لاپتا افراد کے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم خود لاپتا

Akhbar Nama اخبار نامہ
Akhbar Nama اخبار نامہ

پاکستان میں لاپتا افراد اور فوج سے متعلق مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کو پیر کی شب راولپنڈی میں واقع ان کی رہائش گاہ سے اغوا کرلیا گیا ہے۔ انعام الرحیم ماضی میں لاپتا اور فوج کے حراستی مراکز میں قید افراد کے مقدمات لڑنے کے علاوہ فوجی سربراہان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے خلاف عدالتوں سے رجوع کرچکے ہیں۔ انعام الرحیم کے بیٹے حسنین انعام نے بی بی سی کو بتایا کہ پیر کی شب ساڑھے بارہ بجے کے قریب اڈیالہ روڈ پر عسکری 14 میں واقع ان کے گھر کی گھنٹی بجی، اور جب انھوں نے دروازہ کھولا تو سیاہ وردیوں میں ملبوس آٹھ سے دس مسلح افراد ان کے گھر میں گھس آئے۔ حسنین انعام کے مطابق یہ افراد ان کے والد کو اسلحہ کے زور پر زبردستی اپنے ہمراہ سیاہ رنگ کی ویگو گاڑی میں ڈال کر لے گئے اور انھیں دھمکی دی کہ اگر انھوں نے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کی گمشدگی کو رپورٹ کیا تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ ان کے مطابق کرنل انعام الرحیم کے اغوا کے مقدمے کے اندراج کے لیے مورگاہ تھانے میں درخواست دے دی گئی ہے۔
کرنل انعام الرحیم نے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کی بطور چیئرمین سی پیک اتھارٹی تعیناتی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور وہ اسی معاملے پر کام کررہے تھے۔ حسنین انعام نے بتایا کہ 2012ء میں بھی ان کے والد کو نامعلوم افراد کی جانب سے راولپنڈی میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ 2011ء میں کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ انھیں پاکستانی فوج کے ایک سینئر افسر نے خفیہ اداروں کے ہاتھوں لاپتا ہونے والے افراد کے فوجی اور سول عدالتوں میں مقدمات کی پیروی کرنے سے باز نہ آنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی بھی دی تھی۔ (بی بی سی)

قائداعظم کی محبوبیت

قائداعظم کی وفات پر مشہور برطانوی فلسفی برٹرینڈرسل نے درست کہا تھا کہ ’’ہندوستان کی پوری تاریخ میں کسی کو وہ محبوبیت حاصل نہیں ہوسکی جو ایم اے جناح کو ملی ہے‘‘۔ اس محبوبیت کا سبب یہ تھا کہ قائداعظم واحد لیڈر تھے جو اپنی قوم اور اپنے پیروکاروں کو اُن کی غلطیوں اور ناپسندیدہ باتوں پر ڈانٹ سکتے تھے، سرزنش کرسکتے تھے۔ 7اگست 1947ء کو قائداعظم دہلی سے کراچی پہنچے۔ جب ان کا طیارہ رن وے پر رکا تو استقبال کرنے والے لوگوں کا ہجوم تمام رکاوٹیں پامال کرتا ہوا طیارے کی طرف بڑھنے لگا اور وہاں ایک بھگدڑ سی مچ گئی۔ قائداعظم یہ منظر دیکھ کر جہاز کے رن وے پر کھڑے ہوگئے اور اپنی چھتری لہرانے لگے۔ ان کا یہ تادیبی اشارہ (سرزنش کا انداز) نیچے ہجوم کو سمجھ میں آگیا اور چند ہی لمحوں میں لوگ واپس اپنی جگہ پر چلے گئے، تب قائداعظم جہاز سے نیچے تشریف لائے۔ قائداعظم 1941ء میں پنجاب مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے پاکستان سیشن میں شرکت کے لیے لاہور تشریف لائے، جب ان کی ٹرین ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تو ان کے خیرمقدم کے لیے آئے ہوئے ہزاروں نوجوانوں نے ڈسپلن کو خیرباد کہہ کر ان کے ڈبے کی طرف دوڑ لگا دی۔ ہر شخص کی کوشش تھی کہ وہی ان کے ڈبے کے دروازے تک سب سے پہلے پہنچے۔ قائداعظم نے یہ ہڑبونگ دیکھ کر باہرآنے سے انکار کردیا اور اپنے ڈبے کے دروازے پر آکر لوگوں کو سرزنش کے انداز میں کہا ’’جب تک تم سب لوگ ایک قطار میں نہ کھڑے ہو جائو گے، میں ٹرین سے نیچے نہیں اتروں گا‘‘۔ قائداعظم کی اس تلقین کا مجمع پر صورِ اسرافیل کی طرح اثر ہوا اور سب لوگ پلیٹ فارم پر قطار میں سمٹ کر کھڑے ہوگئے۔ تب قائداعظم ٹرین سے باہر آئے۔
نومبر 1942ء میں قائداعظم علی گڑھ تشریف لے گئے۔ ریلوے اسٹیشن پر ان کا جس شان سے استقبال ہوا ویسا کسی شہنشاہ کو بھی نصیب نہ ہوا ہوگا۔ گویا سارا شہر ہی ریلوے اسٹیشن پر امڈ آیا تھا۔ ریلوے اسٹیشن سے علی گڑھ یونیورسٹی جانے کے لیے ایک شاندار بگھی ان کی سواری کے لیے لائی گئی تھی تو طلبہ کے جوش، محبت اور عقیدت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے بگھی کے گھوڑے کھول دیے اور بگھی کو خود کھینچتے ہوئے اُس مقام تک لے گئے جہاں قائداعظم کے قیام کا بندوبست کیا گیا تھا۔
دہلی گیٹ لاہور کے باہر باغ میں اُنہوں نے ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کیا۔ ہجوم اتنا بڑا تھا کہ خطاب کے بعد ان کے لیے کار تک پہنچنا ناممکن ہوگیا۔ وہ کھڑے سگریٹ پیتے رہے، جبکہ جلسے کے منتظمین اس دوران لوگوں کو ہٹنے کی اپیلیں کررہے تھے۔ لوگوں پر ان اپیلوں کا کوئی اثر نہ ہوا تو قائداعظم نے جس ہاتھ کی انگلیوں میں سگریٹ پکڑا ہوا تھا اسے بلند کرکے کہا ’’لوگوں سے کہو کہ میں چاہتا ہوں وہ ہٹ جائیں‘‘۔ اس پر ایک شخص نے لائوڈ اسپیکر پر لوگوں سے اردو میں کہا ’’قائداعظم فرماتے ہیں کہ میں آپ کو حکم دیتا ہوں‘‘۔ جملہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ تابعدار سپاہیوں کی طرح پورا ہجوم یکلخت ایک طرف ہٹ گیا۔
1943ء میں قائداعظم نے دہلی میں ایک تاریخی اور عظیم الشان جلسے سے خطاب کیا تھا۔ قائداعظم جب جلسہ گاہ میں پہنچے تو لاکھوں کا مجمع منتظمین کے کنٹرول میں نہیں رہا تھا۔ تاہم جیسے ہی اعلان ہوا کہ قائداعظم تشریف لے آئے ہیں، مجمع خود ہی دو حصوں میں منقسم ہوگیا اور شامیانے کے داخلے سے لے کر پنڈال تک قائد کے جانے کے لیے راستہ بن گیا۔ قائد ڈائس پر گئے تو زندہ باد کے نعروں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا، قائداعظم نے ہاتھ اٹھا کر اشارہ کیا ہی تھا کہ مجمع خاموش ہوگیا۔
مقبول تو بہت لیڈر ہوجاتے ہیں، محبوبیت خال خال ہی کسی کے حصے میں آتی ہے۔ یہ ایک پُراسرار سا معاملہ ہے۔ جب تک مخلوق کے دل میں خود خالق یہ بات نہ ڈالے وہ کسی لیڈر کو اس طرح اپنی محبت و عقیدت کا مرکز و محور نہیں بناتی۔ محبوبیت کے پسِ پردہ عوامل پُراسرار اور روحانی ہوا کرتے ہیں، کوئی مانے خواہ نہ مانے! طورخم پر کھڑے افغان سنتری کو کس بات نے مجبور کیا تھا کہ دوڑ کر قائداعظم سے مصافحہ کرے جبکہ قائداعظم اسے دیکھ کر ہلکا سا مسکرائے تھے۔ جب اس کے مصافحہ کی تصویر اخباروں میں شائع ہوئی تو افغانستان کی حکومت نے اسے برطرف کردیا، کیونکہ اُسے حکم یہ دیا گیا تھا کہ جب قائداعظم بارڈر پرآئیں تو وہ اپنا منہ دوسری طرف کرکے کھڑا رہے۔ ان کی محبوبیت کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ جب تقسیم کے موقع پر خونریز فسادات اور تباہی کا سلسلہ شروع ہوا اور لاکھوں کروڑوں بے گھر، بے در اور برباد حال مسلمان گرتے پڑتے پاکستان کی سرزمین پر پہنچے تب بھی اُن کی زبان پر قائداعظم کے بارے میں کوئی شکوہ نہ تھا۔ کئی بیمار اور شدید زخمی مہاجر پاکستان کی سرحد عبور کرتے ہی مر گئے، اور مرتے وقت وہ قائداعظم زندہ باد، پاکستان زندہ باد پکار رہے تھے۔
موجودہ ہجومِ لیڈران میں ہے کوئی ایسا، جو اشارہ کرے تو شور مچاتا انبوہ ایک دم خاموش ہوجائے؟ ہے کوئی ایسا، جو انگلی اٹھائے تو ہم قانون کو ہاتھ میں لینا چھوڑ دیں اور مؤدب ہو جائیں؟
(ڈاکٹر صفدر محمود۔ جنگ، 17دسمبر2019ء)