جمہوری معاشروں کے تعلیمی اداروں کی طلبہ یونینز صحت مند غیر نصابی سرگرمیوں کے ذریعے ذہنی نشوونما اور طلبہ میں موجود اُن صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں، جو قدرت نے انہیں ودیعت کی ہوتی ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی اداروں میں اس کی ابتدا اسکول سے ہی ہوجاتی ہے۔ طلبہ یونینز ایک طرح سے مستقبل کی لیڈرشپ تیار کرنے کی عملی تربیت کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔ دنیا بھر میں طلبہ یونینز بھی اسی طرح قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنے کی پابند ہوتی ہیں، جس طرح معاشرے کے دوسرے تمام طبقات قواعد و ضوابط کے مطابق کام کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ دنیا کے تعلیمی اداروں کی طلبہ یونینز نے ہر شعبے میں بہتر صلاحیتوں کے حامل ایسے لوگ متعارف کرائے ہیں جنہوں نے عملی زندگی میں اپنے اپنے شعبے کی قیادت کی ہے۔ خود برصغیر کی تاریخ اس کی شاہد ہے کہ غیر منقسم ہندوستان میں اور تقسیم کے بعد پاکستان اور بھارت میں طلبہ یونینز اور طلبہ تنظیموں کے پلیٹ فارمز پر متحرک اور فعال رہنے والے طلبہ نے تعلیم و تحقیق کے میدان میں بھی اپنی قابلیت کا لوہا دنیا سے منوایا، اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں بھی اپنے اپنے شعبے کی قیادت کی ہے۔ تعلیم و تحقیق کا میدان ہو، سیاست، سول سروس ہو، یا عسکری ادارے… ان میں قابلِ ذکر تعداد اُن افراد کی آپ کو ملے گی جو زمانۂ طالب علمی میں طلبہ یونینز اور طلبہ تنظیموں میں متحرک اور فعال تھے۔ طلبہ یونینز اور طلبہ تنظیموں میں متحرک اور فعال رہنے والے آج بھی مختلف جماعتوں کے ٹکٹ پر منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں نمایاں اور ممتاز ہیں۔ یہ درست ہے کہ ماضی میں طلبہ یونینز اور طلبہ تنظیموں میں بھی کچھ بگاڑ پیدا ہوا، جس کی کسی طور پر تائید کی جاسکتی تھی اور نہ ہی آئندہ کسی کو اس طرح کی غیرقانونی اور غیر اخلاقی مداخلت کی اجازت ہونی چاہیے، جس میں دبائو کے ذریعے وائس چانسلر اور انتظامیہ کو اُن کاموں پر مجبور کیا جائے جو طلبہ یونینز کے دائرۂ کار میں آتے ہی نہیں ہیں، اور نہ ہی مہذب معاشروں کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز اور طلبہ تنظیموںکی انتظامی امور میں مداخلت کی کوئی روایت ہے۔ تاہم طلبہ یونینز پر اسے پابندی کا جواز نہیں بنایا جاسکتا۔
دوسرے شعبوں کی پیشہ ورانہ تنظیموں پر پابندی اس لیے نہیں لگائی جاسکتی کہ ان سے تعلق رکھنے والوں نے کوئی غیر قانونی کام کیا ہے یا قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے۔ قانون کی رٹ قائم کرنا حکومت ِ وقت اور تعلیمی اداروں کے سربراہوں کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ’’موپ کریسی‘‘ کی رٹ کا خاتمہ حکومتِ وقت اور ریاستی مشنری کی ذمہ داری ہے خواہ اس کا ارتکاب طلبہ کریں یا جیسے آج کل ’’موپ کریسی‘‘ کی لعنت کا شکار وکلا ہورہے ہیں۔ قبل ازیں اسی طرح کے مظاہرے ہم نے ینگ ڈاکٹرز کی تنظیم سے تعلق رکھنے والوں کے بھی دیکھے ہیں۔ آج سے 36 سال قبل 1984ء میں مارشل لا کے ضابطے کے تحت طلبہ یونینز پر جنرل ضیا الحق مرحوم کی حکومت نے پابندی لگا دی تھی۔ طلبہ یونینز میں در آنے والی جن خرابیوں کو جواز بناکر طلبہ یونینز پر پابندی لگائی گئی تھی اُن میں تو کوئی کمی نہیں آئی بلکہ اضافہ ہی ہوا ہے۔ آج بھی جس تعلیمی ادارے میں جس کا بس چلتا ہے وہ من مانی کرنے سے باز نہیں آتا۔ جنرل پرویزمشرف کے دورِ اقتدار میں صرف جامعہ کراچی میں ایک طلبہ تنظیم نے، جو صوبہ سندھ اور مرکز میں شریکِ اقتدار تھی، وائس چانسلر اور انتظامیہ کو دبائو میں لا کر 700 سے زائد افراد کی بھرتی کرائی اور انتظامیہ کو دھونس میں لا کر جعلی ڈگریوں کی تصدیق پر مجبور کیا۔ اس کا حل طلبہ یونینز پر پابندی نہیں، بلکہ ہر سطح پر حدود سے تجاوز کرنے والوں کے خلاف بلاامتیاز قانون کے مطابق کارروائی ہے۔ اگر قانون کی عمل داری قائم ہوگی تو یہ سلسلہ خودبخود ختم ہو جائے گا۔ طلبہ کا کام نہ تو وائس چانسلر کو دبائو میں لا کر مرضی کے فیصلے کرنے پر مجبو رکرنا ہوتا ہے، نہ متوازی حکومت کا روپ دھار کرانتظامی امور اپنے ہاتھ میں لینا اور نہ ہی دیگر انتظامی فیصلہ کرانا۔ مگر یہ ہمت تو طلبہ کو تب ہی ہوئی جب حکمرانوں نے ذاتی پسند و ناپسند کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیمی اداروں کے سربراہ مقرر کرنے شروع کیے، اور تعلیمی اداروں کے لیے مناسب فنڈز اور بنیادی سہولیات کی فراہمی سے لاتعلقی اختیار کی، تب طلبہ کو باتھ روم تک کی صفائی ستھرائی جیسی بنیادی ضروریات کی فراہمی تک کے لیے احتجاج کرنے کی ضرورت پڑی۔ ورنہ ایک زمانہ تھا کہ کسی طلبہ یونین کے بڑے سے بڑے عہدے دار یا ذمے دار کوکسی غیر متعلق مسئلے پر وائس چانسلر تو کیا، انتظامیہ کے معمولی اہلکار سے بھی بات کرنے کی جرأت تک نہ ہوتی تھی۔
جب تعلیمی اداروں کے سربراہ میرٹ پر مقرر ہوتے تھے تو وہ خود ہی ہمہ وقت اس فکر میں سرگرداں رہتے تھے کہ کس طرح اپنے ادارے میں تعلیم و تحقیق کا اعلیٰ سے اعلیٰ معیار قائم کریں اور طلبہ کے لیے کس طرح بہتر سے بہتر سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ مگر جب معاملہ اس کے برعکس ہونا شروع ہوا اور حکمرانوں نے کالے قوانین کے ذریعے تعلیمی اداروں کی آزادی سلب کرنی شروع کی تو طلبہ کو احتجاج کے لیے سڑکوں پر بھی آنا پڑا اور تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے احتجاج بھی کرنا پڑا۔ مگر اس سب کے باوجود طلبہ کے کسی غیر شائستہ طرزِ عمل کی تائید کا کل کوئی جواز تھا، نہ آج ہے اور نہ ہی آئندہ ہوگا۔
جہاں تک معاملہ طلبہ یونینز یا طلبہ تنظیموں سے وابستہ طلبہ کے کسی دینی یا سیاسی رہنما کی فکر سے متاثر ہونے کا ہے ، تو یہ نہ تو معیوب ہے اور نہ ہی خلافِ قانون۔ البتہ یہ بات طلبہ کے اپنے مفاد میں ہے کہ وہ کسی سیاسی جماعت یا کسی مسلکی تنظیم کے ونگ یا ذیلی تنظیم کے طور پر کام نہ کریں البتہ فکری رہنمائی ضرور لیں۔ خود ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادت کو اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا۔ اس لیے وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ طلبہ یونینز بحال کرنے کے لیے ایک جامع ضابطہ اخلاق وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلے سے رہنمائی لی جاسکتی ہے۔ واضح رہے کہ طلبہ یونینز پر پابندی کو اسلامی جمعیت طلبہ نے عدالت میں چیلنج کیا تھا، جس پر 1992ء میں سپریم کورٹ کے اُس وقت کے چیف جسٹس،جناب جسٹس محمد افضل ظلہ مرحوم نے اپنے عبوری حکم میں تو پابندی کو برقرار رکھا تھا مگر حتمی فیصلے میں بعض شرائط عائد کرکے طلبہ یونینز کی سرگرمیوں کی اجازت دی گئی تھی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں جو شرائط عائد کی گئی ہیں، اُنہی شرائط کوضابطہ اخلاق کے قانون میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم سردار فاروق حیدر نے اعلان کردیا ہے کہ جلد آزاد کشمیر کے کالجوں اور جامعات میں طلبہ یونینز کے انتخابات ہوں گے۔ اب سندھ کے وزیر اطلاعات سعید غنی نے بتایا ہے کہ سندھ کابینہ نے طلبہ یونینز کی بحالی کے قانون کے ڈرافٹ کی منظوری دے دی ہے، اس قانون کے ڈرافٹ کے مطابق طلبہ یونینز کی بحالی کا اطلاق سندھ اسمبلی سے منظوری کے بعد سندھ میں تمام سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں پر ہوگا۔ وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر برائے قانون مرتضیٰ وہاب نے بتایا ہے کہ اس ڈرافٹ پر تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے گی اور اس کی روشنی میں سندھ اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون مسودے کو حتمی شکل دے کر منظوری کے لیے اسمبلی میں پیش کرے گی، اور یہ کام کسی تاخیر کے بغیر ہوگا۔
وفاقی وزیر مملکت علی محمد خان نے طلبہ یونینز کی بحالی پر بحث کا آغاز قومی اسمبلی میں کردیا ہے۔ اب طلبہ یونینز کی بحالی کسی تاخیر کے بغیر ضروری ہوگئی ہے۔ اس لیے وفاق اور چاروں صوبائی حکومتیں طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے جلد سے جلد قانون سازی کرکے تمام سرکاری اور نجی شعبوں میں قائم تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز کی بحالی کو یقینی بنائیں۔ طلبہ یونینز کی بحالی کو صرف سرکاری تعلیمی اداروں تک محدود کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ غلط بھی ہوگا اور اس کی مزاحمت بھی ہوگی۔ دنیا بھر کے نجی شعبے میں قائم تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز موجود ہیں۔ پاکستان میں 2020ء کو طلبہ یونینز کی بحالی اور طلبہ یونین کے انتخابات کا سال ہونا چاہیے۔ اگر ایسا ہوگیا تو اس کا کریڈیٹ موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو جائے گا۔