ایس ایس پی شکار پور ڈاکٹر رضوان احمد کی حق گوئی ان کا جرم بن گئی
صوبہ سندھ اس وقت ہر طرح اور ہر لحاظ سے حد درجہ شدید بدانتظامی اور بدامنی میں مبتلا ہے اور اس حوالے سے صورت حال بد سے بدترین ہو چکی ہے۔ ہر گزرنے والا دن حالات کی ابتری میں مزید اضافہ کرتا ہوا بیت جاتا ہے۔ ایسے میں محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً اہل سندھ کو ’’اندھیر نگری چوپٹ راج‘‘ کا سا منظرنامہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایک عام آدمی کا سرکاری دفاتر، اسپتالوں، تھانوں اور عدالتوں میں کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ محنت مشقت اور قرض لے کر فصلیں کاشت کرنے والے ہاریوں اور کسانوں کی فصلیں ٹڈی دل کے حملوں اور بے وقت کی بارشوں سے تباہ ہو رہی ہیں اور ان کی اشک شوئی کرنے والا بھی کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ عدالتی احکامات اور پابندی کے باوجود سندھ کے ہر ضلع میں آئے روز قبائلی جھگڑوں،قتل اور دیگر حوالوں سے قبائلی سرداروں کی سرپرستی میں سرعام جرگوں کا انعقاد کر کے فریقین پر بھاری رقومات پر مبنی جرمانے عائد کر کے قانون کا مذاق اڑایا جارہا ہے لیکن اس غیر قانونی عمل کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہیں کی جاتی۔ پاگل کتوں کے کاٹنے سے ہر روز کئی مریض جن میں معصوم بچے بھی شامل ہیں، سرکاری اسپتالوں میں ویکسین دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے جان دے دیتے ہیں مگر اخبارات اور سوشل میڈیا پر تڑپتے بچوں اور روتے بلکتے والدین کی بہ کثرت اطلاعات سامنے آنے کے بعد بھی اصلاح احوال کی کوئی بھی تدبیر تاحال حکومت سندھ کے متعلقہ ذمہ داروں کی جانب سے نہیں کی گئی جو ان کی سنگ دلی، نااہلی اور بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں بھی اضافہ اس قدر زیادہ ہو چکا ہے کہ اب اس طرح کے واقعات ایک لحاظ سے معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔ معصوم بچوں اور بچیوں سے زیادتی اور ان کے بہیمانہ انداز سے قتل کرنے کے افسوسناک سانحات بھی بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ اب تو صورت حال اس قدر بدتر ہو چکی ہے کہ خواتین کو بھی اغوا برائے تاوان کی غرض سے اٹھالینے کی وارداتیں شروع ہو گئی ہیں۔ کراچی سے دعا منگی دختر ڈاکٹر نثار منگی اور اندرون سندھ سے بسمہ نامی لڑکی کی بازیابی ڈاکوئوں کو تاوان کی بھاری رقم کی ادائیگی کے بعد ہی ممکن ہو سکی ہے۔ مطلب یہ ہوا ہے کہ اب سندھ میں لڑکیاں اور خواتین نہ تو تعلیمی اداروں میں محفوظ ہیں اور نہ ہی اپنے گھروں یا روڈ راستوں پر۔ اس نوع کے واقعات اگر حکومت سندھ اور پولیس کی نااہلی، ناکامی او ربے حسی کا منہ بولتا مظہر ہیں تو آخر اسے دوسرا کون سا نام دیا جائے؟ حکومتِ سندھ کی رٹ یا عمل داری کہیں بھی کسی شعبے میں دکھائی نہیں دے رہی۔ اس کی جانب سے امسال گنے کی کرشنگ سیزن کی تاریخ 30 نومبر رکھی گئی تھی لیکن عرصہ تقریبا ڈیڑھ ماہ گزرنے کے باوصف شوگر مل مالکان نے گنا پیلنے کے لیے تاحال سندھ حکومت کے حکم نامہ پر عمل کا آغاز نہیں کیا ہے۔ بے چارے آباد گار حسب سابق ایک بار پھر اپنے گنے کی تیار فصل کو تباہ ہوتے دیکھ کر احتجاج کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں لیکن کون سنتا ہے فغان درویش؟ بالآخر ہو گا وہی کچھ جو شوگر مل مالکان چاہیں گے۔ جن کی معتدبہ تعداد سندھ کے کچے کے علاقوں گھوٹکی، کشمور، کندھ کوٹ وغیرہ میں ڈاکوئوں نے بذریعہ خواتین کی آواز میں کال کر کے سندھ، بلوچستان اور پنجاب سے عام افراد کو اپنی جانب مائل کر کے اور اپنے ہاں بلا کر انہیں مغوی بنانے کے بعد اہل خانہ سے تاوان وصول کرنے کی کارروائیاں زور و شور سے شروع کر رکھی ہیں لیکن ایسے گھنائونے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف بھی تاحال کوئیٹھوس کارروائی نہیں کی گئی بلکہ متعلقہ تھانوں کے پولیس افسران اغواکنندگان اور مغویوں کے اہل خانہ کے مابین ’’دلال یا بروکر‘‘ کا مکروہ کردار ادا کرنے میں لگ جاتے ہیں اور اس حوالے سے باقاعدہ نام تک بذریعہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا سامنے آچکے ہیں کہ فلاں فلاں ایس ایچ او، ڈی ایس پی اور پولیس اہلکار بھی اس گندے دھندے میں سرتاپا ملوث ہیں لیکن سیاسی اثرورسوخ کا برا ہو کہ کوئی بھی ان کے خلاف کسی نوع کی محکمانہ یا انضباطی کارروائی وغیرہ کا تصور تک بھی نہیں کر سکتا۔ ایسے میں امن و امان کی بحالی کا خواب بھلا کس طرح سے تعبیر پا سکتا ہے؟ یہ ایک ایسا سوالیہ نشان ہے جس کا اطمینان بخش جواب کسی کے پاس بھی موجود نہیں ہے۔ ان کے ہاں بھی نہیں جو اس کا جواب دینے کے اصل اور ہر لحاظ سے مکلف ہیں۔ غرض یہ کہ کس کس بات کا ذکر کیا جائے اور کسے چھوڑ دیا جائے۔ ایک حساس لکھنے والے کو اس بات کی سمجھ نہیں آتی۔ اس پر مستزاد اس نوع کے المیے بھی بڑھتے چلے جارہے ہیں کہ نوجوان بے روزگاری اور والدین مع اپنے بچوں کے غربت کی بنا پر خودکشی کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں اور اب اکثر ایسے دل فگار اور روح فرسا واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ایسے میں گزشتہ چند روز سے سندھی پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر جس معاملہ نے سر اٹھا رکھا ہے وہ ہے ایس ایس پی شکار پور ڈاکٹر رضوان احمد کی حکومت سندھ کی جانب سے محض اس ’’گناہ‘‘ کی پاداش میں صوبہ بدر کی سزا کہ انہوں نے 24نومبر کو میڈیا کے سامنے یہ کیوں کہا کہ ’’کراچی جیسے شہر میں تو کوئی بھی نوگوایریا نہیں لیکن شکار پور کے کچے کا علاقہ نوگوایریا بنا ہوا ہے۔ منتخب نمائندوں ایم این ایز، ایم پی ایز اور مقامی سرداروں کی وجہ سے ان علاقوں میں جرائم پیشہ عناصر کی حکومت ہے جس کی وجہ سے پولیس اہلکار مجرموں پر ہاتھ ڈالنے سے ڈرتے ہیں۔ جرائم پیشہ افراد کے اصل سرپرست ہمارے عوامی نمائندے ہیں جن کی وجہ سے جرائم ختم نہیںہوتے۔‘‘ ان کا یہ سچ کہنا گویا حکومت سندھ پر قیامت ڈھا گیا اور چیف سیکریٹری سید ممتاز علی شاہ نے انہیں ایک نوٹیفکیشن جاری کر کے اسلام اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں رپورٹ کرنے کے لیے کہا ہے۔ ایک جبری صوبہ بدری کے خلاف شکار پور سمیت سندھ بھر میں عوام کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ خصوصاً شکار پور میں تو عوام نے زبردست احتجاجی مظاہرہ بھی کر ڈالا ہے جس کا تاحال کوئی اثر حکومت سندھ پر نہیں ہو سکا ہے۔ ایسا ہی ایک دس روزہ ناکام احتجاج 1995ء میں اس وقت کے ایس ایس پی شکار اللہ ڈنو خواجہ المعروف اے ڈی خواجہ کے تبادلے کے خلاف بھی اہل شکارپور نے کیا تھا لیکن اس کا بھی کوئی مثبت نتیجہ اس وقت برآمد نہیں ہوا تھا۔ جس کا مطلب صاف صاف اور واضح تو یہی نکلتا ہے کہ سندھ میں دو اڑھائی عشرے قبل بھی مقامی سرداراور وڈیرے ہی طاقتور اور بااثر تھے اور اب بھی بعینہ صورت حال برقرار رہے۔ قبل ازیں ایس ایس پی شکار پور ڈاکٹر غلام اظفر مہیسر کو بھی اسی طرح سے حکومت سندھ مقامی ایم این ایز، ایم پی ایز اور سرداروں کے ایما پر یہاں سے ہٹا چکی ہے اس لیے اہل شکار پور اور حکومت سندھ سے سخت برہم اور ناراض ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ سندھ میں بدامنی کو بڑھاوا دینے میں حکومت سندھ کے ذمہ داروں اور مقامی منتخب عوامی نمائندے اور سردار بھی پورے طور سے ملوث ہیں۔ ایس ایس پی شکار پور ڈاکٹر رضوان احمد کی حق گوئی ان کا جرم بھی اسی لیے بنی ہے کہ انہوں نے جو دیکھا ور جانا اسے بے کم و کاس بیان بھی کر ڈالا۔ اگر وہ بھی اس حوالے سے اپنے کان لپیٹے اور منہ بند رکھتے تو یوں صوبہ بدر ہرگز نہ ہوتے۔ دیگر پولیس افسران کے لیے یہ اشارہ کافی ہونا چاہیے۔