سرکاری جامعات کی فیس 40-30روپے فی سمسٹر سے 50ہزار روپے فی سمسٹر تک پہنچ گئی
ترقی پسند اور لبرل نظریات کی حامل طلبہ تنظیموں کی جانب سے ملک بھر میں طلبہ یکجہتی مارچ کے دوران طلبہ یونینز کی بحالی کا مطالبہ جس تیزی سے آگے بڑھا تھا تقریباً اسی رفتار سے معدوم ہوتا جارہا ہے۔ اگرچہ ابتدا میں یہ لگتا تھا کہ اس جائز اور دیرینہ مطالبے کو سیاسی، سماجی، دینی اور دانشور حلقوں میں مؤثر پذیرائی ملے گی۔ مگر ایسا نہ ہوسکا۔ میڈیا میں 29 نومبر کے پروگرام کی جو کوریج اور پذیرائی ہوئی اس میں طلبہ یونینز کی بحالی کا مطالبہ محض ایک شوشہ تھا، اور اس کوریج میں دراصل پاکستان میں ترقی پسند اور لبرل نظریات کی بحالی اور قبولیت کا معاملہ زیادہ نمایاں رہا۔ شاید طلبہ یکجہتی مارچ کے منتظمین کے مقاصد بھی یہی ہوں۔ چنانچہ اس شو کے پشتیبانوں نے طلبہ یونینز کی بحالی پر ایک روایتی مطالبے سے زیادہ زور نہیں دیا۔ البتہ اس شو کے بعض رہنمائوں کی گرفتاری اور 300 کے قریب افراد کے خلاف مقدمے کے اندراج کے باعث لگتا یہ تھا کہ یہ معاملہ اب شدت اختیار کرجائے گا۔ لیکن بدقسمتی سے ترقی پسند اور لبرل میڈیا نے یہاں بھی طلبہ یونینز کی بحالی کے معاملے کو ثانوی حیثیت دی۔ وہ اصل زور اس بات پر لگاتا رہا کہ لبرلز اور ترقی پسند نظریات عوام میں قبولیت پارہے ہیں۔ حالانکہ جو کمیونزم ماسکو اور بیجنگ میں دم توڑ چکا اُسے پاکستان میں کیسے زندہ کیا جا سکتا ہے! محض اس کی یاد ہی منائی جا سکتی ہے۔ دوسری قابلِِ ذکر بات یہ تھی کہ ایک دعوے کے مطابق ملک کے جن پانچ شہروں میں طلبہ یکجہتی مارچ کیا گیا اُس سب میں کسی جگہ پر بھی کوئی ایسا لیڈر نظر نہیں آیا جو طلبہ یونینز کی حقیقی نمائندگی کرسکے۔ یعنی ماضی کی اسٹوڈنٹس یونینز کے منتخب عہدیدار کہیں نظر نہیں آئے۔ یا تو انہیں بلایا ہی نہیں گیا تھا، یا انہوںنے خود اس شو میں شرکت ضروری نہیں سمجھی۔ حالانکہ ماضی میں ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں اِن نظریات کے حامل طلبہ معقول تعداد میں اسٹوڈنٹ یونینز میں منتخب ہوتے رہے ہیں۔ دوسری جانب خیال کیا جارہا تھا کہ اس ملک گیر مطالبے کے بعد شاید طلبہ تنظیمیں متحرک ہوجائیں اور مطالبے کو منوانے کے لیے اپنی اپنی سطح پر اور اجتماعی طور پر کوئی لائحہ عمل مرتب کریں۔ مگر ایسا بھی نہ ہوسکا۔ وزیراعظم کی جانب سے آنے والے اس بیان پر کہ طلبہ یونینز قومی سیاسی زندگی کی اہم ضرورت ہیں اور یہ جمہوریت میں سیاسی نرسری کا کردار ادا کرتی ہیں، لیکن ہمارے ہاں ان پر تشدد اور لاقانونیت کا رنگ چڑھ گیا ہے۔ بدقسمتی سے وزیراعظم کے اس بیان پر سیاسی جماعتوں اور طلبہ تنظیموں نے زبانی ردعمل کے سوا کچھ نہ کیا۔ البتہ حیرت انگیز طور پر بعض قلم کاروں اور کالم نگاروں نے یہ واویلا شروع کردیا کہ اسٹوڈنٹس یونینز کی بحالی سے خون خرابہ ہوگا، تعلیمی ماحول خراب ہوگا، اداروں پر قبضوں کا رجحان بڑھے گا اور سیاسی مداخلت بڑھ جائے گی، ساتھ ہی تعلیمی ادارے اسلحہ کے ذخیرے اور ٹریننگ کیمپ بن جائیں گے۔ یہ وہی گھسے پٹے اور پرانے دلائل ہیں جو طلبہ یونینز پر پابندی لگانے کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ اُس وقت تو ان دلائل سے متعلق کچھ شواہد بھی موجود تھے، مگر یہ شواہد ختم ہوچکے۔ پابندی لگانے والی اسٹیبلشمنٹ کے بھی وقتی مقاصد پورے ہوگئے۔ البتہ بار بار کے تجربات سے یہ بات واضح ہوکر سامنے آئی کہ طلبہ یونینز پر پابندی کے بعد تعلیمی اداروں میں خونریزی بڑھی، ناجائز اسلحہ اور منشیات کے استعمال کے رجحان میں اضافہ ہوا، طلبہ کی تعمیری سرگرمیاں ختم ہوکر رہ گئیں، اور اسٹیبلشمنٹ نے تعلیمی میدان میں جو بدمعاشی کرنا تھی، وہ کرلی۔
ہماری نظر میں ریاست کے مقتدر ستونوں نے طلبہ یونینز کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی۔ سیاسی جماعتوں نے طلبہ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال تو کیا لیکن ان کے بنیادی حقِ رائے پر پابندی کے خلاف مؤثر آواز اٹھائی اور نہ طلبہ یونینز کی بحالی کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا۔ اسٹیبلشمنٹ نے اپنے مکروہ مقاصد کے لیے یہ پابندی لگائی اور اس میں کامیاب رہی۔ طلبہ تنظیموں کے ٹکرائو اور تصادم نے پابندی کی راہ ہموار کردی اور ایسے عناصر جو طلبہ کا ووٹ لے کر کامیاب نہیں ہوسکتے تھے انہوں نے اور ان کے سرپرستوں نے اس پابندی میں اپنی بقا کے راستے تلاش کرلیے۔ بدقسمتی سے اس قومی مسئلے کو انائوں اور مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ رہی سہی کسر کم علمی اور اسٹیبلشمنٹ کے درپردہ مقاصد سے لاعلمی نے پوری کردی۔ آج بھی بعض کالم نگار تسلسل کے ساتھ طلبہ تنظیموں پر پابندی کا رونا روتے نظر آتے ہیں، حالانکہ پابندی طلبہ تنظیموں پر نہیں طلبہ یونینز پر لگائی گئی تھی جو اب تک موجود ہے۔ بلکہ اُس وقت سے اب تک بعض لوگوں کا خیال ہے کہ طلبہ یونینز کے بجائے طلبہ تنظیموں پر پابندی لگائی جاتی تو شاید کچھ بہتر نتائج نکل آتے۔ قومی قیادت، سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ نے کبھی غور نہیں کیا کہ جن مغربی ممالک کی تقلید میں ہم پاگل ہوئے جارہے ہیں وہاں تو طلبہ یونینز پر کوئی پابندی نہیں، بلکہ طلبہ سیاست سے قومی سیاست کو تجربہ کار قیادت مل رہی ہے۔ ہمارے ہاں بھی جاوید ہاشمی، احسن اقبال، غلام عباس، قمر الزماں کائرہ، لیاقت بلوچ، حافظ سلمان بٹ، فرید پراچہ، بابر اعوان، رضا ربانی، پرویز رشید، شیخ رشید، فوزیہ وہاب اور حاجی حنیف طیب جیسے سیاست دان طلبہ سیاست ہی سے ابھر کر سامنے آئے، اور ان سب کا سیاست میں کردار اہم اور بڑی حد تک بہتر رہا۔ پابندی کے بعد تعلیمی اداروں سے قیادت آنا بند ہوگئی، اور اس خلا کو منشیات فروشوں، ذخیرہ اندوزوں، کرپٹ ریٹائرڈ پولیس افسروں، لینڈ مافیا اور مجرمانہ ذہنیت کے حامل لوگوں نے پُر کیا۔ یہی ہماری تباہی کا ذمہ دار ہے کہ جن لوگوں کو جیلوں میں جانا چاہیے تھا وہ فیصلہ سازی کے عمل میں اپنے ناجائز پیسے، یا اختیار و طاقت کی وجہ سے شریک ہوگئے۔ اسٹیبلشمنٹ نے کبھی غور نہیں کیا کہ اسٹوڈنٹس یونینز پر پابندی کی وجہ سے وہ جرائم پیشہ لوگوں کے لیے سیاست کا دروازہ کھول رہی ہے۔ رہا یہ الزام کہ اسٹوڈنٹس یونینز نے تشدد، اسلحہ، قبضہ اور قتل و غارت کو فروغ دیا، تو یہ الزام پابندی کے بعد کے حالات نے خود مسترد کردیا۔ طلبہ یونینز پر پابندی کے بعد تعلیمی اداروں میں لڑائی جھگڑوں، قتل و غارت، اسلحہ کے استعمال میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔ طلبہ کے چھوٹے چھوٹے گروپ بھتہ خوری اور قبضے کے کام میں لگ گئے۔ ان گروپوں نے ٹرانسپورٹروں اور قریبی دکان داروں سے بھتہ لینا شروع کردیا جو کسی اسٹوڈنٹس یونین نے کبھی نہیں لیا تھا۔ طلبہ تنظیمیں اعلیٰ تعلیمی معیار کے حامل، تقریری صلاحیتوں سے لیس، انتظامی معاملات کو حل کرنے کی صلاحیت رکھنے والے طلبہ کو انتخابات میں اپنا امیدوار بناتیں اور جیتنے کے بعد خدمت اور کارکردگی کے ذریعے اپنی مستقبل کی قیادت کے لیے زمین ہموار کرتی تھیں۔ یہاں فیصلے کا اختیار طلبہ کے پاس تھا۔ بدقسمتی سے ایک منصوبہ بندی کے ذریعے تعلیمی اداروں میں امیدواروں کے لیے جو معیار بنایا گیا تھا سب سے پہلے انتظامیہ نے اس سے صرفِ نظر کرنا شروع کیا، جس کے نتیجے میں دوسرے درجے کے طلبہ امیدوار بننے لگے۔ پھر تعلیمی اداروں کی انتظامیہ نے اپنے مقاصد کے لیے طلبہ نمائندوں کو استعمال کرنا شروع کیا جس سے حالات مزید بگڑ گئے۔ اساتذہ نے طلبہ کے درمیان فتح و شکست دونوں کو قبول کرنے کا جذبہ پروان چڑھانے کے بجائے انہیں ہر صورت میں کامیاب ہونے کی ترغیب دی، جس سے طاقت کے استعمال کا رجحان آگے بڑھا۔ اس کے باوجود طلبہ قیادت تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو من مانی کرنے سے روکتی رہی۔ وہ فیسوں میں اضافے کے خلاف ڈٹی رہی، انتظامیہ کو طلبہ سے مختلف ناموں پر پیسے لینے سے روکتی رہی۔ طلبہ یونینز کی موجودگی میں طلبہ مفادات کے خلاف کوئی فیصلہ کرنا ناممکن تھا۔ پھر یہ طلبہ قیادت ملکی سیاست میں ایک قوت کا کردار ادا کرتی رہی، جو حکمرانوں کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی قبول نہیں تھا۔ میری رائے میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ 1980ء کی دہائی کے بعد اسٹیبلشمنٹ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو اپنے مفادات کے لیے پروان چڑھانا چاہتی تھی۔ اگر آج طلبہ یونینز بحال ہوتیں تو ان پرائیویٹ یونیورسٹیوں کی فیسیں لاکھوں روپے نہ ہوتیں۔ یہ یونینز اس کے خلاف مزاحمت کرتیں۔ لیکن پابندی کے بعد سرکاری یونیورسیٹیوں کی فیس جو تیس چالیس روپے ماہانہ ہوتی تھی وہ 50 ہزار روپے فی سمسٹر تک پہنچ گئی، اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں یہ فیس تین، چار لاکھ فی سمسٹر تک کردی گئی۔ پہلے طلبہ سے کانووکیشن پر ایک پیسہ نہیں لیا جاتا تھا، اب کانووکیشن اور ہر تقریب کے لیے طلبہ سے 10 سے 20 ہزار روپے لیے جارہے ہیں۔ پہلے داخلے کا پراسپیکٹس اور فارم دس بیس روپے میں ملتا تھا، اب داخلہ فارم 5 سے 10 ہزار میں مل رہے ہیں کہ ان کی مزاحمت کرنے والی طلبہ یونینز موجود نہیں جو طلبہ و طالبات کی نمائندہ بھی ہوتی تھیں اور ان کو نظرانداز کرنا ناممکن تھا۔ لیکن حکمرانوں، سیاسی جماعتوں اور دانشوروں نے اسٹیبلشمنٹ کے مؤقف کو آگے بڑھایا اور پورے ملک کو تعلیمی مافیا کے حوالے کردیا۔ ساتھ ہی سرکاری اسکولوں اور کالجوں کا معیار اتنا گرا دیا کہ لوگ للچائی ہوئی نظروں سے چکاچوند پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی طرف دیکھنے لگے۔ اب وقت آگیا ہے کہ قوم کو اس ذہنی جبر اور مالی دہشت گردی سے نجات دلائی جائے۔ پہلے مرحلے پر تو پارلیمنٹ اس کے لیے آواز اٹھائے۔ رضا ربانی بطور چیئرمین سینیٹ اسٹوڈنٹس یونینز کی بحالی کے وکیل رہے ہیں، وہ پارلیمنٹ کے باقی دھڑوں کو متحرک کرکے اسے ایک پارلیمانی تحریک بنائیں۔ سیاسی جماعتیں اس اہم ایشو پر باقاعدہ مشاورت کریں اور اسے ایک حتمی شکل دیں۔ ماضی کی طلبہ قیادت اپنا فرض ادا کرنے کے لیے میدان میں اترے، جب کہ طلبہ تنظیمیں اسٹوڈنٹس یونینز کی بحالی کے لیے مشترکہ لائحہ عمل بنائیں۔ حکومت اپنا فرض پہچانے اور طلبہ یونینز کی بحالی کے اعلان کے ساتھ ایک ضابطۂ اخلاق مرتب کرے اور تمام سیاسی جماعتوں اور طلبہ تنظمیوں کو اس کا پابند بنائے، جب کہ تعلیمی ادارے امیدواروں کی جانچ پڑتال کے لیے ایک اعلیٰ معیار مقرر کریں اور صرف اس معیار پر پورا اترنے والوں کو انتخاب لڑنے کی اجازت ہو۔ جب کہ عدلیہ بھی معاملات پر گہری نظر رکھے اور کسی پیشہ ور یا معیار پر پورا نہ اترنے والے امیدوار کو انتخاب لڑنے کی اجازت نہ دے۔ اگر ہم یہ انتظامات کرسکے تو نہ صرف طلبہ کے اندرکا اشتعال ایک مثبت راہ پائے گا بلکہ ہمیں ان اداروں سے تربیت یافتہ قیادت بھی مل جائے گی۔