جموں و کشمیر کے بھارتی محاصرے کے مقاصد کیا ہیں؟
۔ 72 برس بعد بھارت اور پاکستان کو وقت نے ایک بار پھر آمنے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ دونوں جانب سے کشمیر کی علامتوں کو نظرانداز کرکے براہِ راست پنجہ آزمائی کا ماحول بنتا جارہا ہے۔ بھارت زیادہ قوت کے ساتھ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان پر اپنا دعویٰ ظاہر کررہا ہے، جس کا تازہ ثبوت بھارت کے مرکزی وزیر جی کشن ریڈی کا لوک سبھا میں یہ کہنا تھا کہ یونین ٹیریٹری میں آزادکشمیر، گلگت بلتستان اور قبائلی علاقے بھی شامل ہیں۔
بھارت مقبوضہ جموں وکشمیر میں محاصرہ برقرار رکھ کر کن وارداتوں میں مصروف ہے، یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ بھارت اگلے مرحلے میں جموں اور وادی کو بھی دو الگ حصوں میں تقسیم کررہا ہے۔ یہ جموں کو وادی کے غلبے سے نکالنے کے نام پر کیا جانا ہے۔ بھارت اس وقت کشمیر میں ہر وہ قدم اُٹھا رہا ہے جس سے9 مارچ 1846ء کو ڈوگرہ خاندان اور انگریزوںکے درمیان ہونے والے بیع نامہ امرتسر کے نتیجے میں تشکیل پانے والی’’جموں وکشمیر‘‘ کی روایتی اور قدیم ریاست کا تصور ختم ہوکر رہ جائے، اور اس تاریخی حیثیت کی حامل ریاست کے ٹکڑوں پر بھارت کی گرفت مضبوط ہو۔ جو لوگ ریاست کے آخری ہندو حکمران مہاراجا ہری سنگھ کی اولاد کرن سنگھ کے گھرانے سے بھارتی کوششوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے کی امید لگائے بیٹھے تھے انہیں اُس وقت ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جب ڈاکٹر کرن سنگھ نے 31 اکتوبر کو عین اُس روز جب کشمیر کی خصوصی شناخت کے خاتمے کا بل قانون بن کر نافذ العمل ہونے جارہا تھا، ایک انٹرویو میں انتہائی بے بسی کے ساتھ کہا کہ بہت سی بادشاہتیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہوگئیں، اسی طرح ریاست جموں وکشمیر بھی آخرکار انجام کو پہنچ گئی۔ پانچ اگست سے پہلے کرن سنگھ ریاست کی وحدت اور روایتی تصور کو تبدیل یا ختم کرنے کے کڑے ناقد تھے، اور بھارت کے اس قدم سے چند ہی دن پہلے انہوں نے بہت کھلے لفظوں میں ایسے کسی بھی منصوبے کو خطرناک قرار دے کر مودی حکومت کو کسی بھی اقدام سے باز رہنے کو کہا تھا۔کرن سنگھ نے بہت ٹھوس دلائل سے بتایا تھا کہ ان کے پتا جی مہاراجا ہری سنگھ نے جس ریاست کا بھارت کے ساتھ الحاق کیا تھا وہ تین ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے، اور یوں زمینی حقائق میں جوہری تبدیلی واقع ہوچکی ہے۔
ایک نیا حلقہ مہاراجا خاندان کو ریاست کا بانی اور قانونی وارث جان کر بالکل اسی طرح ڈوگرہ شاہی کی واپسی کی امید پر جینے لگا تھا جس طرح افغان جنگ کے دوران ایک طبقہ معزول بادشاہ ظاہر شاہ کے کردار کی آس لگائے بیٹھا تھا۔ پانچ اگست کے بعد مہاراجا گھرانا ہندوازم کے نام پر اپنے اس مؤقف سے دست بردار ہوگیا اور اسے وقت کے بہائو کا فطری نتیجہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوا۔ ڈاکٹر کرن سنگھ نے جموں سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار ’’ایکسلشیئر‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنی زرخرید ریاست کے سقوط کی حقیقت کو یوں تسلیم کیا:
”All empires invariably come to an end and this (The State of Jammu Kashmir)was no exception”
اسی انٹرویو میں ڈاکٹر کرن سنگھ نے اپنے اجداد کی قائم کردہ ریاست کے تصور سے یہ کہہ کر پسپائی اختیار کی تھی کہ ان کے گھرانے کی قائم کردہ ریاست میں 101برس تک ڈوگرہ خاندان نے حکومت کی، جبکہ گزشتہ 72برس سے اس پر کشمیری حکومت کرتے رہے۔ گویا کہ بھارت کی حکمرانی کے بجائے انہوں نے 72 برس کی خرابیوں اور قباحتوں کی ذمہ داری وادیٔ کشمیر کی قیادت پر ڈال دی۔ اس طرح کرن سنگھ نے جموں وکشمیر کی تفریق پیدا کرکے بھارت کے اس نئے مؤقف کو تقویت دینے کی کوشش کی جس کے تحت یونین ٹیریٹری قرار دیے جانے والے جموں اور کشمیر کو مزید دوحصوں یعنی وادی کشمیر اور جموں میں تقسیم کرنا مطلوب ہے، اور یہ عمل جموں کو کشمیری غلبے سے آزادکرنے کے نام پر کیا جانا ہے۔ اس طرح کشمیر کی الگ حیثیت اور ریاست کے تصور کو ختم کرنے کے لیے ڈوگرہ خاندان کو اپنے دعوے سے ہمیشہ کے لیے دست بردار کیا گیا ہے۔ صاف لگتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقابل کانگریس کی سیاست کے قریب تر مہاراجا گھرانے کو نیا مؤقف اپنانے کے لیے مودی حکومت نے دبائو اور ترغیب وتحریص کے حربے استعمال کیے ہوں گے۔ اس طرح وادی کے سیاست دانوں کو جموں سے ملنے والی اخلاقی مدد اور تائید کی آخری امید بھی دم توڑ گئی۔ یوں بھارت نے ریاست کے تصور کو ختم کرنے کے لیے ایک فیصلہ کن وار کرلیا۔ اب وادی میں مسلمان اکثریت کے ساتھ بھارت کیا سلوک کرے گا؟یہ سوال زباں زدِ خاص وعام ہے۔ بھارت صرف وادی میں اکھاڑ پچھاڑ نہیں کرے گا بلکہ وہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر اپنا دعویٰ مضبوط کرنے کے لیے نقشوں تک محدود رہنے کے بجائے اس جانب عملی پیش قدمی کرسکتا ہے، اور یوں بھارت کا آزادکشمیر کی طرف کسی نہ کسی مہم جوئی سے کام لینا بعید از قیاس نہیں۔
آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے دروازے پر دشمن کی دستک کا انتظار کیے بغیرکوئی حکمت عملی اپنانا ضروری ہے۔ اس کے لیے اسلام آباد میں کیا سوچ پروان چڑھ رہی ہے؟ یہ بھی کسی کو معلوم نہیں۔ آثار وقرائن بتاتے ہیں کہ اسلام آباد میں دو سوچیں موجود ہیں۔ ایک سوچ یہ ہے کہ آزادکشمیر حکومت کا رول بڑھاکر تسلیم کرنے یا تسلیم کرنے سے قریب تر کرنے جیسی پالیسی اپنائی جائے، تاکہ کشمیری سفارتی محاذ پر اگلی صفوں میں کھڑے ہوکر دنیا بھر میں اپنا مقدمہ لڑیں، اور پاکستان ایک معاون کردار کے طور پر ان کی مدد کرتا رہے۔ یہ ایوب خان کے دور میں اُبھرنے والی ایک سوچ ہے، اور ایوب خان کے وزیر خارجہ منظور قادر اس سوچ کے مناد و مبلغ تھے، مگر بقول ذوالفقار علی بھٹو مرحوم: ریاست نے اس تجویز پر ہر پہلو سے غور کرکے اسے ناقابلِ عمل جانتے ہوئے داخل ِدفتر کردیا۔ ریاست کے پیچھے ہٹنے کے بعد اس نظریے کا سارا بوجھ قائداعظم کے سیکریٹری اور سابق صدر آزادکشمیرکے ایچ خورشید نے اپنے کندھوں پر اُٹھا لیا تھا۔ وہ مرتے دم تک آزاد کشمیر حکومت کو مہاراجا ہری سنگھ کی جانشین حکومت کے طور پر تسلیم کرنے کے مؤقف کی وکالت کرتے رہے۔
دوسری سوچ جو بہت تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے، یہ ہے کہ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو مقبوضہ جموں و کشمیر کی طرز پر پاکستان کا آئینی حصہ بناکر پاکستان خود کھل کر آگے آئے اور مقبوضہ علاقے پر اپنا دعویٰ زیادہ قوت اور شدت کے ساتھ پیش کرے۔ ایسی صورت میں آزاد کشمیر کا موجودہ جغرافیائی تشخص اور انتظامی ڈھانچہ بھی ختم کردیا جائے ۔
یہ دونوں تصورات فی الوقت نیا پنڈورا باکس کھولنے کے مترادف ہیں۔ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کا ’’اسٹیٹس کو‘‘اس انداز سے توڑنے سے کئی مسائل جنم لے سکتے ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ’’ریاست جموں وکشمیر‘‘ کے تصوراتی وجود کا بوجھ پاکستان اور وادیٔ کشمیر کے عوام تنہا اُٹھانے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ کشمیر کا مسئلہ شروع ہوا تو کشمیر کی علامتوں اور شناخت کی اپنی ایک اہمیت تھی حالانکہ کھیل کشمیریوں کے ہاتھ سے نکل کر پاکستان اور بھارت کے درمیان چلاگیا تھا، مگر اس کے باوجود بھارت نے کشمیر کی علامت کے طور پر شیخ محمد عبداللہ کو اقوام متحدہ بھیجا تو پاکستان نے کشمیر کی علامت کے طور پر اس کا مقابلہ کرنے کے لیے سردار محمد ابراہیم کو عالمی ایوان میں پیش کیا۔ دونوں نے اپنا مقدمہ کشمیریت کی دہائی دے کر لڑا۔ اصل فریق پس پردہ ہی رہا۔ مگر وقت نے یہ سارے حجاب گرا دیے ہیں، اب پاکستان اور بھارت براہِ راست آمنے سامنے آرہے ہیں اور علامتوں کے پردوں میں چھپنے کا رواج ختم ہوتا جارہا ہے۔ جو کشمیری دونوں ملکوں کے درمیان پُل بن سکتے تھے، اب درماندہ حال ہیں اور وہ پُل تعمیر سے پہلے ہی ٹوٹ گرا ہے۔ یہ 72 برس میں اُبھرنے والی ایک نئی صورت ِحال ہے، اور اس چیلنج کا سامنا بھی نئی حکمت عملی اور رنگ وآہنگ سے کیا جانا ممکن ہے۔