کتاب : نقد ِسفر
مصنف : وحید الرحمٰن خان
صفحات : 216 قیمت:600روپے
ناشر : دارالنوادر۔ الحمد مارکیٹ، اردو بازار، لاہور
فون0300-8898639
ڈاکٹر معین نظامی کتاب ’’نقد ِسفر‘‘ پر ’’رخت ِسفر‘‘ کے عنوان کے تحت تحریر فرماتے ہیں:
’’ڈاکٹر وحیدالرحمٰن خان قبیلۂ خوانینِ ظرافت کے دستاربند عمائدین میں سے تو ہیں ہی، عمائدین کی بھی صفِ اوّل میں کہنا چاہیے۔ میدانِ تنقید و تحقیق میں بھی ان کی متنوع فعالیت قابلِ رشک اور شائستۂ ستائش ہے۔ ادبی تنقید کی ایک خاص جہت کا یہی خوانِ آراستہ دیکھ لیجیے جس کا نام انہوں نے ’’نقد ِ سفر‘‘ رکھا ہے۔ اردو کی اہم سفری سرگزشتوں اور سفرناموں کے تنقیدی مطالعات کے لیے اتنا خوب صورت اور معنی آفریں نام ہی ان کے ذوقِ سرشار اور تخلیقی جوہر کے وفور پر دلالت کررہا ہے۔ وہ بنیادی طور پر درّاک اور مستعد تخلیق کار ہیں، اس لیے ان کی یہ دل نشین تنقیدی تحریریں بھی سراپا معیارِ تخلیقیت کو پہنچی ہوئی ہیں۔
وحید الرحمٰن خان کا زرخیز تخلیقی جوہر اس کتاب میں شامل تمام تحریروں میں بہ تمام وکمال جھلکتا ہے۔ سفرناموں کی تنقید پر مشتمل اس مجموعے کا مختصر اور بھرپور پیش لفظ ’’پہلا قدم‘‘ کا عنوان لیے ہوئے ہے، اور پھر اس کی عبارت!… اس کی اجلی، شگفتہ اور پُرلطف عبارت کے تو کیا ہی کہنے۔ یہ محض قابلِ داد نہیں، یقیناً اس سے بہت کچھ بڑھ کر ہے۔ وحید الرحمٰن خان اپنی تحقیقی، تنقیدی اور ادبی تحریروں کے نام بھی بڑی ذہانت اور محبت سے رکھتے ہیں۔ اولادِ معنوی کے نام رکھنے میں بھی واقعی اتنا ہی ذمہ دار اور تخلیقی ہونا چاہیے۔ ’’یوسف اور زلیخائی‘‘، ’’قبلہ رو مسافر‘‘ اور ’’پرستان میں آدم زاد‘‘ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔
تنقیدی مضامین بالعموم ایک خاص طرح کی ثقالت اور خشکی لیے ہوتے ہیں، لیکن زیرنظر تنقیدی کاوشیں اس باب میں ایک حیرت انگیز استثنیٰ ہیں۔ مصنف کے پُرکشش شیوۂ بیان نے ان مضامین کو سدا بہار تروتازگی اور منفرد شگفتہ بیانی سے مالامال کررکھا ہے۔ ان تحریروں میں جملوں کے جملے ایسے ہیں جو کمالِِ جاذبیت پر فائز ہیں۔ ان میں بیان کیے گئے تنقیدی نکات و اشارات بھی خاصے ثروت مند ہیں جن سے نہ صرف یہ کہ مصنف کے مطالعات کے تعمق، متوازن اسلوبِ نقد و نظر اور شعر و ادب سے ان کی والہانہ وابستگی کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ قاری خود کو زیربحث متن کا شریکِ تخلیق محسوس کرتے ہوئے اس کے محاسن و معائب سے بھی کماحقہٗ آگاہ ہوجاتا ہے۔ کتاب کا دوسرا حصہ محمد خالد اختر کی سفرنگاری کا خصوصی تجزیاتی مطالعہ ہے، اور بلاشبہ اس موضوع کا تخصّصی جائزہ ہے‘‘۔
وحید الرحمٰن خان لکھتے ہیں:
’’سفر ہے شرط… سفرنگاری کے لیے! لیکن کسی سفرنامے کے مطالعے کے لیے ایسی کوئی قدغن نہیں، چنانچہ اس آرام طلب نے رعایت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زیر نظر تصنیف میں اردو کے بعض اہم اور منتخب سفرناموں کے مطالعات پیش کیے ہیں۔
کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ حصہ اوّل میں یوسف خاں کمبل پوش، سر عبدالقادر، محمود نظامی، قرۃ العین حیدر، اختر ریاض الدین، مستنصر حسین تارڑ، رضا علی عابدی، محمد کاظم اور خواجہ اشرف کے سفرناموں کو زیربحث لایا گیا ہے، جب کہ دوسرے حصے میں اردو کے معروف مزاح نگار محمد خالد اختر کی سفرنگاری کا خصوصی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔
امید ہے قارئین کا یہ مطالعاتی سفر بخیر گزرے گا‘‘۔
مضامین کی فہرست درج ذیل ہے:۔
اردو کے منتخب سفرنامے
یوسف اور زلیخائی (یوسف خاں کمبل پوش: تاریخِ یوسفی/ عجائباتِ فرنگ)
قبلہ رُومسافر (مستنصر حسین تارڑ: منہ دل کعبے شریف)
سفرکا ستارہ (اختر ریاض الدین: دھنک پر قدم، سات سمندر پار)
نظرنامہ: ایک نظر میں (محمود نظامی: نظرنامہ)
پرستان میں آدم زاد (محمد کاظم: مغربی جرمنی میں ایک برس)
راہ گزر کا سفر (رضا علی عابدی: جرنیلی سڑک)
سفردر وطن (مستنصر حسین تارڑ: ہنزہ داستان، سفرشمال کے، چترال داستان، رتی گلی)
ایران میں مانوس اجنبی (قرۃ العین حیدر: کوہِ دماوند)
’’مقامِ خلافت‘‘ کا مقام (سر عبدالقادر: مقامِ خلافت)
سفرِ ممنوع (کے اشرف: اسرائیل میں چند روز)
محمد خالد اختر کی سفر نگاری، ڈیپلو سے نوں کوٹ تک، دو سفر، یاترا، ایک خوش گوار سفر، استنبول کے گنبد،کیا ہم ابھی قونیہ میں ہیں،آئلز آف گریس۔ آئلز آف گریس، ابن جبیر کا سفر۔
کتاب پڑھ کر معلوم ہوا کہ اردو ادب کیوں تباہ ہوا ہے۔
ہر وہ شخص جو اخلاقی حدود کو توڑتا ہے وہ ادیب نہیں ہوسکتا۔ کچھ بھی ہو یہ جعل سازی ہے۔ رسوائی شعروں کے انتخاب سے ہی نہیں ہوتی، سفرناموں کے چنائو سے بھی ہوتی ہے۔
کتاب سفید کاغذ پر طبع کی گئی ہے، مجلّد ہے۔