بلوچستان کی شاہراہیں یا موت کی گزرگاہیں

صوبے میں ایرانی تیل کی اسمگلنگ جان الیوا کاروبار بن گئی ہے

بلوچستان کے اندر ایرانی تیل کی اسمگلنگ جان لیوا کاروبار بن گئی ہے، جس نے 13دسمبر کو مزید 15 افراد کی جان لے لی۔ تفصیل اس مردم کُش سانحے کی یہ ہے کہ کوئٹہ سے 130کلومیٹر دور شمال میں ضلع قلعہ سیف اللہ کے علاقے کان مہترزئی کے قریب تقریباً تین بجے شب مسافر بس کوئٹہ کی جانب سے آنے والی پک اپ جس میں ایرانی ڈیزل و پیٹرول لے جایا جارہا تھا، سے ٹکرا گئی اور معاً آگ بھڑک اٹھی، جس کے شعلوں نے بس کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا، جس میں سوائے ایک مسافر کے باقی تمام پندرہ افراد بشمول ڈرائیور اور کلینر جھلس کر جاں بحق ہوگئے۔ مذکورہ ایک مسافر نے کسی طرح کود کر جان بچائی۔ اس حادثے میں مرنے والوں کی لاشیں ناقابل شناخت ہوگئیں، جن کی شناخت کے لیے ڈی این اے نمونے حاصل کیے گئے۔ بچ جانے والے مسافر گل محمد اچکزئی نے جو پاک افغان سرحدی شہر چمن کا رہائشی ہے، ایک لاش کی شناخت اپنے بھتیجے ولی محمد کے نام سے کرلی۔ مقامی انتظامیہ نے بتایا کہ پک اپ سے البتہ کوئی لاش نہیں ملی، اس طرح معلوم نہیں ہوسکا کہ آیا ان کی موت ہوئی یا زندہ بچ کر فرار ہوچکے ہیں۔
جیسا کہ کہا گیا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ بلوچستان کی شاہراہوں پر ایرانی ڈیزل و پیٹرول اسمگل کرنے والی گاڑیوں کی وجہ سے اب تک متعدد حادثات میں کئی لوگ جان سے گئے ہیں۔ رواں سال جنوری میں بس اور ٹرک کی ٹکر سے27 افراد جاں بحق ہوئے۔ مارچ2014ء میں ضلع لسبیلہ میں مسافر بس اور تیل سے بھرے ٹینکر میں تصادم سے40 سے زائد افراد کی موت ہوئی۔17اکتوبر 2019ء کو قلات میں ایرانی تیل سے بھری گاڑی سے ٹکرانے کے بعدکمشنر مکران ڈویژن کیپٹن ریٹائرڈ محمد طارق زہری کی گاڑی میں آگ بھڑک اٹھی، جس سے وہ اور تین دوسرے افراد جاں بحق ہوگئے اور لاشیں پہچاننے کے قابل نہیں رہی تھیں۔ کئی گھنٹے بعد معلوم ہوا کہ مرنے والے کمشنر طارق زہری اور ان کے ہمراہ افراد ہیں۔ اس حادثے کے بعد بلوچستان حکومت نے کھلے عام جاری ایرانی تیل کی اسمگلنگ کے خلاف کارروائی شروع کردی۔ کچھ دن پابندی کا شور رہا لیکن ایرانی تیل کی اسمگلنگ کا سلسلہ پھر چل پڑا۔ المیہ یہ بھی رہا کہ چھوٹی گاڑیوں کے بجائے سرمایہ دار افراد کو خفیہ طور پر آئل ٹینکر کے ذریعے ایرانی تیل کی اسمگلنگ کی اجازت دی گئی جس پر چھوٹی گاڑیوں کے ذریعے اسمگلنگ کرنے والے ہزاروں افراد نے احتجاج کیا۔ قلعہ سیف اللہ کے سانحے کے بعد وزیراعلیٰ جام کمال خان نے ایک مرتبہ پھر نوٹس لے لیا کہ پابندی کے باوجود ان گاڑیوں کو تحویل میں کیوں نہیں لیا جاتا؟ اور استفسار کیا کہ پابندی کے باوجود طویل فاصلہ طے کرکے تیل بردار گاڑی مسلم باغ تک کیسے پہنچی، راستے میں قانون نافذ کرنے والے کئی اداروں نے گاڑی روکی کیوں نہیں؟ وزیراعلیٰ جام کمال کو پتا ہونا چاہیے کہ یہ گاڑیاں ایرانی سرحد سے بلوچستان کے طول و عرض میں انہی شاہراہوں پر چل کر جاتی ہیں اور لیویز، پولیس، ایف سی اور کسٹم اہلکاروں سے لے کر اعلیٰ افسران تک رقم دی جاتی ہے۔ جن ادار وں سے سوال کیا گیا ہے وہی تو اپنی جیب بھرنے کے لیے انہیں جانے اور گزرنے کی اجازت دیتے ہیں اور اسمگلروں کی حکومتی ایوانوں تک پہنچ ہے۔ وگرنہ اگر یہ ادارے چاہیں تو شاید ایک لیٹر ایرانی پیٹرول کی اسمگلنگ بھی نہ ہوسکے۔
یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ محض ایرانی پیٹرول کی اسمگلنگ کی وجہ سے اموات نہیں ہورہی ہیں، بلکہ اس صوبے کی شاہراہیں موت کی گزر گاہیں بن چکی ہیں۔ سڑکیں یک رویہ یعنی سنگل ہیں۔ ڈرائیور فٹ نہیں ہوتے، ان میں نشہ کرنے والوں کی کمی نہیں۔ گاڑیوں کی فٹنس کا پوچھنے والا بھی کوئی نہیں۔ ڈرائیوروں سے دو دو شفٹ کام لیا جاتا ہے، جن کی نیند پوری نہیں ہوتی، خواہ یہ مسافر گاڑیوں کے ڈرائیور ہوں یا مال بردار گاڑیوں کے۔ سڑکوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی معلوم نہیں کہاں سوئی ہوئی ہے۔ شاہراہوں پر حدِ رفتار پر عمل درآمد کرانے والا کوئی ادارہ نہیں ہے۔ موٹروے پولیس میں تعیناتیاں تو ہوتی ہیں مگر ان کا کام دکھائی نہیں دیتا۔ خلافِ قانون لائٹس اتارنا تک ان کے بس میں نہیں رہا ہے۔ اب تو دہشت گردی، قتل اور دوسرے جرائم سے بڑھ کر شاہراہوں پر حادثات میں اموات ہوتی ہیں۔ ایرانی ڈیزل و پیٹرول لے جانے والی گاڑیاں چلتا پھرتا بم ہیں۔ حکومت بیچاری کی رٹ تو کوئٹہ شہر کے اندر دکھائی نہیں دیتی جہاں دنیا جہاں کے غیر قانونی رکشے اور گاڑیاں سڑکوں پر دوڑتی نظر آتی ہیں۔ گاڑیوں اور رکشوں میں ممنوع (ایچ آئی ڈی، ایس ایم ڈی) لائٹس لگی ہوئی ہیں، مگر ٹریفک پولیس کا جیسے بس و اختیار ہی نہ رہا ہو جو قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں کا تدارک کریں۔ ڈرائیونگ کے لیے لائسنس کا تصور ہی ختم ہوگیا ہے۔ گویا ہر سطح پر انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ایمان داری دکھائیں تو شاید کسی کو قانون توڑنے کی ہمت نہ ہو۔ دراصل قانون شکنی ہوتی ہی اوپر سے ہے۔ عارضی نوٹس لینا اور ہدایات جاری کرنا محض عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی سیاست و حربے ہیں۔