مائیکل ہیملٹن مورگن۔ترجمہ و تلخیص:ناصر فاروق
(چوتھا اور آخری حصہ)
منگول فتوحات اور تہذیبی انجذاب و ترویج کے طویل ڈرامے کا ایک روشن فکرکردار محمد ابن الحسن الطوسی تھا۔ سن 1201ء میں وہ فارسی خراسان کے شہر طوس میں پیدا ہوا۔ یہ قدیم شہرکئی عظیم ہستیوں کا حوالہ ہے۔ نظام الملک، سلجوق وزیر اور عمر خیام کا سرپرست، طوس میں ہی پیدا ہوا۔ غالباً عظیم ترین اور محبوب ترین فارسی شاعر فردوسی نے گیارہویں صدی میں طوس کو اپنا مستقر بنایا۔ عباسی خلیفہ ہارون الرشید کا مقبرہ بھی اسی شہرمیں ہے۔ الطوسی کا تعلق شیعہ مسلک سے تھا، اُس کے والد اور چچا معروف شیعہ معلم اورفقیہ تھے۔ طوس میں اُس نے بنیادی دینی تعلیم، الجبرا، جیومیٹری، اور طبیعات کے علوم حاصل کیے۔ طوسی کی زندگی کے ابتدائی تیرہ سال وہ زمانہ تھا، جب چنگیز خان چین کے مشرقی علاقوں کو ہزاروں میل تک ہڑپ کرتا چلا جارہا تھا۔ تاہم وہ 1214ء میں مغرب کی جانب مُڑا، وسطی ایشیا میں کھلبلی مچ گئی، پناہ گزینوں کا سیلاب سا آگیا، جن کے ساتھ دہشت ناک کہانیاں پورے خطے میں سفر کررہی تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب طوسی کوآبائی شہر سے پچاس میل دور مغرب کی جانب نیشاپور بھجوا دیا گیا، تاکہ وہ تعلیم جاری رکھ سکے۔ سن 1220ء میں منگول طوس پہنچے، اسے اور بیشتر خراسان کو ویران کرڈالا، تاہم نیشاپور وقتی طور پر بچ گیا۔ یہ وہ موقع تھا جب چنگیز خان نے مشرق میں پھرسے مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا، اور مغرب بیٹوں اور رشتے داروں پر چھوڑ دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم ریاستوں میں منگول حملوں میں وہ تسلسل نہ رہا۔ یوں کئی مسلم علاقے محفوظ رہے۔ اس دوران الطوسی نے نیشاپورکے ریاضی دانوں اور علماء میں منفرد مقام حاصل کیا۔ اُس کی شہرت دور تک گئی۔ عمرخیام کی طرح، الطوسی کوبھی سرپرست کی اشد ضرورت تھی جو اسے کام کے لیے محفوظ اور مستحکم حالات مہیا کرسکے۔
مگر مسلم دنیا میں ایسا کوئی ایک بھی فرد موجود نہ تھا جو اُسے سرپرستی کی پیشکش کرتا، اور ان حالات میں تحفظ کی ضمانت دیتا۔ مغربِ بعید میں اندلس خود پُرآشوب دور سے گزر رہا تھا، جبکہ منگول پہلے ہی عراق میں دندنا رہے تھے۔ مصر میں قدرے سکون تھا، مگر یہ بھی تاتاریوں کی پہنچ سے دور نہ تھا۔ طوسی نے گھر پر ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس اہم فیصلے سے اسمٰعیلی گورنر ناصر الدین عبدالرحیم کی سرپرستی میسر آگئی۔ عبدالرحیم نے اس نوجوان مفکر کو پہاڑوں پر قلعہ الموت کے دربار میں بلوا لیا۔ یہ پہاڑی علاقہ قدیم فارس اور ایشیائی ریگ زاروں کے درمیان خطِ تنسیخ تھا۔ عبدالرحیم نہ صرف الموت پر حکومت کررہا تھا، بلکہ البرز کے پورے پہاڑی سلسلے میں اسمٰعیلیوں نے کئی قلعے بنائے ہوئے تھے۔ یہ منگول لشکروں سے قدرے محفوظ تھے۔ کیونکہ تاتاری میدانوں کے شیر تھے، پہاڑ اُن کے لیے آسان نہ تھے۔ اس طرح ان پہاڑوں پر ایک غیر معمولی اتحاد وجود میں آچکا تھا، جو صرف تاتاریوں کے مشترکہ خوف کا نتیجہ تھا۔ غرض یہاں طوسی کو وہ ذرائع اور تحفظ میسر آیا جس نے فلسفہ، ریاضی، دواسازی، اور علم فلکیات پر بھرپور توجہ کا موقع فراہم کیا۔ ان موضوعات پر اُس کے سو سے زائد کام ہیں۔ وہ تقریباً پچیس سال الموت میں مقیم رہا، اپنے بہترین کتب خانے میں اہم ترین تحقیقی اور فلسفیانہ کام مکمل کیے۔ اُس کی ایک کتاب نے، جس کا عنوان Memoir on
the Science ofAstronomy تھا، علم فلکیات کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ زمین کی حرکت پر اُس کی تحقیق نے بطلیموسی کائنات کی بنیادیں ہلادی تھیں، اور دنیا کاپرینکس کے ذریعے اسے اٹھا پھینکنے سے صرف ایک قدم کی دوری پر ہی رہ گئی تھی۔ الطوسی کروی مثلثات میں بھی غیر معمولی تحقیق کررہا تھا، وہ چاہتا تھا کہ علم مثلثات کو ریاضی کے ایک علیحدہ موضوع کے طور پر متعارف کروائے۔ 1232ء میں طوسی نے اخلاقیات پر ایک کتاب لکھی اور اس کا انتساب اپنے سرپرست کے نام کیا۔
اس انوکھے پہاڑی مقام سے یہ مشاہدہ بہت ہی عجیب تھا کہ باقی پورے فارس پر منگول حکمرانی کررہے تھے، سوائے اسمٰعیلی پہاڑی پناہ گاہ کے وہ ہرجگہ چھائے ہوئے تھے۔ 1228ء میں اسمٰعیلیوں نے اپنا وفد منگولوں کی جانب روانہ کیا، کہ کوئی اتحاد ہی ممکن ہوجائے۔ تقریباً تین دہائیوں تک امن کی صورت قائم رہی، مگر پھر اسمٰعیلی چنگیز خان کو کھٹکنے لگے، وہ اُسے پورے فارس پرحکمرانی کی راہ میں رکاوٹ لگنے لگے تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ 1256ء کی ایک صبح اسمٰعیلیوں پر قہر بن کر ٹوٹ پڑی، وہ جب سوکر اٹھے تو خود کو مکمل محاصرے میں پایا۔ قلعہ الموت کو گھیر لیا گیا تھا۔ اب زندگی اور موت کی کھلی جنگ سرپر آپڑی تھی۔
منگولوں سے خطرات کے پیش نظر اسمٰعیلی حکمران نے اپنے جانشین کو اناطولیہ بھجوا دیا تھا، جہاں امامت کا یہ سلسلہ کئی نسلوں تک روپوش رہا۔ صرف اس ایک فیصلے نے اسمٰعیلی سلسلے کو خاتمے سے بچالیا تھا۔ چنگیز خان کا پوتا ہلاکوخان الموت کا فاتح ہوا۔ سن 1256ء تک رقبے کے اعتبار سے تاتاریوں کی حکومت شاید تاریخ کی وسیع ترین سلطنت تھی۔ یہ زمین کے دوتہائی خطوں اورکم از کم دس کروڑ نفوس پر مشتمل تھی۔ ہلاکو خان اپنے دادا چنگیز خان کی طرح انتہائی سفاک اور نوجوانی کی توانائی سے بھرپور تھا۔ اگرچہ مسلمانوں پر فتوحات نے اُسے علم کی اہمیت اور تحقیق کی ضرورت سے آشنا کیا تھا، مگر وہ اس سے بہت دور تھا کہ اسلام قبول کرلیتا۔ اُس کے خاندان نے غازان خان کی رہنمائی میں نصف صدی بعد اسلام قبول کیا۔ جبکہ ہلاکو نسطوری عیسائیت اور بدھ مت کے درمیان ہی ڈولتا رہا تھا، جو ایک جنگی مشین کے مزاج سے میل نہ کھاتے تھے۔
تاہم ہلاکو یہ باور کرنے میں صحیح تھا کہ جب تک قلعہ الموت فتح نہیں کرلیا جاتا، فارس پرمکمل اقتدار ممکن نہ تھا۔ منگول پہلے بھی اسمٰعیلی قلعوں پر حملے کرچکے تھے، مگر وہ فیصلہ کن نہ تھے۔ مگر اُس صبح ایسا نہ ہوا، اس بار اسمٰعیلی راہ ِفرار بھی نہ پاسکے تھے۔ وہ مطمئن تھے کہ پہاڑوں کی کمیں گاہیں محفوظ تھیں۔ انھیں یقین تھا کہ پانی اور خوراک کے ذخیرے تاتاریوں کے محاصرے سے زیادہ طویل عرصے تک ساتھ دیں گے۔ اس مقام پر دو تاریخی بیانات سامنے آتے ہیں۔ ایک کے مطابق اسمٰعیلی حکمران رکن الدین خور شاہ نے ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کیا، جبکہ دوسرا بیان، جوکہ تاریخ گُم گَشتہ ہوگیا، یہ کہتا ہے کہ کسی نے غداری کی اور منگولوں کو پہاڑوں کے خفیہ راستوں کی مخبری کی، اور یوں تاتاری قلعوں تک رسائی میں کامیاب ہوئے۔ سچ جو بھی ہے، سب کا اُس پراتفاق ہے جو فتح کے بعد ہوا۔ تاتاریوں نے اسمٰعیلیوں کوتیزی سے بلا ہچکچکاہٹ ختم کردیا۔ اسمٰعیلیوں کا مکمل قتل عام کیا گیا۔ اسمٰعیلی حکمران اور درباری صفحۂ ہستی سے مٹادیے گئے۔ چند لوگ زندہ چھوڑ دیے گئے: ممکنہ جاسوس، ماہرینِ علوم، اور ہنرمند۔ الطوسی ان بچ جانے والوں میں ایک تھا۔ اُسے کیوں چھوڑا گیا؟ اس پر تاریخ خاموش ہے۔ مگر جب اُس نے ہلاکو خان سے ملنے کی خواہش کی تو سرگوشیاں بڑھ گئیں۔ جب یہ شاہی ملاقات ہوئی، کیا گفتگو ہوئی؟ تاریخ میں گُم ہے۔ بعد ازاں الطوسی نے ایک منگول خاتون سے شادی کرلی۔ وہ تاتاریوں میں شامل ہوچکا تھا۔ ہلاکو نے جو تعلیم اور تحقیق میں اپنے مقتول حکمران کی طرح دلچسپی لے رہا تھا، الطوسی کودرباری محقق مقرر کیا، اور اُسے مذہبی امور کا منتظم بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ جب ہلاکو خان مغرب میں اسلامی دنیا کے قلب بغدادکی جانب بڑھا، الطوسی اُس کے ہمراہ تھا۔ یہ ایک بہت ہی عجیب منظرنامہ ہے کہ ایک تاریخ ساز محقق اور عالم ہلاکو خان کے ہمرکاب تھا کہ جب تاتاری دارالحکمۃ کی بستی اجاڑ رہے تھے، اور کتابوں کے ذخیرے دجلہ کا پانی گدلا رہے تھے۔ یہ 1258ء کا سال تھا، تاتاریوں نے دجلہ کنارے ڈیرے ڈالے تھے۔ بغداد اپنی عظمت کی پانچویں صدی میں بقاء کی جنگ لڑرہا تھا، عباسی خلافت برائے نام رہ گئی تھی۔ اصل حکومت آل بویہ، سلجوق، اور سابق غلام مملوکوں میں منتشر ہوچکی تھی۔ نام نہاد عباسی خلیفہ المستعصم باللہ حاکمِ وقت تھا، وہ انتہائی نالائق اور نکما شخص تھا، دربار میں راگ رنگ کی محفلیں جمی رہتی تھی، شاعر اور بھانڈ مسخرے راج کیا کرتے تھے۔ ابتدا میں المستعصم نے ہلاکو کے آگے ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا، کہا کہ پوری مسلم دنیا اُس کی مدد کوپہنچنے ہی والی ہے۔ جب اُس نے دیکھا کہ تاتاری بغداد سے قریب تر ہوتے جارہے ہیں، تو ہلاکو خان کو لقب’’سلطانِ بغداد‘‘ کی پیشکش کی، مگر اب بہت دیر ہوچکی تھی۔ تاتاریوں سے جنگ مسلمانوں کونیست ونابود کرگئی۔ مستعصم کی فوج کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا گیا، پھر تین سو درباری قتل کیے گئے، اورچند روز بعد مستعصم بھی موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا۔ منگول جب شہر میں داخل ہوئے، آٹھ لاکھ بغدادی شہریوں کو تپتے ہوئے صحرا تک مارچ کروایا، اور پھر عورتوں، بچوں، مردوں کو بلا تردد بھیڑ بکریوں کی طرح کاٹ دیا گیا، اور لاشوں کے بڑے بڑے ٹیلے وجود میں آئے۔ شہر کا ڈھانچہ تباہ کردیا گیا۔ املاک جلادی گئیں۔ تعلیمی ادارے اور کتب خانے راکھ کردیے گئے۔ یہ بغداد کی مکمل بربادی اور تباہی تھی، ایسی تباہی کہ پھر یہ شہر تاریخ عالم میں اُس طرح سر نہ اٹھاسکا، یہاں تک کہ بیسویں صدی میں تیل کی دولت نے پھر کچھ صورت گری کی (اُسے بھی پھرنئے امریکی صلیبیوں نے بمباری سے راکھ کردیا)۔
حسن الطوسی اس ساری بربادی اور قتل عام پر کیا سوچ رہا تھا؟ تاریخ نہیں جانتی! جو کچھ ہم جانتے ہیں، اُس کے مطابق ہلاکو خان مسلم مزاحمت کی یہ فیصلہ کن علامت (بغداد) مٹاکربہت خوش تھا۔ اتنا خوش کہ الطوسی کے پیش کردہ ہر تحقیقی وتعلیمی منصوبے کی منظوری دینے کے لیے تیار ہوگیا۔ یوں اس فلسفی، ریاضی دان، اور عظیم ماہرِ فلکیات نے ایسا پراجیکٹ تیار کیا، جو دنیا نے کبھی سنا، یا دیکھا نہ تھا۔ اب جب کہ مسلم دنیا سے خون رس رہا تھا، مسلمانوں کا نیا سنہرا دور کہیں اور جڑیں پکڑ رہا تھا۔
الطوسی نے اب تک کی سب سے بڑی رصدگاہ کی تعمیر کا منصوبہ بنایا۔ اسے فارسی صوبہ آذربائیجان کے شہر مراغہ میں قائم کیا گیا۔ وہ شہر جسے ہلاکو خان نے اپنا دارالحکومت بنایا۔ سقوطِ بغداد کے اگلے ہی سال، سن 1259ء میں اس کی بنیادیں رکھی گئیں۔ شہر کی مغربی پہاڑی اس کا مقام تھی، جہاں ستاروں کی گزرگاہوں کے متلاشی اُفق پر نظریں رکھا کرتے تھے۔ اس رصدگاہ کو مضبوط قلعہ سے حصار میں لیا گیا تھا، جس کی دیواریں چھے فٹ چوڑی تھیں، ہزار فٹ لمبائی اور چارسوفٹ اس کی چوڑائی تھی۔ سن 1262ء میں یہ رصدگاہ مکمل ہوئی۔ آسمانی مطالعے کی یہ عظیم الشان رصدگاہ بے مثال تھی۔ اس میں بہت بڑے فلکیاتی تجرباتی آلے رکھے تھے، جیسا کہ بارہ فُٹ کا کاپر سے بنا ہوا جیومیٹری کا آلہ، اور ایک azimuth quadrant جسے طوسی نے ایجاد کیا تھا۔ یہ آلہ اجرام فلکی کے رخ واضح کرتا تھا۔ جیسے مامون نے دارالحکمۃ کے لیے ہندوستانی، فارسی، اور یونانی علوم سے اکتساب کیا تھا، بالکل اُسی طرح الطوسی نے چینی فلکیاتی دانش سے رہنمائی حاصل کی، جو خود ایک بہت بڑا تہذیبی ورثہ تھا۔
چینی دانش ہزار سال تک مغرب کی جانب قطرہ قطرہ منتقل ہوئی۔ یہ بحر ہند اور شاہراہِ ریشم کے ساتھ ساتھ ہونے والا غیر ہموار عمل تھا۔ یہ کوئی باقاعدہ، مربوط، اور جامع کوشش نہ تھی۔ مگر کیونکہ ہلاکو خان کا بھائی قبلائی خان چین کا حاکم تھا، اس لیے چینی علم فلکیات کی فارس ترسیل آسان تر ہوچکی تھی۔ اس صورت حال کا حسن الطوسی نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ چین سے فارس تک اب ایک ہی نظامِ تحقیق حرکت میں آچکا تھا۔ مسلم دنیا سے چین، اور چین سے مسلمان دنیا میں علوم کا دوطرفہ بہاؤ تیزی سے جاری تھا۔ علوم کی ایسی عظیم الشان منتقلی، جو اکثر چینیوں کے لیے آج بھی تاریخ گُم گَشتہ ہے۔ مراغہ کی اس رصدگاہ میں یونانی، عربی، فارسی علوم فلکیات کی صدیوں پر پھیلی تحقیق مجتمع ہوگئی تھی، اس علم کو مرکزیت میسر آگئی تھی، یہ منگولوں کا کارنامہ تھا۔
اس سنہرے دور نے عظیم علماء اور حکماء کا نیا سلسلہ قائم کیا۔ قطب الدین محمود بن ضیاالدین مسعود بن مصلح شیرازی جس نے سب سے پہلے قوس قزح کی درست وضاحت پیش کی۔ شامی ماہر فلکیات مؤید الدین العرضی جس نے سیاروں کے نمونے تعمیرکیے۔ مراغہ کے کتب خانے کا منتظم الفوتی جس نے چارلاکھ کتابوں کی کمال ترکیب و ترتیب ممکن بنائی… یہ سب اُس علم دوست معاشرے کا حاصل تھے، جسے منگول حکمرانوں کی سرپرستی حاصل تھی۔ یہ علماء مسلم دنیا کے مختلف علاقوں سے یہاں جمع کیے گئے تھے، تاکہ الطوسی کی عظیم الشان رصدگاہ کی شان میں اضافہ کرسکیں۔ یہ سب محمد ابن الطوسی کی سربراہی میں ستاروں سیاروں کی سیاحت پرنکل پڑے تھے۔ دمشق، بغداد، رے، قاہرہ، فیض، قرطبہ، اشبیلیہ،، طلیطلہ، اور انطاکیہ میں علم فلکیات پرتحقیق کی ساری سمتیں المراغہ میں سمٹ آئی تھیں۔ اسلامی علوم کا دریا تھا جوچین کی جانب بہہ نکلا تھا۔
1267ء میں مسلم عالم جمال الدین محمد ابنِ طاہر ابنِ محمد الزیدی البخاری نے ایسا فارسی کیلنڈر جو دس ہزار سال کے اعداد وشمار پر مشتمل تھا، سات فلکیاتی آلے، اور لکڑی سے بنا کرۂ ارض کا نمونہ قبلائی خان کے دربار میں پیش کیا۔ یہ آلات اور نمونے چین کے شاہی آلات ساز (انجینئر) کوشو چنگ میں تحقیق اور تجربات کے لیے بھرپور تحریک پیدا کررہے تھے۔ سن 1270ء میں خود قبلائی خان نے کئی مسلمان آلات سازوں کی خدمات حاصل کیں، مسلم اور چینی ماہرینِ فلکیات اور آلات سازوں پر مشتمل دو بورڈ تشکیل دیے گئے۔ اس باہم ترقی نے بیجنگ میں کئی رصدگاہوں کی تعمیرکے لیے راہ ہموار کی۔ ایسی نئی تکنیک سامنے آئیں جو پندرہویں صدی میں چین کو سمندری راستوں کی پہچان (navigation) میں کمال پرلے گئیں۔ مسلمان ایڈمرل زینگ ہی کا کردار اس حوالے سے کلیدی تھا۔
المراغہ کی رصدگاہ کی تعمیر کے بیس سال کے اندر اندر، بیجنگ کی رصدگاہ تعمیر کردی گئی۔ اس چینی رصدگاہ کا منتظم اعلیٰ فارسی ماہر فلکیات جمال الدین بخاری کو مقررکیا گیا۔ تیرہویں صدی کے بہت سے مؤرخین نے اس رصدگاہ کے چینیوں پر اثرات کا ذکرکیا ہے۔ اس عظیم بین التہذیبی تعامل کے عہد میں جمال الدین نے ایک ایسے جغرافیائی سروے کی سربراہی کی، جس میں مسلم دنیا اور چین کے وہ خطے آتے تھے جن پر قبلائی خان کی عمل داری قائم تھی۔ اس رصدگاہ سے کئی کتب خانے اور تحقیقی مراکز منسلک تھے، جہاں چینی، فارسی، اور عرب ماہرین اور طلبہ کو ہر طرح کی تحقیق اور تحصیل کی مکمل اجازت تھی۔ بغداد کے دارالحکمۃ کی بربادی کے عینی شاہد نے خود اپنا دارالعلم قائم کردیا تھا۔ اس علمی مرکز سے کئی اہم تحقیقی مقالے اور دریافتیں سامنے آئیں۔ الطوسی نے ستاروں کا ایک بہت بڑا کیٹالاگ تیار کیا۔ اُس نے سیاروں کی نقل وحرکت پر اب تک کے سب سے درست جداول تیار کیے۔ انھیں سرپرست الخان ہلاکوکے اعزاز میں ’زیج الخانی‘ کا نام دیا گیا، یہ زیج بارہ سال کی محنتِ شاقہ، مشاہدے، اور علم الحساب کا حاصل تھا۔ علم فلکیات پر اپنے مقالے میں اُس نے جامع اور جدید ترین سیارتی نظام کو واضح کیا تھا۔ طوسی کا ’فلکیاتی وشماریاتی‘ جوڑے کا کلیہ بہت معروف ہوا، یہ دو دائروں میں اجرام فلکی کی حرکات میں سیدھی حرکت کی توضیح کرتا ہے۔ الطوسی کے تھیورم 250 سال بعد کاپرینکس نے دہرائے، اور یہ بحث چھڑی رہی کہ آیا اُس (کاپرینکس) نے یہ طوسی سے حاصل کیے، یا کسی بالواسطہ ذریعہ سے سیکھے۔ الطوسی نے استارہ یاب پر کئی مقالے تحریر کیے۔ اُس نے زمین کی محور میں گردش کی پیمائش کی، ہر سال 50.3 آرک سیکنڈز یا 25 ہزار 7 سو سال میں ایک مکمل سائیکل کا شمار کیا۔ اُس نے علم الحساب کے کئی مسائل کی درجہ بندی کی، کروں اور استوانہ (Cylinders) پرکئی کلیات اور شرحیں لکھیں۔ سب سے پہلے اُس نے دائیں کونے دار کروی مثلث کو تمام چھے کیسز میں شمار کیا۔ معدنیات اور رنگ آرائی پر کئی والیوم تحریر کیے۔ اُس نے دوا سازی پر لکھا۔ اخلاقیات اور فلسفہ پر لکھا۔ یہ سب کچھ اُس وقت ہورہا تھا جب بغداد قصۂ عبرت ہوچکا تھا، جب قاہرہ تاتاریوں کے ممکنہ حملے سے دہشت زدہ تھا، جب اندلس عیسائیوں کی عمل داری میں جارہا تھا، اور فارس منگول صوبہ بن چکا تھا۔ بہت سے لکھنے والوں نے الطوسی کو مسلم علوم کو زندہ رکھنے والا قرار دیا، ایک ایسے وقت میں کہ جب کوئی مسلمانوں کی علمی میراث کا وارث نظرنہ آتا تھا، الطوسی تنہا چراغ جلا رہا تھا۔ الطوسی جب بوڑھا ہوا تو منظر سے گُم ہوگیا۔ مگر اُس نے اور اُس کے احباب نے جو علمی روایتیں قائم کیں، مستقبل کی بنیادیں بن گئیں۔ کچھ فرق نہیں پڑتا کہ اگر یورپ، چین، اور دیگر دنیا میں ان عبقریوں کے نام بھلا دیے گئے۔ کچھ فرق نہیں پڑتا کہ اگر ان میں سے کسی کا نام لاطینی میں بھی نہ ڈھالا گیا۔ باوجود اس کے کہ ان میں سے اکثر تاریخ گُم گَشتہ کی نذرہوئے، اُن کا مقام وہی ہے جس کے وہ مستحق ہیں۔ ’یہ ڈھونڈنے والے ستاروں کی گزرگاہوں کے‘ جدید ترین رصدگاہوں کے محسن ہیں، کیلی فورنیا کی Palomar Observatory اور Hubble Space Telescope آج بھی ان کی احسان مند ہیں۔ جدید شماریات کی ہر صورت ان ہی محسنوں کی بنائی ہوئی ہے۔ جدید علم فلکیات اور ٹیکنالوجی میں جو بنیادی حصہ انھوں نے ڈالا ہے، اس کی قدر وقیمت شمار نہیں کی جاسکتی۔ سائنس کے جدید مؤرخ ڈیوڈ کنگ نے لکھا کہ جدید تحقیق میں یہ سامنے آیا کہ علم فلکیات کے تجرباتی آلات میں جدتیں بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر اپنی اصل میں اسلامی ہیں۔ مسلم تجربہ گاہوں اور رصد گاہوں کے یورپ، چین، اور ہندوستان پ رفیصلہ کُن اثرات دستاویزی طور پر ثابت شدہ حقیقت ہیں۔ سن 1576ء میں ڈنمارک کی Tycho Brahes رصدگاہ میں ملنے والے آلات، استنبول میں تقی الدین کی تجربہ گاہ کے آلات سے مماثل تھے۔ بعد کی دنیا کی ہر رصدگاہ اسلامی تجربہ گاہوں کا ہی تسلسل نظر آئی۔
صدیوں تک عرب علمِ فلکیات عالمی علمِ فلکیات کا مرکز رہا۔ علم فلکیات میں مسلمان حکماء کی پیش رفت نہ صرف اسلامی تہذیب کی خوبیوں کا ایک نمایاں وصف تھا بلکہ آج کی دنیا کی پیمائش، براعظموں اور علاقوں کی جغرافیائی نقشہ گری، سمندری راستوں کی پہچان، وقت کا شمار، سال کا شمار، فنِ تعمیر کی ندرتیں، نماز کی حالتوں کا تعین، اور شہروں کی منصوبہ بندی بھی ان ہی کی دین ہے۔ اسلامی علم فلکیات نے ستاروں کی نئی گزرگاہوں تک رہنمائی کی، نئے سوالات پیدا کیے، نئی تکنیک ایجاد کیں، نئے معیار متعین کیے، اور نئے تحقیقی اسلوب وضع کیے۔
مسلمان اس جڑواں نکتہ آغاز سے، یعنی ہندسوں میں خدا کی معرفت اور ستاروں کی ساختوں میں غوروفکر سے دیگر علوم میں لہروں کی طرح دائرے میں ہر جانب پھیلتے چلے گئے ہیں۔ مسلم آلات سازی (انجینئرنگ)، کیمیا، فنِ تعمیر، اور دواسازی سب نے ہی ہندسوں اور ستاروں میں اپنی بنیادیں رکھی ہیں۔ اگر کچھ اور نہ بھی ہوتا، تو ابن الہیثم کی عملی سائنس سے محبت ہی دیگر علوم کے لیے زادِ راہ بن جاتی۔ باقی جوکچھ ہے وہ تاریخب گُم گَشتہ ہے۔