مسلم ممالک میں جمہوریت آمریت کی کشمکش

نام نہاد جمہوری جماعتیں حقیقی جمہوریت سے خوف زدہ کیوں ہیں؟

پاکستان اس حوالے سے عجیب و غریب ملک ہے کہ مختلف بحرانوں سے گزرتا چلا جارہا ہے اور اس کی جمہوری قدریں ٹوٹتی بنتی چلی جارہی ہیں۔ اس کی نصف سیاست فوجی اقتدار اور نصف جمہوری پارٹیوں کے درمیان تقسیم ہے۔ پاکستان کا سیاسی پہلو بڑا حیرت انگیز ہے کہ یہ ایک جمہوری اور نظریاتی بنیاد پر وجود میں آیا ہے۔ برصغیر ہند کی تقسیم عددی قوت اور نظریے کی بنیاد پر ہوئی ہے، لیکن بدقسمتی سے یہ دونوں پہلوئوں سے زخم خوردہ رہا ہے۔ نہ مکمل جمہوریت کو دوام حاصل ہوا ہے اور نہ اسلام یہاں حکمران رہا ہے۔ پاکستان کی فوج برطانوی اثرات کے زیر اثر رہی ہے۔ سیندھرسٹ نے فوجی افسروں کی تربیت کی اور یہ ایک بہترین فوج کہلائی۔ برطانوی ہند کا ایک حصہ جو بھارت کہلایا وہاں مکمل جمہوریت براجمان رہی ہے، اور دوسرا حصہ پاکستان کہلایا جو فوجی جنرلوں کی گرفت میں آتا رہا، اور ہر فوجی حکمران نے اپنی مرضی کی جمہوریت پر دستِ شفقت رکھا۔ مسلم لیگ ہر فوجی جنرل کے لیے ایک تیز رفتار گھوڑی ثابت ہوئی ہے، اور ہر آمر کے لیے جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی بنی رہی ہے۔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح سے لے کر ایوب خان کے آنے تک ایک نیم جمہوری ملک رہا اور دستور سے محروم رہا۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ تھا جو عوام کو درپیش رہا ہے۔ ایوب خان کے دور میں طلبہ تنظیمیں آزاد تھیں لیکن پھر جنرل ضیا الحق کے دور میں ایک آہنی شکنجے میں آگئیں، جنرل ضیا نے یونیورسٹیوں اور کالجوں میں طلبہ یونینز پر پابندی لگادی اور پاکستان میں طالب علم اپنے جمہوری حق سے محروم کردیے گئے، اور یونینز طالب علموں کی دنیا سے چھین لی گئیں۔ جنرل ضیا الحق نے اپنی مسلم لیگ بنالی اور جونیجو کو آگے کردیا جبکہ نوازشریف کو کچھ دور رکھا۔ پھر پنجاب میں نوازشریف کو آگے لایا گیا۔ جنرل ضیا الحق کے دورِ حکومت میں سب سے بڑا محاذ افغانستان کی شکل میں کھل گیا اور مذہبی پارٹیاں اس کشمکش میں ضیا الحق کے ساتھ کھڑی ہوگئیں، جبکہ لیفٹ کی پارٹیاں افغانستان کی روس نواز حکومتوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوگئیں۔ یہ کشمکش تاریخ کا ایک اہم باب بن گئی۔ افغانستان میں سوویت یونین نے مات کھائی، اور یوں 1917ء کا انقلاب افغانستان میں دم توڑتا ہوا نظر آیا۔ اس طرح تاریخ کا ایک باب بند ہوگیا۔
1988ء میں طیارے کے حادثے میں جنرل ضیا الحق زندگی کی بازی ہار گئے اور ایک جمہوری دور کا آغاز ہوگیا۔ بھٹو مرحوم کی بیٹی بے نظیر وزیراعظم بن گئیں جبکہ غلام اسحاق خان صدر بنے۔ 1988ء سے لے کر جنرل پرویزمشرف کا دورِ حکومت شروع ہونے تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ اقتدار میں آتی رہیں۔ ان کا 10 سالہ دور سب کے سامنے ہے۔
یہ ایک مختصر سا جائزہ ہے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ ہم ان 10 برسوں میں سیاسی اور جمہوری پارٹیوں کے دورِ حکومت میں زندگی بسر کرتے رہے ہیں۔ یہ تجزیہ طلبہ یونین کے حوالے سے کررہا ہوں۔ مسلم لیگ اورپیپلز پارٹی دونوں دعویدار تھیں کہ وہ جمہوری پارٹیاں ہیں۔ میرے نزدیک مسلم لیگ جمہوری پارٹی نہیں ہے بلکہ یہ فوجی حکمرانوں کی پروردہ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی اس کے مقابلے پر بہتر تھی، لیکن اس میں ایک خرابی یہ پیدا ہوگئی ہے کہ یہ وراثت کی طرف چلی گئی ہے، اور اب ایک خاندانی پارٹی بن گئی ہے، اور صدارت باپ سے بیٹے کی طرف سیاسی سفر کررہی ہے۔ یہی المیہ مسلم لیگ کو بھی درپیش ہے۔ اس میں بھی سیاست کی باگ ڈور باپ سے بیٹے یا بیٹی کی طرف، اور کبھی بیوی کی طرف، اور اب اس سیاسی پارٹی کا اقتدار نواسے اور پوتے کی طرف سفر کررہا ہے۔
جو خرابی خلافتِ راشدہ کے بعد اسلامی دنیا میں آئی تھی اور خلافتِ راشدہ کا نظام بادشاہت میں تبدیل ہوگیا تھا، اس کے اثرات عرب دنیا میں ہم دیکھ رہے ہیں۔ اب بادشاہت خاندانوں میں گردش کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ جہاں بادشاہت نے دم توڑا وہاں فوجی جنرلوں نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ شاہ فاروق کا تختہ اُلٹا تو جنرل نجیب نے قبضہ کیا، اس کے بعد کرنل ناصر قابض ہوگیا۔ عراق میں نوجوان شاہ فیصل کو قتل کیا گیا تو جنرل عبدالکریم قاسم نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ شام میں حکومت کا تختہ اُلٹا تو جنرل اسد نے قبضہ کرلیا۔ لیبیا میں شاہ کا تختہ اُلٹا تو کرنل قذافی نے اقتدار ہاتھ میں لے لیا۔ سوڈان میں بھی ایسا ہی کھیل کھیلا گیا۔ افغانستان میں ظاہر شاہ کا تختہ اُلٹا تو فوج نے دائود کو اقتدار دیا، پھر اس کو بھی قتل کردیا گیا۔ یہ کھیل مشرق وسطیٰ، افریقہ اور افغانستان میں کھیلا گیا۔
یہ تجزیہ اس پس منظر میں کررہا ہوں کہ ہم، جو جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں، ذرا اپنے ماضی کو بھی ایک نظر دیکھ لیں، اس طرح اندازہ ہوجائے گا کہ ہماری تاریخ کے طویل دورِ ملوکیت کے اثرات کی وجہ سے ہماری سیاست بھی اس کے گرد ہی گھوم رہی ہے۔ اب سیاست وراثت کے آہنی شکنجے میں کس دی گئی ہے۔ پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو، پھر نصرت بھٹو، اس کے بعد بے نظیر بھٹو، پھر آصف علی زرداری اور اب بلاول زرداری… نیشنل عوامی پارٹی ولی خان، بیگم ولی خان، اب اسفند یار… پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی عبدالصمد خان اچکزئی، اب محمود خان اچکزئی… جمعیت علمائے اسلام مولانا مفتی محمود (مرحوم)، پھر مولانا فضل الرحمٰن، اور اب اُن کا بیٹا جانشینی کے لیے موجود ہے۔ یوں محمود خان اچکزئی کے بعد ان کا بیٹا وارث ہوگا، اور اب اسفند یار کا بیٹا جانشینی کے لیے تیار ہورہا ہے۔ غوث بخش بزنجو کے بعد اُن کا بیٹا حاصل بزنجو نظر آرہا ہے۔ ایم کیو ایم ایک نیم جمہوری پارٹی تھی، الطاف حسین کا بیٹا نہیں ہے ورنہ وہ جانشین بن جاتا۔ اس پس منظر میں جماعت اسلامی ایک نظریاتی پارٹی ہے جو وراثت کے گمبھیر اثرات سے محفوظ ہے۔ یہ ایک مستقل جمہوری پارٹی ہے، بلکہ میرے نزدیک دائیں بازو کی پرولتاریہ پارٹی ہے جو نظریات کے سائے میں سفر کررہی ہے۔ فٹ پاتھ پر زندگی بسر کرنے والا ایک فرد آج اس کا سربراہ ہے۔
اس پس منظر سے یہ آگہی مطلوب ہے کہ 10 سال مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے تھے، اس کے بعد 5 سال آصف علی زرداری اور مسلم لیگ نواز شریف کے تھے۔ یوں 20 سال ان دو پارٹیوں کا اقتدار تھا۔ تو میرا سوال یہ ہے کہ ان نام نہاد جمہوری پارٹیوں نے طلبہ یونینز کیوں بحال نہیں کیں؟ یہ تمام پارٹیاں موروثی ہیں اس لیے انہیں اندازہ ہے کہ پنجاب یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی، ملتان یونیورسٹی، اسلام آباد یونیورسٹی، پشاور یونیورسٹی میں انتخابات ہوں گے تو نوجوان لیڈر شپ اُبھر آئے گی، اور یہ پارٹیاں اس طلبہ جمہوریت سے خوف زدہ ہیں کہ ان کی وراثت پر ضرب پڑتی ہے۔ اس لیے انہوں نے اپنے اپنے دورِ حکومت میں طلبہ یونینز بحال نہیں کیں۔ یہ سوال ان پارٹیوں کو ہمیشہ طلبہ کی عدالت میں مجرم ٹھیرائے گا اور ان کا سرِ پُر غرور سرنگوں رہے گا۔ طلبہ یونینز کو بحال ہونا چاہیے تاکہ نیا خون اور نوجوان قیادت سیاست میں داخل ہوسکے۔