کتاب : افکارِ قائد اعظم
مرتب : شاہد رشید
صفحات : 408
ناشر : نظریہ ٔ پاکستان ٹرسٹ
پتا : ایوانِ کارکنان تحریکِ پاکستان،
مادرِ ملت پارک، 100 شاہراہ قائد اعظم لاہور
فون : 99201213-14
فیکس : 99202930
برقی پتا : trust@nazariapak.info
ویب گاہ : www.nazariapak.info
www.facebook.com/NazarialPakistanTrust
’’نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے قیام کا مقصد نئی نسل کو اُن مقاصد سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے جن کے پیش نظر برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے لیے ہندو اکثریت سے الگ اپنا وطن پاکستان حاصل کیا تھا۔ یہ مقصد اگرچہ کوئی غیر واضح اور دقیق نظریہ نہیں جسے سمجھنے اور سمجھانے کے لیے مشکل گتھیاں سلجھانا پڑیں، بلکہ اس کی وضاحت اور تشریح کے لیے تحریک ِپاکستان کے دوران شہر شہر اور گائوں گائوں میں گونجنے والا نعرہ ’’پاکستان کا مطلب کیا… لا الٰہ الا اللہ‘‘ ہی کافی ہے، مگر بدقسمتی سے قیامِ پاکستان کے بعد بانیِ پاکستان کے اس مملکتِ خداداد کا نظام اور آئین تشکیل دینے سے قبل ہی وفات پا جانے کے باعث یہاں موجود غیر ملکی نظریات کے علَم بردار دانشوروں کو پاکستان کے قیام کے مقاصد سے متعلق دھول اڑانے اور غلط فہمیاں پھیلانے کا موقع مل گیا، حالانکہ اگر ان عناصر کے دعووں کو درست تسلیم کرلیا جائے تو پاکستان کے قیام کا جواز ہی ختم ہوجاتا ہے، اور شاید یہی ان عناصر کی خواہش بھی ہے۔ ان عناصر کی اڑائی ہوئی دھول کو صاف کرنے اور پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے ’’نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے قیام کی ضرورت محسوس کی گئی۔ چنانچہ یہ ٹرسٹ نظریۂ پاکستان کو نئی نسل کے ذہنوں میں جاگزیں کرنے کے لیے مختلف نوعیت کے پروگراموں کا اہتمام کرتا رہتا ہے جن میں مباحثے، مذاکرے اور تعلیمی اداروں میں نظریۂ پاکستان سے متعلق اہلِ فکر و نظر کے خصوصی لیکچرز پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے، اس کے علاوہ نظریۂ پاکستان کے بارے میں اخبارات و جرائد میں مضامین، مختصر کتابچوں اور جامع کتب کی اشاعت بھی ٹرسٹ کی سرگرمیوں کا حصہ ہے۔ ٹرسٹ کے سیکریٹری شاہد رشید کی مرتب کردہ کتاب ’’افکارِ قائداعظم‘‘ بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے، جس کے مطالعے سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اوّل و آخر ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے جو اسلام کے نظریۂ حیات سے گہری وابستگی رکھتے تھے، اور قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں ان کے پیشِ نظر اس کے سوا کوئی مقصد نہیں تھا کہ اسلام کے پیروکاروں کو ایک ایسا خطۂ زمین مل جائے جہاں وہ قرآن اور سنت کے بتائے ہوئے اصولوں کی روشنی میں ہر طرح کے دبائو سے آزاد فضا میں اسلامی نظام حیات کے تابع زندگی بسر کرسکیں۔ حضرتِ قائداعظم تحریکِ پاکستان کے اوّل روز سے اپنی زندگی کے آخری سانس تک اسی مقصد کی وضاحت اور آبیاری کرتے رہے۔ ’’افکارِ قائداعظم‘‘ میں جمع بانیِ پاکستان کی تقاریر، انٹرویوز اور پیغامات وغیرہ کے اقتباسات کا ایک ایک لفظ ان کے اسلام اور نظامِ اسلام پر پختہ یقین کی شہادت دیتا ہے، مثلاً اکتوبر 1939ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وہ اپنی اس تمنا کا اظہار کرتے ہیں:
’’میں چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا ’’دل‘‘، میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے واقعی مدافعتِ اسلام کا حق ادا کردیا۔ جناح تم مسلمانوں کی تنظیم و اتحاد اور حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا اللہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے ’’غلبے‘‘ میں علَمِ اسلام کو سربلند رکھے ہوئے مسلمان مرے۔‘‘
یا پھر 25 جنوری 1948ء کو جب وہ کراچی میں بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں پاکستانی دستور سے متعلق یہ وضاحت کرتے ہیں:
’’میں اُن لوگوں کی بات نہیں سمجھ سکتا جو دیدہ دانستہ، اور شرارت سے یہ پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائے گا۔ اسلام کے اصول عام زندگی میں آج بھی اسی طرح قابلِ اطلاق ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے۔ میں ایسے لوگوں کو جو بدقسمتی سے گمراہ ہوچکے ہیں، یہ صاف صاف بتادینا چاہتا ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں کو، بلکہ یہاں غیر مسلموںکو بھی کوئی خوف، ڈر نہیں ہونا چاہیے۔ اسلام اور اس کے نظریات نے ہمیں جمہوریت کا سبق دے رکھا ہے۔ ہر شخص سے انصاف، رواداری اور مساوی برتائو اسلام کا بنیادی اصول ہے، پھرکسی کو ایسی جمہوریت، مساوات اور آزادی سے خوف کیوں لاحق ہو جو انصاف، رواداری اور مساوی برتائو کے بلند ترین معیار پر قائم کی گئی ہو! ان سے کہہ دیجیے ہم دستورِ پاکستان بنائیں گے اور دنیا کو بھی دکھائیں گے کہ یہ رہا ایک اعلیٰ ترین نمونہ!‘‘
بانیِ پاکستان کے اس دوٹوک فرمان کے بعد بھی کیا پاکستان کے نظام اور دستور کے بارے میں کچھ کہنے کی گنجائش رہ جاتی ہے؟ ان لوگوں کی ڈھٹائی کی داد دی جانی چاہیے جو اس کے باوجود پاکستان اور بانیِ پاکستان کے بارے میں بے سروپا باتیں کرنے سے باز نہیں آتے…!
کتاب کا انتساب بجا طور پر قائداعظم کے سپاہی، تحریکِ پاکستان کے رہنما محمود علی مرحوم کے نام کیا گیا ہے جو ساری زندگی افکارِ قائداعظم کی ترویج و اشاعت کے لیے سرگرم عمل رہے۔ تحریکِ پاکستان کے دوران سلہٹ کی پاکستان میں شمولیت کے لیے 8 جولائی 1947ء کو ہونے والے ریفرنڈم میں محمود علی مرحوم نے انتھک محنت کی اور تاریخ ساز کردار ادا کیا۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے اس قومی ہیرو کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کے صد سالہ یومِ ولادت پر خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا ہے۔ ’’افکارِ قائداعظم‘‘ کی اشاعت اور محمود علی مرحوم کے نام اس کے انتساب کا مقصد بھی مرحوم کی پاکستان کی خاطر شاندار خدمات کا اعتراف ہے۔ سابق صدرِ پاکستان اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین محترم محمد رفیق تارڑ صاحب کتاب کے آغاز میں اپنے ’’ابتدائی کلمات‘‘ میں مرحوم محمود علی کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’ہمارے ازلی دشمن بھارت اور دیگر پاکستان دشمن عالمی طاقتوں کی سازشوں کے نتیجے میں ہمیں 1971ء میں جن پُرآشوب حالات کا سامنا کرنا پڑا، ان میں جناب محمود علی ایک مضبوط چٹان کی مانند کھڑے رہے اور اہلِ وطن کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ آپ نے عالمی برادری کو مشرقی پاکستان کے حالات و واقعات کے متعلق پاکستانی مؤقف سے آگاہ کرنے کے لیے طویل غیر ملکی دورے کیے اور پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں کو بڑے مؤثر انداز میں بے نقاب کیا۔ سقوطِ ڈھاکا کے بعد آپ نے موجودہ پاکستان میں سکونت کو ترجیح دی اور بھارتی جارحیت کے ذریعے قیامِ بنگلہ دیش کو کبھی تسلیم نہ کیا۔ آپ آخری دم تک نسلِ نو کو برطانوی سامراج کی عیاریوں، متعصب ہندوئوں کی اسلام دشمنی اور اصول شکنی، دوست نما دشمنوں اور وطنِ عزیز کی اسلامی نظریاتی اساس کے ناقدین کے مکروہ کردار سے آگاہ کرتے رہے۔ ‘‘
’’افکارِ قائداعظم‘‘ کو مرتب نے حروفِ تہجی کے اعتبار سے ابواب میں تقسیم کیا ہے جس سے موضوع وار قائد کے ارشادات تک رسائی سہل ہوگئی ہے اور قاری ان سے باآسانی استفادہ کرسکتا ہے۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے کتاب کو معیاری طباعت، مضبوط جلد، خوبصورت سرورق کے حامل گرد پوش کے ساتھ سفید کاغذ پر شائع کیا ہے، تاہم قائداعظم کی جو چند تصاویر کتاب میں شامل کی گئی ہیں، ان کی رنگین طباعت زیادہ موزوں ہوتی۔ کتاب اس قابل ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جائے تاکہ بانیِ پاکستان کے نظریات سے متعلق اہلِ پاکستان کو بہتر طور پر آگاہی ہوسکے۔