نسل پرستی کی ایک اور مثال

پروفیسر اطہر صدیقی
تمیکاکروس ہیوسٹن کی امراضِ خواتین کی ایک اسپیشلسٹ، حال ہی میں ڈیٹروئٹ گئی تھیں۔ ڈیلٹا ایئر لائن کی فلائٹ سے ڈیٹروئٹ سے واپسی پر، تمیکا کی فلائٹ پر ایک مسافر بے ہوش ہوگیا۔ فلائٹ کے عملے نے اعلان کرکے پوچھا: ’’کیا مسافروں میں کوئی ڈاکٹر ہے؟‘‘ لیکن تمیکا نے جیسے ہی ہاتھ اٹھایا، بجائے اس کے کہ ہوائی میزبان ’’شکریہ، بہت خوب، اس طرف آیئے‘‘ کہہ کر اسے بلاتی، اس نے بے حد غصہ دلانے یا طیش دلانے والی حرکت کی۔ ہوائی میزبان نے یقین ہی نہیں کیا کہ وہ ایک ڈاکٹر تھی۔ تمیکا کا نسل پرستی کا یہ تجربہ اسی کے الفاظ میں پڑھیے:
’’مجھے یقین ہے کہ امریکہ میں میری طرح کام کرنے والی کلرڈ (ایفرو امریکن) خواتین میری مایوسی اور غصے کو سمجھ سکتی ہیں جب میں یہ کہوں میں اس نسل پرستی اور بے عزتی کا شکار ہونے سے تنگ آچکی ہوں۔ میں ڈیلٹا ایئرلائنز کی فلائٹ ڈی ایل 945 سے سفر کررہی تھی اور دو سیٹ آگے کوئی خاتون مدد کے لیے چلّا رہی تھیں کہ ان کے شوہر بے حس ہوگئے تھے۔ قدرتی طور پر میں ڈاکٹر کی حیثیت سے سیٹ بیلٹ کھول کر، کھانے کی ٹرے ایک طرف پھینک کر اپنی سیٹ سے جیسے ہی کھڑی ہوئی، تو ہوائی میزبان بولی ’’سب لوگ سکونِ خاطر رہیں، وہ صرف رات کے اندھیرے سے گھبرا گئے تھے، اب ٹھیک ہیں‘‘۔
میں اس منظر کو قریب سے دیکھتی رہی۔
کچھ وقفے کے بعد وہ مسافر پھر سے بے حس ہوگیا اور ہوائی میزبان نے پھر سے چلّا کر اعلان کیا ’’جہاز میں کسی ڈاکٹر کی تلاش ہے‘‘۔ میں نے اُس کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اپنا ہاتھ اوپر اٹھایا، اُس نے مجھ سے کہا:
’’اوہ نہیں سویٹی، اپنا ہاتھ نیچے کرو۔ ہمیں ایک باقاعدہ ڈاکٹر، نرس یا کسی میڈیکل بندے کی تلاش ہے، ہمیں تم سے بات کرنے کا وقت نہیں ہے‘‘۔
میں نے اُسے یہ بتانے کی کوشش کی کہ میں ایک کوالیفائیڈ ڈاکٹر ہوں، لیکن اس حقیقت کے اظہار کے باوجود اُس نے مستقل مجھے استہزائیہ، یا سمجھیے مربیانہ طریقے سے نظرانداز کرتے ہوئے کہاکہ اسے مجھ سے بات کرنے کا وقت نہیں ہے۔ تب سیٹ کے اوپر چھت پر لگے اسپیکر سے اعلان کیا گیا ’’اگر کوئی ڈاکٹر ہے تو وہ مہربانی کرکے اپنی سیٹ پر لگے بٹن کو دبادے‘‘۔ میں نے اُس کی طرف دیکھا اور اپنی سیٹ پر لگے بٹن کو دبایا۔
اُس نے کہا ’’اوہ، وائو، کیا تم واقعی میں ایک ڈاکٹر ہو؟‘‘ میں نے جواب میں کہا ’’ہاں‘‘۔ اُس نے کہا ’’مجھے اپنا صداقت نامہ دکھائو، تم کس طرح کی ڈاکٹر ہو؟ تم کہاں کام کرتی ہو؟ تم ڈیٹروئٹ کیوں گئی تھیں؟‘‘ (یاد رکھیے اس بیمار شخص کو مدد کی ضرورت ہے اور وہ مجھے سیٹ سے کھڑا ہونے سے اور جانے سے میرا راستہ روکے کھڑی رہتی ہے، اتنے سارے سوال پوچھتے وقت) میں نے اُسے بتایا کہ میں ہیوسٹن میں ’’OBGYN‘‘ ہوں اور ڈیٹروئٹ شادی میں شرکت کے لیے گئی تھی۔ یقین کیجیے یا مت کیجیے، ڈیٹروئٹ میں بھی ڈاکٹر ہوتے ہیں۔ اب مجھے راستہ دیجیے کہ میں اس ضرورت مند بیمار شخص کی مدد کرسکوں‘‘۔
ایک ’’تجربہ کار‘‘ سفید فام شخص بھی وہاں پہنچ جاتا ہے اور بتاتا ہے کہ وہ بھی ڈاکٹر ہے، ہوائی میزبان مجھ سے کہتی ہے ’’آپ کی مدد کا شکریہ، لیکن جو سفید فام شخص آیا ہے وہ ہماری مدد کردے گا اور وہ کوالیفائیڈ بھی ہے‘‘۔ (یہ ذہن میں رکھیے کہ اس نے ہوائی میزبان کو کچھ نہیں دکھایا، بس آگیا اور اسے ڈاکٹر سمجھ لیا گیا) میں اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی، میرا دماغ غصے سے پھٹا جارہا تھا، خون کھول رہا تھا (مریض بہتر محسوس کررہا تھا اور ڈاکٹر کے سوالات کا جواب بھی دے رہا تھا، شکر ہے خدا کا)۔
تب اس ’’بچھڑی‘‘ کی جرأت دیکھیے کہ دس منٹ بعد اُس نے مجھ سے پوچھا کہ اب کیا کرنا چاہیے؟ میں نے اُس سے کہا: ہمیں اس کے کچھ ٹیسٹ کرنے ہوں گے، خون میں شکر کی مقدار ناپنی ہوگی۔ وہ واپس میرے پاس آتی ہے اور بتاتی ہے کہ بلڈ پریشر 80/50 ہے (میرے نزدیک بہت ہی کم) اور شکر ناپنے کا کوئی میٹر بھی نہیں ہے۔ میں نے مدد کرنا جاری رکھا، باوجود اس کے کہ میں اپنے ذہن میں اُسے مخصوص صلاواتیں سنانا محفوظ رکھے ہوئے تھی۔ مریض یا اُس کی بیوی مسئلہ نہیں تھے، انہیں مدد کی ضرورت تھی اور ہم لوگ ہوائی جہاز کے سفر میں تھے۔
وہ میرے پاس آئی اور کئی مرتبہ معافی کی خواست گار ہوئی اور ہوائی سفر کے Skymiles کی پیش کش بھی کی، جس کے لیے میں نے نرمی سے انکار کردیا۔ یہ معاملہ اُس کے برتائو سے متعلق اوپر عملے کے پاس شکایت کی شکل میں جانے والی بات ہے۔ میرے ساتھ سیاہ فام (کلرڈ) ہونے کی وجہ سے جو سنگین امتیازی سلوک کیا گیا، مجھے اس کے بدلے میں Skymiles نہیں چاہئیں۔ چاہے نسل، عمر یا جنس کے اعتبار سے امتیازی سلوک برتا جائے وہ صحیح نہیں ہے۔ وہ اس بدسلوکی کی سزا سے بچ نہیں سکتی۔ اور میں بہرحال اپنے Skymiles تو پائوں گی ہی۔
(انٹرنیٹ پر موصول انگریزی سے اردو ترجمہ)