قبائل اورقومی وطن پارٹی کے زیر اہتمام فاٹا انضمام کثیر الجماعتی کانفرنس

متفقہ قرار داد کی منظوری

قومی وطن پارٹی کے زیراہتمام فاٹا انضمام کے حوالے سے ایک کثیرالجماعتی کانفرنس ’وطن کور‘ پشاور میں منعقد ہوئی جس میں پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام(ف)، پاکستان مسلم لیگ(ن)، عوامی نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی، مزدور کسان پارٹی، خیبر پختون خوا اولسی تحریک، سماجی و معاشی تحریکوں اور عوامی نمائندگان کے علاوہ سول سوسائٹی کے ارکان اور قبائلی مشران نے ضم شدہ اضلاع میں سیاسی، معاشی اور انتظامی اصلاحات کے عدم نفاذ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان اضلاع کے لیے اعلان شدہ تمام حکومتی فیصلوں پر بلاتاخیر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قومی وطن پارٹی کے صوبائی چیئرمین سکندر حیات خان شیرپاؤ نے کہا کہ ان کی پارٹی کو منرل ایکٹ پر تحفظات ہیں کیونکہ یہ عجلت میں پاس کیا گیا، اور اپوزیشن کو اس پر بحث کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا، جس سے حکومت کی بدنیتی ظاہر ہوتی ہے۔
اس موقع پر ایک متفقہ قرارداد بھی منظور کی گئی جس میں کہا گیا کہ یہ ملٹی پارٹی کانفرنس قبائلی علاقوں کے انضمام کے بعد 18 ماہ گزرنے کے باوجود کسی بھی شعبۂ زندگی بشمول سیاسی، سماجی، ترقیاتی، معاشی، انتظامی اور عدالتی نظام کے قیام کے لیے کوئی بھی مؤثر اقدامات نہ اٹھانے کو انتہائی تشویش کی نظر سے دیکھتی ہے اور اس کی پُرزور مذمت بھی کرتی ہے۔کانفرنس میں بتایا گیا کہ حکومت کی طرف سے اعلان شدہ 111 ارب روپے سالانہ کی مختص شدہ رقم تو درکنار، ماضی میں مختص کردہ سالانہ21 ارب روپے کا 56 فیصد بھی ابھی تک متذکرہ بالا علاقہ جات کو نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے تمام انتظامی، ترقیاتی، سماجی بہبود، عدالتی نظام وغیرہ کو ابھی تک بہتری کی طرف نہیں لے جایا جا سکا ہے۔ مزید برآں روپے کی مسلسل گرتی ہوئی قیمت اور مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافے کی وجہ سے یہ کانفرنس متفقہ طور پر مطالبہ کرتی ہے کہ مختص شدہ 111 ارب روپے نہایت ہی قلیل رقم ہے، لہٰذا فوری طورپر اس کو بڑھا کر 200 ارب روپے کرکے یہ رقم ان علاقہ جات کی بہتری کے لیے فوری طور پر ریلیز کی جائے۔ نیز ان علاقوں کے قدرتی اورمعدنی وسائل کو صوبے کا حق تسلیم کرکے اس حوالے سے قبائل کے حقوق کو مدنظر رکھ کر مقامی قوموں کی مرضی کے مطابق فیصلے کیے جائیں۔
یہ کانفرنس زور دے کر یہ اعلان کرتی ہے کہ ایکشن ان ایڈ جیسے قوانین ہمارے آئین میں دیے ہوئے بنیادی حقوق کی سراسر خلاف ورزی ہے، لہٰذا ایسے قوانین کی یہ کانفرنس پُرزور مذمت کرتی ہے، مزید برآں اس قانون کی بابت ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف صوبائی حکومت کا اعلیٰ ترین عدالت میں جانے کا فیصلہ آئین اور قانون کے تناظر میں قابلِ غور ہے، لہٰذا صوبائی حکومت اپنی اپیل /پٹیشن کو فوری طور پر واپس لے، کیونکہ فاٹا کے انضمام کے بعد اس قسم کے قوانین کی مزید ضرورت کسی صورت میں نہیں رہی۔ گم شدہ افراد کو فوری طور پر بازیاب کرکے عدالتوں میں پیش کیا جائے، قبائلی اضلاع سے صوبائی ارکان کو صوبائی کابینہ میں نمائندگی دینے کے علاوہ قانون سازی میں اُن کے کردار کو اہمیت دی جائے، ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص شدہ فنڈز منتخب نمائندوں کے ذریعے شفاف طریقے سے خرچ کرنے کو ترجیح دی جائے، امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے سول انتظامیہ کے معاملات کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، لہٰذا لیویز اور خاصہ داران کی صلاحیتوں اور قربانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان اداروں کو پولیس میں مدغم کرکے انہیں ریگولرائز کیا جائے، اور فوری طور پر تھانوں، چوکیوں وغیرہ پر تعینات کرکے امن و امان کی صورت حال کو بہتر کیا جائے۔ قبائلی علاقوں میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔
قرارداد میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ عوام کا حقِ حاکمیت تسلیم کرتے ہوئے خیبر پختون خوا اسمبلی، صوبائی وزیراعلیٰ اور کابینہ کا اختیار کھلے طور پر تسلیم اور گورنر کا عمل دخل ممنوع اور غیر آئینی قرار دیا جائے، اور اس کے تمام اقدامات اور قائم کردہ کمیٹیاں کالعدم قرار دی جائیں۔ آئینی، انتظامی، عدالتی خاصہ دار اور لیویز کے بارے میں اعلانات پر فوری اور مؤثر عمل درآمد کیا جائے۔ قبائلی علاقوں میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ہاتھوں، اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن سے ہونے والے نقصانات کا شفاف طریقے سے ازالہ کیا جائے۔ فوری طور پر قبائلی اضلاع میں مردم شماری کا ازسرنو بندوبست کیا جائے، اور جب تک مردم شماری مکمل نہ ہو این ایف سی ایوارڈکے مطابق صوبہ خیبر پختون خوا کا بشمول قبائلی علاقہ جات، حصہ فوری طور پر ادا کیا جائے۔ علاوہ ازیں حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قبائلی علاقوں کے لیے اعلان شدہ بیرونی امداد اور مراعات کی تفصیل فراہم کی جائے اور غیر جانب دار آڈٹ کرایا جائے۔ قبائلی علاقوں میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کی وجہ سے بے گھر آئی ڈی پیز کی بحالی اور گھر واپسی کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کیے جائیں اور واپس جانے والے خاندانوں کو معاوضہ فی الفور ادا کیا جائے، فوری طور پر قبائیلی علاقوں میں 7 یونیورسٹیاں اور 7 ضلعی ہیڈ کوارٹر اسپتال، میڈیکل، انجینئرنگ، لا کالجز، ٹیکنیکل ایجوکیشن و نرسنگ اور ٹیچر ٹریننگ ادارے قائم کیے جائیں، قبائلی اضلاع میں فوری طور پر بندوبستِ اراضی کا نظام قائم کیا جائے، خواتین کی ملکیت کے تعین کے لیے ایک کمیشن اور ان کے لیے خصوصی بلا سود زرعی قرضے فراہم کیے جائیں، مالیا تی ادارے مثلاً بینک، انشورنس اور سرمایہ کار کمپنیاں قائم کرنے میں مدد کی جائے تاکہ قبائلی شہریوں کو بھی ملک کے دیگر علاقوں کی طرح تجارتی، زرعی اور صنعتی قرضے فراہم ہوسکیں۔ مزید برآں پبلک اینڈ پرائیویٹ پارٹنر شپ ایکٹ کے ذریعے ضم شدہ قبائلی علاقوں کے کاروباری افراد کے ذریعے خاص طور پر معاشی اداروں کو فروغ دیا جائے۔
کانفرنس کے شرکاء نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ سی پیک اور اس قسم کے دوسرے معاشی و معاشرتی بین الاقوامی منصوبوں میں ضم شدہ قبائلی علاقہ جات کو نظرانداز کرنا آئین و قانون و بین الاقوامی قانون کی سراسر خلاف ورزی ہے، لہٰذا ان منصوبوں کا اطلاق ضم شدہ قبائلی علاقہ جات پر فوری طور پر کیا جائے تاکہ یہ پسماندہ علاقے اس ملک، اور خاص کر اس صوبے کے دوسرے علاقہ جات کی طرح ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکیں۔ آب پاشی کا نظام بہتر بنانے کے لیے خصوصی فنڈ شمسی توانائی کے استعمال کو بڑھانے کے لیے مختص کیا جائے، صوبے کی اے ڈی پی سے کم از کم30 فیصد رقم قبائلی اضلاع کے لیے مختص اور شفاف طریقے سے خرچ کی جائے، نیز عوامی نمائندگان کو ضم شدہ علاقہ جات میں امن و امان کی بحالی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا پورا پورا موقع دیا جائے۔ یہاں کم از کم سات فری انڈسٹریل زون قائم کیے جائیں اور 20 سال کے لیے ٹیکس رعایت، سستی بجلی، گیس اور بلا سود اور دیگر سہولیاتی قرضے فراہم کیے جائیں۔
حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ سرحد کے دونوں طرف کم از کم گیارہ کلومیٹر میں رہنے والے باشندوں کے لیے اییزمنٹ رائٹ پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے اور تجارتی اقدامات میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ رسل و رسائل کے ذرائع بشمول ریل، روڈ، تھری جی، فور جی اور انٹرنیٹ کی سہولت فوری طور پر فراہم کی جائے، قبائلی بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے لیے ایک خصوصی بے روزگار فنڈ کا قیام عمل میں لایا جائے جو آسان اقساط پر کاروبار اور اعلیٰ تعلیم کے لیے قرض فراہم کرے، نیز صوبے کی ملازمتوں میں کم از کم 30 فیصد ملازمتیں قبائلی نوجوانوں کو فراہم کرنے کا بندوبست کیا جائے۔ شرکاء نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ فاٹا سیکرٹریٹ اور دوسرے قبائلی ملازمین کو صوبے کے ملازمین تصور کیا جائے اور ان کی سینیارٹی بحال رکھی جائے، وفاق میں خیبر پختون خوا کے حصے کا ازسرِنو تعین کیا جائے اور جب تک یہ نہ ہو، ضم شدہ فاٹا کی قومی اسمبلی کی سیٹیوں کی تعداد برقرار رکھی جائے، نیز سینیٹ کے سامنے موجود 26 ویں آئینی ترمیم کو جلد سے منظور کیا جائے۔ قبائلی علاقوں میں ماحولیات و سیاحت اور کھیلوں کی سرگرمیوں کو ریاستی و حکومتی اور خاص کر صوبائی حکومت اور پرائیویٹ اداروں کی سرپرستی کی اشد ضرورت ہے، لہٰذا یہ کانفرنس پُرزور مطالبہ کرتی ہے کہ صوبائی حکومت کھیلوں کے میدان اور پارک بنانے کو ترجیح دے۔
کانفرنس کے شرکاء کے مطابق فاٹا کے انضمام کے وقت مرکزی حکومت نے ان قبائلی اضلاع کی بہتری کے لیے جو اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا تھا، نہ ہی مرکزی حکومت اس کے تحت بنائی ہوئی کمیٹی کی میٹنگ کررہی ہے، اور نہ ہی ان اعلانات کو لاگو کرنے کے لیے کسی قسم کا کوئی قدم اٹھا رہی ہے، یہ کانفرنس حکومت کے اس غیر سنجیدہ اقدام کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور حکومت کے اس اقدام کی پُرزور مذمت بھی کرتی ہے، لہٰذا مطالبہ کیا جاتا ہے کہ متذکرہ بالا حکومتی کمیٹی اپنے جاری کردہ اعلان کے مطابق عملی اقدامات کرے اور اپنی کمٹمنٹ کے مطابق سات دن بعد اپنی میٹنگ کو شروع کرے، اور قوم کو اس حوالے سے میڈیا کے ذریعے آگاہ بھی کرے۔
حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ ضم شدہ علاقہ جات میں بلدیاتی انتخابات کا فوری انعقاد یقینی بنایا جائے، ضم شدہ قبائلی علاقہ جات میں جنگلات و جنگلی حیات کی حفاظت کو بہتر بنایا جائے، ضم شدہ قبائلی علاقوں میں لینڈ مائنز کو جلد سے جلد صاف اور ختم کیا جائے، جیلوں میں قید سماجی و سیاسی کارکنوں، لیڈروں، خاص طور پر سائبر کرائم کے ملزمان کو فوری طور پر رہا کیا جائے، اور اس ملٹی پارٹی کانفرنس کو مندرجہ بالا مسائل حل ہونے تک ایک فورم بنایا جائے، اور سب شریک فریقین باری باری ان مسائل کے بارے میں کانفرنس، سیمینار اور جلسوں کا اہتمام کریں۔
قومی وطن پارٹی کی زیر بحث ملٹی پارٹی کانفرنس کے نتیجے میں لاکھوں مجبور ومقہور قبائل کے حق میں فوری طور پر کچھ برآمد ہوتا ہے، یا پھر یہ سرگرمی اور اس کا بھاری بھرکم مشترکہ اعلامیہ بھی اسی نوع کی دیگر سرگرمیوں، حتیٰ کہ حکومتی اعلانات اور وعدوں کی طرح صدا بہ صحرا ثابت ہوتا ہے، اس بحث سے قطع نظر اس کانفرنس کے ذریعے قومی وطن پارٹی کو جو 2018ء کے انتخابی نتائج کے بعد شدید دبائو اور تنہائی کا شکار تھی، کم از کم اگر ایک طرف اپنی سیاسی تنہائی کے خاتمے میں مدد ملی ہے تو دوسری جانب صوبے کی عمومی سیاست میں پہلے سے رائج ایک مثبت سیاسی کلچر کو جس کا اظہار صوبے کی قابل ذکر سیاسی جماعتوں کے درمیان باہمی رابطوں اور ایک دوسرے کے ساتھ ڈائیلاگ کی صورت میں مختلف مواقع پر دیکھنے کو ملتا رہتا ہے، مزید پنپنے اور مستحکم ہونے کا موقع بھی ملا ہے جو یقیناً ہمارے بہتر سیاسی رویوں کا عکاس ہے۔ اسی طرح برسراقتدار پاکستان تحریک انصاف کے سوا اس کانفرنس میں چونکہ صوبے کی تمام قابلِ ذکر سیاسی ومذہبی جماعتوں کی نمائندگی موجود تھی، لہٰذا اس وسیع پلیٹ فارم سے ان تمام جماعتوں کو ایک بار پھر قبائل کا مقدمہ زیربحث لانے اور اس حوالے سے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے وفاقی اور صوبائی حکومت کو نہ صرف انضمام کے وقت کیے جانے والے اُن کے وعدے اور اعلانات یاد دلانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ اس کانفرنس کے ذریعے متعلقہ اداروں کو بھی نہ صرف انضمام کے حوالے سے ان کی ذمہ داریاں یاد دلائی گئی ہیں بلکہ توقع ہے کہ اس یاد دہانی کے ذریعے قبائل کے دیرینہ مسائل میں یقیناً کچھ نہ کچھ کمی ضرور واقع ہوگی۔اسی طرح جہاں تک اس ملٹی پارٹی کانفرنس میں زیربحث لائے جانے والے مسائل کا تعلق ہے ان کی حساسیت میں نہ تو دو آراء ہیں اور نہ ہی کوئی بھی ذی شعور اور محب وطن فرد ان تلخ حقائق کو جھٹلانے کی جرأت کر سکتا ہے، لہٰذا امید ہے کہ متعلقہ ادارے قبائل کے زخموں سے چور چور بدن پر حکومتی اعلانات کے مطابق مرہم رکھ کر قریباً ایک کروڑ قبائل کی داد رسی فرمائیں گے۔ لہٰذااس تناظر میں اس کانفرنس کوقبائل کے مسائل اور حقوق کے تناظر میں ایک مثبت اور تعمیری سیاسی سرگرمی قرارنہ دینا یقیناً زیادتی ہوگی۔قومی وطن پارٹی اس کامیاب کانفرنس کے انعقاد پر بلاشبہ مبارک باد کی مستحق ہے۔