جمعہ 6 دسمبر کو صبح سویرے ایک زیرِ تربیت سعودی کیڈٹ نے فائرنگ کرکے 3 امریکی فوجیوں کو ہلاک اور 8 افراد کو زخمی کردیا۔ یہ واقعہ امریکی بحریہ کے فضائی تربیتی مرکز نیول ائر اسٹیشن پینسیکولا (Naval Air, Station, Pensacola)پر پیش آیا۔
خلیج میکسیکو کے ساحلی شہر پینسیکولا کے جنوب مغرب میں واقع امریکی بحریہ کا یہ اڈہ 1913ء میں قائم ہوا تھا۔ نسلی اعتبار سے 52 ہزار نفوس پر مشتمل پینسیکولا خاصہ متنوع ہے، جہاں سفید فام افراد کا تناسب 66 فیصد ہے۔ یہاں آباد 28 فیصد امریکی سیاہ فام اور 3 فیصد ہسپانوی ہیں، جبکہ ایشیائیوں کا تناسب 3 فیصد سے کچھ زیادہ ہے۔ پینسیکولا میں 1000 کے قریب قدامت پسند سفاردی (Sephardic)فرقے کے یہودی بھی رہتے ہیں۔ آبادی میں ان کا تناسب ایک فیصد کے ایک چوتھائی سے بھی کم ہے لیکن دولت و ثروت کی بنا پر ان کا اثررسوخ بہت زیادہ ہے۔ ساحلی و سیاحتی شہر ہونے کی بنا پر امریکہ بھر کے سرد علاقوں سے معمر و متمول افراد موسم سرما گزارنے یہاں آتے ہیں، جس کی بنا پر ماہرینِ قلب و فشارِ خون نے یہاں اپنے مطب قائم کررکھے ہیں۔ عمدہ اخلاق کی بنا پر معمر خواتین و حضرات میں مسلمان ڈاکٹر خاصے مقبول ہیں جو اختتامِ ہفتہ یا ویک اینڈ پر بھی اپنا فرض تندہی سے نبھاتے ہیں، ورنہ اکثر سفید فام معالج جمعہ کی شام سے پیر کی دوپہر تک کثرتِ شراب نوشی کی وجہ سے ہوش و حواس میں نہیں ہوتے۔
امریکی بحریہ، میرین کور (Marine Corps) اور کوسٹ گارڈ میں بھرتی کیے جانے والے ہر نئے افسر کی ابتدائی تربیت کا اہتمام یہیں ہوتا ہے۔ اسی بنا پر NASکے کوڈ سے مشہور یہ اڈہ بحری ہوابازی کا گہوارہ (the cradle of Naval Aviation)کہلاتا ہے۔ امریکی بحریہ کے مشہور زمانہ فضائی کرتب اسکواڈرن (Blue Angles) کا مرکز بھی یہیں واقع ہے۔
اس اڈے پر اُن ممالک کے پائلٹوں کو خصوصی تربیت دی جاتی ہے جو امریکہ سے طیارے اور فضائی دفاعی نظام خریدتے ہیں، جن میں نیٹو، مشرق وسطیٰ اور مصر شامل ہیں۔ F-16 طیاروں کے لیے کچھ پاکستانی پائلٹوں نے بھی اسی اڈے پر تربیت حاصل کی تھی۔ سعودی شاہی فضائیہ کا سیکنڈ لیفٹیننٹ محمد سعید الشمرانی یہاں تعلیم حاصل کررہا تھا۔21 سالہ محمد کو 2017ء میں سعودی فضائیہ نے امریکی ساختہ طیاروں کی تربیت کے لیے اس اڈے پر بھیجا تھا۔ اس کے لیے انگریزی سیکھنے کا خصوصی بندوبست بھی یہیں کیا گیا۔ محمد کی تربیت مکمل ہونے پر اگلے برس اگست میں اس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ متوقع تھی۔
ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ محمدالشمرانی معمول کے مطابق جمعہ کی صبح اپنی کلاس میں آیا اور لیکچر سے پہلے ہی اس نے فائرنگ شروع کردی۔ اس کا پہلا شکار ایک مسلمان امریکی کیڈٹ محمدالہیثم بنا۔ 19 سالہ ہیثم کا تعلق فلوریڈا ہی سے ہے۔ محمد کی اندھادھند فائرنگ سے 23 سالہ جاشوا واٹسن اور 21 سالہ کیمرن والٹرز بھی موقع پر ہلاک ہوگئے۔ اسی دوران مقامی پولیس کے مسلح سپاہی طلب کیے گئے۔ فائرنگ کے تبادلے میں 2 پولیس افسران اور 6 دوسرے افراد زخمی ہوئے، جبکہ پولیس کی فائرنگ سے محمد الشمرانی موقع پر ہی مارا گیا۔
اسی قسم کا ایک واقعہ دو دن پہلے ہونولولو(Honolulu) کے مشہورِ زمانہ پرل ہاربر بحری اڈے پر بھی پیش آیا تھا جب امریکی بحریہ کے پیٹی آفیسر جبرئیل رومیرو نے فائرنگ کرکے شپ یارڈ کے 2 سویلین ملازمین کو ہلاک کردیا۔ فائرنگ سے کئی لوگ زخمی بھی ہوئے۔ حملہ آور نے بعد میں خود کو گولی مارکر خودکشی کرلی۔ احباب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ پرل ہاربر کو دوسری جنگِ عظیم کے دوران اُس وقت عالمی شہرت حاصل ہوئی جب 7 دسمبر 1941ء کو جاپانی فضائیہ کے 353 طیاروں نے دو ٹکریوں میں پرل ہاربر پر اچانک حملہ کرکے امریکہ کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا۔ اس حملے میں امریکہ کے 24 سو سے زیادہ فوجی مارے گئے۔ فضائی حملوں کے ساتھ ہی جاپانی بحریہ نے بھی اپنے جوہر دکھائے۔ اس منظم و مربوط حملے میں امریکہ کے 340 طیارے تباہ اور 6 جنگی جہاز غرق ہوگئے۔ حملے کے نتیجے میں امریکہ نے جاپان اور دوسری طرف اٹلی و جرمنی نے امریکہ کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا۔ حملے کے بعد امریکہ میں آباد جاپانیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس نے جرمن نازی کیمپوں کی یاد تازہ کردی۔ اسی غیر انسانی سلوک کی ایک جھلک 9/11کے بعد نظر آئی جب امریکی مسلمانوں پر قافیہ حیات تنگ کردیا گیا تھا۔
بظاہر 4 دسمبر کو پرل ہاربر اور جمعہ کو NAS پر پیش آنے والے واقعات بالکل ایک جیسے ہیں، لیکن فلوریڈا حملے میں ایک سعودی پائلٹ کے ملوث ہونے کی بنا پر پرل ہاربر حملہ پس منظر میں چلا گیا۔
اسلام فوبیا میں مبتلا انتہا پسند عناصر نے NAS حملے کو 9/11 جیسا واقعہ قرار دینا شروع کردیا ہے جس میں مبینہ طور پر سعودی پائلٹ ملوث قرار دیے گئے تھے۔ 11 ستمبر 2001ء کو اغوا کیے گئے 4 طیاروں میں سے 2 نے نیویارک کے عالمی تجارتی مرکز کو نشانہ بنایا۔ تیسرا طیارہ انتہائی مہارت سے دارالحکومت میں وزارتِ دفاع المعروف پینٹاگون پر گرایا گیا جس سے ایک لیفٹیننٹ جنرل سمیت امریکی فوج کے کئی اعلیٰ افسران ہلاک ہوئے۔ چوتھا جہاز مبینہ طور پر امریکی کانگریس کو تباہ کرنے جارہا تھا لیکن طیارے پر سوار مسافروں اور اغوا کاروں کے درمیان تصادم میں یہ جہاز گرکر تباہ ہوگیا۔ ان حملوں میں 19 اغوا کاروں سمیت 2977 افراد ہلاک اور 25000 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے۔ مالی نقصانات کا تخمینہ 10 ارب ڈالر تھا۔
واقعے کی تحقیقات کے لیے کانگریس نے جو خصوصی کمیٹی تشکیل دی اُس کے مطابق حملے کے ذمہ دار 19 میں سے 15 کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔ اکثر ملزمان نے جنوبی فلوریڈا کے تربیتی مرکز پر جہاز اڑانے کی تربیت لی تھی۔ ان لوگوں میں سے کئی سعودی ائرلائن اور شاہی فضائیہ کے پائلٹ تھے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق محمد الشمرانی نے ٹویٹر پر اپنی وصیت پوسٹ کی تھی جس میں اُس نے امریکہ کو موذی و منحوس قوم قرار دیا۔ فائرنگ سے 12 منٹ پہلے @M7MD_SHAMRANI اکائونٹ سے جاری ہونے والے ٹویٹ میں مسلمانوں اور انسانیت کے خلاف جرائم اور اسرائیل کی مجرمانہ حمایت پر امریکہ کی مذمت کی گئی تھی۔ تاہم اب تک یہ تصدیق نہیں ہوسکی کہ مذکورہ اکائونٹ محمد الشمرانی کا ہی ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پر یس کے مطابق واقعے سے چند دن پہلے محمد الشمرانی نے تین دوستوں کو اپنے گھر عشائیے پر مدعو کیا جہاں ان لوگوں نے Mass Shooting کی ویڈیو دیکھی۔ خبر ہے کہ ان تین افراد سمیت محمدالشمرانی کے 6 دوستوں کو وفاقی تحقیقاتی ادارے FBI نے گرفتار کرکے شاملِ تحقیق کرلیا ہے۔ ایف بی آئی ایجنٹ محترمہ راشیل روہاس کا کہنا ہے کہ تحقیقات میں اوّلین ترجیح اس بات کا تعین ہے کہ یہ واردات محمد نے اکیلے انجام دی ہے یا اس وحشت میں کچھ دوسرے لوگ بھی ملوث اور اس کے سہولت کار تھے۔ محترمہ روہاس کا کہنا ہے کہ 9 ایم ایم کی جو پستول مبینہ طور پر فائرنگ کے واقعے میں استعمال ہوئی وہ فلوریڈا ہی سے خریدی گئی تھی اور قانونی طور پر امریکہ میں موجود غیر ملکیوں کے لیے اس قسم کا پستول خریدنے پر کوئی پابندی نہیں۔ محمد کے پاس شکار کا قانونی لائسنس بھی تھا۔
حساسیت کے پیش نظر سعودی فرماں روا سلمان بن عبدالعزیز نے حملے کے فوراً بعد صدر ٹرمپ کو فون کرکے اس واقعے پر شدید افسوس کا اظہار کیا۔ سعودی شہنشاہ نے تحقیقات کے لیے امریکہ سے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ صدر ٹرمپ نے اپنے ایک ٹویٹ میں ملک سلمان بن عبدالعزیز سے فون پر بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سعودی شاہ نے اس واقعے کی غیر مشروط مذمت کرتے ہوئے اسے ایک وحشیانہ کارروائی قرار دیا ہے۔ واشنگٹن میں سعودی عرب کی سفیر محترمہ ریما بندر آلِ سعود نے گھنائونے جرم کے متاثرین سے گہری ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ سعودی ولی عہد نے صدر ٹرمپ سے فون پر بات کرتے ہوئے تحقیقات میں مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ اخباری ذریعے کے مطابق سعودی عرب کی استخبارات العامۃ (شہری انٹیلی جنس)، استخبارات وامن القوات المسلحۃ (عسکری انٹیلی جنس) اور مجلس الشؤون السیاسۃ والامنیۃ (سیاسی انٹیلی جنس) نے محمد الشمرانی کے خاندان اور دوستوں کو حراست میں لے کر تحقیقات شروع کردی ہیں۔
صدر ٹرمپ اور امریکی انتظامیہ نے اس حملے میں سعودی حکومت کو ذمہ دار قرار دینے سے گریز کیا۔ غالباً یہ پہلا موقع ہے کہ دہشت گردی کے واقعے میں ایک مسلمان کے ملوث ہونے کے باوجود صدر ٹرمپ نے اپنے مخصوص انداز میں دانت پیستے ہوئے اس واقعے کو ’’ازلامک ٹیررازم‘‘ نہیں کہا، بلکہ ان کے لہجے میں سعودی حکومت کے لیے ہمدردی جھلک رہی تھی۔ امریکی وزیردفاع مارک ایسپر نے فاکس ٹیلی ویژن سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیاکہ ایک سعودی شہری کو فائرنگ کا واقعہ موبائل فون پر ریکارڈ کرتے ہوئے دیکھا گیا، تاہم انھوں نے تربیت میں مصروف سعودیوں کو پروگرام سے نکالنے یا مزید سعودی کیڈٹوں کے امریکہ آنے پر کسی قسم کی پابندی لگانے کا کوئی عندیہ نہیں دیا۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران امریکہ نے سعودی عرب کو اربوں ڈالر کا جدید ترین اسلحہ فروخت کیا ہے جس میں لڑاکا و بمبار طیارے، حساس ریڈار اور مشہور میزائل شکن نظام پیٹریاٹ شامل ہے۔ جدید اسلحہ اور ٹیکنالوجی کے مؤثر استعمال کے لیے امریکہ کے مختلف اڈوں اور عسکری تنصیبات پر 850 سے زیادہ سعودی زیر تربیت ہیں۔ پینٹاگون ذرائع کے مطابق 53 ملکوں کے پانچ ہزار فوجی اہلکار امریکہ کے مختلف اڈوں پر تربیت حاصل کررہے ہیں جس سے امریکی وزارتِ دفاع کو کروڑوں ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔
امریکی صدر اور اُن کی انتظامیہ کی جانب سے سعودی حکومت کے لیے ہمدردی اپنی جگہ، لیکن متاثرین کو ہرجانے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب کو بھاری رقم یقیناً ادا کرنی ہوگی۔ فلوریڈا کے گورنر ران ڈی سینٹس (Ron DeSantis) نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ انھیں توقع ہے کہ سعودی حکومت متاثرین کے دکھ، درد اور ان کی پریشانیوں کے مالی ازالے کے لیے فراخ دلانہ اقدامات کرے گی‘‘۔ فلوریڈا سے ریپبلکن پارٹی کے سینیٹر رک اسکاٹ اور پینساکولا سے منتخب رکن کانگریس مارک گینٹز نے بھی متاثرین کو ’مناسب‘ ہرجانہ اداکرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکی کانگریس 9/11 متاثرین کے لیے اس ضمن میں ایک قانون پہلے ہی منظور کرچکی ہے جس کی بنیاد پر سعودی حکومت کے خلاف کئی دعوے زیر سماعت ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر فیصلہ متاثرین کے حق میں ہوا تو ہرجانے کی رقم کئی ارب ڈالر ہوگی۔ اسی خدشے کے پیش نظر سعودی حکومت نے آرامکو کے ابتدائی حصص یا IPOs کی فروخت امریکی بازارِ حصص پر نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ہرجانے کی ادائیگی کے لیے سعودی اثاثے ضبط یا منجمد نہ کیے جاسکیں۔ فلوریڈا کے متاثرین کا معاملہ نائن الیون کے مقابلے میں کہیں سادہ ہے کہ محمد الشمرانی سعودی فضائیہ کا افسر تھا جسے مملکت نے تربیت کے لیے خود امریکہ بھیجا تھا۔
مالی ازالے کے علاوہ سیاسی محاذ پر بھی ریاض کو امریکی کانگریس میں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ رکن کانگریس مارک گینٹز نے تحقیقات مکمل ہونے تک امریکی اڈوں سے تمام غیر ملکی طلبہ کو نکالنے کا مطالبہ کیا ہے۔ خیال ہے کہ وہ سینیٹر رک اسکاٹ کے ساتھ مل کر قانون سازی کے لیے ایک قرارداد پیش کریں گے جس میں امریکہ آنے والے غیر ملکی کیڈٹس کے سیاسی و نظریاتی پس منظر کی تفصیلی چھان بین پر زور دیا جائے گا۔ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل اور یمن میں شہری نقصانات پر امریکہ کے قانون ساز پہلے ہی امریکہ سعودی تعلقات، خاص طور سے اسلحہ کی فروخت پر نظرثانی کا مطالبہ کررہے ہیں۔
صدر ٹرمپ کو سعودی حکومت کے امریکہ پر انحصار کا اچھی طرح اندازہ ہے۔ وہ کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کی حمایت کے بغیر آلِ سعود کے لیے تخت و تاج سنبھالنا ناممکن ہے۔ سیانوں کا خیال ہے کہ امریکی صدر نئی صورتِ حال کے تناظر میں سعودی حکمرانوں سےNAS متاثرین کے لیے موٹی رقم نکلوانے کے ساتھ بھاری قیمت پر مزید اسلحہ کی فروخت اور سعودی کیڈٹس کی جانچ پڑتال کے لیے تربیتی فیس میں بھاری اضافے پر سعودی فرماں روا کو رضامند کرلیں گے اور فیسوں میں اضافے کا اطلاق دوسرے خلیجی کیڈٹس پر بھی ہوگا۔
اب آپ ہماری پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com اور ٹویٹر Masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہماری ویب سائٹ www.masoodabdali.com پر تشریف لائیں۔