قطر میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان تعطل کا شکار امن مذاکرات ایک بار پھر بحال ہوگئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغان مذاکرات کو معطل کرنے کے اعلان کے 3 ماہ بعد قطر میں مذاکراتی عمل کا دوبارہ آغاز ہوگیا ہے۔ مذاکرات کے دوران امریکہ کے خصوصی نمائندے برائے افغانستان زلمے خلیل زاد اور طالبان مذاکراتی ٹیم کے ارکان نے مذاکرات کو اسی موڑ سے شروع کرنے پر زور دیا جہاں مذاکرات کو صدر ٹرمپ کے ایک اچانک نمودار ہونے والے ٹویٹ کے بعد معطل کیا گیا تھا۔ مذاکرات کے حالیہ دور سے قبل امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد گزشتہ دنوں واشنگٹن سے کابل پہنچے تھے اور صدر اشرف غنی سے خصوصی ملاقات کے ذریعے، شروع ہونے والے مذاکرات کے بارے میں انہیں اعتماد میں لیا تھا۔ کابل کے بعد زلمے خلیل زاد قطر پہنچے ہیں جہاں انہوں نے طالبان نمائندوں سے ملاقات کے بعد باقاعدہ مذاکرات کا دور شروع کیا ہے۔ واضح رہے کہ رواں برس ستمبر میں افغان امن مذاکرات حتمی معاہدے کے قریب پہنچ چکے تھے کہ کابل میں طالبان کے ایک حملے میں امریکی فوجی کی ہلاکت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ فریقین کے درمیان بیک ڈور رابطوں کا حالیہ آغاز اُس وقت ہوا تھا جب طالبان رہنمائوں کی جیل سے رہائی کے بدلے میں مغوی امریکی پروفیسر کی بازیابی عمل میں لائی گئی تھی۔
یہاں یہ بات اب محتاجِ بیان نہیں رہی کہ امریکہ افغانستان میں 18 برس سے جاری جنگ سے باہر نکلنا چاہتا ہے جس کے لیے افغان طالبان کے ساتھ قطر میں مذاکرات کا عمل شروع کیا گیا تھا، جس کے دوران فریقین نے افغانستان سے امریکی فوجیوں کے بحفاظت انخلا اور داعش کو پنپنے نہ دینے کی یقین دہانی پر اتفاق کیا تھا۔ مبصرین کا دعویٰ ہے کہ حالیہ مذاکرات میں پہلے مرحلے میں تشدد میں کمی پر توجہ دی جائے گی، جب کہ دوسرے مرحلے میں بین الافغان مذاکرات اور فائربندی کی طرف پیش رفت کی جائے گی۔ میڈیا کی بعض رپورٹوں میں طالبان ذرائع کا استدلال ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا تعطل جلدبازی تھی، طالبان دھمکیوں میں نہیں آئے اور اپنی حیثیت منواکر دوبارہ امریکہ کو اپنے ساتھ مذاکرات کی میز پر بٹھانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
دوسری جانب افغانستان میں قیامِ امن اور طالبان امریکہ مذاکرات کے حوالے سے ایک حالیہ سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ افغانستان میں اکثریت یعنی 88.5 فیصد لوگ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی کوششوں کی پُرزور یا کسی حد تک حمایت کرتے ہیں۔ ایشیا فاؤنڈیشن کے اس سروے میں افغانستان بھر سے 18 سال اور اس سے زیادہ عمر کے 17 ہزار 812 مرد و خواتین نے حصہ لیا۔ اس سروے کے نتائج میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 64 فیصد جواب دہندگان سمجھتے ہیں کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مفاہمت ممکن تھی۔ سروے تفصیلات کے مطابق علاقائی طور پر مشرقی افغانستان میں 76.9 فیصد، اور جنوب مغربی حصے میں 72.9 فیصد جواب دہندگان کا کہنا تھا کہ مفاہمت ممکن تھی۔ اس کے علاوہ سینٹرل/ہائی لینڈز ریجن میں 37.7 فیصد جواب دہندگان کا کہنا تھا کہ مفاہمت کا کم امکان تھا۔ ایشیا فاؤنڈیشن نے نشاندہی کی ہے کہ 2013ء میں افغانستان سے متعلق رجائیت پسندی کی رفتار 58 فیصد تھی، لیکن معاشی مشکلات، شورش زدہ الیکشن اور غیرملکی افواج میں بنیادی کمی سے صرف 3 سال بعد یہ کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ تاہم 2016ء سے ملک کی ترقی سے متعلق رجائیت پسندی میں7 فیصد اضافہ ہوا اور یہ تقریباً 25 فیصد تک پہنچی ہے۔ سروے میں یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ امریکی نمائندۂ خصوصی زلمے خلیل زاد کا روس، چین اور پاکستان کے علاقائی نمائندوں سے امن مذاکرات سے متعلق تبادلہ خیال ہورہا ہے اور یہ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ یہ امریکہ طالبان امن مذاکرات کی بحالی کا سبب بن سکتے ہیں۔ مذکورہ سروے کے دوران جب لوگوں سے پوچھا گیا کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوششوں سے آگاہ ہیں؟ تو اس میں تین چوتھائی سے زیادہ یعنی 77.4 فیصد نے کہا کہ وہ آگاہ تھے۔
سروے میں جواب دہندگان میں 9.6 فیصد نے امن مذاکرات کی مخالفت کی، تقریباً نصف یعنی 46.5 فیصد نے اپنی مخالفت کے لیے ایک وجہ بیان کی، ایک تہائی یا 32.4 فیصد نے کہا کہ جنگ بدتر ہوجائے گی، 17.1 فیصد نے کہا کہ مزید لوگ مریں گے، 16.2 فیصد کا کہنا تھا کہ یہ بیکار ہے، 15.1 فیصد کے مطابق طالبان ظالم ہیں، 14.3 فیصد کا کہنا تھا کہ طالبان کرپٹ ہیں، جبکہ 11.2 فیصد نے کہا کہ پاکستان امن نہیں چاہتا اس لیے ان مذاکرات کی کامیابی کے امکانات کم ہیں۔
یہاں دوحہ میں شروع ہونے والے مذاکرات کے بارے میں یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ یہ معطل شدہ مذاکرات باقاعدہ طور پر بحال کردیے گئے ہیں، جس کی تصدیق دونوں جانب سے کی گئی ہے، جب کہ افغان حکومت کی جانب سے بھی پہلی دفعہ ان مذاکرات کے آغاز پر کوئی احتجاج یا ردعمل سامنے نہیں آیا ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ اِس مرتبہ امریکہ افغان حکومت کو پیشگی اعتماد میں لے کر ان مذاکرات کے لیے میز پر بیٹھا ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں ابتدائی طور پر تشدد میں کمی اور مستقل جنگ بندی کے لیے طالبان کو قائل کرنے پر توجہ دی جائے گی۔ جب کہ زلمے خلیل زاد افغانستان کے اندر بھی فریقین میں مذاکرات کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
یاد رہے کہ زلمے خلیل زاد کی جانب سے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بحالی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پچھلے دنوں افغانستان کے اچانک دورے کے بعد ہوئی ہے، جہاں ٹرمپ نے کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات جلد بحال ہوں گے۔ اطلاعات کے مطابق طالبان کے ساتھ مذاکرات میں امریکی نمائندہ خصوصی تشدد میں کمی پر زور دے رہے ہیں، جب کہ دوسری جانب امریکی فوج نے اپنی معمول کی رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکی فضائی کارروائی میں 37 طالبان جنگجوئوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ امریکہ مذاکرات کی آڑ میں بھی گاجر اور چھڑی کی اپنے روایتی اپروچ پر کارفرما ہے۔ امریکی فوج کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان نیشنل سیکورٹی فورسز نے طالبان جنگجوئوںکے خلاف کارروائی میں22 افراد کو ہلاک کردیا ہے۔ جب کہ دوسری جانب طالبان بھی افغانستان بھر میں قائم فوجی پوسٹوں پر مسلسل حملے کررہے ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق افغانستان کے آدھے سے بھی زیادہ حصے پر طالبان کا قبضہ ہے۔ امریکہ کو افغانستان سے نکلنے کی کتنی جلدی ہے اس کا اندازہ افغانستان میں تشدد کے باوجود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اگلے سال کے شروع میںکم ازکم 12ہزار فوجیوں کو واپس بلانے کی خواہش کا اظہار کرنا ہے، تاہم انہوں نے دوسری جانب افغانستان کی پولیس اور فوج کو مضبوط کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا ہے، جس کا مقصد اپنے افغان اتحادیوں کو خوش کرنا ہے۔
افغانستان کے پُرامن اور مستحکم مستقبل کے حوالے سے یہ بات بھی لائقِ تشویش ہے کہ افغان حکومت داخلی طور پر بھی اختلافات کا شکار ہے جہاں 2014ء میں انتخابات کے بعد امریکہ کی مداخلت سے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان حکومتی عہدے تقسیم کیے گئے تھے، لیکن رواں برس منعقدہ انتخابات میں ایک مرتبہ پھر ان کے آپس میں اختلافات سامنے آچکے ہیں۔ حالیہ انتخابات کے نتائج کے اجراء میں تین ماہ کی تاخیر کے بعد عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی نہ صرف اپنے طور پر کامیابی کا اعلان کرچکے ہیں بلکہ الیکشن نتائج پر اثرانداز ہونے کے حوالے سے ایک دوسرے پر سنگین الزامات بھی لگائے جارہے ہیں۔
شروع ہونے والے حالیہ مذاکرات، نیز انتخابی نتائج میں تاخیر کے تناظر میں طالبان کی بڑھتی ہوئی قوت (جس کا اظہار طالبان کے حملوں سے ہوتا ہے) کو بھی افغانستان کی صورت حال پر نظر رکھنے والے ماہرین ایک بڑے سوالیہ نشان کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ تازہ اطلاعات کے مطابق افغان صوبے قندوز میں طالبان کے ایک حملے میں افغان پولیس کمانڈر سمیت 10 اہلکار ہلاک ہوگئے ہیں۔ اس حملے کے بارے میں مقامی پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ جوابی کارروائی میں 3 طالبان جنگجو ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ دوسری جانب طالبان نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ حملے میں 20 سے زائد پولیس اہلکار مارے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ قندوز کے اکثر علاقوں پر طالبان کا قبضہ ہے اور یہاں طالبان جنگجوئوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں عام ہیں۔ اسی طرح صدارتی الیکشن کے نتائج کا بھی تاحال اعلان نہیں کیا جاسکا ہے، حالانکہ انتخابی نتائج کا باقاعدہ سرکاری اعلان اب تک ہوجانا چاہیے تھا، جس سے افغانستان کی صورت حال ہر گزرتے دن کے ساتھ مخدوش سے مخدوش تر ہوتی جا رہی ہے، لہٰذا ایسے میں اگر امریکہ عجلت میں محض اپنے مفاد کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کے بعد کسی حتمی نتیجے اور معاہدے پر پہنچ جاتا ہے توکوئی بھی سیاسی محاذ آرائی ملک کے امن اور استحکام کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوسکتی ہے، جس کو مدنظر رکھتے ہوئے جہاں امریکہ کو عجلت میں کسی فیصلے پر پہنچنے کے بجائے اپنے عارضی مفاد کے ساتھ ساتھ افغان عوام کی پریشانیوں کو لازماً ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے، وہاں موجودہ افغان صدر اشرف غنی اور ان کے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ کو بھی انتخابی نتائج کو اپنی اَنا کا مسئلہ بنانے کے بجائے افہام وتفہیم سے کام لیتے ہوئے افغانستان کے پُرامن مستقبل کی فکرکرنی چاہیے۔