پاکستان توڑ دیا گیا، مگر اس سے بھی بڑا سانحہ یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے اس سانحے کو پاکستانی قوم کے شعور میں رجسٹر ہی نہ ہونے دیا۔ چنانچہ مشرقی پاکستان کے سانحے سے پاکستانی قوم میں وہ احساسِ زیاں پیدا ہی نہ ہوسکا جو قوموں کو بدلتا ہے اور مستقبل میں سانحات سے بچنے کے لیے تیار کرتا ہے
انسانی تاریخ میں پاکستان جیسی ’’تاریخی‘‘ ریاست موجود نہیں۔ پاکستان ایک ’’نظریے‘‘ کی بنیاد پر قائم ہوا، اور یہ ایک ’’تاریخی‘‘ بات ہے۔ پاکستان وقت کی سپرپاور اور اکثریت سے لڑ کر حاصل کیا گیا، یہ ایک ’’تاریخی‘‘ بات ہے۔ تحریکِ پاکستان صرف 7 سال میں کامیاب ہوگئی، اور یہ ایک تاریخی بات ہے۔ پاکستان اپنے قیام کے صرف 24 سال بعد دولخت ہوگیا، یہ ایک ’’تاریخی‘‘ بات ہے۔ عام طور پر ’’اقلیتیں‘‘ اکثریت سے الگ ہوتی ہیں، مگر 1971ء میں ایک ’’اکثریت‘‘ اقلیت سے الگ ہوئی، یہ ایک ’’تاریخی‘‘ بات ہے۔
پاکستان کا حکمران طبقہ پاکستان کا ذکر اس طرح کرتا ہے جیسے یہ پاکستان قائداعظم کا ’’پورا پاکستان‘‘ ہو۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ موجودہ پاکستان، قائداعظم کا ’’آدھا پاکستان‘‘ ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ قائداعظم کا انتقال 11 ستمبر 1948ء کو ہوا، مگر تاریخ جھوٹ بولتی ہے۔ قائداعظم کا انتقال 11 ستمبر 1948ء کو نہیں، 16 دسمبر 1971ء کو ہوا۔ یہ سقوطِ ڈھاکا کی تاریخ ہے۔ یہ سقوطِ قائداعظم کی اصل تاریخ وفات ہے۔ گاندھی‘ نتھورام گوڈسے کی گولی سے مارا گیا تھا۔ پاکستان کے حکمران طبقے نے قائداعظم کو مارنے کے لیے گولی کا انتخاب نہیں کیا۔ انہوں نے اپنی نااہلی، حماقت، ضلالت، ظلم اور ناانصافی سے قائداعظم کو قتل کیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ سقوطِ ڈھاکا کیوں ہوا؟ سوال یہ ہے کہ پاکستان ’’ٹوٹا‘‘ یا ’’توڑا‘‘ گیا؟ پاکستان کے حکمران طبقے کا ’’بیانیہ‘‘ یہ ہے کہ پاکستان خود ٹوٹ گیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ’’ٹوٹا‘‘ نہیں، اسے ’’توڑا‘‘ گیا۔ ’’انفرادی خودکشی‘‘ بہت آسان ہوتی ہے۔ ایک شخص ایک لمحے میں زندگی سے مایوس ہوکر زہر کھاکر خود کو ہلاک کرلیتا ہے۔ لیکن سقوطِ ڈھاکا ’’انفرادی خودکشی‘‘ کی واردات نہیں، یہ ’’اجتماعی خودکشی‘‘ کی واردات ہے، اور اجتماعی خودکشی ایک لمحے میں نہیں ہوتی۔ اس میں برسوں اور کبھی کبھی صدیاں لگ جاتی ہیں۔ اقبال نے کہا ہے ؎۔
آ تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اوّل طائوس و رباب آخر
اقبال کے اس شعر میں شمشیر و سناں اور طائوس و رباب میں کوئی ’’فاصلہ‘‘ نہیں، مگر ’’عمل‘‘ کی دنیا میں قوموں کو شمشیر و سناں سے طائوس و رباب تک آتے آتے صدیاں لگ جاتی ہیں۔ ہمیں 14 اگست 1947ء سے 16 دسمبر 1971ء تک آتے آتے 24 سال لگے۔ ملک ٹوٹنے کے لیے یہ مدت بہت کم ہے لیکن دل ٹوٹنے کے لیے یہ مدت بہت زیادہ ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان پہلے دلوں میں بنا، پھر جغرافیے میں ڈھلا۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ پہلے پاکستان دلوں میں ’’توڑا‘‘ گیا، بعد میں پاکستان عمل کی دنیا میں دولخت ہوا۔ سوال یہ ہے کہ 24 سال میں پاکستان کے حکمران طبقے نے ایسا کیا کیا کہ جدید دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست دو ٹکڑے ہوگئی؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ پاکستان نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا، اور صرف نظریہ ہی اسے بچا بھی سکتا تھا اور نظریہ ہی اسے مضبوط کرسکتا تھا۔ مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے قائداعظم کی وفات سے 16 دسمبر 1971ء تک ’’نظریۂ پاکستان‘‘ کی جانب دیکھا تک نہیں۔ نظریۂ پاکستان ایک سطح پر ’’خدا مرکز ریاست‘‘ تھا۔ دوسری سطح پر ’’انصاف مرکز معاشرہ‘‘ تھا۔ تیسری سطح پر ’’اہلیت مرکز اجتماعیت‘‘ تھی۔ مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے پاکستا کو ’’جبر مرکز‘‘ بنادیا، ’’ظلم مرکز‘‘ بنادیا، ’’نااہلیت مرکز‘‘ بنادیا۔ ان چیزوں کے بغیر اجتماعی خودکشی کی واردات کا وقوع پذیر ہونا ممکن نہیں تھا۔
بنگالی برصغیر میں سیاسی اعتبار سے سب سے ’’باشعور قوم‘‘ تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انگریز سب سے پہلے بنگال میں آئے اور ان کی مزاحمت کا آغاز بنگال سے ہوا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ لاہور، دہلی، لکھنؤ، کراچی، پشاور یا کوئٹہ میں نہیں بلکہ ڈھاکا میں 1906ء میں قائم ہوئی تھی۔ تحریکِ پاکستان میں بنگال کے رہنمائوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ قراردادِ پاکستان مولوی فضل حق نے پیش کی جو بنگالی تھے۔ آخر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ 1906ء سے 1947ء تک تو بنگالی اسلام، مسلمانوں اور پاکستان کے سب سے زیادہ ’’وفادار‘‘ تھے لیکن 1947ء سے 1971ء کے 24 برسوں میں وہ ’’غدار‘‘ بن گئے! بنگالی متحدہ پاکستان کی مجموعی آبادی کا 56 فیصد تھے، مگر ان سے کہا گیا کہ Parity یا مساوات کے اصول کو تسلیم کرو اور مانو کہ تمہاری آبادی پاکستان کی مجموعی آبادی کا صرف 50 فیصد ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ بنگالیوں نے پاکستان کے اتحاد کی خاطر اس ظلم اور اس جبرکو بھی دل سے قبول کرلیا۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ قوتیں کون تھیں جنہوں نے بنگالیوں کو 56 فیصد سے 50 فیصد کیا؟ جیسا کہ ظاہر ہے Parity کا اصول نہ ’’اسلامی‘‘ تھا، نہ ’’جمہوری‘‘ تھا، نہ ’’عقلی‘‘ تھا۔ یہ سراسر ’’ظلم‘‘ اور ’’جبر‘‘ تھا۔ بنگالیوں کی آبادی 56 فیصد تھی مگر 1960ء تک فوج میں بنگالیوں کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ یہ بات ’’بنگلہ دیش کی تخلیق… فسانے اور حقائق‘‘ کے مصنف ڈاکٹر جنید احمد نے جیو نیوز کے ایک پروگرام میں حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے بتائی۔ ڈاکٹر جنید وہ شخصیت ہیں جنہوں نے دستاویزی شہادتوں کی بنیاد پر اس جھوٹ کا پردہ چاک کیا ہے کہ پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں 30 لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا۔ مگر یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ آخر 1947ء سے 1960ء تک فوج میں بنگالی کیوں موجود نہیں تھے؟ جبکہ وہ آبادی کا 56 فیصد تھے۔ کیا بنگالی ذہنی و جسمانی طور پر معذور تھے؟ اصل قصہ یہ ہے کہ پاکستان پر قابض حکمران طبقے نے فوج کے سلسلے میں ’’برتر نسل‘‘ یا ’’مارشل ریس‘‘ کا نظریہ گھڑا۔ کہا گیا کہ فوج میں شامل ہونے کے لیے مارشل ریس سے متعلق ہونا ضروری ہے۔ اُس وقت مارشل ریس میں کون شامل تھا؟ پنجابی، پشتون اور مہاجر۔ کہا گیا کہ بنگالیوں کے قد بہت چھوٹے ہیں اور وہ فوج میں شامل ہونے کے قابل نہیں۔ بلاشبہ ایک زمانہ تھا کہ جنگ لڑنے کے حوالے سے ’’جسمانی قوت‘‘ اور ’’قد و قامت‘‘ کی بھی اہمیت تھی، مگر یہ وہ زمانہ تھا جب جنگیں تلواروں اور نیزوں سے لڑی جاتی تھیں۔ جدید جنگی ہتھیاروں نے قدوقامت اور جسمانی قوت کو بے معنی بناکر رکھ دیا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ 1965ء میں پاک فضائیہ کا سب سے بڑا ہیرو ایم ایم عالم ایک بنگالی تھا۔ ایم ایم عالم نے دو منٹ میں بھارت کے پانچ طیارے گرائے اور ثابت کیا کہ بنگالی بہترین سپاہی ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کے حکمران طبقے نے بنگالیوں کو 1947ء سے 1960ء تک فوج سے یکسر باہر رکھا، مگر پھر بنگالیوں کو فوج میں شامل کیا جانے لگا، تاہم 1970ء میں اس حوالے سے کیا صورتِ حال تھی، میجر صدیق سالک سے سنیے۔ میجر صدیق سالک نے اپنی معرکہ آرا تصنیف ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھا ہے کہ سقوطِ ڈھاکا سے کچھ عرصہ پہلے جنرل یحییٰ نے اعلان کیا کہ فوج میں بنگالیوں کی تعداد میں ’’100 فیصد‘‘ اضافہ کیا جائے گا۔ صدیق سالک کے بقول وہ ایک فوجی مرکز کے دورے پر گئے تو ایک بنگالی فوجی افسر نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اگر جنرل یحییٰ کے اعلان پر کامل عمل درآمد ہوگیا تو بھی فوج میں بنگالیوں کی تعداد 25 فیصد سے زیادہ نہیں ہوگی حالانکہ ہم آبادی کا 56 فیصد ہیں۔ بنگالی افسر نے غلط بیانی سے کام لیا ہوتا تو صدیق سالک اسے چیلنج کرتے، مگر صدیق سالک خاموش رہے، اس لیے کہ بنگالی افسر کی بات درست تھی۔ یعنی قیام پاکستان کے 24 سال بعد فوج میں بنگالیوں کی تعداد صرف 25 فیصد تھی۔ فوج ملک کا سب سے اہم اور سب سے طاقت ور ادارہ تھی، چنانچہ بنگالیوں کو فوج میں شامل ہونے سے روکنا کیا بدترین ظلم نہیں تھا؟ کیا یہ ظلم بنگالیوں کے خیالات و جذبات پر کوئی منفی اثر نہیں ڈال رہا ہوگا؟ آج پاکستان میں پنجاب کی آبادی مجموعی آبادی کا 60 فیصد ہے۔ کیا پنجاب سے یہ بات منوائی جاسکتی ہے کہ تم خود کو Parity کے اصول کے تحت پاکستان کی مجموعی آبادی کا صرف 50 فیصد سمجھو اور قومی وسائل کا 50 فیصد سندھ، کے پی کے اور بلوچستان کو دے دو؟ کیا پنجاب سے کہا جاسکتا ہے کہ کل سے فوج میں تمہاری نمائندگی صرف 25 فیصد ہوگی حالانکہ تم آبادی کا 60 فیصد ہو؟ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ کیا پنجاب سے ایسے مطالبات کرنا اسلام کے تصورِ عدل اور جمہوریت کے اصول کے مطابق ہوگا؟ مگر بنگالیوں کو 56 فیصد کے باوجود آبادی کا 50 فیصد بننے پر مجبور کیا گیا۔ 1947ء سے 1960ء تک انہیں فوج میں آنے ہی نہیں دیا گیا، اور اس کے بعد وہ فوج میں آئے بھی تو اُن کی فوج میں موجودگی دس پندرہ فیصد تھی، اور جنرل یحییٰ کے اعلان پر عمل ہوجاتا تو یہ تعداد 25 فیصد تک بڑھتی۔ ظاہر ہے کہ 1971ء کے حالات کی وجہ سے اس اعلان پر عمل کی نوبت ہی نہیں آئی۔
بنگالی صرف فوج ہی میں ’’مٹھی بھر‘‘ نہیں تھے، بیوروکریسی میں بھی ان کی نمائندگی 10 سے 15 فیصد تھی، حالانکہ وہ ملک کی آبادی کا 56 فیصد تھے۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس کا ذمے دار کون تھا؟ بنگالی یا پاکستان کا حکمران طبقہ؟
پاکستان کے حکمران طبقے نے ذرائع ابلاغ کی قوت کو بروئے کار لاتے ہوئے مغربی پاکستان کے لوگوں میں بنگالیوں کے خلاف بے پناہ نفرت پیدا کی ہوئی تھی۔ جنرل رائو فرمان علی نے ہفت روزہ تکبیر کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ وہ مشرقی پاکستان کے بحران میں چھٹی پر گھر آئے تو ان کی ’’ماسی‘‘ نے ان سے کہاکہ صاحب بنگالیوں کو نہ چھوڑنا کیونکہ وہ ’’غدار‘‘ ہیں۔ تو پاکستان بنانے والے بنگالی ’’غدار‘‘ تھے اور یہ بات ماسی تک کو ’’معلوم‘‘ ہوچکی تھی۔ میجر صدیق سالک نے ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھا ہے کہ وہ 1969ء میں ڈھاکا پہنچے تو ہوائی اڈے پر ایک فوجی نے ان کا استقبال کیا۔ ہوائی اڈے پر ایک ’’بنگالی پورٹر‘‘ نے صدیق سالک کا سامان ان کی گاڑی تک پہنچایا۔ صدیق سالک کے بقول انہوں نے بنگالی پورٹر کو کچھ روپے دینے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا تو ان کے استقبال کے لیے آنے والے فوجی نے کہا: ان ’’حرام زادوں‘‘ کا دماغ خراب نہ کریں۔ جیسا کہ ظاہر ہے اس طرح کی آرا ’’انفرادی‘‘ نہیں ہوتیں۔ تو پاکستان بنانے والے بنگالی ’’حرام زادے‘‘ تھے۔ واضح رہے کہ یہ 16 دسمبر 1971ء کے بعد کا واقعہ نہیں، 16 دسمبر 1971ء سے دو سال پہلے کا واقعہ ہے۔ بنگالیوں سے نفرت کا ایک واقعہ پاکستان کے ممتاز بیوروکریٹ سید شاہد حسین نے اپنی تصنیف What was Once East Pakistanمیں لکھا ہے۔ انہوں نے فرمایا:۔
’’مشرقی پاکستان کے اپنے اس پہلے دورے کے دوران ریل کے ایئرکنڈیشنڈ کمپارٹمنٹ سے دیکھا ہوا ایک منظر میں کبھی نہیں بھول سکتا جو آج بھی مجھے دہلا کر رکھ دیتا ہے۔ سفر کے دوران آشوروی ریلوے اسٹیشن پر ٹرین کی ڈائننگ کار سے کھانا پیش کیا گیا۔ میں نے دیکھا کہ ٹرین کے ڈبے کے سامنے نیم برہنہ بھوکے لڑکے لڑکیوں کا جمگھٹا لگا ہوا ہے۔ جب ملازم ہمارے چھوڑے ہوئے ٹرے اٹھا کر ڈبے سے پلیٹ فارم پر اترا تو بچے اس کی طرح دوڑ پڑے۔ پہلے تو میں کچھ نہیں سمجھ پایا، لیکن پھر فوراً ہی بات واضح ہوگئی کہ یہ بھوکے بچے ہمارا چھوڑا ہوا کھانا حاصل کرنے کے لیے لپکے ہیں۔ لیکن ویٹر نے بچا کھچا کھانا انہیں دینے کے بجائے یہ کہتے ہوئے گندے پلیٹ فارم پر پھینک دیا کہ انہیں دینے کے بجائے کتوں کو ڈال دینا بہتر ہے۔ مجھے یہ منظر کبھی نہیں بھولتا کہ بھوکے بچے کس طرح زمین پر پڑے ہوئے کھانے کی طرف لپکے تھے تاکہ کتوں کے آنے سے پہلے جو کچھ ممکن ہوسکے اٹھالیں۔ وہ بیرا بہاری تھا اور اس کا رویہ بنگالی بہاری باہمی تعلق کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے کافی تھا‘‘۔
(بحوالہ روزنامہ ایکسپریس۔ 16 دسمبر 2018ء)
یہ ایک ’’تاریخی حقیقت‘‘ ہے کہ بنگالیوں نے فوجی آپریشن بالخصوص سقوطِ ڈھاکا کے بعد اُن پاکستانیوں پر بڑے مظالم ڈھائے جنہوں نے ملک بچانے کے لیے پاک فوج کا ساتھ دیا۔ مگر 1947ء سے 1971ء تک تو انہوں نے کوئی ایسا جرم نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے بنگالیوں سے نفرت کی جاتی، انہیں ’’حرام زادے‘‘ کہا جاتا اور کتوں سے کم تر سمجھا جاتا۔ کیا جن لوگوں نے 1947ء سے 1971ء تک بنگالیوں کے خلاف نفرت پھیلائی، ان کا معاشی قتلِ عام کیا، انہیں ملک کے اہم ترین اداروں میں صحیح نمائندگی سے محروم رکھا، انہوں نے پاکستان کو توڑنے کے عمل میں حصہ نہیں لیا؟
مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان جانے والے ’’سول افسروں‘‘ کا کیا رویہ تھا، اس پر بھی سید شاہد حسین نے اس کتاب میں روشنی ڈالی ہے۔ لکھتے ہیں: ۔
’’اگلی مرتبہ میرا مشرقی پاکستان جانا ملک کے دونوں حصوں کے درمیان افسران کے تبادلے کے پروگرام کے تحت ہوا تھا۔ اس پروگرام کے تحت مغربی پاکستان کے افسران کو مشرقی حصے میں، جبکہ مشرقی پاکستان کے افسران کو مغربی حصے میں لازمی خدمات انجام دینا ہوتی تھیں۔ اسی پروگرام کے تحت 1969ء میں میرا تبادلہ دو برس کے لیے مشرقی پاکستان کردیا گیا۔ آغاز میں یہ سلسلہ بڑی کامیابی کے ساتھ چلتا رہا، لیکن بعد میں مغربی پاکستان کی طاقتور بیوروکریسی کے دبائو پر یہ پروگرام ختم کرنا پڑا، کیونکہ یہ لوگ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے بیٹوں کو ایک دوردراز علاقے میں خدمات انجام دینا پڑیں۔ اس کے برعکس مشرقی پاکستان کے افسروں نے اس پروگرام کو بڑی گرمجوشی کے ساتھ قبول کیا۔ وہ سب اس انتظام پر بہت خوش تھے۔ اِدھر ہمارے افسروں کا یہ حال تھا کہ میرے بیچ کے ایک افسر کا جب مشرقی پاکستان کے بندربن سب ڈویژن میں تبادلہ کیا گیا تو وہ وہاں سے اس لیے بھگوڑا ہوکر بھاگ نکلا کہ جگہ کا نام ’’بندر‘‘ کے نام پر ہے۔ اس افسر کے تعصب اور بغض کا یہ عالم تھا کہ اس نے اپنی گھڑی بنگال کے مقامی وقت کے مطابق ایک گھنٹہ آگے کرنے کے بجائے مغربی پاکستان کے وقت کے مطابق ہی رہنے دی تھی‘‘۔
(روزنامہ ایکسپریس۔ 16 دسمبر 2018ء)
پاکستان 16 دسمبر 1971ء کو ٹوٹا، مگر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا احساس بہت پہلے سے فضا میں موجود تھا۔ حسن ظہیر نے اپنی کتاب The separation of East Pakistan میں مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی میں 1954-55ء میں ہونے والی بعض تقاریر کے اقتباسات پیش کیے ہیں۔ یہ تقاریر مشرقی پاکستان کے بنگالی منتخب اراکین کی تقاریر ہیں۔ ان تقاریر میں بنگالی سیاست دان کہہ رہے تھے کہ اگر مغربی پاکستان کے حکمران طبقے نے مشرقی پاکستان کے سلسلے میں اپنا رویہ تبدیل نہ کیا تو ملک کو متحد نہیں رکھا جاسکے گا۔ یہ اپنی طرز کی واحد شہادت نہیں ہے۔ آصف جیلانی پاکستان کے ممتاز اور پاکستان سے محبت کرنے والے صحافیوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے ایک سال قبل اپنے کالم میں لکھا: ۔
’’یہ اُن دنوں کی بات ہے جب اکتوبر 1954ء میں گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی توڑ دی تھی اور اس اقدام کو دستور ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین خان نے سندھ چیف کورٹ میں للکارا تھا۔ اس دوران جب چیف جسٹس کانسٹنٹائن کی عدالت میں مولوی تمیزالدین خان کا مقدمہ چل رہا تھا، ہم چند صحافی، مَیں، ڈان کے رپورٹر مشیر حسن، اے پی پی کے مظفر احمد منصوری اور جنگ کے اطہر علی چیف کورٹ کی کینٹین میں چائے پی رہے تھے۔ اتنے میں سابق وزیر تجارت فضل الرحمان جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا، قریب سے گزرے۔ ہم نے ان کو اپنی میز پر بلایا اور سیدھا سوال کیا کہ اب کیا ہوگا؟ فضل الرحمان صاحب نے ایک لمحے کے توقف کے بغیر جواب دیا ’’اب پاکستان ٹوٹ جائے گا‘‘۔ ہم سب اُن کے اس جوا ب پر اچھل پڑے۔ ہم نے اُن سے پوچھا کہ کس بناء پر وہ یہ کہہ رہے ہیں؟ فضل الرحمان صاحب نے بلا کسی جھجک کے کہا کہ دستور ساز اسمبلی کی برطرفی کے پیچھے فوج کا ہاتھ ہے اور اب بہت جلد فوج ملک کے اقتدار پر قبضہ کرلے گی۔ فوج چوںکہ مغربی پاکستان کی ہے، اس لیے مشرقی پاکستان کے عوام کے ذہنوں سے یہ حقیقت نہیں مٹائی جاسکے گی کہ مغربی پاکستان ان پر حکمرانی کررہا ہے اور یہ بات مشرقی پاکستان کے عوام کے لیے ہرگز قابلِ قبول نہیں ہوگی، وہ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور بالآخر پاکستان ٹوٹ جائے گا۔ ہم سب کا دل دھک سے رہ گیا اور ہم میں سے کوئی بھی فضل الرحمان صاحب کو نہیں للکار سکا۔ ابھی اٹھارہ سال بھی نہیں گزرے ہوں گے کہ پاکستان دولخت ہوگیا‘‘۔
(روزنامہ جسارت۔ 20 دسمبر 2018ء)
اس سلسلے میں سید شاہد حسین نے بھی اپنی کتاب What was Once East Pakistan میں اہم واقعے کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔
’’میں پہلی مرتبہ 1966ء میں مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) گیا۔ سول سروس میں شامل ہونے کے بعد 39 افسروں کے ایک گروپ کو ملک کے مشرقی صوبے میں 3 ماہ کے لیے بھیجا گیا تاکہ وہ وہاں کے معاملات سے ہم آہنگی پیدا کرلیں۔
میں نے ایک ماہ کومیلا کی رورل ڈیویلپمنٹ اکیڈمی میں گزارا، ایک ماہ ضلع میمن سنگھ میں اٹیچمنٹ پر رہا، جب کہ باقی ایک ماہ صوبے کے مختلف علاقوں کے سفر پر رہا۔
ایک روز میں رورل ڈیویلپمنٹ اکیڈمی کی پہلی منزل پر ورانڈے میں اپنے مشرقی پاکستانی ساتھی افسر عبدالقیوم، جو فارن سروس سے تھا، کے ساتھ کھڑا رات کے اندھیرے میں جھانکنے کی کوشش کررہا تھا کہ عبدالقیوم نے مزاحیہ سے انداز میں کہا ’’شاید مستقبل میں یہ عمارت ہماری سول سروسز اکیڈمی ہو‘‘۔ اس نے اپنے فقرے میں بس بنگلہ دیش کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ میں یہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہوسکتا ہے۔ کسی نے اس بات کا احساس نہیں کیا۔‘‘ (روزنامہ ایکسپریس۔ 16 دسمبر 2018ء)۔
مولانا مودودیؒ کے حوالے سے یہ بات تاریخی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ مولانا نے سقوطِ ڈھاکا سے دو سال قبل مشرقی پاکستان کا دورہ کیا اور وہاں کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد فرمایا کہ حالات یہی رہے تو ملک کو متحد نہیں رکھا جاسکے گا۔ میجر صدیق سالک نے اپنی تصنیف ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں لکھا ہے کہ وہ 1969ء میں ڈھاکا پہنچے تو انہوں نے اپنے فوجی ساتھیوں سے کہا کہ وہ کسی بینک میں اپنا اکائونٹ کھولنا چاہتے ہیں۔ ان کے فوجی ساتھیوں نے کہا کہ اکائونٹ ضرور کھولو مگر فوجی چھائونی کے کسی بینک میں، سول علاقوں کے کسی بینک میں نہیں۔ صدیق سالک کے بقول انہوں نے اس کی وجہ پوچھی تو ان کے فوجی ساتھیوں نے کہا کہ ہمیں کسی بھی وقت مشرقی پاکستان چھوڑکر بھاگنا پڑ سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ مشرقی پاکستان میں ایسا کوئی بڑا ظلم اور جبر ہورہا ہوگا جس کی وجہ سے لوگ 1954ء میں بھی کہہ رہے تھے کہ پاکستان ٹوٹ سکتا ہے، 1966ء میں بھی کہہ رہے تھے کہ ملک دو ٹکڑے ہوسکتا ہے، اور 1969ء میں بھی اہم لوگ محسوس کررہے تھے کہ پاکستان ٹوٹ سکتا ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقے نے پاکستان کے دولخت ہونے کے حوالے سے یہ بیانیہ ’’ایجاد‘‘ کیا ہے کہ پاکستان بھارت نے توڑا۔ ٹھوس اور ناقابلِ تردید تاریخی شہادتیں بتا رہی ہیں کہ مشرقی پاکستان کے حالات 1954ء سے خراب تھے، بھارت نے تو دسمبر 1971ء کے اوائل میں مداخلت کی۔ بلاشبہ بھارت کی مداخلت کے بغیر پاکستان ٹوٹ نہیں سکتا تھا، مگر ہم نے اپنا گھر خود خراب کیا تو بھارت کی ’’مداخلت‘‘ اور ’’کامیابی‘‘ کی راہ ہموار ہوئی۔ ہم اپنا گھر خود خراب نہ کرتے تو بھارت چاہ کر بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ چنانچہ پاکستان کے ٹوٹنے کی اصل کہانی یہ ہے کہ ’’بنیادی طور پر‘‘ پاکستان کا حکمران طبقہ پاکستان توڑنے کا ذمے دار ہے، جب کہ بھارت ’’ثانوی طور پر‘‘ پاکستان کے دولخت ہونے کا ذمے دار ہے۔ مگر ہمارے درجنوں بددیانت اور کم علم لکھنے والے اور مبصرین سقوطِ ڈھاکا کے حوالے سے پاکستان کے حکمران طبقے کے جرائم پر پردہ ڈال دیتے ہیں اور بھارت کو سقوطِ ڈھاکا کا ذمہ دار قرار دے کر پاکستان سے ’’محبت‘‘ کا حق ادا کرتے ہیں۔ واہ کیا اعلیٰ درجے کی ’’پاکستانیت‘‘ ہے۔ اس سلسلے میں ریٹائرڈ میجر جنرل حکیم ارشد قریشی کی تصنیف The 1971 Indo Pak war A Soldiers Narrative کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ جنرل صاحب اس کتاب میں لکھتے ہیں:۔
’’پاکستان ٹوٹنے کے واقعے کو ایک طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود اس پر بحث مباحثے کی شدت میںکوئی کمی نہیں آئی۔ خود کو بری الذمہ ثابت کرنے کے لیے بودے اور بے بنیاد دلائل گھڑے جاتے ہیں جنہیں آدھے سچ پر مبنی دلیل سے تقویت دی جاتی ہے، اور اس عمل کے باعث اصل مدعا خلط ملط ہوجاتا ہے۔ حقائق کا سامنا کرنے سے راہِ فرار اختیار کرنے کی غرض سے ہم نے یہ وتیرہ اختیار کرلیا ہے کہ تلخ سوالات کو مسخ کرنے کے لیے ہم تاریخ کی من چاہی تعبیر اس انداز میں کرتے ہیں کہ اس سے حاصل ہونے والا تجزیہ ہمارے رویّے اور نقطہ نظر سے مطابقت رکھتا ہو۔ حالانکہ ایک باوقار طرزِعمل یہ ہوتا ہے کہ تاریخ کو ہم اپنے لہو سے دوبارہ رقم کرتے۔
اپنے ان تجربات کو رقم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آنے والی نسلوں کے لیے غیر متعصبانہ تجزیہ کیا جائے۔ اس سے یہ امید پیدا ہوتی ہے کہ آنے والی نسلیں مستقبل میں کسی ایسی مشکل صورتِ حال میں حقیقت پسندانہ انداز اختیار کریں جس سے ان کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ تاریخ کا وتیرہ ہے کہ جو اس سے سبق نہ سیکھیں، ان کے لیے خود کو دہراتی رہتی ہے۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی تحقیقات کے لیے حمود الرحمٰن کمیشن کے سامنے پیش ہونے والے لوگ محض اس کوشش میں مصروف رہے کہ کسی طرح ذمہ داری دوسرے پر ڈال دیں۔‘‘
’’اگست 1970ء کو ترقی ملنے کے بعد مجھے حکم ملا کہ مشرقی پاکستان کے علاقے سید پور میں تعینات فرنٹیئر فورس رجمنٹ کی 26 ویں بٹالین کی کمان سنبھالوں۔ مشرقی پاکستان کے حالات کے پیش نظر مجھ سے کہا گیا تھا کہ مسلح محافظوں کے بغیر سفر نہ کروں، لیکن میں تنہا رنگ پور جانے کے لیے ٹرین میں سوار ہوگیا۔ جدھر نظر جاتی تھی، نیم برہنہ لوگوں کا ایک سمندر تھا۔ یہ لوگ اپنے اردگرد سے بے نیاز سرگرداں نظر آتے تھے۔ ان کی غربت چھپائے نہیں چھپتی تھی، ان کی حالت قابلِ رحم تھی، صاف نظر آتا تھا کہ برطانیہ سے آزادی ان کے لیے محض ایک سراب ثابت ہوئی ہے، جس سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔ میں یہ سب دیکھ کر لرز کر رہ گیا۔ ریل کی کھڑکی سے باہر جہاں تک نظر جاتی، سبز کھیت لہلہاتے تھے جو اس زمین کی زرخیزی کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ اس منظر میں پائے جانے والے نظم و ضبط کے برعکس ریل کے اندر کی صورتِ حال یہ تھی کہ جس مسافر کو جہاں اترنا ہوتا، وہ زنجیر کھینچ کر اتر جاتا تھا۔ ریل کے عملہ کو یہ فکر نہ تھی کہ آیا کسی نے ٹکٹ لیا ہے یا نہیں۔‘‘
(روزنامہ ایکسپریس۔ 16 دسمبر 2018ء)
مشرقی پاکستان آبادی کے اعتبار سے 56 فیصد تھا اور اس کی پٹ سن کی پیداوار نے پاکستان کی معیشت کو بدترین معاشی دور میں بڑا سہارا دیا تھا، مگر پاکستان کا حکمران طبقہ مشرقی پاکستان کو ’’معاشی بوجھ‘‘ سمجھتا تھا اور اس بات کے ’’اظہار‘‘ سے بھی گھبراتا نہیں تھا۔ اس سلسلے میں ممتاز صحافی آصف جیلانی کا براہِ راست تجربہ ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں:۔
’’1970 کے اوائل میں ایم ایم احمد صاحب پاکستان کے امدادی کنسورشیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے پیرس جانے سے پہلے لندن آئے تھے اور انہوں نے پاکستان ہائی کمیشن میں پاکستانی صحافیوں کے لیے ایک پریس کانفرنس کی تھی۔ اس پریس کانفرنس میں وہ اپنے دو قریبی معتمدوں سرتاج عزیز اور ماجد علی صاحب کے جلو میں بیٹھے تھے۔ پاکستان کی معیشت کے بارے میں بات ہورہی تھی۔ اچانک ایم ایم احمد صاحب نے یہ کہہ کر سب صحافیوںکو اچنبھے میں ڈال دیا کہ مشرقی پاکستان، ملک کے لیے ذمے داری کا بوجھ (Liability) بن گیا ہے، اور اگر پاکستان کو اس سے نجات مل جائے تو پانچ سال کے اندر اندر پاکستان اسکینڈے نیویا کے ملکوں کے برابر آجائے گا۔ میں نے اور میرے ساتھیوں نے سخت احتجاج کیا کہ ایم ایم احمد صاحب آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں! ملک کے عوام کی اکثریت والے مشرقی پاکستان کو آپ Liability کہہ رہے ہیں، جب کہ مشرقی پاکستان کے پٹ سن نے قیام پاکستان کے بعد ملک کی معیشت کو سہارا دیا۔ پھر آپ قیام پاکستان کی جدوجہد میں مشرقی پاکستان کی کاوشوں کو یکسر فراموش کررہے ہیں۔ ایم ایم احمد صاحب کو فوراً احساس ہوا کہ انہوں نے غلط بات کہہ دی ہے، اور اس کی تاویلیں پیش کرتے رہے۔ لیکن میرے اور میرے چند صحافی دوستوں کے دل میں یہ پھانس اٹک گئی تھی کہ پاکستان میں ایسے عناصر ہیں جو اپنے مفادات کی خاطر مشرقی پاکستان سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ پھر 16 دسمبر 1971ء کو جب ڈھاکا کے ریس کورس میدان میں جنرل نیازی نے جگجیت سنگھ اروڑا کے ساتھ بیٹھ کر شکست نامہ پر دستخط کیے تو اُس وقت لندن میں پاکستانیوں کو دھاڑیں مار مار کر روتے دیکھ کر مجھے 1954ء میں فضل الرحمان صاحب کی پیش گوئی اور 1970ء میں ایم ایم احمد کی پریس کانفرنس بے حد یاد آئی۔‘‘
(روزنامہ جسارت۔ 20 دسمبر 2018ء)
پاکستان کے حکمران طبقے نے نہ معاشی میدان میں بنگالیوں کو 56 فیصد تسلیم کیا، نہ سماجی میدان میں، نہ روزگار کے دائرے میں۔ یہاں تک کہ 1970ء میں جنرل یحییٰ کی نگرانی میں انتخابات ہوئے تو پاکستان کے حکمران طبقے نے سیاسی میدان میں بنگالیوں کی اکثریت کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ ایسا نہ ہوتا تو اقتدار خاموشی کے ساتھ شیخ مجیب الرحمان کے حوالے کردیا جاتا جو قومی سطح پر اکثریت کے نمائندے بن کر ابھرے تھے۔ مگر بنگالیوں کی اکثریت کو تسلیم کرلیا جاتا تو پھر ہمارا دارالحکومت کراچی اور اسلام آباد تھوڑی ہوتا۔ پھر ہمارا دارالحکومت ڈھاکا ہوتا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ پھر پاکستان کی قوم کی تقدیر پنجابیوں، پشتونوں اور مہاجروں کے ہاتھ میں تھوڑی ہوتی، پھر پاکستان کی تقدیر بنگالیوں کے ہاتھ میں ہوتی۔ اور یہ بات مغربی پاکستان کے حکمران طبقے کو گوارا نہیں تھی۔ چنانچہ اس نے شیخ مجیب کو ’’مقتدر‘‘ ماننے سے انکار کردیا۔ اس کے باوجود بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستان ’’ٹوٹا‘‘ ہے، اسے ’’توڑا‘‘ نہیں گیا۔ اس سلسلے میں پاکستان کے ممتاز بیوروکریٹ سید شاہد حسین نے اپنی تصنیف What was once Pakistan میں لکھا ہے:۔
’’کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان انتخابات کی وجہ سے ٹوٹا، ان لوگوں میں ایک زمانے میں ملک کے اہم ترین انگریزی روزنامے ’پاکستان ٹائمز‘ کے ایڈیٹر زیڈ اے سلہری بھی شامل ہیں، جنہوں نے 1988ء میں نیشنل ڈیفنس کالج میں اپنے لیکچر میں یہی دعویٰ کیا تھا۔ حقائق کے ساتھ یہ کیسا گھنائونا مذاق ہے! درحقیقت پاکستان انتخابات کی وجہ سے نہیں ٹوٹا تھا، بلکہ اس لیے ٹوٹا کیونکہ انتخابات کے نتائج حکمرانوں کے لیے قابلِ قبول نہ تھے‘‘۔
(روزنامہ ایکسپریس۔ 16 دسمبر 2018ء)
پاکستان کی تاریخ اور پاکستان کے حکمران طبقے کی نفسیات سے آگاہ لوگ جانتے ہیں کہ 1970ء کے انتخابات بجائے خود ہماری قومی تاریخ کا ایک ’’اسکینڈل‘‘ ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں ریٹائرڈ بریگیڈیئر اے آر صدیقی کا جیو کو دیا جانے والا انٹرویو یاد ہے۔ صدیقی صاحب متحدہ پاکستان میں آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ انہوںنے اپنے انٹرویو میں انکشاف کیا کہ جنرل یحییٰ نے مشرقی پاکستان کے اہم سیاسی رہنما مولانا بھاشانی کے ساتھ گٹھ جوڑ کرلیا تھا اور فیصلہ ہوا تھا کہ مولانا بھاشانی شیخ مجیب کی عوامی لیگ کے امیدواروں کے خلاف اپنے نمائندے کھڑے کریں گے۔ مولانا بھاشانی کی سیاسی جماعت دیہی مشرقی پاکستان میں مقبول تھی، اور اگر مولانا بھاشانی شیخ مجیب کی راہ روکتے تو شیخ مجیب 1970ء کے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب نہیں ہوسکتے تھے۔ بریگیڈئیر صدیقی کے بقول جنرل یحییٰ نے مولانا بھاشانی کو اس سلسلے میں دو کروڑ روپے دینے کا بھی وعدہ کیا تھا۔ مگر بالآخر ہوا یہ کہ مولانا بھاشانی نے شیخ مجیب کے خلاف انتخابات میں حصہ نہیں لیا اور نہ انہیں دو کروڑ روپے ادا کیے گئے۔ انٹرویو لینے والے شخص نے اے آر صدیقی صاحب سے پوچھا کہ جو کچھ طے پایا تھا اس کے نہ ہونے کا کیا سبب تھا؟ اس کے جواب میں صدیقی صاحب نے فرمایا کہ جنرل یحییٰ ملک توڑنے کا فیصلہ کرچکا تھا۔
1970ء کے انتخابات میں شیخ مجیب اور عوامی لیگ کو کس طرح کھلا راستہ مہیا کیا گیا اس سلسلے میں میجر جنرل حکیم ارشد صاحب کا تجزیہ اہمیت کا حامل ہے۔ لکھتے ہیں:۔
’’دسمبر میں پاک فوج کو انتخابات میں امن و امان کو یقینی بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ میری زیر کمان 26 ایف ایف کو ضلع دیناج پور میں انتخابات کی نگرانی کا کام سونپا گیا جس کی آبادی 25 لاکھ تھی۔ ہماری اعلیٰ قیادت کی طرف سے جو احکامات ہمیں دیے گئے تھے ان کے مطابق ایک طرف تو انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنانا تھا، لیکن ساتھ ہی ہمیں یہ احکامات بھی دیے گئے تھے کہ فوج اُس وقت تک پولنگ اسٹیشن کے اندر داخل نہ ہو جب تک الیکشن کمیشن حکام کی جانب سے ایسا کرنے کی درخواست نہ کی جائے۔ یہ احکامات محض اس مفروضے کی بنا پر دے دیے گئے کہ بنگالی سول حکام ووٹنگ کے دوران اپنی غیر جانب داری برقرار رکھتے ہوئے مکمل دیانت داری سے فرائض انجام دیں گے۔ اس کا مطلب یہ تھاکہ الیکشن کے عملے کو من مانی کی اجازت دے دی جائے۔ عوامی لیگ نے اپنی ’’مکمل فتح‘‘ کو کس طرح ممکن بنایا؟ کیا ایک شفاف اور غیر جانب دارانہ الیکشن میں ایک پارٹی باقی پارٹیوں کا مکمل صفایا کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی؟ ایک ایسا معاشرہ جو اندر سے تقسیم تھا اور جس کی حزبِ اختلاف میں مولانا بھاشانی جیسے سیاسی رہنما شامل تھے، ایک ہی رات میں ایک نقطے پر کیسے متحد ہوسکتا تھا؟ یا پھر یہ نتائج دھونس، دھاندلی کے زور پر حاصل کیے گئے؟ بنگالی سول انتظامیہ نے اس ڈرامے میں اپنے اثر رسوخ اور سرپرستی کے ذریعے کیا کردار ادا کیا؟ کچھ سوالات کے جوابات تو سب جانتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ صوبائی انتظامیہ نے پہلے ہی مولانا بھاشانی کے 1400 فعال کارکنوں کو گرفتار کرلیا تھا۔ بعد میں مولانا بھاشانی انتخابات سے دست بردار ہوگئے تھے۔ مسلم لیگ کے پارٹی فنڈز منجمد کردیے گئے تھے جس سے اسے شدید دھچکا پہنچا۔ جماعت اسلامی اور دیگر چھوٹی پارٹیوں کا عوامی لیگ کے غنڈوں نے ناطقہ بند کررکھا تھا۔ ایک بات جسے ہمیشہ نظرانداز کردیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ الیکشن فوج کی عمومی نگرانی میں ہوئے لیکن ووٹنگ اور گنتی کا عمل مقامی سول انتظامیہ کے ہاتھ میں تھا۔ یہ سول انتظامیہ ہی تھی جس نے عوامی لیگ کے عسکری ونگ کے کارندوں کے ساتھ مل کر ’’مکمل فتح‘‘ کو یقینی بنایا۔ یہاں ایک تسلیم شدہ کہاوت کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ ’’جمہوریت محض ایک فرد ایک ووٹ کا نام نہیں، اس کا دارومدار اکثر اس بات پر ہوتا ہے کہ ووٹ کی گنتی کون کرتا ہے۔‘‘
بظاہر ہم نے اپنے ذاتی مفادات کے ہاتھوں عوامی لیگ کے کارکنوں اور مقامی سول انتظامیہ کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا تھا۔ ہم ان کے غلبے کے خلاف ردعمل دینے سے قاصر رہے۔ کیونکہ بدقسمتی سے ہمیں ظاہرداری قائم رکھنے کی فکر مارے جارہی تھی، حالانکہ ہمیں اپنے طرزعمل کے حقیقی مقصد کی فکر کرنی چاہیے تھے۔ ہم اپنی ناک سے آگے دیکھنے سے قاصر رہے، ہم نے خود کو صورت حال کے اصل حقائق سے الگ تھگ کرلیا اور اس بات کی آزادی دے دی کہ انتخابی ’’فتح‘‘ کے قانونی اور مبنی برحق ہونے کے نام نہاد دعوے پر مہرِ تصدیق ثبت کردی جائے۔ فوج اور عدلیہ کو باہم ملا کر ایک ایسا نظام وضع کیا جاسکتا تھا جس کے ذریعے آزادانہ اور غیر جانب دارانہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا جانا ممکن ہوتا۔ مارشل لا کی مشنری کا حصہ ہونے کے باعث ہماری یہ ذمہ داری تھی کہ ہم انتخابات میں شفافیت کو یقینی بناتے۔ لیکن ہم نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی‘‘۔
(روزنامہ ایکسپریس۔ 16 دسمبر 2018ء)
کیا اس کے بعد بھی یہ کہا جانا چاہیے کہ پاکستان ’’خود ٹوٹا‘‘، اسے ’’توڑا‘‘ نہیں گیا؟
مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہوئے اور بھارت نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کے لیے اپنی سرحد کھولی تو مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ہزاروں پاکستانی بھارت میں پناہ گزیں بننے لگے۔ بھارت نے انہی پناہ گزینوں کو بروئے کار لاکر مکتی باہنی بنائی، مگر اس سلسلے میں پاکستان کے حکمران طبقے نے کیا کیا، ممتاز صحافی آصف جیلانی کی زبانی سنیے۔ لکھتے ہیں:۔
’’اُن دنوں اقوام متحدہ کے کمشنر برائے پناہ گزین پرنس صدر الدین آغا خان سے میری لندن میں ملاقات ہوئی تھی۔ انہوں نے پناہ گزینوں کی رضاکارانہ واپسی کا جامع منصوبہ پیش کیا تھا جس کا ایک مقصد مشرقی بحران کے لیے مصالحت کی راہ ہموار کرنا تھا۔ اُس وقت پرنس صدرالدین سخت دل برداشتہ تھے کہ پاکستان کی حکومت نے اس منصوبے کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی اور نتیجہ یہ کہ ہندوستان نے اس منصوبے کو آسانی سے سبوتاژ کردیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مشرقی پاکستان سے گلوخلاصی کے لیے راہ ہموار کی جارہی ہے۔ اس بحران کے تصفیے کے لیے سوویت یونین کی طرف سے مصالحتی کوششوں کی جو پیشکش کی جارہی تھی وہ بھی ٹھکرائی جارہی تھی۔‘‘(روزنامہ جسارت۔ 20 دسمبر 2018ء) ۔
آصف جیلانی کے مشاہدے اور تجزیے کے مطابق پاکستان کا حکمران طبقہ پاکستان کو بچانے کے لیے نہیں، ’’گنوانے‘‘ کے لیے متحرک تھا۔
پاکستان توڑ دیا گیا، مگر اس سے بھی بڑا سانحہ یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے اس سانحے کو پاکستانی قوم کے شعور میں رجسٹر ہی نہ ہونے دیا۔ چنانچہ مشرقی پاکستان کے سانحے سے پاکستانی قوم میں وہ احساسِ زیاں پیدا ہی نہ ہوسکا جو قوموں کو بدلتا ہے اور مستقبل میں سانحات سے بچنے کے لیے تیار کرتا ہے۔ ملک کے معروف صحافی غلام محی الدین نے اپنے ایک مضمون ’’ابن خلدون‘‘ کی تحریر کا ایک اقتباس کوٹ کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے ابن خلدون نے یہ بات ہمارے بارے میں ہی میں کہی ہے۔ ابن خلدون نے لکھا:۔
’’جن معاشروں میں علم و حکمت سے شناسائی کا فقدان ہو وہاں غلطیوں پر احساسِ زیاں ناپید ہوجاتا ہے۔ جن معاشروں میں احساسِ زیاں ناپید ہوجائے وہاں دانائی کا گزر نہیں ہوسکتا۔ اور جہاں دانائی کا کوئی وجود نہ ہو وہاں زندگی بے معنی ہوجاتی ہے‘‘۔
مشرقی پاکستان سے ہماری لاتعلقی نے ہماری قومی زندگی کو جس بے معنویت سے ہمکنار کیا اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ممتاز شاعر ن م راشد نے سقوطِ ڈھاکا کے بعد فرمایا کہ اب پاکستان ’’آہنگ‘‘ میں آگیا۔ فیض احمد فیض سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ ہمارے یہاں مشرقی پاکستان کے حوالے سے ادب کیوں تخلیق نہ ہوسکا؟ تو فیض نے پوری سفاکی کے ساتھ کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ سقوط ڈھاکا مشرقی پاکستان کے لوگوں کے لیے ’’تجربہ‘‘ تھا، مغربی پاکستان کے لوگوں کے لیے نہیں۔ ہم نے سانحۂ مشرقی پاکستان کو اپنے اجتماعی شعور سے کھرچنے کی ایک صورت یہ نکالی کہ اسے کسی بھی درجے کے تعلیمی نصاب کا حصہ نہیں بننے دیا۔ کہیں یہ سانحہ نصاب کا حصہ بنا بھی تو اس سانحے کے اصل محرکات زیر بحث ہی نہیں آئے۔ اس سانحے کے اثرات سے بچنے کی ایک صورت یہ نکالی گئی ہے کہ ہمارے دانش ور ایسی باتیں کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ آدمی حیرت کے سمندر میں غرق ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود ہمارے بہترین لکھنے والوں میں سے ہیں۔ وہ باعمل مسلمان بھی ہیں اور ان کی پاکستانیت بھی مثالی ہے، مگر انہوں نے اپنے کالم میں سانحۂ مشرقی پاکستان کے حوالے سے لکھا:۔
’’ہندوستانی پروپیگنڈے میں مغربی پاکستانی فوجیوں، افسران اور دوسرے شہریوں کا بنگالیوں کے ہاتھوں قتلِ عام دب کر رہ گیا۔ چنانچہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد جب مجیب الرحمٰن رہا ہوکر ڈھاکا پہنچا تو اس نے اعلان کیا کہ پاکستانی فوج نے 30 لاکھ (تین ملین) بنگالیوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا۔ مجیب الرحمٰن کے جھوٹے دعوے اور ہندوستان کے زیراثر عالمی پریس کے مبالغہ آمیز اعداد و شمار کا بھانڈا ایک بنگالی خاتون محقق شرمیلا بوس نے اپنی کتاب Dead Reckoning میں پھوڑا ہے اور تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ یہ سب جھوٹ تھا۔ آرمی ایکشن میں زیادہ سے زیادہ ساڑھے چار ہزار بنگالی قتل ہوئے۔ یہ کتاب پڑھنے کے لائق ہے مگر افسوس ابھی تک اس کا اردو ترجمہ نہیں ہوا کہ عوام تک پہنچ سکے۔‘‘(روزنامہ جنگ۔ 14 دسمبر 2018ء)
ہم نے بھارتی محقق شرمیلا بوس کی تصنیف Dead Reckoning پڑھ رکھی تھی، چنانچہ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کے کالم کا مذکورہ اقتباس پڑھ کر ہم نے دوبارہ شرمیلا بوس کی کتاب پڑھی۔ ہمیں اس کتاب میں پاکستان اور بھارت کے مجموعی جانی نقصان کے حوالے سے یہ اقتباس نظر آیا۔ شرمیلا بوس یا سرمیلا بوس لکھتی ہیں:
“From the available evidence discussed in this study, it appears possible to estimate with reasonable confidence that at least 50,000-100,000 people perished in the conflict in East Pakistan/ Bangladesh in 1971, including combatants and non-combatants, Bengali’s and non.Bengali’s, Hindus and Muslims, Indians and Pakistanis, Casualty figures crossing one hundred thousand are within the realm of the possible, but beyond that one enters a world of meaningless speculation.”
(DEAD RECKONING- PAGE-181)
جیسا کہ ظاہر ہے، شرمیلا بوس نے دو طرفہ جانی نقصان کا اندازہ 50 ہزار سے ایک لاکھ لگایا ہے۔ کتاب میں صرف ایک مقام پر 4500 کا ہندسہ استعمال ہوا ہے، اور یہ ہندسہ یہ بتانے کے لیے استعمال ہوا ہے کہ 26 مارچ سے 3 دسمبر 1971ء تک پاکستان کے 4500 فوجی شہید ہوئے۔ (صفحہ 179)۔
پاکستان میں اس بیانیے کو بھی نمایاں کیا جارہا ہے کہ پاکستان کے 90 ہزار فوجیوں نے نہیں، صرف 45 ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈالے۔ صدیق سالک نے ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں اس حوالے سے کیا لکھا ہے، انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے:۔
’’جب فضائیہ اور بحریہ جنگ کے ابتدائی ایام میں اپنا اپنا کردار ادا کرکے میدانِ جنگ سے غائب ہوگئیں تو ساری ذمے داری جنرل نیازی اور ان کی زیرکمان 45 ہزار ریگولر اور 73 ہزار نیم عسکری نفری پر آن پڑی۔‘‘ (’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘۔ صفحہ 179)۔
صدیق سالک 1971ء کے میدانِ جنگ کو براہِ راست دیکھ رہے تھے اور وہ کہہ رہے تھے کہ ہمارے فوجیوں اور نیم فوجی دستوں کے افراد کی تعداد ایک لاکھ 18 ہزار تھی۔ بالفرض مان بھی لیا جائے کہ ہتھیار 90 ہزار فوجیوں نے نہیں 45 ہزار فوجیوں نے ڈالے، تو سوال یہ ہے کہ 90 ہزار فوجیوں کا ہتھیار ڈالنا اگر ذلت کی بات ہے تو کیا 45 ہزار فوجیوں کا ہتھیار ڈالنا فخر اور اعزاز کی بات ہے؟
حمود الرحمٰن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جنرل یحییٰ اور ان کے پانچ اعلیٰ فوجی اہلکاروں کو سقوطِ ڈھاکاکا ذمے دار قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف مقدمہ چلانے کی سفارش کی ہے، مگر جنرل یحییٰ پر کبھی مقدمہ نہ چلایا جاسکا۔ وہ عزت کے ساتھ جیے اور مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ دفن ہوئے۔ اس کی وجہ کیا تھی، یہ بھی پڑھ لیجیے۔ آصف جیلانی صاحب اپنے کالم میں لکھتے ہیں:۔
’’مجھے 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو سے لندن میں آخری ملاقات یاد آرہی ہے جب وہ برطانیہ کے سرکاری دورے پر آئے تھے۔ بھٹو صاحب سے میری اُس زمانے سے ملاقات تھی جب ابھی وہ سیاست میں نہیں آئے تھے اور برکلے یونیورسٹی سے فارغ ہوکر انہوں نے کراچی میں مشہور وکیل رام چندانی ڈنگومل کے چیمبرز سے منسلک ہوکر وکالت شروع کی تھی۔ لندن کی یہ خاصی طویل ملاقات تھی۔ شرط اُن کی یہ تھی کہ اس کے بارے میں اُن کے جیتے جی ایک لفظ بھی باہر نہیں آئے گا۔ وہ نہ جانے کیوں ماضی کی یادوں کو بار بار کرید رہے تھے۔ مجھے بھٹو صاحب کے جاگیردارانہ انداز کا بخوبی احساس تھا کہ وہ اپنی کوئی مخالفت اور نکتہ چینی برداشت کرنے کے عادی نہیں تھے۔ مجھے اُس رات اُن کے نہایت سہل موڈ سے ہمت ہوئی اور دوسرے امور پر بے تکلف اور کڑے سوالات کے آخر میں یہ پوچھا کہ انہوں نے 71ء کی جنگ میں فوج کی شکست پر فوجی حکمران یحییٰ خان کے خلاف مقدمہ کیوں نہیں چلایا؟ تھوڑی دیر مجھے گھورنے کے بعد انہوں نے کہا: سچ بات یہ ہے کہ مجھ سے امریکیوں نے صاف کہہ دیا تھا کہ میں یحییٰ خان کو ہاتھ نہ لگائوں کیوںکہ انہوں نے چین سے تعلقات کی استواری میں اہم رول ادا کیا ہے اور امریکی ان کا احسان مانتے ہیں۔ میں اس جواب پر ہکا بکا رہ گیا کہ ایک آزاد اور خودمختار ملک کا صدر امریکہ کے سامنے اس قدر بے بس اور بے کس ہے! واپسی پر میں سوچتا آیا کہ دراصل خود بھٹو صاحب بھی ہرگز یہ نہیں چاہتے تھے کہ یحییٰ خان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلے، کیوںکہ بھٹو صاحب بھی اس مقدمے میں اپنے رول کے بارے میں جواب طلبی سے نہ بچ سکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ 71ء کی جنگ کے بارے میں حمودالرحمٰن کمیشن کی رپورٹ کو انہوں نے جیتے جی ہوا نہیں لگنے دی تھی۔‘‘ (روزنامہ جسارت۔ 20 دسمبر 2018ء)۔
شاید اسی لیے بھٹو صاحب نے سقوطِ ڈھاکا کے بعد فرمایا ہے: خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا۔ اللہ اکبر۔ اللہ اکبر۔ آئیے ایک بار پھر ہم اس سوال پر غور کرتے ہیں کہ سقوطِ ڈھاکا کیوں ہوا اور پاکستان کیوں ’’ٹوٹا‘‘ یا ’’توڑا‘‘ گیا؟