توسیع اور دوبارہ تقرری کی شرائط و ضوابط کا کسی قانون میں ذکر نہیں! آئین کے تحت صدر کے مسلح افواج سے متعلق اختیارات قانون سے مشروط ہیں۔ قوم کی جمہوری پختگی کے مدنظر عدالت اعلانیہ کہہ سکتی ہے کہ کوئی جتنا بھی طاقتور ہوجائے قانون سے بالاتر نہیں ہوسکتا‘‘۔
انہوں نے اپنے نوٹ میں برطانیہ کے سابق چیف جسٹس سر ایڈورڈ کوک کا قول نقل کرتے ہوئے لکھا:’’آپ جتنے بھی بلند ہوں، قانون آپ سے بالا ہوتا ہے۔‘‘
فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ قرار دیتی ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ چھے ماہ تک آرمی چیف رہیں گے، اسے نظریۂ ضرورت نہ سمجھا جائے، آئین و قانون میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کوئی قانون موجود نہیں۔
سپریم کورٹ کا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق یہ فیصلہ 43 صفحات پر مشتمل ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف آئینی درخواست میں مفادِ عامہ کا اہم سوال اٹھایا گیا تھا، عوامی مفاد کے تحت ہی اس معاملے کی سماعت کا فیصلہ کیا۔ عدالت نے26 نومبرکی سماعت میں بعض قانونی سقم کی نشاندہی کی۔ فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت کو قوانین پرعمل کرنا ہے، افراد کو دیکھنا ہے، ہمارے سامنے مقدمہ تھا کہ کیا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی جاسکتی ہے؟ آرمی چیف کی تعیناتی، ریٹائرمنٹ اور توسیع کی ایک تاریخ رہی ہے، تاریخ میں پہلی مرتبہ آرمی چیف کی تعیناتی اور ریٹائرمنٹ کا معاملہ سامنے آیا، ادارہ جاتی پریکٹس قانون کا مؤثرمتبادل نہیں ہوسکتی۔ فیصلے میں کہا گیا کہ وزیراعظم نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع دی، لیکن وزیراعظم کو ایسا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے، قانون اورآئین میں مدت ملازمت میں توسیع کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔فیصلے میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے چھے ماہ میں قانون سازی کی یقین دہائی کرائی، اگر چھے ماہ میں قانون نہ بن سکا تو جنرل قمر جاوید باجوہ بطور آرمی چیف ریٹائرہوجائیں گے اور صدرِ مملکت نئے آرمی چیف کا تقرر کریں گے۔قانون سازی نہ ہونے کی صورت میں صدرِ پاکستان وزیراعظم کی ہدایت پر حاضر سروس جنرل کو آرمی چیف مقرر کریں گے۔فیصلے میں بتایا گیا کہ ہمیں اس بات کا ادراک ہے کہ آرمی چیف پاک آرمی کا کمانڈنگ آفیسر ہے، اس لیے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی توسیع کے لیے کہا ہے، عدالتی پابندی کو نظریۂ ضرورت کے ساتھ منسلک نہ کیا جائے،اس قسم کی باتیں قانون کے خلاف جائیں گی اور اس سے سیاسی مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔فیصلے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 203 ڈی کے تحت عدالت وفاقی حکومت کو قانون سازی اور اس میں ترمیم کا کہہ سکتی ہے۔آرمی چیف کی تنخواہ اورمراعات کا بھی تعین کیا جائے۔فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہاکہ کسی فوجی قانون میں آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کی عمر،توسیع یا دوبارہ تعیناتی کی حد کا تعین نہیں، وزارتِ دفاع،صدرِ مملکت،وزیراعظم اور کابینہ سے دوبارہ تعیناتی یا توسیع سے متعلق سمریاں بے معنی ہیں۔ اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وفاقی حکومت پارلیمنٹ کے ذریعے ایکٹ کی صورت میں چھے ماہ کے اندر قانون سازی کرے گی۔