پُرتشدد رجحانات علاج کیسے؟۔

طاقت کی حکمرانی کا نشہ ریاست اور حکومت سے لے کر نچلی سطح تک موجود تمام سیاسی، سماجی اور انتظامی اداروں میں غالب نظر آتا ہے

بنیادی سوال یہ ہونا چاہیے کہ ہمارے معاشرے میں نفرت، تعصب، اور اس کے نتیجے میں تشدد کی فکر کیسے آگے بڑھی؟ کیا وجہ ہے کہ ہم پُرامن انداز میں اپنے معاملات کو حل کرنے میں ناکام ہورہے ہیں؟ تنازعات کا ابھرنا ایک فطری امر ہوتا ہے، لیکن اہم بات یہ ہوتی ہے کہ ہم مجموعی طور پر تنازعات سے کیسے نمٹتے ہیں۔کیونکہ دیکھنے کو یہ ملتا ہے کہ ہم تنازعات کو حل کرنے کی کوشش میں مزید نئے تنازعات کو جنم دینے کا سبب بن رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سماج میں ہمیں لوگ ایک دوسرے سے الجھے ہوئے یا ناراض نظر آتے ہیں اور یہ عمل لوگوں میں مزید انتشار اور تشدد پر مبنی مزاج کو طاقت فراہم کرتا ہے۔
پاکستان میں نفرت، تعصب، عدم برداشت، غصہ اور بدلہ لینے کی سوچ اور فکر گزشتہ کئی دہائیوں سے مختلف طبقات میں بہت زیادہ غالب نظر آتی ہے۔ ریاستی و حکومتی سطح پر سیاسی، سماجی، قانونی اورانتظامی پالیسیوں میں جو بڑے تضادات یا ٹکرائو ہے اُس کے نتیجے میں لوگوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی سیاست بڑھ رہی ہے۔ یہ سب کچھ جو ہمیں مختلف منفی شکلوں میں قومی سطح پر دیکھنے کو مل رہا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنے کے لیے تیار نہیں۔ ہمارا قومی بیانیہ یا نصاب لوگوں میں یکجہتی، محبت، امن، رواداری، بھائی چارہ، سماجی قبولیت، عزت و احترام اور عدم تفریق کو پھیلانے میں ناکام ہوا ہے۔ طاقت کی حکمرانی کا نشہ ریاست اور حکومت سے لے کر نچلی سطح تک موجود تمام سیاسی، سماجی اور انتظامی اداروں میں غالب نظر آتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی بڑا فریق اپنی غلطیوں یا کوتاہیوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ قومی وتیرہ بن چکا ہے کہ اپنے حصے کی غلطیوں کو دوسروں پر ڈال کر خود کو معصوم ظاہر کرو۔ یہی وجہ ہے کہ سب ایک دوسرے پر الزامات لگاکر مسئلے کے حل کے بجائے مزید بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ ماضی میں ریاستی، حکومتی اور سیاسی سطح پر ہمارے بڑے فریقین نے جو بڑے سیاسی فیصلے خود کیے یا ان کو یہ فیصلے کسی بڑے یا بیرونی طاقتوں کے دبائو کی صورت میں کرنے پڑے وہ نفرت اور جنگ کے ماحول کو بنانے کا سبب بنے ہیں۔ ماضی میں ہم نے یقینی طور پر غلطیاں کی ہوں گی، لیکن کیا ہم ان غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کی سوچ، فکر، تدبر اور فہم و فراست سے عاری ہیں؟ کیونکہ یہ جو ماتم کی سیاست ہے اس سے کیسے باہر نکلا جائے اور اس کی کیا حکمت عملی ہونی چاہیے؟ یہ قومی نوعیت کا سوال ہے، اور اس کا جواب سب فریقین کو اپنی اپنی سطح پر تلاش کرکے ایک بڑے ایجنڈے کی طرف بڑھنا چاہیے۔
یہ جو آرمی پبلک اسکول پشاور کے واقعے کے بعد ہم نے بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا تھا اس سے کیونکر غفلت برتی جارہی ہے! یہ قومی سطح کا بیانیہ بنیادی طور پر انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسے معاملات یا رجحانات سے نمٹنے کا تھا۔ یہ بات واضح تھی کہ اگر ہم نے انتہا پسندی پر مبنی رجحانات کے خلاف ایک بڑی جنگ لڑنی ہے تو یہ کسی سیاسی تنہائی میں نہیں لڑی جائے گی۔ ریاست اور حکومت کی سطح سے یہ کوشش ہونی تھی کہ نیشنل ایکشن پلان کے ایجنڈے کو ملک کے بڑے سیاسی، انتظامی، قانونی، اصلاحاتی ایجنڈے کے ساتھ جوڑ کر ایک ایسا قومی بیانیہ ترتیب دیا جائے گا جو معاشرے میں نفرت کے مقابلے میں امن اور رواداری کی سیاست کو فروغ دے گا۔ لیکن ہماری سابقہ اور موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہوں یا سیاسی قیادتیں، اہلِ دانش ہوں یا میڈیا، یا دانش گاہیں جو فکری محاذ پر قومی فکر کی آبیاری کرکے لوگوں کو محبت کے بندھن میں جوڑتی ہیں، سب فکری انحطاط کا شکار ہوکر قومی بحران میں شدت پیدا کررہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور رائے عامہ بنانے والے اداروں کی ترجیحات میں معاشرے کی سیاسی اور سماجی طرز پر تشکیلِ نو اورنئی سوچ و فکر کو اجاگر کرنا شامل ہی نہیں۔ کیونکہ معاشرے کی تقسیم اور نفرت کا کھیل ایک سطح پر ان کے ذاتی اور سیاسی مفادات سے بھی جڑا ہوتا ہے۔
ہمارا تعلیمی نصاب چاہے اُس کا تعلق رسمی یا غیر رسمی تعلیم سے ہو یا مدارس میں دی جانے والی تعلیم سے، اس کے نتیجے میں جو کچھ نئی نسل میں پیدا ہورہا ہے وہ سوچ بچار کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ کیونکہ نئی نسل میں جو غصہ یا نفرت ہے اس کی وجہ جہاں ہمارا تعلیمی نظام ہے، وہیں ہم اس نئی نسل کے سامنے مثبت انداز میں آگے بڑھنے یا اُن کے لیے مثبت ترقی کے مواقع پیدا نہیں کرسکے ہیں۔ یہ جو نئی نسل میں غصہ، نفرت، بغاوت یا بدلہ لینے، یا سماج میں بہتری پیدا کرنے کے بجائے لاتعلقی کی سوچ ہے اس کی وجہ ملک میں رائج سیاسی اور انتظامی بنیادوں پر حکمرانی کا وہ نظام ہے جو لوگوں میں مایوسی پیدا کرتا ہے۔ محض نوجوان نسل پر غصہ نکالنا اور یہ ثابت کرنا کہ وہ پیدا ہی شدت پسند ہوئے ہیں، درست فکر نہیں۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ نئی نسل میں انتہا پسندی کے جو رجحانات بڑھ رہے ہیں اس کی وجہ قومی سطح پر ہمارا سیاسی، سماجی، معاشی اور عدم انصاف پر مبنی نظام ہے۔
نفرت یا تعصب کی سیاست کی ایک وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں کلچر، آرٹ، شاعری، ڈرامہ، فلم سمیت ایسے عمل جو ذہنی سطح پر لوگوں کی فکر میں اعتدال پیدا کرتے ہیں، وہ ناپید ہوگئے ہیں۔ یہاں ڈرامے، فلمیں، شاعری سمیت جو کچھ ہورہا ہے اس میں خود انتہا پسندی کو پھیلایا جاتا ہے، اور فلموں میں تشدد پر مبنی مناظر پسند کیے جاتے ہیں۔ یہ جو ذہنوں کو امن اور رواداری کے ساتھ جوڑنے کی جنگ ہے اس میں آرٹ اورکلچر کو بنیاد بناکر ڈراموں، فلموں اور شاعری کی مدد سے لوگوں کی ذہن سازی کرنی ہوگی۔ تعلیمی اداروں کو اس جنگ میں کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔ ان اداروں کا کام ڈگری بانٹنے سے بڑا ہونا چاہیے، اور وہ کام ایک نئے بیانیے کی تشکیل میں علمی و فکری مواد سمیت نئی قیادت پیدا کرنا ہونا چاہیے۔ ایسا مواد جو نفرت پھیلاتا ہو، یا وہ لوگ یا ادارے جو نفرت کے پھیلائو کا سبب بن رہے ہیں، ان کے خلاف ہر سطح پر مضبوط مزاحمت درکار ہے۔
جو کچھ میڈیا اور سوشل میڈیا پر چل رہا ہے اور اس میں جس انداز سے نفرت کے کھیل کو بنیاد بنایا گیا ہے، اور جو ایک دوسرے کے خلاف ہر سطح پر سیاسی، مذہبی اور سماجی منافرت یا کفر کے فتوے، اور ایک دوسرے کے ذاتی عقائد پر حملے یا شکوک و شبہات پیدا کرکے زندگیوں کو مشکل بنانے کا عمل ہے اُس کے خلاف ایک مؤثر اورمثبت جنگ لڑنی ہوگی۔ اس کام میں علمائے کرام، مذہبی جماعتیں، مذہبی قیادت اور مذہب سے لگائو رکھنے والے اہلِ دانش کا بڑا کردار بنتا ہے کہ وہ انتہا پسندی پر مبنی ان رجحانات میں اضافے کے خلاف خود کو بھی منظم کریں اور دوسروں کو منظم کرکے ایک ایسی سوچ اور فکر کو آگے بڑھائیں جو معاشرے میں انتہا پسندی اور پُرتشدد رجحانات کو کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرسکے، یہی ان کی بڑی قومی خدمت ہوگی۔
جب ہمیں پُرتشدد رجحانات پر مبنی سیاسی، سماجی اور مذہبی رویّے یا واقعات دیکھنے اورسننے کو ملتے ہیں تو یقینی طور پر یہ واقعات معاشرے کی ساکھ پر بھی سوالات اٹھاتے ہیں۔ یہی واقعات دنیا میں ہمارے لیے بدنامی کا بھی سبب بنتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ اس لیے مسئلہ کسی ایک فریق پر الزام دینے سے حل نہیں ہوگا۔ ہمیں ماننا ہوگا کہ انتہا پسندی، پُرتشدد رجحانات یا تشدد کا کلچر ایسی بیماریاں ہیں جن کی وجہ سے معاشرے کی تصویر خطرناک ہوگئی ہے، اوراس کا علاج تلاش کرنا ہوگا۔ اس جنگ میں نئی نسل کو ہراول دستہ بنایا جاسکتا ہے، لیکن ہمیں پہلے نئی نسل کے مسائل کو سمجھ کر حل کرنے کی طرف پیش رفت کرنا ہوگی، کیونکہ ان کی شمولیت ہی ملک میں پُرامن ترقی، معاشرے اور لوگوں میں ذمہ داری کا احساس پیدا کرنے کی امید پیدا کرسکتی ہے۔ مگر اس کے لیے طاقت ور فریقین کو ریاستی، حکومتی اور ادارہ جاتی سطح پر اپنے ماضی اور حال کے رویوں یا طرزعمل کو خیرباد کہہ کر نئی سوچ اورفکرکی قیادت کرنا ہوگی، جو پُرامن معاشرے کی ہر سطح پر عکاسی کرسکے۔